• 28 اپریل, 2024

لبیک یا امیر الموٴمنین

لبیک یا امیر الموٴمنین
تقریر جلسہ سالانہ فلسطین 2022ء

یہاں آکر آپ معزز سامعین سے خطاب کرنا میرے لیے بے حد خوشی کی بات ہے۔ یہ خوشی محض میرے الفاظ ہی سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے ادا ہو رہی ہے۔

مربی صاحب نے مجھے فرمایا کہ میں خلافت اور جماعت کے حوالے سے یہاں چند باتیں سب حاضرین کے گوش گزار کروں۔ میں عرض کرتا چلوں کہ نہ ہی میں ایک خطیب ہوں اور نہ ہی مربی۔ میں پیشے کے لحاظ سے ایک ڈینٹسٹ ہوں مگرآج آپ سب سے خلافت اور جماعت کے تعلق سے اپنی تجربات کے بارے میں کچھ بات کروں گا۔

میں نے سوچا کہ میں اپنی گفتگو کو ایک عنوان دوں۔ سوجیسا کہ حال ہی میں ہم نے عید الاضحی منائی ہے اور ہم ان ایام سے گزرتے ہوئےتکبیرات لبیک، لبیک کہتے ہیں تو میں نے اسی مناسبت سے لبیک کے عنوان کو چنا ہے۔

چالیس سال پہلے میں پہلی بار قادیان گیا تھا اور مجھے وہاں کی مسجد مبارک میں حاضرین سے خطاب کرنے کا موقع ملا اور آج مجھے اس بابرکت مسجد جامع سیدنا محمود میں خطاب کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے۔

حضور ہمار ے مذہبی رہنما ہیں، تمام برکتیں آپ کی اطاعت میں ہیں۔ ہماری تاریخ اطاعت کی ایسے واقعات اور ان کے ثمرات سے بھری پڑی ہے۔ سال 1975ء میں، جب میں صرف 24 سال کا تھا۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی اور میں کراچی میں اپنی پریکٹس کر رہا تھا۔ میرا امریکہ اور برطانیہ میں بھی تعلیم کیلئے داخلہ ہو چکا تھا۔ میرے لئے امریکہ جانے کا موقع بھی تھا۔

ایک دن مجھے ربوہ سے فون آیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مجھے حاضری کے لیے بلایا ہے۔ میں ربوہ گیا، میں نے سوچا کہ شاید فضل عمر ہسپتال کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتے ہونگے ۔ لیکن جب میں کمرہ میں داخل ہوا اور حضورؒ سے ملا تو آپؒ نے پوچھا۔

کیا آپ کے پاس پاسپورٹ ہے؟

یہ میرے لیے بہت ہی اچانک اور عجیب سوال تھا اور جب میں نے کہا ’’جی حضور میرے پاس ہے‘‘ تو آپؒ نے فرمایا ’’کب تک گیمبیا جا سکتے ہیں؟ دو ہفتے ٹھیک ہے؟ ‘‘

خلیفہٴ وقت کا حکم تھا سو انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی میں نے کہا ’’لبیک‘‘ اور کراچی واپس آگیا۔ میں نے اپنا کلینک بند کیا اور دو ماہ بعد جب مجھے ٹکٹ ملا، میں گیمبیا چلا گیا۔

میں نے وہاں نو سال گزارے اور وہ میری جوانی تھی، درحقیقت میری تینوں بیٹیاں وہیں پیدا ہوئیں اور وہ گیمبیئن ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ اگر میں امریکہ گیا ہوتا جیسے میرے تمام دوست وہاں گئے ہیں اگر میں بھی وہاں ہوتا تو ممکن ہے میری کمائی بہت زیادہ ہوتی، وہ مجھ سے بہت زیادہ کما رہے ہیں لیکن مجھے اپنے وقف سے جو ملا ہے اس سے میں بہت مطمئن ہوں۔جو بھی مجھے گیمبیا میں ملا جو مجھے حضور کو لبیک کہنے سے ملا۔ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں، مجھے بہت برکتیں مل رہی ہیں اور یہ ان نعمتوں میں سے ایک ہے جو میں آج یہاں کھڑا ہوں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبابیر کے جلسہ پر آؤں گا اور حاضرین سے خطاب کروں گا۔ میں نے حضور کو لکھا کہ میری خواہش ہے، میں کبابیر جانا چاہتا ہوں۔اور مجھے منظوری مل گئی۔ یہ واقعی خلافت ہی کی برکت ہے کہ اس دفعہ میں واحد مہمان ہوں جو یوکے سے آیا ہے اور خلیفہ وقت کی اجازت کے ساتھ میری کبابیر آنے کی دلی خواہش بھی پوری ہوئی۔

