خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍اگست 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دَور میں سلطنتِ روم کے خلاف ہونے والی مہمات کا تذکرہ
تم اپنے رب کی اطاعت کرنا، اپنے امرا کی خلاف ورزی نہ کرنا اور اپنی نیت رضائے الٰہی کے لیے خالص رکھنا
اللہ کی نعمتیں بےشمار ہیں۔ اعمال ان کا بدلہ نہیں ہو سکتے۔ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد کرو کہ اس نے تم پر احسان کیا اور تمہیں ایک کلمہ پر جمع کیا اور تمہارے درمیان صلح کروائی۔ تمہیں اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور تم سے شیطان کو دُور کیا
نصیر احمد صاحب شہید ابن عبدالغنی صاحب (ربوہ) کی شہادت پر ان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
أَشْھَدُ أَنْ لَّآ إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
بدری صحابہ کے ذکر میں
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ کا ذکر
چل رہا تھا اور آپؓ کے دور میں جو واقعات ہوئے ان کا ذکر ہو رہا تھا۔ آپؓ کے عہدِ خلافت میں
شام کی طرف جو پیش قدمی ہوئی
اس بارے میں آج ذکر ہو گا۔ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ باغی مرتدین کی سرکوبی سے فارغ ہو گئے اور عرب مستحکم ہو گیا تو آپؓ نے بیرونی جارحیت کے مرتکب مخالفین میں سے اہلِ روم سے جنگ کرنے کے متعلق سوچا؛ مگر ابھی تک کسی کو اس سے آگاہ نہیں کیا تھا۔یہ لوگ جارح قوم تھے۔ مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ ملک شام کی حکومت کو، جو آج کل شام ہے، سلطنتِ روم کہا جاتا تھا۔ وہاں کے بادشاہ کو قیصرِ روم کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔
آپؓ ابھی اسی غور و فکر میں لگے ہوئے تھے کہ اسی دوران حضرت شُرَحْبِیل بن حَسَنہؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؓ کے پاس بیٹھ گئے اور عرض کیا، اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! کیا آپؓ شام پر لشکر کشی کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ ہاں ارادہ تو ہے لیکن ابھی کسی کو مطلع نہیں کیا۔ تم نے کس وجہ سے یہ سوال کیا ہے؟ حضرت شرحبیلؓ نے عرض کیا کہ جی ہاں اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! مَیں نے خواب دیکھا ہے کہ آپؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشوار گزار پہاڑی راستے پر چل رہے ہیں۔ پھر آپؓ ایک بلند چوٹی پر چڑھ گئے اور لوگوں کی طرف دیکھا اور آپؓ کے ساتھ آپؓ کے ساتھی بھی ہیں۔ پھر آپؓ اس چوٹی سے اتر کر ایک نرم زرخیز زمین میں آ گئے جس میں فصلیں، چشمے، بستیاں اور قلعے موجو دہیں اور آپؓ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ مشرکین پر حملہ کر دو۔ مَیں تمہیں فتح اور مالِ غنیمت کے حصول کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس پر مسلمانوں نے حملہ کر دیا اور مَیں بھی جھنڈے کے ساتھ اس لشکر میں شامل تھا۔ میں ایک بستی کی طرف گیا تو اس کے رہنے والوں نے مجھ سے امان طلب کی۔ میں نے انہیں امان دے دی۔ پھر میں آپؓ کے پاس واپس پہنچا تو آپ ایک عظیم قلعہ تک پہنچ چکے تھے۔ آپؓ کو فتح عطا کی گئی۔ انہوں نے آپؓ سے صلح کی درخواست کی۔ پھر آپؓ کے لیے ایک تخت رکھا گیا۔ آپؓ اس پر تشریف فرما ہو گئے۔ پھر آپؓ سے ایک کہنے والے نے عرض کیا، اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو فتح سے نوازا ہے اور آپؓ کی مدد کی ہے لہٰذا آپؓ اپنے رب کا شکر ادا کریں اور اس کی اطاعت کرتے رہیں۔ پھر اس شخص نے ان آیات کی تلاوت کی کہ اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ ۙ﴿۲﴾ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۳﴾ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَاسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ﴿۴﴾ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور تُو لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر اور اس سے مغفرت مانگ۔ یقیناًً وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ کہتے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ لمبی خواب تھی۔
اس پر حضرت ابوبکرؓ نے یہ خواب سن کے فرمایا کہ تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے اور اچھا ہی ہو گا ان شاء اللہ۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اس خواب میں
تم نے فتح کی خوشخبری اور میری موت کی اطلاع بھی دی ہے
یہ بات کہتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپؓ نے فرمایا، رہا وہ پتھریلا علاقہ جس پر چلتے ہوئے ہم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے اور وہاں سے نیچے جھانک کر لوگوں کو دیکھا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس لشکر کے معاملہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان لشکر والوں کو بھی مصیبت جھیلنی پڑے گی۔ اس کے بعد پھر ہمیں غلبہ اور استحکام حاصل ہو جائے گا اور جہاں تک ہمارا پہاڑ کی چوٹی سے اتر کر زرخیز زمین کی طرف جانے کا تعلق ہے جس میں سرسبز و شاداب فصلیں، چشمے، بستیاں اور قلعے تھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ آسانی پائیں گے جس میں خوشحالی اور فراخی ہو گی اور ہمیں پہلے سے زیادہ زرخیز زمین میسر آئے گی۔ جہاں تک میرا مسلمانوں کو یہ حکم دینے کا تعلق ہے کہ دشمن پر حملہ کرو، مَیں فتح اور مالِ غنیمت کی ضمانت دیتا ہوں تو اس سے مراد میرا مسلمانوں کو مشرکین کے ممالک کی طرف بھیجنا اور انہیں جہاد پر ابھارنا ہے۔ اور جہاں تک اس جھنڈے کا تعلق ہے جو تمہارے پاس تھا جس کو تم لے کر ان بستیوں میں سے ایک بستی کی طرف گئے اور اس میں داخل ہوئے اور وہاں کے لوگوں نے تم سے امان طلب کی اور تم نے انہیں امان دے دی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس علاقے کو فتح کرنے والے امرا میں سے ایک ہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں فتح دے گا اور رہا وہ قلعہ جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے فتح کرایا تو اس سے مراد وہ علاقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ میرے لیے فتحیاب کرے گا اور جہاں تک اس تخت کا تعلق ہے جس پر تُو نے مجھے بیٹھا ہوا دیکھا تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے عزت و رفعت سے نوازے گا اور مشرکین کو ذلیل و رسوا کرے گا۔ اور جہاں تک اس آدمی کا تعلق ہے جس نے مجھے نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیا اور میرے سامنے سورۂ نصر کی تلاوت کی تو اس طرح اس نے مجھے میری موت کی خبر دی ہے۔ یہی سورت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپؐ کو علم ہو گیا تھا کہ اس سورت میں آپؐ کی وفات کی خبر دی جا رہی ہے۔
