• 25 اپریل, 2024

نقشہ نویسی کی تاریخ اور ارتقاء

نقشہ نویسی کی تاریخ اور ارتقاء
پتھر کی سلوں کے نقشوں سے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) تک کا سفر

خالق نے انسان میں تجسس کا مادہ رکھا تو اسے صلاحیتوں سے بھی نوازا جنہیں بروئے کار لاکر اس نے نہ صرف دنیا مسخر کی بلکہ ستاروں پر بھی کمندیں ڈالیں۔ اور آج ہمارے پاس ہم سے 194 ملین کلومیٹر دور مریخ کا نقشہ بھی موجود ہے۔ آج اپنی ہتھیلی پر GPS کی ٹیکنالوجی سے لیس جدید سمارٹ فون لے کر گھومنے والا فرد غاروں میں رہنے والے اپنے اجداد کی طرح ہی نقشے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ زمین میں نقل و حمل کے ساتھ ہی حضرت انسان نے سمت، راستے اور فاصلے کا حساب کتاب رکھنا شروع کر دیا تھا۔ کیونکہ جنگلوں صحراؤں اور برف زاروں پر شکار یا سفر کی درست سمت اور فاصلوں کی پیمائش کا ہونا ناگزیر تھا۔اور ایک ایسے دور میں جہاں رابطہ کے ذرائع مفقود تھے بھٹکنے کا مطلب موت سے تعبیر سمجھا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ نقشہ سازی ایک فن کی حیثیت اختیار کر گئی اور مرور زمانہ اس میں جدت آتی رہی۔ نقشہ سازی کے لیے اکائیاں اور آلات مختلف ادوار میں ایجاد ہوتے رہے اور ہر ایک نے اپنی سمجھ کے مطابق نقشوں کے درست پیمائشی قوانین وضع کیے۔یونانی ریاضی دان اور جغرافیہ دان اراٹوس تھینیس کے بنائے قوانین آج بھی مستعمل ہیں۔

نقشہ نویسی کی تاریخ ہزاروں صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا کے دوسرے مقامات کو کھوجنے اور دیکھنے کا تجسس حضرت انسان میں نقشہ نویسی جیسی قابلیت پیدا کرنے کا باعث بنا۔ انسان دوسرے علاقوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، ان کی ثقافت، رہن سہن سے آگاہ ہونا چاہتا تھا۔ اور ابتداء سے ہی ایسے ماحول میں دلچسپی رکھتا تھا جو ان کے ارد گرد موجود ماحول سے مختلف نظر آتا ہو۔ نقشہ نویسی ایک قدیم علم ہے جسے تحریری شکل میں رابطہ کا ہی ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ نقشہ نویسی کی قدیم معلوم تاریخ 15000 سال پرانی ہے۔ فرانس کے ایک چھوٹے سے گاؤں لاسکو کا نقشہ دنیا کے قدیم ترین نقشوں میں شمار ہوتا ہے۔ آرکیالوجسٹ نے گاؤں کے اطراف میں موجود غاروں کی دیواروں پر کنندہ اطراف کے نقشے دریافت کیے۔ انہوں دیواروں کا مشاہدہ کیا جن پر ایسی تصاویر بنائی گئی تھیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ان کے ذریعے شکار اور شکار گاہوں کے راستوں کا تعین کیا گیا تھا۔ ان کے روزمرہ کے معمولات کو تصاویر اور نقشوں کی مدد سے واضح کیا گیا تھا۔نقشوں پر جانوروں اور انسانوں کی ہجرت کے راستوں کا بھی تعین کیا گیا تھا۔ ترکی میں ملنے والی 6200 قبل مسیح پرانی دیواروں پر بنائی گئی تصاویر کو اولین نقشوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان نقشوں میں قصبہ کے گھروں اور گلیوں کو دکھایا گیا تھا اور اطراف میں موجود آتش فشاں پہاڑ کو واضح کیا گیا تھا۔عراق میں 25 ویں صدی قبل مسیح میں بنی ہوئی پتھر کی ایسی تختیاں ملیں جن پر دو پہاڑیوں کے درمیان موجود وادی کو دکھایا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ نقشہ نویسی کے فن میں نکھار آتا گیا جسے اہل یونان نے بام عروج پر پہنچایا۔ پانچ سو قبل مسیح کا یونان علم کا گہوارہ بن چکا تھا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ زمین فلیٹ ہے جبکہ یونانی فلسفی فیثاغورث اور ارسطو یقین رکھتے تھے کہ زمین گول ہے اور اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے نقشے مرتب کیے۔

