• 19 مئی, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 27)

بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 27

سوال:۔ نکاح میں لڑکی کی طرف سے اس کے بہنوئی کے بطور ولیٔ نکاح تقرر کی بابت نظارت اصلاح ارشاد رشتہ ناطہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے ایک سوال پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 اگست 2020ء میں درج ذیل ہدایات فرمائیں:۔

جواب:۔ لڑکی کے نکاح کیلئے اس کے والد یا بھائی کے موجود نہ ہونے کی صورت میں لڑکی کے عصبی رشتہ داروں میں سے جو درجہ کے لحاظ سے اس کے زیادہ قریب ہو گا وہی اس کا ولی ہوگا، بشرطیکہ وہ لڑکی کے مفاد کو ہر اعتبار سے پیش نظر رکھنے والا ہو جیسا کہ خود لفظ ولی اس امر کا تقاضا کرتا ہے۔

لیکن اگر لڑکی کا کوئی عصبی رشتہ دار بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں پھر خلیفۃ المسیح اس کے ولی ہیں اور ایسی بچی کے نکاح کیلئے وکیل کا تقرر نظام جماعت کے ذریعہ ہو گا اور یہی جماعت احمدیہ کا دستور ہے۔

سوال:۔ شرطی طلاق کی بابت محترم ناظم صاحب دارلافتاء ربوہ کی ایک رپورٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25 ستمبر 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا:۔

جواب:۔ میرے نزدیک تو شرطی طلاق کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات بہت واضح ہیں اور ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسی طلاق جس میں کوئی شرط رکھی گئی ہو، اس شرط کے پورا ہو جانے پر یہ طلاق مؤثر ہو جائے گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے جن ارشادات کا ذکر فرمایا ہے، وہ قارئین کے استفادہ کیلئے ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔ (مرتب)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ

شرطی طلاق:۔ اس پر فرمایا کہ اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اور وہ بات ہوجائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے۔ جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اور پھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہوجاتی ہے۔

(البدرنمبر21 جلد2 مؤرخہ 12جون 1903ء صفحہ162)

حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ تحریر فرماتے ہیں:۔
حضرت اقدس علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب (محمد حسین بٹالوی۔ ناقل) کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے۔ ناظرین !سننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جمع ہوچکا تھا اور یہ کلام الٰہی تھا۔ اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں۔ اور وہ مرتبہ اوردرجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے کیونکہ یہ روایت درروایت پہنچی ہیں۔ اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلام الٰہی ہے اور جو یہ کلام الٰہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعًا اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہوسکتا۔ اورجو حدیث کی نسبت قسم کھالے اور کہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے منہ سے نکلا ہے۔ اگر نہیں ہے تو میری جورو پر طلاق ہے تو بے شک و شبہ اس کی بیوی پر طلاق پڑ جاوے گا۔ یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے۔

(تذکرۃ المہدی، مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ صفحہ161 مطبوعہ جون 1915)

ارشاد حضرت مصلح موعودؓ

ایک صاحب نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر میں تمہیں اس مکان پر بلاؤں یا تم خود آؤ تو تم پر طلاق۔ اب وہ اپنی بیوی کو اس مکان پر بلانا چاہتے ہیں۔ جواب لکھا گیا کہ اس مکان میں آجانے پر ایک طلاق واقع ہو گا۔ جس سے اُسی وقت بلا نکاح رجوع ہو سکتا ہے۔ اگر مدت گزر جائے تو پھر بالنکاح رجوع ہو گا۔

(اخبارالفضل قادیان دارلامان جلد2 نمبر113 مؤرخہ 14 مارچ 1915ء صفحہ2)

سوال:۔ ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ کیا نفس اور روح ایک ہی چیز ہے؟ نیز خطبہ عید کے حوالہ سے دارقطنی میں مندرج ایک حدیث کہ حضور ﷺ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے، جو چاہے سننے کیلئے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، تحریر کر کے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ حدیث درست ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 اکتوبر 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات تحریر فرمائے:۔

جواب:۔ قرآن کریم میں روح اور نفس کے الفاظ مختلف جگہوں پر مختلف معانی میں آئے ہیں۔ روح کا لفظ کلام الٰہی، فرشتوں، حضرت جبرائیل، انبیاء اور اس روح کے معانی میں بیان ہوا ہے جو بحکم الٰہی ایک خاص وقت پر انسانی قالب میں نمودار ہوتی ہے۔ جبکہ نفس کا لفظ جان، سانس، شخص، ذی روح چیز، دل، ہستی اور شعور وغیرہ کیلئے استعمال ہوا ہے۔