(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہؐ… جلد2 جزء1صفحہ 109-110 عالم الکتب بیروت 1997ء)
(تاریخ دمشق الکبیر جلد 1 جزء 2 صفحہ 44 ذکر اہتمام ابو بکر… الخ)
(مردانِ عرب حصہ اول از علامہ عبد الستار ہمدانی صفحہ108-109 مطبوعہ2013ء)
تو یہ تعبیر حضرت ابوبکرؓ نے اس خواب کی فرمائی۔
بہرحال جب حضرت ابوبکرؓ نے شام کی فتح کے لیے لشکر تیار کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مشورے کے لیے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور اہلِ بدر میں سے کبار مہاجرین و انصار نیز دیگر صحابہؓ کو طلب کیا۔ جب یہ اصحاب آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؓ نے فرمایا
اللہ کی نعمتیں بےشمار ہیں۔ اعمال ان کا بدلہ نہیں ہو سکتے۔ اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد کرو کہ اس نے تم پر احسان کیا اور تمہیں ایک کلمہ پر جمع کیا اور تمہارے درمیان صلح کروائی۔ تمہیں اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور تم سے شیطان کو دور کیا۔
اب شیطان کو تمہارے شرک میں مبتلا ہونے اورخدا کے سوا کسی اَور کو معبود بنانے کی امید نہیں رہی۔ آج عرب ایک امّت ہیں جوایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ میں ان کو رومیوں سے جنگ کے لیے شام بھجواؤں۔ جو ان میں سے مارا گیا وہ شہید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نیک کام کرنے والوں کے لیے بہترین بدلہ تیار کر رکھا ہے۔ اور ان میں سے جو زندہ رہا وہ دینِ اسلام کا دفاع کرتے ہوئے زندہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ سے مجاہدین کے اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔ یہ میری رائے ہے۔ اب آپ لوگوں میں سے ہر شخص اپنی رائے کے مطابق مشورہ دے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے مشورہ مانگا۔
اس پر حضرت عمر بن خطابؓ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا: سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے خیروبرکت سے نوازتا ہے۔
اللہ کی قسم! بھلائی کے جس معاملے میں بھی ہم نے آپؓ سے آگے بڑھنا چاہا آپؓ اس میں ہمیشہ ہم پر سبقت لے گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔
اللہ کی قسم! میں آپؓ سے اسی مقصد کے لیے ملاقات کرنا چاہتا تھا جو آپؓ نے ابھی بیان کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ میں یہ بات آپؓ سے کر نہ سکا حتی کہ آپ نے خود ہی اس کا تذکرہ کر دیا۔ یقیناً آپؓ کی رائے صحیح ہے۔ اللہ نے آپ کو صحیح راہ کا ادراک عطا فرمایا ہے۔
پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ، حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت علیؓ اور دیگر تمام حاضرینِ مجلس مہاجرین اور انصار نے آپ کی رائے کی تائید کرتے ہوئے عرض کیا ہم آپؓ کی بات بھی سنیں گے اور اطاعت بھی کریں گے۔ ہم آپؓ کی حکم عدولی نہیں کریں گے اور آپؓ کی تحریک پر لبیک کہیں گے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے دوبارہ کھڑے ہوئے اور آپؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ اہل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا۔ پھر فرمایا: اے لوگو! بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی نعمت دے کر تم پر بڑا احسان کیا۔ تمہیں جہاد کے ذریعہ سے معزز کیا۔ تمہیں دینِ اسلام کے ذریعہ دوسرے ادیان پر فضیلت دی۔ لہٰذا اللہ کے بندو! ملکِ شام میں رومیوں سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اب میں تمہارے امرا مقرر کرنے والا ہوں اور انہیں تمہارا کمانڈر بنانے لگا ہوں۔
تم اپنے رب کی اطاعت کرنا، اپنے امرا کی خلاف ورزی نہ کرنا اور اپنی نیت رضائے الٰہی کے لیے خالص رکھنا۔ سیرت و کردار بہتر سے بہتر بنانا اور کھانا پینا صحیح رکھنا۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں اور احسان کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا تو انہوں نے لوگوں میں اعلان کر دیا کہ اے لوگو! اپنے رومی دشمن سے جنگ کے لیے شام کی طرف نکلو اور مسلمانوں کے امیر حضرت خالد بن سعیدؓ ہوں گے۔
(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہؐ… جلد2 جزء1صفحہ 110تا 114عالم الکتب بیروت 1997ء)
ملک شام کی فتوحات کے سلسلہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
سب سے پہلے حضرت خالد بن سعیدؓ کو روانہ فرمایا
چنانچہ ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ جب حج کر کے واپس مدینہ تشریف لائے تو تیرہ ہجری میں آپؓ نے حضرت خالد بن سعیدؓ کو ایک لشکر کے ہمراہ شام کی طرف روانہ فرمایا جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت ابوبکرؓ نے خالد بن ولیدؓ کو عراق کی طرف روانہ فرمایا تھا اسی وقت حضرت خالد بن سعیدؓ کو شام کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ لہٰذا
سب سے پہلا جھنڈا جو شام کی فتح کے لیے لہرایا گیا وہ حضرت خالد بن سعیدؓ کا تھا۔
اس کے علاوہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓنے مرتدین کے خلاف گیارہ لشکر تیار کر کے روانہ فرمائے تھے تو اس وقت ہی آپؓ نے حضرت خالد بن سعیدؓ کو شام کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تَیْمَاء جانے کا حکم دیا تھا اور ہدایت فرمائی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔ اطراف کے لوگوں کو اپنے سے ملنے کی دعوت دینا اور صرف ان لوگوں کو بھرتی کرنا جو مرتد نہ ہوئے ہوں اور صرف ان سے جنگ کرنا جو تم سے جنگ کریں یہاں تک کہ میری طرف سے کوئی اَور حکم آ جائے۔ تَیْمَاء بھی شام اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور شہر ہے۔