میں نے اپنی کہانی کے بارے میں کہا ہے کہ حضور نے مجھے جانے کو کہا اور لبیک کہا اور وہاں چلا گیا۔ بہت سے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ انہیں کبھی حضور سےملنے اور ان سے کچھ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا۔ وہ لبیک کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہر روز آجکل ویب کیم کے ذریعے مختلف ممالک کے افراد کی حضور سے ملاقات ہوتی ہے اور سامعین میں بہت سے لوگ حضور سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے ان کا ارشاد کیا ہے وہ کیا چاہتے ہیں اور حضور ان کو ہدایات دیتے ہیں۔ یہ ہدایت سب کے لیے ہیں۔جب حضور کسی کو کچھ ارشاد کرتے ہیں تو یہ صرف اس کے لیے نہیں بلکہ ہر ایک کے لیے ہوتا ہے۔ اگر آپ لبیک کہنا چاہتے ہیں تو حضور کی بات سنیں اور جو ارشاد کریں اس پر عمل کریں۔

میں بہت خوش قسمت تھا کہ میں ربوہ گیا جو کہ ہمارا ہیڈ کوارٹر پاکستان میں تھا اور میں نے اپنی ابتدائی تعلیم وہیں پائی اور میری خوش قسمتی تھی کہ حضور خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ میرے ہم جماعت تھے۔ مجھے سکول میں پانچویں سے دسویں جماعت تک کا اور پھر کالج میں 2 سال اکٹھے پڑھنے کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے آپ بہت سادہ انسان، بہت شائستہ زبان اور کلاس میں بہت خاموش طبع وجود تھے۔

اب میں کبابیر اور جماعت کبابیر کے بارے میں چند الفاظ کہنا چاہتا ہوں۔

بچپن میں ایک حدیث پڑھی تھی ’’لَيْسَ الْخَبْرُ كَالْمُعَايَنَةِ‘‘ جو مجھے یاد ہے۔ یہ بہت سچ ہے کہ میں نے کبابیر کی جماعت کے بارے میں بہت سنا اور پڑھا تھا اور اب میں نے کبابیر کے احمدیوں کو دیکھ بھی لیا ہے۔

دو دن پہلے مربی صاحب نے ایک نماز کے بعد جلسہ کبابیر میں آنے والے مہمانوں کا تعارف کرایا، یہ عربی یا مقامی زبان میں تھا، میں نے صرف دو الفاظ سنے، مدرسہ اور خامس، تو سمجھ گیا کہ وہ سکول کے زمانے میں حضور اقدس سے میرے تعلق کا ذکر کر رہے ہیں۔ مجھے بہت خوشی اس وقت ہوئی جب نماز کے بعد مربی صاحب کے بیٹے کے ساتھ گیارہ سال کا ایک بچہ آیا کیونکہ وہ انگلش نہیں بول سکتا تھا مگر بہت ہی اشتیاق سے مجھ سے کہا کہ حضور انور کے بارے میں ان کے بچپن کی کوئی بات سناؤں۔

یہ اس بچے کے لئے بہت پیارا اور پر خلوص لمحہ تھا میں اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔ اس سے کبابیر کے احمدی ممبران کی خلیفہ اور جماعت سے محبت ظاہر ہوتی ہے۔یہ ان شاء اللہ مزید بڑھے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ حضور کے دل میں کبابیر اور اس کے ممبران کے لیے ایک خاص مقام ہے۔ جب بھی ہمارا جلسہ ہوتا ہے تو ہم کبابیر، قادیان اور ربوہ سے سامعین کو دیکھتے ہیں۔ یہ تینوں مقامات اکٹھے ہیں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کون سا بلند ہے یا کون سا نہیں لیکن ایک عرب ملک کے طور پر میرے خیال میں کبابیر زیادہ اہم ہے۔

آخر میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں۔ آج جب کچھ اراکین نے قصیدہ پڑھا اور جیسا کہ ایک مقرر نے عربی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں اور ان کی قصیدہ کے بارے میں عربوں کے نقطہ نظر کا ذکر کیا، میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ 1973ء میں میری دادی اور میرےتایا حج پر گئے۔ میرے چچا ایک مشنری تھے وہ ربوہ میں رہتے تھے۔ کچھ مخالفین احمدیت لوگ بھی مکہ میں تھے۔ انہوں نے میرے تایا کو پہچان لیا اور پولیس کو اطلاع دی کہ احمدی یہاں موجود ہیں۔ میرے تایا اور میری دادی کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور ان کے خلاف ’’کفر‘‘ کا مقدمہ چلا۔ عدالت میں مخالفین احمدیت لوگوں نے کفر کےدلائل دیئے۔ میرے تایا کو قصیدہ یاد تھا اس لیے جب وہ عدالت میں جج کے پاس گئے تو قصیدہ پڑھنے لگے۔ جیسا کہ آج میں نے دیکھا جب قصیدہ گایا جا رہا تھا کہ ممبران اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے، جج کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے کہا کہ جس نے یہ قصیدہ لکھا ہے وہ کافر نہیں ہو سکتا۔ وہ بری ہو گئے اور رہا ہو کر بحفاظت پاکستان واپس آ گئے۔ قصیدہ ایک نعمت ہے اور یہ اس کا اثر ہے۔ الحمدللّٰہ

(ڈاکٹر داوٴد احمد طاہر۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

ملکہ معظمہ الزبتھ دوم کی وفات پر حضرت امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیغام

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