اہل یونان ماہر کشتی ران اور کھوجی تھے جنہوں نے خشکی اور سمندر میں کئی نئی جگہیں دریافت کیں اور ان کے نقشے بنائے۔ یونانیوں کو درست ریاضیاتی اصولوں پر نقشے بنانے کا ملکہ حاصل تھا۔ معلوم دنیا کا پہلا نقشہ بنانے کا سہرا اینیکسی مینڈر کے سر ہے، اسی وجہ سے اسے پہلا باقاعدہ نقشہ نویس گردانا جاتا ہے۔اس کا تعلق بھی یونان سے تھا۔ یونانیوں کے بعد اہل روم نقشہ سازی کے امام بنے اور دوسری صدی عیسوی میں بطلیموس نے کارٹوگرافی پر اپنا مقالہ جیوگرافیا کے نام سے لکھا جس میں نے اس نے نقشہ سازی کے جدید اصول وضع کیے۔ یہ پرانے نقشے جوزمانہ 2300 قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں محفوظ ہیں اور قدیم انسانی تاریخ کا اہم باب ہیں۔ایک عرب مسلم جغرافیہ دان، سیاح اور عالم ابو عبداللہ محمد بن محمدبن عبداللہ ابن ادریس کو بھی دنیا کے ابتدائی نقشہ نویسوں میں شمار کیا جاتا ہے۔مشہور مسلمان سائنسدان البیرونی نے اپنے قدیم نقشہ نویسوں کی نسبت 1017ء میں زمین کی درست پیمائش کرکے بتایا کہ زمین کا Radius قریب 6335 کلومیٹر ہے۔ قطب نما کی ایجاد چینیوں نے کی جس سے سمت کی تعین میں بہت سہولت میسر آگئی۔

غاروں کی دیواروں، اینٹ، پتھر، لکڑیوں کی تختیوں سے ہوتے ہوئے آج ہم جدید جی پی ایس سسٹم اپنے کیسوں میں لیے گھوم رہے ہیں اورستاروں اور اندازوں سے سمتوں کا تعین کرنے والا انسان آج زمین کے ایک ایک انچ کو اپنے چھے انچ کی موبائل فون کی اسکرین پر دیکھ سکتا ہے۔دنیاکے چپے چپے کی نشاندہی ہو چکی ہے اور ہر مقام کو طول بلد اور عرض بلد (Longitude/Latitude) میں تقسیم کیا جا چکاہے۔اس سے دنیا کے کسی بھی مطلوبہ مقام کی نشاندہی اتنی تحدی سے کی جا سکتی ہے کہ بھٹکنے کی گنجائش ناہونے کے برابر ہے۔جدید جی پی ایس نظام سیٹلائیٹ کی مدد سے کام کر تا ہے جس کا آغاز امریکہ میں 1973ء میں ہوا تھا اور آج ہر ایک چیز بالواسطہ و بلا واسطہ جی پی ایس سے جڑ چکی ہے۔اس میں صرف نقشے ہی شامل نہیں ہیں بلکہ دور جدید کی ایسی بے شمار چیزیں اس سے منسلک ہیں جو اب روزمرہ زندگی کا معمول بن چکی ہیں۔ اس سسٹم کے ناکارہ ہونے کا مطلب سفر میں دشواری ہوگا، سڑکوں پر ٹریفک جام ہو سکتا ہے، ٹرین کو ٹریک کرنے والی ایپس بیکار ہو جائیں گی اور آپ اپنی ٹرین مس کر سکتے ہیں۔ آن لائن ٹیکسی سروس سب سےزیادہ متاثرہونے والی چیزوں میں سے ہوگی۔ ایمسرجنسی سروسز آپ کے حادثہ والی جگہ کا تعین نہیں کر سکیں گی۔ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کا نظام شدید متاثر ہوگا کیونکہ اب جی پی ایس صرف رستہ بتانے والا نظام نہیں ہے۔ امریکہ کی طرح روس، یورپ اور چین بھی اپنا نیویگیشن سسٹم رکھتے ہیں لیکن وہ اتنا اچھا نہیں ہے۔ جبکہ کئی اور ممالک اپنے اپنے نظام بنانے پر کام کررہے ہیں جن میں جاپان اور ہندوستان وغیرہ شامل ہیں۔

IMAGO MUNDI

بابلیوں کے بنائے گئے نقشے اماگو منڈی کو دنیا کے پہلے نقشے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس میں دریائے فرات کو بابلن سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس میں آرمینیا کے گرد سمندر کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ دنیا کے زیادہ حصہ کا احاطہ کرنے والا نسبتا بہتر نقشہ پانچ سے چھ صدی قبل مسیح میں ہیکٹس نے بنایا۔ اس میں اس نے دنیا کو تین حصوں یورپ، ایشیاء اور لیبیا میں تقسیم کر کے دکھایا ہے۔ اس نقشے میں دنیا ایک پلیٹ کی مانند دبالکل گول دکھائی گئی ہے جس کے کناروں پر سمندر ہے۔

عصر حاضر میں ہمارے پاس سیٹلائٹ کی مدد سے بنائے گئے دنیا کے بہترین نقشے موجود ہیں جن میں کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن نقشہ سازی کے لیے وضع کیے گئے صدیوں پرانے بعض قوانین اور ریاضی کے اصول آج بھی مستعمل ہیں۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطاب مستورات جلسۂ سالانہ برطانیہ مؤرخہ 6؍اگست 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