(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 252 ثم دخلت سنۃ ثلاث عشرۃ، ذکر فتوح الشام، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء)
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ332 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ78زوار اکیڈمی کراچی)
حضرت ابوبکرؓ نے رومیوں کے خلاف جنگ کے لیے اہل مدینہ کے علاوہ دیگر علاقوں کے مسلمانوں کو بھی تیار کرنا شروع کیا اور انہیں جہاد میں شامل ہونے کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ آپ نے اہل یمن کی طرف بھی ایک خط لکھا جس کا متن اس طرح سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کی طرف سے اہل یمن میں سے مومنین اور مسلمانوں کے ہر فرد کے لیے جس پر یہ پڑھا جائے،تم پر سلامتی ہو۔ میں تمہارے سامنے اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد فرض کیا ہے اور انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اس کے لیے تھوڑی تیاری یا بھرپور تیاری کر کے نکلیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَجَاهِدُوْا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰہِ اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو۔ پس جہاد لازمی فریضہ ہے اور اللہ کے ہاں اس کا اجر عظیم ہے اور ہم نے مسلمانوں کو شام میں رومیوں سے جہاد کے لیے تیاری کا حکم دیا ہے۔ ان کی نیتیں اچھی اور مرتبہ بلند ہے۔ پس اے اللہ کے بندو! اپنے رب کے فرض اور اس کے نبی کی سنت اور دو میں سے ایک نیکی کی طرف جلدی کرو ؛یا تو شہادت یا پھر فتح اور مال غنیمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی بے عمل باتوں سے راضی نہیں ہوتا اور نہ اس کے دشمنوں سے جہاد ترک کرنے سے راضی ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ حق کو قبول کر لیں اور قرآن کریم کے حکم کو مان لیں۔ اللہ تمہارے دین کی حفاظت کرے اور تمہارے دلوں کو ہدایت دے اور تمہارے اعمال کو پاک کر دے اور تمہیں صبر کرنے والے مجاہدین جیسا اجر عطا کرے۔
حضرت ابوبکرؓ نے یہ خط حضرت انس بن مالکؓ کے ہاتھ بھیجا تھا۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں یمن پہنچا اور ایک ایک محلے اور ایک ایک قبیلے سے آغاز کیا۔ میں ان کے سامنے حضرت ابوبکرؓ کا خط پڑھتا تھا اور جب میں خط پڑھنے سے فارغ ہوتا تھا تو کہتا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد، اللہ کے رسول ہیں ،صلی اللہ علیہ وسلم۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور مسلمانوں کا پیغام رساں ہوں۔ غور سے سنو! میں نے مسلمانوں کو اس حالت میں چھوڑا ہے کہ وہ ایک لشکر کی صورت میں جمع ہیں۔ انہیں اپنے دشمن کی طرف روانہ ہونے سے صرف تمہارا (یعنی مدینہ آمد کا) انتظار روکے ہوئے ہے۔ پس تم جلدی سے اپنے بھائیوں کی طرف کوچ کرو۔ اے مسلمانو! اللہ تم پر رحم کرے۔
(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہؐ… جلد2 جزء1 صفحہ115-116 عالم الکتب 1997ء)
حضرت انسؓ مدینہ واپس پہنچے اور حضرت ابوبکرؓ کو لوگوں کی آمد کی خوشخبری سناتے ہوئے عرض کیا کہ یمن کے بہادر، دلیر اور شہسوار پراگندہ بالوں والےاور گرد و غبار سے بھرے ہوئے آپؓ کے پاس پہنچنے والے ہیں۔ وہ اپنے مال و اسباب اور بیوی بچوں کے ساتھ نکل چکے ہیں۔
(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی ،مترجم صفحہ439 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)
دوسری طرف حضرت خالد بن سعیدؓ تَیْمَاء پہنچ کر وہیں مقیم ہو گئے اور اطراف کی بہت سی جماعتیں ان سے آ ملیں۔
رومیوں کو مسلمانوں کے اس عظیم لشکر کی خبر ہوئی تو انہوں نے اپنے زیرِ اثر
عربوں سے شام کی جنگ کے لیے فوجیں طلب کیں۔
حضرت خالد بن سعیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو رومیوں کی اس تیاری کے متعلق لکھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواباً لکھا کہ تم پیش قدمی کرو اور ذرا مت گھبراؤ اور اللہ سے مدد طلب کرو۔ اس پر حضرت خالد بن سعیدؓ رومیوں کی طرف بڑھے مگر جب آپؓ ان کے قریب پہنچے تو وہ اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے اور انہوں نے اپنی جگہ کو چھوڑ دیا۔ حضرت خالد بن سعیدؓ اس جگہ پر قابض ہو گئے اور اکثر لوگ جو آپؓ کے پاس جمع تھے مسلمان ہو گئے۔ حضرت خالد بن سعیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو اس کی اطلاع دی۔ حضرت ابوبکرؓ نے لکھا کہ تم آگے بڑھو مگر اتنا آگے نہ نکل جانا کہ پیچھے سے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے۔ حضرت خالد بن سعیدؓ ان لوگوں کو لے کر چل پڑے یہاں تک کہ ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ وہاں ان کے مقابلے پر ایک رومی پادری بَاہَان نامی آیا۔ حضرت خالد بن سعیدؓ نے اسے شکست دی اور اس کے لشکروں میں سے بہتوں کو قتل کیا اور باہان نے فرار ہو کر دمشق کی طرف پناہ لی۔ حضرت خالد بن سعیدؓ نے اس کی اطلاع حضرت ابوبکرؓ کو دے کر مزید کمک طلب کی۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ کے پاس یمن سے جہادِ شام کی غرض سے ابتدائی طور پر کوچ کر کے آنے والے لوگ موجود تھے۔ اس کے علاوہ مکہ اور یمن کے درمیان کے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔ ان لوگوں میں حضرت ذُوالْکَلَاعؓ بھی تھے۔ نیز حضرت عکرمہؓ بھی مرتدین کے خلاف جنگ سے کامیاب ہو کرحضرت ابوبکرؓ کے پاس واپس لَوٹے تھے جن کے ساتھ کچھ علاقوں کے اَور لوگ بھی تھے۔ ان سب کے متعلق حضرت ابوبکرؓ نے امرائے صدقات کو لکھا کہ جو لوگ تبدیلی کے خواہاں ہوں ان کو تبدیل کر دو تو سب نے تبدیل ہونا چاہا اور ان سب کو بدل کر ایک نیا لشکر تیار کیا گیا۔ اس لیے اس لشکر کا نام جَیْشُ الْبِدَال پڑ گیا۔ یہ فوجیں حضرت خالد بن سعیدؓ کے پاس پہنچیں۔ اس کے بعد بھی حضرت ابوبکرؓ لوگوں کو شام کی جنگ کے لیے ترغیب دلاتے رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ولید بن عقبہؓ کو حضرت خالد بن سعیدؓ کی طرف شام پہنچنے کا ارشاد فرمایا۔ وہ جب خالد بن سعیدؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے انہیں بتایا کہ اہل مدینہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے بےتاب ہیں اور حضرت ابوبکرؓ فوجیں بھیجنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ یہ سن کر حضرت خالد بن سعیدؓ کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور انہوں نے اس خیال سے کہ رومیوں پر فتح یابی کا فخر انہی کے حصہ میں آئے حضرت ولید بن عقبہؓ کو ساتھ لے کر رومیوں کی عظیم الشان فوج پر حملہ کر نا چاہا جس کی قیادت ان کا سپہ سالار باہان کر رہا تھا۔
