• 28 اپریل, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

23 مئی 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کا قافلہ اٹھارہ روزہ دورہ کے لئے جرمنی روانہ ہوئے جہاں حضور انور نے جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت اختیار فر ما کر اس کو اعزاز بخشا۔

حضور انور کی سادگی کی مثال

ایک چھوٹی سی بات جس کا میں خود گواہ ہوں اور جو میں ایم ٹی اے پر بتانا چاہتا تھا مگر وقت کی قلت کے باعث میں بیان نہ کر سکا وہ حضور انور کی سادگی اور عاجزی کے بارے میں ہے۔ یوکے کے نہایت سخت اور ٹھنڈے سردی کے موسم میں کئی مواقع پر جب میں حضور انور کے دفتر میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا کہ دفتر میں ہیٹنگ نہیں چل رہی تھی اور حضور انور اپنے میز پرکام میں مشغول تھے۔ ایک موٹا اور گرم اوور کوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے اور میں نے ہمیشہ حضور انور کو ایک سکارف پہنے ہوئے دیکھا۔

ہر دفعہ جب میں نے یہ جذباتی کر دینے والا منظر دیکھا کہ ہمارے پیارے خلیفہ ٹھنڈ میں تشریف فرما ہیں اور اوور کوٹ زیب تن ہےتاکہ گرم رہ سکیں جبکہ ہم سب اپنے دفاتر میں ہیٹنگ چلا کر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح کا مثالی نمونہ ہے جہاں آپ اپنے آرام کو خاطر میں نہیں لاتےاور بے نفس ہو کر جماعت کے کام میں مشغول رہتے ہیں خواہ کیسے بھی حالات ہوں۔

تصاویر آویزاں کرنے کے حوالے سے
حضور انور کی رہنمائی

کروشین وفد سے تعلق رکھنے والی کی ایک خاتون نے حضور انور سے پوچھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تصاویر احمدیوں کے گھروں اور جماعتی عمارات میں کیوں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔ جواباً حضور انور نے فرمایا کہ اگر کسی کا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا کسی خلیفہ کی تصویر لگانے سے وہ روحانیت میں ترقی کرے گایا انہیں اللہ کے قریب لے آئے گا تو وہ غلطی پر ہے۔ تاہم اگر کوئی احمدی حضرت اقدس مسیح موعود یا خلفائے احمدیت کی تصاویر ان سے تعلق کی وجہ سے لگاتے ہیں جیسا کہ لوگ (محبت سے) اپنے خاندان کے افراد کی تصاویر لگاتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم اگر کسی بھی جگہ ان تصاویر کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہو تو پھر انہیں نہیں لگانا نہیں چاہیے۔ حضور انور نے مزید وضاحت فرمائی کہ اسی غرض سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام یا ان کے خلفاء کی تصاویر مسجد میں آویزاں نہیں کی جاتی کیونکہ وہاں لوگ صرف اللہ کے سامنے جھکتے ہیں۔

حضور انور نےمزید فرمایا کہ جب میں آسٹریلیا میں 2006ء میں تشریف لے گئے تو لوکل جماعت نے ایک official مہر کا انتظام کیا جس پر حضور انور کی تصویر تھی۔ اس بات کا علم ہونے پر حضورانور نے ہدایت فرمائی کہ ایسی تمام مہریں ضائع کر دی جائیں۔

پھر فرمایا کہ بعض لوگوں پر احمدیت کی سچائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلفائے احمدیت کی تصاویر دیکھ کر عیاں ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مختلف ممالک میں لوگوں نے بتایا ہے کہ محض ایک تصویر کو دیکھنے کے بعد انہیں باور ہوا کہ جس وجود کو وہ پہلے سے اپنے خوابوں میں دیکھ رہے تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں یا آپ کے خلفاء میں سے کوئی ایک ہیں۔ یوں اس دور میں تصاویر لوگوں کو حق کی طرف رہنمائی کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔

افسردگی کی ایک وجہ

جلسے کے دنوں میں اور جرمنی کے سارے دورہ کے دوران حضور انور کی طبیعت ناساز رہی اور آپ کو تیز بخار رہا۔ جب کبھی بھی آپ حضور انور کو کسی تکلیف میں دیکھتے ہیں تو یہ بات آپ کو افسردہ کر دیتی ہے یوں حضور انور کو تیز بخار سے دوچار دیکھنا بہت افسردہ کر دینے والا تھا۔ ایسے مواقع پر جب میں نے حضور انورکی طبیعت ناساز دیکھی ہے یا آپ کو کسی تکلیف میں دیکھا تو میری خواہش ہوتی ہے کہ کاش میں نے کچھ طب کا علم اپنے والد صاحب سے وراثت میں حاصل کیا ہوتا جو ایک ڈاکٹر تھے اور یوں آپ کی کچھ مدد کر سکتا۔ ایک مرتبہ لندن میں جب حضور انور کی طبیعت کچھ ناساز تھی تو میں نے حضور انور سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں کچھ خدمات پیش کر سکتا۔ اس پر حضور انور نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا مجھے صرف دعا چاہیے وہی کافی ہے۔ بہرحال اس ساری تکلیف کے باوجود حضور انور نے اپنے دورہ کے شیڈیول کو کسی طرح بھی اثر انداز ہونے نہیں دیا۔در حقیقت دورہ کے (وہ بیماری کے) آخری ایام اس سارے دورہ میں سب سے زیادہ مصروف ترین دن تھے۔

ایک افریقن احمدی کے تاثرات

اگلے روز میں ابو ہریرہ نامی ایک افریقہ احمدی سے ملا جن کی عمر بتیس سال تھی اور وہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے ساؤتھ افریقہ سے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے والد نے احمدیت قبول کی تھی جب وہ بچے تھے۔ جلسہ میں شمولیت اور حضور انور کی قربت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’’جب آپ دوسرے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کس قدر تقسیم در تقسیم ہیں تو پھر آپ کو باور ہوتا ہے کہ آپ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ خلافت کے ہاتھ پر اکٹھے ہیں۔ یہی چیز ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ جو شخص ہر ہفتے حضور انور کا خطبہ جمعہ سنتا ہے تو وہ ایک اچھا مسلمان بن جائے گا۔ یہی زندگی کی کنجی ہے۔ جب آپ حضور انور کو دیکھتے ہیں تو آپ کوفوراً اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ حضور انور ایک سچے انسان اور مرد ِخدا ہیں۔

خلافت کے لیے ایک بچے کی محبت

میری ملاقات مکرم لقمان باجوہ صاحب بعمر ستائیس سال سے ہوئی جو جرمنی کی سیکیورٹی ٹیم کے ممبر تھے۔ وہ پاکستان سے تین سال قبل ہی جرمنی میں آئے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک واقعہ کے بارے میں بتایا جس کے وہ خود گواہ تھے جو اس دور جو اس دورہ کی ابتداء کا ہے کہ جب حضور انور نے Aachen میں مسجد کا افتتاح فرمایا۔ مکرم لقمان صاحب نےبتایا کہ میں Aachen میں مسجد کے افتتاح کے موقع پر ڈیوٹی پر تھا جب حضور انور کا گزر میرے پاس سے ہوا تو میں نے ایک تین سال کے بچے کو روتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’پلیز حضور ہمیں چھوڑ کر مت جائیں۔‘‘ اس چھوٹے بچےکی آواز میں جو درد تھا اس نے میرے پر بہت گہرا اثر کیا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح ایک چھوٹا سا بچہ خلافت کے لیے ایسے محبت کا اظہار کر سکتا ہے۔ یقینا ہر احمدی اور خلیفہ وقت کا باہمی تعلق خود اللہ تعالی کاپیدا کیا ہوا ہے۔

حضور انور کی ٹرکش وفد سے ملاقات

ہفتے کی شام کو حضور انور نے تین وفود سے ملاقات فرمائی جن میں سے ایک کا تعلق ترکی سے، ایک کا تعلق سلووینیا سے تھا اور چار سو سے زائد عرب مرد و زن کا ایک گروپ تھا۔ ٹرکش گروپ سے ملاقات کے دوران ایک نوجوان ترکی جو نو مبائع تھے کھڑے ہوئے اور مائیکرو فون لے کر نہایت محبت سے کہا ’’!I Love you Huzoor‘‘ نہایت شفقت اور محبت سے حضور انور نے فرمایا ’’!And I Love you too‘‘

ایک دوسرے نو مبائع نے مائیکرو فون لیا اور نہایت جذباتی انداز میں کہا۔ ’’میں نے چھ ماہ قبل احمدیت قبول کی تھی اور آج میں بہت جذباتی ہو رہا ہوں اور خوش نصیب ہوں کہ اپنے خلیفہ کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں۔ دنیا میں کئی ملین لوگ اس لمحہ کے لیے خواب دیکھتے ہیں یوں یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج یہ موقع ملا ہے۔‘‘