لغوی اعتبار سے روح کا لفظ اس چیز کیلئے بولا جاتاہے جس کے ذریعہ نفوس زندہ رہتے ہیں۔ یعنی زندگی۔ اسی طرح روح کا لفظ پھونک، وحی و الہام، جبرائیل، امر نبوت، خدا تعالیٰ کے فیصلہ اور حکم کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ نیز جسم کے مقابل پر ایک چیز جو حیوان کو باقی چیزوں سے ممتاز کرتی اور انسان کو باقی حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے اور جو انسان کو با خدا بنا دیتی ہے اسے بھی روح کہا جاتا ہے۔

جبکہ نفس کا لفظ لغوی اعتبار سے جسم، شخص، روح، جسم اور روح کا مجموعہ انسان، عظمت، عزت، ہمت، ارادہ، خود وہی چیز اور رائے وغیرہ کیلئے بولا جاتا ہے۔

قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے نفس اور روح میں ایک فرق یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نفس پر قابو پانے، اس کی اصلاح کرنے اور اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ایک حد تک قدرت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے نفس کی تین حالتیں (امارہ، لوامہ اور مطمئنہ) بیان فرمائی ہیں۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ بہادر وہ نہیں جو کُشتی میں مدمقابل کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ جبکہ روح کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے اور انسان کو اس پر قدرت نہیں دی۔ جیسا کہ فرمایا قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا (بنی اسرائیل: 86) یعنی تو کہہ دے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اسی طرح اسلام نے روح کے بارہ میں سوالات کرنے کو بھی پسند نہیں فرمایا۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی تصنیف نور الحق میں سورۃ النبا کی آیت یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَالۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا (النبا: 39) کی تفسیر میں روح کے معانی بیان فرماتے ہوئے ساتھ نفس کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، نیز حضور علیہ السلام کے اس ارشاد سے دونوں کا فرق بھی بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس آیت میں لفظ روح سے مراد رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت مراد ہے جن پر روح القدس ڈالا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہوتے ہیں … اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو روح کے لفظ سے یاد کیا یعنی ایسے لفظ سے جو انقطاع من الجسم پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اس لئے کیا کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ مطہر لوگ اپنی دنیوی زندگی میں اپنے تمام قوتوں کی رو سے مرضات الٰہی میں فنا ہو گئے تھے اور اپنے نفسوں سے ایسے باہر آ گئے تھے جیسے کہ روح بدن سے باہر آتی ہے اور نہ ان کا نفس اور نہ اس نفس کی خواہشیں باقی رہی تھیں اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے تھے نہ اپنی خواہش سے اور گویا وہ روح القدس ہی ہو گئے تھے جس کے ساتھ نفس کی آمیزش نہیں۔ پھر جان کہ انبیاء ایک ہی جان کی طرح ہیں… وہ اپنے نفس اور اپنے جنبش اور اپنے سکون اور اپنی خواہشوں اور اپنے جذبات سے بکلی فنا ہو گئے اور ان میں بجز روح القدس کے کچھ باقی نہ رہا اور سب چیزوں سے توڑ کے اور قطع تعلق کر کے خدا کو جا ملے پس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس آیت میں ان کے تجرد اور تقدس کے مقام کو ظاہر کرے اور بیان کرے کہ وہ جسم اور نفس کے میلوں سے کیسے دور ہیں پس ان کا نام اس نے روح یعنی روح القدس رکھا تا کہ اس لفظ سے ان کی شان کی بزرگی اور ان کے دل کی پاکیزگی کھل جائے اور وہ عنقریب قیامت کو اس لقب سے پکارے جائیں گے تا کہ خدا تعالیٰ لوگوں پر ان کا مقام انقطاع ظاہر کرے اور تا کہ خبیثوں اور طیبوں میں فرق کر کے دکھلا دے اور بخدا یہی بات حق ہے۔

(نور الحق حصہ اوّل صفحہ73-74 ایڈیشن اوّل)

جہاں تک خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث کا تعلق ہے تویہ حدیث جسے آپ نے دارقطنی کے حوالہ سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ حضور ﷺ نے خطبہ عید کے سننے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسی بناء پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ حضور ﷺ نے عید کیلئے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر عید کیلئے جائے۔ اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔

سوال:۔ موبائل فونز کی مختلف Apps کے ذریعہ آن لائن پیسہ لگا کر پیسہ جیتنے کے کھیل میں شامل ہونے نیز چھوٹے بچوں کی سالگرہ منانے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے متعلق سوالات پر مبنی محترم ناظم صاحب دارالقضاء قادیان کے خط کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 اکتوبر 2020ء میں درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:۔