(کامل فی التاریخ جلد2 صفحہ252، 253 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(البدایہ والنھایہ جلد4 جزء7 صفحہ4 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ332 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
(حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ340-341 مطبوعہ بک کارنر شو روم جہلم)
گویا حضرت خالد بن سعیدؓ نے رومی لشکر پر حملہ کرتے وقت حضرت ابوبکرؓ کی اس ہدایت کو نظر انداز کر دیا کہ تم اتنا آگے نہ نکل جانا کہ پیچھے سے دشمن کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے اور بہرحال وہ اپنی پشت کے دفاع سے غافل ہو گئے اور دیگر امرا کے پہنچنے سے پہلے ہی رومیوں سے جنگ شروع کردی۔ باہان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کے سامنے سے ہٹ کر دمشق کی طرف نکل گیا۔ باہان کا پیچھے ہٹنا اصل میں ایک چال تھی۔ وہ مسلمانوں کو گھیرے میں لے کر پیچھے سے ان پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ اس خطرے سے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں خبردار کیا تھا لیکن کامیابی کے جذبے نے حضرت خالد بن سعیدؓ کو خلیفۂ وقت کی اس تنبیہ سے غافل کر دیا اور آگے بڑھنے پر اکسا دیا۔ حضرت خالد بن سعیدؓ دشمن کی فوج میں آگے گھستے گئے۔ اس وقت ان کے ہمراہ حضرت ولید بن عقبہؓ کے علاوہ حضرت ذوالکلاعؓ اور حضرت عکرمہؓ بھی تھے۔ وہاں حضرت خالد بن سعیدؓ کو باہان کی فوجی چوکیوں نے ایک ساتھ مل کر محصور کر لیا اور ان کے راستے روک لیے۔ حضرت خالدؓ کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ اس کے بعد باہان نے پیش قدمی کی اور ایک جگہ حضرت خالد کے بیٹے سعید کو کچھ لوگوں کے ساتھ پانی کی تلاش میں گھومتے ہوئے پا لیا اور ان سب کو قتل کر دیا۔ حضرت خالد بن سعیدؓ کو اس کی خبر ہوئی یعنی ان کے بیٹے اور ان کے ساتھیوں کے قتل ہونے کی، شہید ہونے کی خبر ہوئی ،تو سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ وہاں سے فرار ہو گئے اور بجائے اس کے کہ مقابلہ کرتے وہاں سے چھوڑ کے چلے گئے۔ ان کے بعد بہت سے ساتھی بھی گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہو کر اپنے لشکر سے منقطع ہو گئے۔ خالد شکست کھاتے ہوئے ذُوالْمَرْوَہ تک پہنچ گئے مگر حضرت عکرمہؓ اپنی جگہ سے نہ ہٹے بلکہ مسلمانوں کی مدد کرتے رہے۔ ذوالمروہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مدینہ سے کوئی چھیانوے میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے۔ بہرحال حضرت عکرمہؓ نے باہان اور اس کی فوجوں کو حضرت خالد کا تعاقب کرنے سے باز رکھا۔ اس کی اطلاع جب حضرت ابوبکرؓ کو ہوئی تو آپ نے حضرت خالدؓ سے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ البتہ بعد میں جب انہیں مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی تو انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے اس فعل پر معافی مانگی۔
(ماخوذ از تاریخ الطبری جزء الثانی صفحہ 333-334دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2012ء)
(ماخوذ ازسیدنا ابوبکر صدیقؓ از ہیکل مترجم صفحہ 341)
(فرہنگ سیرت صفحہ 56و269زوار اکیڈمی کراچی)
حضرت خالد بن سعیدؓ کی اس ناکامی کے باوجود حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عزم و حوصلہ میں ہرگز فرق نہ آیا۔ جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ حضرت عکرمہؓ اور حضرت ذُوالکَلَاعؓ اسلامی لشکروں کو رومیوں کے چنگل سے بچا کر واپس شام کی سرحدوں پر لے آئے ہیں اور وہاں مدد کے منتظر ہیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کمک بھیجنے کا انتظام شروع کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس سلسلہ میں چار بڑے لشکر تیار کیے جنہیں شام کے مختلف علاقوں کی جانب روانہ کیا۔ ان کی تفصیل اس طرح ملتی ہے۔
ایک لشکر جو پہلا تھا یزید بن ابوسفیان کا تھا۔ یہ حضرت معاویہؓ کے بھائی تھے اور ابوسفیان کے خاندان میں بہترین آدمی تھے۔ بطور کمک بھیجے جانے والے ان چار لشکروں میں سے یہ پہلا لشکر تھا جو شام کی طرف آگے بڑھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس لشکر کا امیر حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کو بنایا۔ ان کے ذمہ دمشق پہنچ کر اس کو فتح کرنا اور دیگر تین لشکروں کی بوقتِ ضرورت مدد کرنا تھا۔ اس لشکر کی تعداد ابتدا میں تین ہزار تھی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے مزید امداد بھیجی جس سے ان کی تعداد تقریباً سات ہزار ہو گئی۔ حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کے اس لشکر میں مکہ کے لوگوں میں سے سُہَیل بن عَمرو اور ان جیسے اور ذی مرتبہ لوگ بھی شریک تھے۔ سُہَیل بن عَمرو زمانہ جاہلیت میں قریش کے سرکردہ لوگوں اور زیرک سرداروں میں سے تھے اور صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے انہوں نے کفارِ مکہ کی نمائندگی کی تھی۔ یہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔
(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ441الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)
(تاریخ الطبری جلد2صفحہ333 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(اسد الغابہ جلد2 صفحہ585-586 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کے لیے جھنڈا باندھا تو ربیعہ بن عامر کو بلایا اور ان کے لیے بھی ایک جھنڈا باندھا اور انہیں فرمایا کہ تم یزید بن ابوسفیان کے ساتھ جاؤ گے۔ ان کی نافرمانی اور مخالفت نہ کرنا۔ پھر آپؓ نے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ سے فرمایا اگر تم اپنے مقدمة الجیش کی نگرانی ربیعہ بن عامر کے سپرد کرنا مناسب سمجھو تو ضرور ایسا کرنا۔ ان کا شمار عرب کے بہترین شہسواروں اور تمہاری قوم کے صلحاء میں سے ہوتا ہے اور میں بھی امید رکھتا ہوں کہ یہ اللہ کے نیک بندوں میں سے ہیں۔ اس پر حضرت یزیدؓ نے عرض کیا کہ ان کے بارے میں آپؓ کے حسن ظن اور ان کے متعلق آپؓ کی امید نے میرے دل میں ان کی محبت کو اَور زیادہ بڑھا دیا ہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ ان کے ساتھ پیدل چلنے لگے تو حضرت یزیدؓ نے کہا کہ اے خلیفة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم! یا تو آپؓ بھی سوار ہو جائیں یا مجھے اجازت دیں کہ میں بھی آپؓ کے ساتھ پیدل چلنا شروع کر دوں کیونکہ میں ناپسند کرتا ہوں کہ خود تو سوار ہوں اور آپؓ پیدل چلیں۔ اس پر
حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: نہ تو میں سوار ہوں گا اور نہ ہی تم سواری سے نیچے اترو گے۔ میں اپنے ان قدموں کو اللہ کی راہ میں اٹھتے ہوئے سمجھتا ہوں۔
پھر آپؓ نے حضرت یزید کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے یزید! میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے، اس کی اطاعت کرنے، اس کی خاطر ایثار کرنے اور اس سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔ جب دشمن سے تمہاری مڈھ بھیڑ ہو اور اللہ تمہیں فتح نصیب کرے تو تم خیانت نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا یعنی لوگوں کی، مقتولوں کی شکلیں نہ بگاڑنا اور تم بدعہدی نہ کرنا اور نہ ہی بزدلی دکھانا اور کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ کھجور کے درخت کو جلانا اور نہ ہی انہیں تباہ و برباد کرنا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔ تم کسی جانور کو ذبح نہ کرنا سوائے کھانے کے لیے۔ بلاوجہ جانوروں کو بھی ذبح نہیں کرنا یا مارنا نہیں۔ اور تم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اللہ کے لیے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہو گا،پس تم انہیں اور اس چیزکو جس کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہو گا چھوڑ دینا۔ یعنی جو راہب ہیں، گرجوں کے پادری ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا اور تم کچھ ایسے لوگوں کو بھی پاؤ گے کہ شیطان نے ان کے سر کے بال درمیان سے صاف کیے ہوں گے۔ ان کے سروں کا درمیانی حصہ اس طرح ہو گا جیسے تیتر نے انڈے دینے کے لیے زمین میں گڑھا کھودا ہو۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے سر کے بال درمیان سے صاف کیے ہوں گے اور چاروں طرف سے پٹیوں کی مانند بال چھوڑے ہوں گے۔ پس تم ان کے سروں کے صاف کیے ہوئے حصوں پر تلوار سے ضرب لگانا۔ ان لوگوں کو جو مارنے کا حکم ہے، ان لوگوں کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ یہ عیسائیوں کا ایک گروہ تھا جو راہب تو نہیں تھے لیکن مذہبی لیڈر تھے جو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے بھڑکاتے رہتے تھے اور جنگ میں حصہ بھی لیتے تھے۔ اس لیے حضرت ابوبکرؓنے یہ تو فرمایا کہ جو راہب ہیں، گرجوں کے اندر ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا لیکن ایسے لوگ اور ان لوگوں کے پیچھے چلنے والے وہ لوگ ، جو جنگ کے لیے بھڑکاتے ہیں اور مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں، ان سے بہرحال جنگ کرنی ہے کیونکہ یہ لوگ جنگ کرنے والے بھی ہیں اور جنگ کے لیے بھڑکانے والے بھی ہیں۔ فرمایا کہ ان سے جنگ کرنی ہے یہاں تک کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں یا بے بس ہو کر جزیہ دیں۔
جو اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ غیب سے اس کی مدد کرتا ہے۔
اور میں تمہیں سلام کہتا ہوں اور اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔
(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہؐ… جلد2 جزء1صفحہ 117-118عالم الکتب بیروت 1997ء)
(ماخوذ از تاریخ طبری جلد دوم صفحہ 246 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ایک اَور روایت میں ان کے علاوہ مزید ہدایت کا بھی ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کو فرمایا میں نے تمہیں والی مقرر کیا تا کہ تمہیں آزماؤں، تمہارا تجربہ کروں اور تمہیں باہر نکال کر تمہاری تربیت کروں۔ اگر تم نے اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کیے تو تمہیں دوبارہ تمہارے کام پر مقرر کروں گا اور تمہیں مزید ترقی دوں گا۔ اگر تم نے کوتاہی کی تو تمہیں معزول کر دوں گا۔ اللہ کے تقویٰ کو تم لازم پکڑو۔ وہ تمہارے باطن کو اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح ظاہر کو دیکھتا ہے۔ فرمایا کہ لوگوں میں خدا کے زیادہ قریب وہ ہے جو اللہ سے دوستی کا سب سے بڑھ کر حق ادا کرنے والا ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ شخص ہے جو اپنے عمل کے ذریعہ سب سے زیادہ اس سے قربت حاصل کرے۔ میں نے خالد بن سعید کی جگہ تم کو مقرر کیا ہے۔ جاہلی تعصّب سے بچنا۔ اللہ کو یہ باتیں اور ایسا کرنے والا انتہائی ناپسند ہیں۔ جب تم اپنے لشکر کے پاس پہنچو تو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔ ان کے ساتھ خیر سے پیش آنا اور ان کو خیر کا وعدہ دلانا اور جب انہیں وعظ و نصیحت کرنا تو مختصر کرنا کیونکہ بہت زیادہ گفتگو بہت سی باتوں کو بھلا دیتی ہے۔ تم اپنے نفس کو درست رکھو، لوگ تمہارے لیے درست ہو جائیں گے۔ لیڈر اپنے آپ کو ٹھیک رکھیں تو لوگ خود درست ہو جائیں گے۔ اور نمازوں کو ان کے اوقات پر رکوع و سجود کو مکمل کرتے ہوئے ادا کرنا، ان میں خشوع و خضوع کا مکمل اہتمام کرنا اور جب دشمن کے سفیر تمہارے پاس آئیں تو ان کا اکرام کرنا۔ سفیر آتا ہے تو اس کی عزت کرنی ہے۔ انہیں بہت کم ٹھہرانا اور تمہارے لشکر سے جلد نکل جائیں تا کہ وہ اس لشکر کے بارے میں کچھ جان نہ سکیں۔ یہ بھی حکمت ہے کہ سفیر آئیں تو ان کو کم سے کم ٹھہراؤ اور جلدی رخصت کر دو۔ اور اپنے امورپر ان کو مطلع نہ ہونے دینا کہ انہیں تمہاری خرابی کا پتہ چل جائے اور وہ تمہاری معلومات حاصل کر لیں۔ انہیں اپنے لشکر کے جمگھٹے میں رکھنا۔ اپنے لوگوں کو ان سے بات کرنے سے روک دینا۔ جب تم خود ان سے بات کرو تو اپنے بھید کو ظاہر نہ کرنا ورنہ تمہارا معاملہ خلط ملط ہو جائے گا۔ جب تم کسی سے مشورہ لینا تو بات سچ کہنا، صحیح مشورہ ملے گا۔ مشیر سے اپنی خبر مت چھپانا ورنہ تمہاری وجہ سے تمہیں نقصان پہنچے گا۔
یہ بھی ایک اصول ہے کہ جس سے مشورہ لینا ہے اس کو پھر ہر باریک بات بھی بتانی پڑتی ہے تا کہ وہ صحیح مشورہ دے سکے اور کم سے کم نقصان ہو۔