ایک جذباتی مہمان

اس گروپ میں ایک غیر مسلم مہمان بھی تھے جو آسٹریلیا سے آئے تھے۔ ان کی لمبی اور گھنی سفید داڑھی تھی اور ملاقات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضور انور سے ملاقات کی اجازت طلب کی۔ وہ حضور انور کی طرف بڑھے اور میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور پھر انہوں نے حضور انور کے سامنے اپنا سر جھکایا اور حضور انور کا ہاتھ چوما۔ یہ نہایت مسحور کن منظر تھا جہاں ایک ایسا شخص جو مسلمان بھی نہیں تھا حضرت خلیفۃ المسیح کو دیکھنے پر اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکا اور حضور انور سے محض آپ کی برکات کے حصول کا متمنی تھا۔

عرب وفد سے حضور انور کی ملاقات

عرب وفد جو تین سو سے زائد نفوس پر مشتمل تھا اور جرمنی میں رہائش پذیر تھے اور سو کے قریب عرب ایسے تھے جو دیگر ممالک سے تشریف لائے تھےتاکہ جلسہ میں شامل ہوسکیں۔ چند احمدی تھے جبکہ ان کی اکثریت غیر احمدیوں کی تھی۔ یہ مہمانان عربی میں گفتگو کر رہے تھے اور ان کے تاثرات یا سوالات مکرم طاہر ندیم صاحب اردو میں ترجمہ کر رہے تھے۔ بعد ازاں حضور انور کا جواب عربی میں ترجمہ کرتے رہے۔

جس دوران سوالات پوچھے جا رہے تھےمیں حضور انور کی طرف دیکھتا رہا اور ایک بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ حضور انور کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے آپ کو سوال کی سمجھ آ رہی تھی، قبل اس کے کہ اس کا ترجمہ کیا جاتا۔ اس سے مجھے 2014ء کا یوم مسیح موعود یاد آگیا جب حضور انور نے عربی میں خطاب فرمایا تھا۔

حضور انور کی آنحضرتؐ کی بے مثال اطاعت

ایک بزرگ عرب نے حضور انور سے کافر کی تعریف کے بارے میں آپ کے خیالات کی بابت پوچھا۔ انہوں نے اپنا سوال دو مرتبہ دہرایا اور ان کی tone سے ایسا لگتا تھا کہ وہ حضور انور سے کسی خاص فرقہ کو کافر کہلوانا چاہتے تھے۔ حضور انور کا جواب نہایت خوبصورت تھا جب آپ نے فرمایا کہ آپ کا فتویٰ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے کہ جو کوئی بھی کلمہ پڑھتا ہے وہ مسلمان ہے اور اگر کوئی کسی دوسرے کو کافر کہتا ہے تو وہ خود کافر بن جاتا ہے۔

حضور انور نے فرمایا ’’میں اس مسئلہ پر کوئی (حتمی) رائے کیسے قائم کر سکتا ہوں جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر پہلے ہی حکم صادر فرما دیا ہے؟ مجھے کسی کو کافر کہنے کا حق کیسے حاصل ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی بھی کلمہ پڑھتا ہے وہ مسلمان ہے؟

جب حضور انور کا جواب عربی میں ترجمہ ہو رہا تھا تو اس مہمان نے سنا کہ کس طرح حضور انور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطیع اور فرمانبردار ہیں تو چند عرب مہمانان نے حضور انور کا پیغام سننے پر نعرے بلند کیے جبکہ کئی عرب مستورات تالیاں بجانے لگیں۔

حضور انور کے الفاظ کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ تین سے چار عربوں نے بیعت کی اور احمدیت قبول کر لی جس کی بنیادی وجہ حضور انور کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال اطاعت تھی۔

بعد ازاں میری ملاقات ایک عرب مہمان سے ہوئی جو حضور انور کے فرمودہ جواب سے بے حد متاثر تھے۔ انہوں نے کہا ’’کس کو علم تھا کہ احمدیوں کے خلیفہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر محبت ہے؟ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سب کچھ ہیں۔‘‘

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015ء اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان حصہ سوم)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

ملکہ معظمہ الزبتھ دوم کی وفات پر حضرت امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیغام

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