جواب:۔ ان دونوں سوالوں کا قضاء کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن آپ کے علم کیلئے جواب دے رہا ہوں کہ کسی بھی صورت میں اس طرح پیسہ لگا کر کھیلنا جس میں ہارنے کی صورت میں اپنا پیسہ ضائع ہو جائے اور جیتنے کی صورت میں کچھ زائد ملے جوا کہلاتا ہےجسے اسلام نے کلیۃً حرام قرار دیا ہے۔ یہ کھیل چاہے آمنے سامنے بیٹھ کر کھیلا جائے، یا لاٹری کی شکل میں کھیلا جائے یا مختلف Apps کے ذریعہ آن لائن پیسہ لگا کر کھیلا جائے، تمام صورتوں میں جوا ہی کہلاتا ہےجو منع ہے۔

گھر پر چھوٹے بچوں کی گھر والوں کے ساتھ اس طرح سالگرہ منانا اور کیک وغیرہ کاٹ لینا جس میں کسی قسم کی بدعت شامل نہ ہو، فضول خرچی نہ ہو اورکوئی غیر اسلامی حرکت نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ کچھ صدقہ بھی دینا چاہئے اور بچوں کو یہ بھی تلقین کرنی چاہئے کہ وہ اس روز خاص طور پر نوافل ادا کر کے اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کریں کہ اس نے انہیں صحت والی زندگی عطاء فرمائی اور آئندہ زندگی کیلئے اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگیں۔

سوال:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ آسٹریلیا کی Virtual ملاقات مؤرخہ 19 دسمبر 2020ء میں ناصرات کی تربیت کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا:۔

جواب:۔ شروع میں ہی بچیوں کو بتائیں کہ تمہارا لباس حیا دار ہونا چاہئے۔ جب وہ بڑی ہوں اور لجنہ میں شامل ہوں تو پھر ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ حیا دار لباس کے ساتھ حجاب کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کاہی ہے، قرآن کریم میں ہی ہے۔ تو جو بچپن سے ان کو ٹریننگ دیں گی تو تبھی وہ لجنہ میں آکے اور معیار کبیر کی ناصرات بن کے حیا دار لباس پہنیں گی۔ ان کو بچپن میں بتائیں کہ ابھی عمر چھوٹی ہے لیکن آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اس لئے تم لوگ حیا دار لباس پہنو۔ پھر جب بڑی ہوں تو حیا دار لباس کے ساتھ حجاب بھی ہو۔ جب حجاب ہوتا ہے تو حجاب خود اثر ڈال رہا ہوتا ہے بہت ساری برائیوں سے (بچانے کیلئے) اور Mixing Up سے، مردوں کے ساتھ باتیں کرنے سے اور ان کے ساتھ دوستیاں لگانے سے۔ جو لڑکیاں یونیورسٹی اور کالج میں جاتی ہیں ان کو خود ہی احساس پیدا ہو رہا ہوتا ہے کہ ہمارا حجاب جو ہے اس کا ہم نے پاس کرنا ہے۔ تو اگر بچپن سے آپ تربیت کردیں، ناصرات کی عمر میں تو لجنہ کے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔لجنہ کو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ اس لئے بہت بڑا کام ہے جو ناصرات کا ہے۔ تو ابھی سے تربیت کر لیں تو بڑ ی اچھی بات ہے۔ کیونکہ جب کالج اور یونیورسٹی میں یہ لڑکیاں جائیں گی تب ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہم کیا ہیں؟ پھر ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ بہت ساری بچیوں کو یہی نہیں پتہ، قرآن بھی پڑھا دیتی ہیں، حدیث بھی پڑھا دیتی ہیں لیکن ان کو یہی نہیں پتہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیوں آئے؟ جب ہمارے پاس قرآن بھی ہے، ہمارے پاس حدیث بھی ہے،ہمارے پاس آخری رسول بھی ہے،ﷺ۔ تو مسیح موعود کی ضرورت کیا ہے؟ یہ باتین بچپن سے ہی پتہ ہونی چاہئیں۔حضرت مسیح موعود آئے تو کیوں آئے اور کس لئے آئے؟ اس لئے آئے کہ یہ بھی آنحضورﷺ کی ہی پیشگوئی تھی۔ اس کو پورا کرنے آئے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں یہ بچپن سے ذہنوں میں ہونی چاہئیں۔ اور جب یہ بنیادی چیزیں ہوں گی تو تبھی وہ آگے بڑھیں گی۔ بڑے بڑے مسائل تو لوگ سیکھ ہی لیتے ہیں۔ بنیادی چیزیں ان کو سکھادیں، یہ پتہ ہو کہ میرا ایمان کیا ہے، میں کیوں احمدی ہوں،میری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اور اس کے بعد پھر دیکھیں کہ آپ کی لجنہ کی اگلی نسل جو آئے گی وہ اس سے بہت بہتر ہو گی جو موجودہ لجنہ کی نسل ہے۔