رات کے وقت اپنے دوستوں سے باتیں کرو تمہیں بہت سی خبریں مل جائیں گی اور رات کو معلومات اکٹھی کرو تو پوشیدہ باتیں تم پر ظاہر ہو جائیں گی۔ حفاظتی دستہ میں زیادہ افراد کو رکھنا اور انہیں اپنی فوج میں پھیلا دینا اور اکثر بغیر اطلاع دیے اچانک ان کی چوکیوں کا معائنہ کرنا۔ جسے اپنی حفاظت گاہ سے غافل پاؤ اس کی اچھی طرح تادیب کرنا اور سزا دیتے ہوئے افراط سے کام نہ لینا۔ رات میں ان کی باریاں مقرر کرنا۔ اول شب کی باری آخری شب سے لمبی رکھنا کیونکہ دن سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ باری آسان ہوتی ہے۔ شروع رات کی جو ڈیوٹی ہے وہ لمبی رکھو کیونکہ اس میں جاگنا آسان ہے اور آخری رات کی جو ڈیوٹی ہے وہ ذرا کم ہو۔ سزا کے مستحق کو سزا دینے سے مت ڈرنا۔ اس میں نرمی نہ کرنا۔سزا دینے میں جلدی نہ کرنا اور نہ بالکل نظر انداز کرنا۔ پھر فرمایا کہ اپنی فوج سے غافل نہ رہنا کہ وہ خراب ہو جائیں اور ان کی جاسوسی کر کے ان کو رسوا نہ کرنا۔ ان کی راز کی باتیں لوگوں سے نہ بیان کرنا۔ ان کے ظاہر پر اکتفا کرنا۔ بیکار قسم کے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھنا۔ سچے اور وفادار لوگوں کے ساتھ بیٹھنا۔ دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت ڈٹ جانا۔ بزدل نہ بننا ورنہ لوگ بھی بزدل ہو جائیں گے۔ مالِ غنیمت میں خیانت سے بچنا؛ یہ محتاجی سے قریب کرتی ہے اور فتح و نصرت کو روکتی ہے۔ تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہو گا۔ پس تم انہیں اور جس کام میں انہوں نے اپنے آپ کو مشغول رکھا ہوگا اسے چھوڑ دینا۔
(ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ253-254 دارالکتب العلمیة بیروت 2006ء)
تو یہ ایک مکمل لائحہ عمل ہے جو ہر لیڈر کے لیے، ہر عہدے دار کے لیے،
کام کرنے کے لیے، عمل کرنے کے لیے بڑا ضروری ہے۔
اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزیدؓ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں الوداع کرتے ہوئے فرمایا:
تم پہلے شخص ہو جسے میں نے مسلمانوں کے معززین پر امیر مقرر کیا ہے جو نہ تو کم حیثیت کے لوگ ہیں نہ کمزور، نہ گھٹیا، نہ مذہبی تشدد رکھنے والے ہیں۔
پس تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اوران کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا اور اپنا بازو ان پر جھکائے رکھنا اور ان سے اہم معاملات میں مشورہ کرنا،حسن سلوک کرنا۔ اللہ تمہارے لیے تمہارے ساتھیوں کو حسن سلوک کرنے والا بنائے۔ اور پھر فرمایا کہ ہماری خلافت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مدد فرمائے۔
پھر حضرت یزیدؓ اپنے لشکر کولے کر شام کی طرف روانہ ہو گئے۔
حضرت ابوبکرؓ ہر صبح شام نمازِ فجر اور عصر کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے
کہ اے اللہ !تُو نے ہمیں پیدا کیا ہم کچھ بھی نہ تھے۔ پھر تُو نے اپنی جناب سے رحمت اور فضل نازل کرتے ہوئے ہماری طرف ایک رسولؐ بھیجا۔ پھر تُو نے ہمیں ہدایت دی جبکہ ہم گمراہ تھے اور تُو نے ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی جبکہ ہم کافر تھے۔ ہم تعداد میں تھوڑے تھے اور تُو نے ہمیں زیادہ کیا۔ ہم پراگندہ تھے، تُو نے ہمیں اکٹھا کر دیا۔ ہم کمزور تھے ،تُو نے ہمیں طاقت بخشی۔ پھر تُو نے ہم پر جہاد فرض کیا اور ہمیں مشرکین سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللّٰہ کا اقرار کر لیں اور وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور وہ بے بس ہو چکے ہوں۔یا تو مسلمان ہو جائیں یا اگر مسلمان نہیں ہوتے تو پھر جزیہ ادا کریں۔ اے اللہ! ہم تیرے اس دشمن سے جہاد کے بدلے تیری خوشنودی کے خواہاں ہیں جس نے تیرے ساتھ شریک ٹھہرایا اور تیرے سوا اَور معبودوں کی عبادت کی۔ اے اللہ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ ظالم جو کہتے ہیں تیری شان اس سے بہت بلند ہے۔ اے اللہ! اپنے مشرک دشمنوں کے مقابلے میں اپنے مسلمان بندوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! انہیں آسان فتح نصیب فرما اور ان کی بھرپور مدد کر۔ ان میں سے جو کم ہمت ہیں انہیں بہادر بنا دے اور ان کے قدموں کو ثبات بخش اور ان کے دشمنوں کو لڑکھڑا دے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان کو تباہ و برباد کر دے اور انہیں جڑ سے کاٹ ڈال اور ان کی کھیتیوں کو تباہ کر دے اور ہمیں ان کی زمینوں، ان کے گھروں، ان کے اموال اور ان کے نشانات کا وارث بنا اور تُو ہمارا ولی اور ہم پر مہربان ہو جا۔ اور ہمارے معاملات کو درست کر دے۔ تیری نعمتوں سے حصہ پانے کے لیے ہمیںشکر گزار لوگوں میں سے بنا دے۔ تُو ہمیں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بھی بخش دے۔ ان میں سے جو زندہ ہیں ان کو بھی اور جو وفات پا چکے ہیں ان کو بھی۔ اللہ ہمیں اور تمہیں دنیا اور آخرت میں قول ثابت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہنے والا بنائے۔ یقیناً وہ مومنوں کے ساتھ بہت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہؐ… جلد2 جزء1صفحہ118-119عالم الکتب بیروت 1997ء)
دوسرا لشکر جو تھا شُرَحْبِیل بن حَسَنہؓ کا تھا۔
حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کے والد کا نام عبداللہ بن مُطَاع اور والدہ کا نام حَسَنہ تھا۔ آپ کی کنیت ابوعبداللہ تھی اور حضرت شرحبیلؓ کے والد ان کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور یہ اپنی والدہ حسنہ کے نام پر شرحبیل بن حسنہ کہلائے۔ حضرت شرحبیلؓ ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ خلافتِ راشدہ میں یہ مشہور سپہ سالاروں میں سے ایک تھے۔ اٹھارہ ہجری میں سڑسٹھ سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔
(ماخوذاز اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد2 صفحہ619-620، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کی روانگی کے لیے حضرت ابوبکرؓنے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کی روانگی کے تین دن بعد کی تاریخ مقرر فرمائی۔ جب تیسرا دن گزر گیا تو آپ نے حضرت شرحبیل کو الوداع کہا اور فرمایا، اے شرحبیل! کیا تم نے یزید بن ابوسفیان کو جو وصیت میں نے کی اس کو نہیں سنا۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ پہلے میں نے سنی ہیں (جو نصیحتیں مَیں نے پڑھی ہیں)۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا، میں تمہیں اسی کی مانند وصیت کرتا ہوں اور ان باتوں کی بھی وصیت کرتا ہوں جن کا ذکر یزید کو کرنا بھول گیا تھا۔
