• 18 مئی, 2024

پھوپھی امة الحفیظ بقاپوری کے ساتھ چند یادیں

خاکسار نے جب سے ہوش سنبھالا تو محترمہ پھپھی امتہ الحفیظ بقاپوری صاحبہ کو اپنے گھر آتے جاتے دیکھا۔ آپ حضرت محمد ابراہیم بقاپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ سلام کی صاحبزادی تھی۔ یوں تو انسان کو اپنے خونی رشتے سب ہی پیارے ہوتے ہیں لیکن حضرت ابراہیم بقاپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو کہ ہمارے پردادا حضرت محبوب عالم بقاپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفیق حضرت مسیح موعود علیہ سلام کے سگے بھائی تھے۔ ان کی تمام اولاد میں سے، ہمارے سب سے زیادہ قریب اورپیار کرنے والی پھپھی ہی تھی۔ آپ جیسی نیک، صالحہ اور بزرگ خاتون کو انتہائی قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ جو وقت گزارنے کا خاکسارموقع کو ملا وہ ناقابل بیان ہونے کے باوجود کچھ ذکر پیش خدمت ہے۔ آپ کا انتہائی نورانی چہرہ اور کالا برقعہ ان سے ملنے والے ہر شخص کو یاد ہو گا۔ آپ صاحب رویا و کشوف ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب الہام بھی تھیں۔ آپ کی با برکت شخصیت کو ہمارا گھرانہ خوب جان گیا تھا، یہی وجہ تھی کہ آپ جب بھی ہمارے گھر تشریف لاتیں ہم سب، ان کی خوب خدمت کر کے دعائیں لینے کی کوشش کرتے۔ ان کے پیارے وجود سے ہمیں نور بہتا ہوامحسوس ہوتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ ان جیسی بزرگ شخصیت کے بارے میں کچھ لکھ سکیں۔ آپ کی عبادت کےہم خود ذاتی طور پرگواہ ہیں، ایک روز ہم آپ کے ساتھ ایک ہی پلنگ پر سو ہوئے تھے کہ آدھی رات کو ہماری آنکھ کھلی تو ہم کیادیکھتے ہیں آپ بیٹھی ہیں اور تکیے پر سر جھکا سجدہ ریز ہیں۔ ہم غور سے دیکھنے لگے، شروع میں تو ہم بھی نیند میں تھے اورہمیں خود بھی سمجھ نہیں آیا کہ پتہ نہیں آپ کیا کر رہی ہیں ؟ پھر جب کافی دیر ہوگئی اورآپ اسی پوزیشن میں رہی تو ہم نے آوازدی، آپ نے ہماری آواز کا جواب نہ دیا۔ ہم پھر انتظار کرتے رہے، مگر آپ نہ اٹھی، ہمیں ڈر لگ گیا کہ خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہو تو نہیں گیا اتنی دیر کہ شاید گھنٹوں ہی گزر گئے ہوں گے؟ ہم نے آپ کو مذید آوازیں دینی شروع کردیں۔ پھر آپ کے منہ سے اللہ اکبر کی آواز آئی اور آپ سجدہ سے اٹھ گئیں اور پھر دوبارہ اللہ اکبر کہہ کر سجدہ ریزہو گئی، ہمیں تسلی ہو گئی کہ آپ ٹھیک ہیں اور عبادت میں مصروف ہیں۔ لیکن آپ کی اس قدر لمبی عبادت سے ہم متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں پائے۔ آپ جب ہمارے گھر رہنے کے لئے تشریف لاتی تو بعض اوقات مہینہ مہینہ بھی رہتی۔ آپ کی روٹین یہی ہوتی کہ عبادت کرتیں اور صبح تقریباً آٹھ بجے کے قریب دو نفل پڑھ کر دن کا آغاز کرتیں، ایک روز ہمارے پوچھنے پر آپ نے آٹھ بجے نفل پڑھنے کی وجہ بتائی، آپ کہنے لگیں کہ ایک روز میری طبعت کچھ خراب تھی، میں نے فجر کی نماز قضا کر دی، تقریباً آٹھ بجے کے قریب مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک گرجدار آواز آئی جو کہ پنجابی میں تھی کہ ’’کی گل اے، نماز نہیں پڑھنی؟ (یعنی کیا بات ہے آپ نے نماز نہیں پڑھنی؟) آپ فرماتی ہیں کہ اس الہامی آواز کو سن کر میں ڈر گئی، اور اس دن سے لے کر آج تک ہمیشہ آٹھ بجے کے قریب ضرور دو نفل ادا کرتی ہوں۔ پھر آپ ناشتہ کرتی جس میں آپ ایک انڈا، ایک بریڈ کا سلائس اور ایک کپ چا لیتی تھی۔ پھر آپ تیار ہو کر ہم بہن بھائیوں میں سے کسی ایک کو ساتھ لیتی اور اپنے مختلف رشتہ داروں کو ملنے چلی جاتی، آپ اکثر فرماتی تھی کہ لوگ ایک دوسرے سےشکوہ کرتے ہیں کہ لوگ ملنے نہیں آتے، میرا تو اصول ہے کہ لوگوں کا انتظار کرنے اور شکوہ کرنے کی بجائے آپ کو جس کا خیال ہے اس سے خود ملنے چلے جائیں۔ کئی دفعہ خاکسار کو بھی ان کے ساتھ جانے کا موقع ملا، آپ کے ساتھ ہم خاندان حضرت مسیح موعود کی خواتین مبارکہ کو ملنے گئے۔ ان کے ہمراہ حضرت آپا ناصرہ بیگم صاحبہ کے دولت خانہ میں جانا ہمیں خوب یاد ہے۔ آپ نے ان کے ساتھ ملاقات کے دوران قادیان میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ گزاری یادوں کو تازہ کیا۔ جس سےہمارےعلم میں مزید اضافہ ہوا اور معلوم ہوا کہ آپکی کوئی بڑی بہن حضرت آپا ناصرہ بیگم صاحبہ کی کلاس فیلو بھی تھی جو کہ فوت ہوگئی تھی۔ پھر ہم پھپھی کے ہمراہ مکرم غلام قادر شہید کی والدہ کے گھر بھی گئے۔ انہوں نے ہمیں غلام قادر شہید کی کتاب تحفہ میں دی۔ پھر کچھ مزید خواتین مبارکہ سے ملاقات کے لئے ان کے گھروں میں گئے۔آپ نے ہمیں اپنے نام کے بارہ میں بھی بتایا کہ ’’میرا نام پہلے غالباً ’’خالدہ‘‘ تھا، ایک روز ہماری والدہ کو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلایا اور فرمایا کہ اس کا نام امتہ الحفیظ ہے۔ اس دن سے میرا نام امتہ الحفیظ ہی ہے۔ اور میری بہن کا نام ’’مبارکہ‘‘ ہے۔ (یاد رہے !حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی بیٹیوں کے نام بھی، مبارکہ اور امتہ الحفیظ تھے)