سوال:۔ اسی Virtual ملاقات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ لعزیز نے ایک سوال کے جواب میں ٹیم ممبر کے طور پر کام کرنے اور دوسروں کو ٹریننگ دینے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔

جواب:۔ خود کام کرنا اور اچھا کام کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ یہ آپ کی ایک Personal کوالٹی ہے، جو ٹھیک ہے۔ خود کام کرلیا، اچھا کام کر لیا، اچھی رپورٹیں دیدیں، بہت اچھا کیا۔ لیکن اس کے ساتھ اگر آپ نے اپنی ٹیم نہیں بنائی۔ اپنی سیکنڈ لائن نہیں بنائی جو آپ کے کام کو بعد میں سنبھال سکے تواس کا مطلب ہے کہ آپ نے کچھ بھی نہیں کیا۔خود کام کرنا اصل کام نہیں ہے، اصل کام یہ ہے کہ اس کام کو جاری رکھنے کیلئے اپنی ایک ٹیم بنانا اور ایک سیکنڈ لائن کا تیار کرنا تاکہ جب آپ کی عمر بڑی ہو جائے (میں نہیں کہتا کہ آپ عمر کی بڑی ہوچکی ہیں) لیکن جب آپ کی عمر بڑی ہو جائے تو پھر کم از کم دوسری کام کرنے والیاں آپ کو مل سکیں۔ تو ہر لجنہ سیکرٹری جو یہاں بیٹھی ہے اس کا کام ہے۔ یہ نہ دیکھے کہ میری عمر چالیس سال ہے یا پینتالیس سال ہے یا پینتیس سال ہے یا پچاس سال ہے۔ آپ نے پھر بھی اپنی ایک سیکنڈ لائن تیار کرنی ہے۔ ٹھیک ہے؟ اور یہی احساس صدر صاحبہ کو ساری مجالس میں جو آپ کے ملک میں ہیں، ان کے اندر پیدا کرنا چاہئے۔ اور ان کی سیکرٹریان کو اور صدرات کو بھی کہنا چاہئے تا کہ آئندہ آپ کو کام سنبھالنے والیاں ملتی چلی جائیں جن کو سسٹم کا بھی پتہ ہو۔ جب کام سر پہ پڑتا ہے تو آدمی سنبھال ہی لیتا ہے یہ تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کے پاس لائحہ عمل ہے، آپ کے پاس دستور اساسی ہے، آپ کام کرلیں گی لیکن اگر آپ پہلے سے سسٹم میں Involve ہیں تو جب آپ پہ نئی ذمہ داری پڑے گی تو آپ اس کام کو بہتر طریقے سے سنبھال سکیں گی۔

سوال:۔ سیکرٹری صاحبہ تبلیغ کے ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔

جواب:۔ رپورٹیں لینے کیلئے بیعتیں نہیں کرانی۔ اس لئے تبلیغ کرنی ہے کہ ہمیں ان لوگوں سے ہمدردی ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لائیں اور اس ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم ان کو اسلام کا صحیح پیغام پہنچائیں۔ اور پھر اس کا تقاضا ساتھ یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو بھی Improve کریں اور اپنا بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں۔ سیکرٹری تبلیغ کا اپنا بھی براہ راست اللہ سے تعلق ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے۔

سوال:۔ اسی Virtual ملاقات مؤرخہ 19 دسمبر 2020ء میں اس سوال کہ ہم اپنی میٹنگز میں حاضری کس طرح بڑھا سکتے ہیں؟ کا جواب عطاء فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔

جواب:۔ بس پیچھے پڑے رہیں، پیار سے سمجھاتے رہیں۔ عہدیدار بن کے لوگوں کے پیچھے نہ پڑیں۔ بڑی بہن بن کے پڑیں یا چھوٹی بہن بن کے پڑیں، اماں بن کے پیچھے پڑی رہیں تو لوگ آجائیں گے۔ ہمارا کام ہے مستقل کہتے رہنا۔ میٹنگز میں دلچسپی کے پروگرام بھی رکھا کریں۔ انہیں کو Improve کریں جو نہیں آتیں، انہیں سے تقریر کروا دیا کریں تو آپ ہی آجائیں گی۔

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطاب مستورات جلسۂ سالانہ برطانیہ مؤرخہ 6؍اگست 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