میں تمہیں نماز وقت پر ادا کرنے کی وصیت کرتا ہوں
اور جنگ کے روز ثابت قدم رہنے کی یہاں تک کہ تم فتح حاصل کر لو یا شہید ہو جاؤ اور مریضوں کی عیادت کرنے اور جنازوں میں شامل ہونےاور ہر حال میں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ ابوسفیان نے آپؓ سے عرض کیا کہ یزید ان صفات پر پہلے ہی کاربند ہے اور شام جانے سے قبل ہی اس پر دوام اختیار کیے ہوئے تھا۔ اب وہ اس کو زیادہ لازم کر لے گا ان شاء اللہ۔ حضرت شرحبیلؓ نے جواب دیا: اللہ سے مدد مانگتے ہیں جو اللہ چاہے گا وہی ہو گا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کو الوداع کہا اور اپنے لشکر کے ساتھ جانبِ شام روانہ ہو گئے۔ حضرت شرحبیلؓ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سے چار ہزار تک تھی۔ آپ کو یہ حکم فرمایا کہ تبوک اور بَلْقَاءجائیں اور پھربُصْریٰ کا رخ کریں اور یہ آخری منزل ہو۔بُصریٰ شام کا ایک قدیم اور مشہور شہر ہے۔ حضرت شرحبیلؓ بَلْقَاءکی طرف روانہ ہو گئے۔کوئی قابل ذکر مقابلہ نہ ہوا۔ بَلْقَاءبھی شام کے علاقہ میں واقع ہے آپ کا لشکر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کے بائیں اور لشکر عمرو بن عاص کے دائیں جانب چلتے ہوئے بَلْقَاءپہنچا اور اندر گھس گیا اوربُصریٰ پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا لیکن فتح حاصل نہ ہو سکی کیونکہ یہ رومیوں کے محفوظ اور مضبوط مراکز میں سے تھا۔
(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد الصلابی، مترجم صفحہ446-447الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ پاکستان)
(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہؐ…… جلد2 جزء1صفحہ120عالم الکتب بیروت 1997ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ58، 61 زوار اکیڈمی کراچی)
تیسرا لشکر ابوعبیدہ بن جَرَّاحْ کا تھا۔
حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کا نام عامر بن عبداللہ تھا اور ان کے والد کا نام عبداللہ بن جراح تھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ اپنی کنیت کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں جبکہ آپؓ کے نسب کو آپ کے دادا جَرَّاح سے جوڑا جاتا ہے۔ آپ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔ جنہیں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔ ان کی وفات اٹھارہ ہجری میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر اٹھاون سال تھی۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جزء ثالث صفحہ475، عامر بن عبد اللّٰہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 2005ء)
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد ثالث صفحہ126، عامر بن عبد اللّٰہ، دارالکتب العلمیۃ 2008ء)
(استیعاب جلد دوم صفحہ343 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
تیسرا لشکر جو حضرت ابوبکرؓ نے شام کی جانب روانہ کیا جیساکہ میں نے کہا اس کے امیر حضرت ابوعبیدہؓ تھے۔ ان کو حِمص کی جانب روانہ فرمایا ہے۔ حِمص بھی دمشق کے قریب شام کا ایک قدیم شہر ہے اور بڑا شہر تھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ کے لشکر کی تعداد سات ہزار تھی جبکہ ایک روایت کے مطابق آپ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سے چار ہزار تک تھی۔ حضرت ابوعبیدہؓ راستے میں گزرتے ہوئے بلقاء کی ایک بستی مَآبْکے پاس سےگزرے۔ یہ کوئی شہر نہیں تھا بلکہ خیموں کی ایک بستی تھی۔ وہاں کے لوگوں سے آپ کی جنگ ہوئی مگر پھر ان لوگوں نے آپ سے صلح کی درخواست کی جس پرآپ نے ان کے ساتھ صلح کر لی۔ یہ سب سے پہلی صلح تھی جو شام کے علاقے میں ہوئی۔
(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد2 صفحہ341،333 دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
(سیدنا ابوبکر صدیقؓ از صلابی صفحہ447)
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ کے ساتھ قیس بن ھُبَیْرَہ کو بھی روانہ فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کے متعلق ابوعبیدہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
تمہارے ساتھ عرب کے شہسواروں میں سے
ایک عظیم شرف و منزلت کا شخص ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ جہاد کے معاملے میں اس سے بڑھ کر کوئی نیک نیت ہو۔ اس کی رائے اور مشورے سے اور جنگی قوت سے مسلمان بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ اس کو اپنے سے قریب رکھنا اور اس کے ساتھ لطف و کرم کا برتاؤ کرنا اور اسے یہ محسوس کرانا کہ تم اس سے بےنیاز نہیں ہو۔ اس سے تمہیں اس کی خیر خواہی حاصل رہے گی اور دشمن کے مقابلے میں اس کی کوششیں تمہارے ساتھ ہوں گی۔ حضرت ابوعبیدہؓ وہاں سے چلے گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے قَیس بن ھُبَیْرَہ کو بلایا اور فرمایا تمہیں ابوعبیدہ امینِ امت کے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ ان پر اگر ظلم کیا جائے تو وہ اس کے بدلے میں ظلم نہیں کرتے اور اگر ان کے ساتھ بدسلوکی کی جائے تو معاف کر دیتے ہیں اور ان سے تعلق توڑا جائے تو اس کو جوڑنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ مومنوں کے ساتھ بڑے رحیم ہیں اور کفار کے مقابلے میں سخت ہیں۔ تم ان کی حکم عدولی نہ کرنا اور یہ تمہیں خیر ہی کا حکم دیں گے۔ میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہاری بات سنیں۔ لہٰذا تم انہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے مشورہ دینا۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ تم شرک اور دور جاہلیت میں جنگ کے تجربہ کار سردار ہو جبکہ جاہلیت میں گناہ اور کفر پایا جاتا تھا۔ لہٰذا تم اپنی قوت اور بہادری کو اسلام کی حالت میں کافروں اور ان لوگوں کے خلاف استعمال میں لاؤ جنہوں نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اجر عظیم اور مسلمانوں کے لیے عزت و غلبہ رکھا ہے۔ یہ نصیحت سن کر قیس بن ھُبَیْرَہ نے عرض کیا، اگر آپ زندہ رہے اور میں بھی زندہ رہا تو آپ کو میرے بارے میں مسلمانوں کی حفاظت اور مشرکوں کے خلاف جہاد کی ایسی خبریں پہنچیں گی جو آپ کو پسندیدہ ہوں گی اور آپ کو خوش کر دیں گی۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تم جیسا شخص ہی ایسا کر سکتا ہے اور جب ابوبکرؓ کو جَابِیَہ میں (رومیوں کے) دو کمانڈروں کے ساتھ ان کی مبارزت اور ان دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا قیس نے سچ کر دکھایا اور اپنا وعدہ پورا کر دیا۔
(تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر الجزء52 ذکر قیس بن ھبیرة المکشوح، صفحہ336۔337 دار احیاءالتراث العربی بیروت 2001ء)
یہ ذکر باقی ہے اور آئندہ چلتا رہے گا۔
اس وقت میں
ایک شہید کا بھی ذکر
کرنا چاہتا ہوں۔ ایک
ہمارے شہید نصیر احمد صاحب
ہیں جو عبدالغنی صاحب کے بیٹے تھے۔ ربوہ میں دارالرحمت شرقی میں رہتے تھے۔ بارہ اگست کو ایک معاندِ احمدیت نے خنجروں کے وار کر کے ان کو شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
تفصیلات کے مطابق نصیر احمد صاحب بس سٹاپ پر اپنے ایک اخبار فروش دوست کے پاس رکے تو ایک مذہبی جنونی حافظ شہزاد حسن وہاں آ گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ احمدی ہیں جس پر نصیر احمد صاحب نے جواباً کہا کہ میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ اس پر مذکورہ شخص نے جماعت مخالفانہ نعرے بازی کا مطالبہ کیا۔ انکار پر اپنے تھیلے سے خنجر نکال کر نعرے لگاتے ہوئے نصیر احمد صاحب پر متعدد وار کیے اور چند سیکنڈ میں اتنے وار کیے کہ وہ جان لیوا ثابت ہوئے۔ بہرحال خنجر کے متعدد واروں کی تاب نہ لاتے ہوئے یہ شہید ہو گئے۔ ان کی عمر شہادت کے وقت باسٹھ سال تھی۔ وقوعہ کے بعد قاتل نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھے اس فعل پر کوئی شرمندگی نہیں ہے اور آئندہ بھی موقع ملا تو اس کام سے گریز نہیں کروں گا۔ یہ سارا واقعہ جو ہوا ہے ایک دو منٹ میں بلکہ ایک منٹ کے اندر اندر ہی ہوا اور کہتے ہیں کہ ڈھائی تین منٹ کے اندر اندر ان کو ہسپتال بھی پہنچا دیا تھا لیکن بہرحال اللہ کو یہی منظور تھا اور جو بھی وار تھے وہ جان لیوا ثابت ہوئے اور شہید ہوئے۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ شہید مرحوم کے دادا مکرم فیروز دین صاحب آف رائے پور، ضلع سیالکوٹ ،کے ذریعہ ہوا جنہوں نے 1935ء میں خلافت ثانیہ میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ پرائمری تعلیم کے بعد انہوں نے آگے پڑھائی نہیں کی اور اپنے آبائی پیشہ زمیندارہ سے منسلک ہو گئے۔ پھر دس سال پہلے یہ باہر بھی کچھ عرصہ رہے۔ ملائیشیا وغیرہ میں ملازمت کرتے رہے پھر پاکستان آ گئے۔ دس سال پہلے یہ رائے پور ضلع سیالکوٹ سے ربوہ شفٹ ہوئے۔ آج کل فارغ تھے۔ کوئی کام نہیں کر رہے تھے۔ دل کے مریض بھی تھے۔ زیادہ وقت محلہ کی سطح پر جماعتی خدمات میں گزارتے تھے۔ اس وقت بھی مجلس انصار اللہ میں بطور منتظم ایثار اور محصل شعبہ مال خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ محلے میں ہر کسی کی مدد بالخصوص یتامیٰ اور غریبوں کی مدد کے لیے ہر دم تیار رہتے۔ مسجد کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھتے۔ نہایت دیانت دار، محنتی، ملنسار اور دلیر انسان تھے۔ ان کی ٹانگ میں چوٹ لگنے کی وجہ سے فریکچر ہو گیا تھا اس کی وجہ سے چلنے میں بھی دقت تھی لیکن اس کے باوجود بھی رات کے وقت جماعتی طور پر اگر ڈیوٹی اور پہرے کے لیے بلایا جاتا تو حاضر ہو جاتے۔ خطبہ سننے کا باقاعدہ انتظام تھا۔ نمازوں کی ادائیگی کا بالخصوص اہتمام کرتے اور اپنے محلے میں جائزہ بھی لیتے۔ خلافت سے ان کا والہانہ عشق تھا۔ نماز فجر کے بعد ایک گھنٹہ موبائل فون پر تلاوت سماعت کرنا ان کا روزانہ کا معمول تھا اور تقریباً روزانہ دعا کے لیے بہشتی مقبرے بھی جاتے تھے۔ اور صدر محلہ کہتے ہیں کہ جب بھی جماعتی کام کے لیے ضرورت پڑی شہید مرحوم فوراً حاضر ہوتے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے انکار کیا ہو۔
مرحوم کی بیٹی مبارکہ صاحبہ کہتی ہیں کہ شہادت سے چند دن قبل انہوں نے خواب میں دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے اور صدمہ کا ماحول ہے جس پر صدقہ بھی دیا گیا۔ شہید مرحوم گذشتہ کچھ عرصہ سے خود بھی بار بار اظہار کرتے تھے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرا وقت کم رہ گیا ہے۔
ان کی اہلیہ پروین اختر صاحبہ کے علاوہ تین بیٹیاں ہیں جو ان کی یادگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
ان کے بھائی تنویر اختر صاحب کہتے ہیں کہ ظاہری تعلیم اور جماعت کے متعلق اگرچہ علم اتنا نہیں تھا لیکن بچپن سے ہی جماعت کے لیے بےحد غیرت تھی اور خلافت سے بے انتہا پیار تھا۔ ایک سادہ دل اور بے نفس انسان تھا اور دوسروں کو خوش دیکھ کر خوشی پاتا تھا۔ لاہور سے عیدوں کے موقع پر گھر آتے تو بہت سا کھانے پینے کا سامان لے کر آتے اور ہمیشہ بہت اچھے نئے کپڑے اپنے لیے سلائی کروا کے لاتے اور کہتے ہیں کہ صرف عید کے روز پہنتے اور پھر وہ سوٹ کیونکہ میں واقف زندگی تھا تو مجھے دے دیا کرتے تھے اور میرا پرانا سوٹ لے لیتے تھے۔ ان کے بھتیجے کہتے ہیں کہ فون ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے کہ جماعت میں سے کسی کو مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اگر فون پاس نہ ہوا تو رابطہ کس طرح ہو گا۔ رات کے اوقات میں بھی فون بجتا تو فوراً اٹھ کر جماعتی خدمت کے لیے تیار ہو جاتے۔ ربوہ کے کونے کونے میں بھی مدد کے لیے جانا پڑتا تو جاتے۔ خون کے عطیات کے لیے ہمیشہ تیار رہتے اور اس طرح بےشمار لوگوں کی جانیں بچانے کا سبب بنے۔ دل کی بیماری کی آپ نے کبھی پروا نہیںکی۔ آپ کے نزدیک ضرورتمندوں کی امداد کرنا اخلاقی فرض تھا جس کی اہمیت آپ کی بیماری سے زیادہ آپ کو تھی۔
اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور پسماندگان کا بھی حامی و ناصر ہو۔ ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی ان کی اولاد کو بھی توفیق دے۔
نماز کے بعد میں ان شاء اللہ ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 9؍ستمبر 2022ء صفحہ 5تا10)