ایک روز دوران گفتگو آپ نے ہمیں بتایا کہ ’’میں نے بہت لمبا عرصہ، محلہ رحمان کالونی ربوہ کی صدر ہونے کے طور پر خدمت کی توفیق پائی ہے اور شام چار بجے کے بعد میراگھر قرآن پڑھنے والے بچوں سے بھر جاتا تھا، آپ نے بہت سے بچوں کو قرآن پڑھنا سکھایا۔ آپ فرماتیں کہ میں نے اتنا قرآن پڑھا اور پڑھایا ہے کہ اب میں بغیر دیکھے بچوں کی غلطی نکال لیتی ہوں۔ اور عمر نوے سال سے زیادہ ہونے کے باوجود آپ کی صحت بہت اچھی تھی۔ ایک روز ہمیں فرمانے لگی کہ میری ایک نصیحت یاد رکھنا، کبھی ڈائٹنگ نہ کرنا۔ انسان کا جوانی کا کھایا پیا بڑھاپے میں کام آتا ہے۔ جوانی میں توسمجھ نہیں لگتی لیکن خوراک کی کمی سے بڑھاپے میں ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ یہاں ہمیں ان کی ایک خواب یاد آگئی جو آپ نے ہمیں خوب مزے لے لے کر سنائی۔ وہ یہ تھی کہ ’’ایک روز میں کافی بیمار ہو گئی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اب نہیں بچوں گی۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں بیمار ہوں اور میری چارپائی پر ایک آدمی بیٹھا ہے، میں پوچھتی ہوں کہ تم کون ہو؟ اور کیوں آئے ہو؟ وہ آدمی کہتا ہے کہ میں عزرائیل فرشتہ ہوں اور تمہاری جان نکالنے آیا ہوں۔ کہتی یہ سنتے ہی میں اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی ٹھہر جا، میں تیری خبر لیتی ہوں، تو میری جان نکالے گا؟ کہتی اس پر وہ آدمی دوڑ کرباہر چلا گیا‘‘ اس خواب کو سنانے کے بعد آپ فرمانے لگی، دیکھو !موت کا فرشتہ ایسا بھاگاہے کہ آج تک واپس ہی نہیں آیا۔ ہمیں اکثر ان کی ایک اور نصیحت بھی یاد آتی ہے کہ ’’یاد رکھنا! اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کبھی بھی ظلم نہیں کرتا، بندہ ہمیشہ اپنے اوپر خود ظلم کرتا ہے۔‘‘

آپ جب ہمارے گھر تشریف لاتیں تو ہم بچوں کے ساتھ بھی ایسے گھل مل جاتیں جیسے ہماری کوئی سہیلی ہوں۔ ہم ان سے بہت بے تکلف ہو کر گفتگو کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ٹی وی کے ڈراموں کی بھی باتیں کرتے تھے، ہم حیران ہوتے تھے کہ آپ سے جس موضوع پر بھی بات کی جائے آپ اسی موضوع پر گفتگو کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں، اس سے ہمیں ایک بات سیکھنے کو ملی کہ گفتگو کرتے وقت سامنے والے کی دلچسپی کا بھی خیال رکھنا چاہئے، ہمیں معلوم تھا کہ آپ کی عمر نوے برس سے اوپر ہے ایک روز ہمیں شرارت سوجھی اور ہم نے پھپھی سے پوچھا ’’پھپھی آپ کی عمر کتنی ہے؟‘‘ تو وہ فوراً ہماری شرارت کو سمجھ گئی تو خود بھی شرارت کے انداز میں ہمیں جواب دیا ’’یہی کوئی سترہ برس‘‘ ان کے اس جواب سے ہم بہت دیر تک ہستے رہے۔

خاکسار کو ان سے اسقدر لگاؤ ہو گیا تھا کہ اپنی شادی کے بعد اپنے شوہر سے ضد کر کے ان کے گھر، ما ڈل ٹاؤن لاہور ان سے ملنے گئی۔ وہاں ہم نے ان کی باتوں کی آڈیو رکاڈنگ بھی کی۔ وہاں آپ نے ایک واقعہ سنایا کہ ’’جب میری شادی ہوئی تو میرے شوہر مجھے لے کر قادیان سے ڈیرہ غازیخان چلے گئے۔ پیچھے سے میری امی اداس ہو گئیں اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس میرے شوہر کی شکایت کی کہ میری بیٹی کو ایسا لے کر گیا ہے کہ واپس ہی نہیں لایا۔ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امی کو تسلی دی اور فرمایا کہ آپ فکر نہ کریں ہم بچی کو خود لے کر آئیں گے۔ پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ دورہ پر ڈیرہ غازیخان گئے تو واپسی میں، مجھے اپنے ہمراہ لے کر آئے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کےساتھ ٹرین کا سفر کیا۔ واپس آ کر مجھے میری امی کے حوالے کیا، اور فرمانے لگے لو! میں بیٹی لے آیا ہوں اب تو آپ خوش ہیں نا‘‘ یہ واقع سنا کر آپ خوشی سے فرمانے لگی کہ ’’میں تو اتنی خوش قسمت ہوں کہ میرا مکلاوہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ لے کر آئے تھے۔

ایک روز آپ نے ہمیں اپنی ایک ڈائری پڑھنے کو دی، اس میں آپ نے کچھ کھانوں کی تراکیب کے ساتھ ساتھ اپنی کچھ خوابیں بھی لکھی ہوئی تھی، ہمیں فرمانے لگی کہ میں اس میں ان لڑکے اور لڑکیوں کے نام بھی لکھ لیتی ہوں جن کے والدین مجھے رشتہ کی غرض سے استخارا کرنے کا کہتے ہیں اس پر ہم نے سوال کیا کہ آپ استخارہ کیسے کرتی ہیں؟ فرمانے لگیں کہ نماز عشاء کے بعد دو نفل پڑھتی ہوں، پہلی رکعت میں سورت الکافرون اور دوسری رکعت میں سورت اخلاص پڑھتی ہوں۔ اور التحیات کے بعد دعا استخارہ کرتی ہوں۔ فرماتی جس روز میں کسی خاص مقصد کیلئے استخارہ کرتی ہوں، اس روز میں اس مقصد کے علاوہ کوئی دعا نہیں کرتی تا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو اشارہ ملے اس کو سمجھنے میں آسانی ہوکہ یہ اسی مقصد کیلئے ہے جس کے لئے دعا کی گئی تھی۔

ہمیں لگتا ہے کہ آپ دنیا سے بے نیاز، چلتا پھرتا نفس مطمعنہ تھیں، آپ کی وفات کے بعد خاکسار نے آپ کو خواب میں بھی دیکھا کہ جنت میں ہیں۔ الحمدللہ علی ذالک۔ اللہ تعالیٰ جنت میں آپ کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے اور ہمیں بھی آپ کے نقشے قدم پر چلاتے ہوئے آپ کی نیکیوں کو ہمیشہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

(آنسہ محمود بقاپوری۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطاب مستورات جلسۂ سالانہ برطانیہ مؤرخہ 6؍اگست 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