• 22 جولائی, 2025

کیا انجیل شریعت کی کتاب ہے؟

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت نبی تھے۔ اگر مرزا صاحبؑ ان کے مثیل ہونے کے مدعی ہیں تو پھر انہیں بھی صاحب شریعت نبی ہونا چاہئے اور قرآن کو، نَعُوْذُ بِاللّٰہِ، منسوخ کرکے اپنی شریعت پیش اور جاری کرنی چاہئے۔ یہ استدلال اور اس کی بنیاد قرآن اور تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہودونصاریٰ ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ ان کے ہاں شریعت کی تین کتابیں، تورات، زبور، اور انجیل نہیں، جیسا کہ غلط طور پر لوگوں میں مشہور ہے، بلکہ ایک ہی کتاب یعنی تورات ہے۔

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ وَّ ہُمۡ یَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ مِثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ۚ فَاللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۱۱۴﴾

(البقرہ: 114)

اور یہود کہتے ہیں کہ نصارٰی (کی بنا) کسی چیز پر نہیں اور نصارٰی کہتے ہیں کہ یہود (کی بنا) کسی چیز پر نہیں حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی جو کچھ علم نہیں رکھتے ان کے قول کے مشابہ بات کی۔ پس اللہ قیامت کے روز اُن کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہودونصاریٰ کو اکٹھا مخاطب فرماتے ہوئے ہمیشہ انہیں ’’اہل کتاب‘‘ کہتا ہے۔ اگر ان کے ہاں تین کتابیں ہوتیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اہل کتاب کی بجائے اہل الکتب کہہ کر مخاطب فرماتا۔

اللہ تعالیٰ نے مزید صراحت کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن سے پہلے ایک ہی کتاب تھی اور وہ تھی موسیٰ علیہ السلام کی کتاب یعنی تورات :

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ وَ یَتۡلُوۡہُ شَاہِدٌ مِّنۡہُ وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً ؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ مِنَ الۡاَحۡزَابِ فَالنَّارُ مَوۡعِدُہٗ ۚ فَلَا تَکُ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡہُ ٭ اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۸﴾

(ھود: 18)

پس کیا وہ جو اپنے ربّ کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہے اور اس کے پیچھے اس کا ایک گواہ آنے والا ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بطور امام اور رحمت موجود ہے (وہ جھوٹا ہو سکتا ہے؟) یہی (اس موعود رسول کے مخاطبین بالآخر) اسے مان لیں گے۔ پس جو بھی احزاب میں سے اس کا انکار کرے گا تو آگ اس کا موعود ٹھکانا ہوگی۔ پس اس بارہ میں تُو کسی شک میں نہ رہ۔ یقیناً یہی تیرے ربّ کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

اور تورات کے بعد ایک ہی کتاب ہے یعنی قرآن۔

قَالُوۡا یٰقَوۡمَنَاۤ اِنَّا سَمِعۡنَا کِتٰبًا اُنۡزِلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ یَہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ وَ اِلٰی طَرِیۡقٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۳۱﴾

(الاحقاف: 31)

انہوں نے کہا اے ہماری قوم! یقیناً ہم نے ایک ایسی کتاب سنی جو موسیٰ کے بعد اتاری گئی۔ وہ اس کی تصدیق کر رہی تھی جو اس کے سامنے تھا۔ وہ حق کی طرف اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دے رہی تھی۔

دونوں اطراف یعنی پہلے اور بعد کی بات وضاحت سے پیش فرما کر اللہ نے بتادیا کہ یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ آسمان سے چار کتابیں نازل ہوئیں: تورات، زبور، انجیل، اور قرآن یہ بات غلط ہے۔

سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا غیر تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ وضاحت و صراحت سے آپ کی کتب میں موجود ہے اور یہاں بھی پیش کیا جاچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت یعنی تورات کے تابع اور اس کے خادم نبی تھے اور اسی کو زندہ کرنے آئے تھے:
’’اور صوفیوں نے اس طرح آخر الزمان کے مہدی کو عیسیٰ ٹھہرایا ہے کہ وہ شریعت محمدیہ کی خدمت کے لئے اُسی طرز اور طریق سے آئے گا جیسے عیسیٰ شریعت موسویہ کی خدمت اور اتباع کے لئے آیا تھا۔‘‘

(ازالۂ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ414)

’’مسیح ابن مریم تلوار یا نیزہ کے ساتھ نہیں بھیجا گیا تھا اور نہ اس کو جہاد کا حکم تھا بلکہ صرف حجت اور بیان کی تلوار اس کو دی گئی تھی تا یہودیوں کی اندرونی حالت درست کرے اور توریت کے احکام پر دوبارہ ان کو قائم کر دے۔‘‘

(ازالۂ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ448)

’’میں کہتا ہوں کہ کیا حضرت موسیٰ ؑ مسیؑح سے بڑھ کر نہیں جن کے لئے بطور تابع اور مقتدی کے حضرت مسیح آئے اور ان کی شریعت کے تابع کہلائے۔‘‘

(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد6 صفحہ251)

’’عیسیٰ صرف اور نبیوں کی طرح ایک نبی خدا کا ہے اور وہ اس نبی معصوم کی شریعت کا ایک خادم ہے جس پر تمام دودھ پلانے والی حرام کی گئی تھیں‘‘

(نورالحق الحصّۃ الاولیٰ، روحانی خزائن جلد8 صفحہ68)

’’یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ حضرت موسیٰ کی وفات پر چودھویں صدی گزر رہی تھی اور اسرائیلی شریعت کے زندہ کرنے کے لئے مسیح چودھویں صدی کا مجدد تھا۔‘‘

(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد15 صفحہ29)

’’اور عوام جو باریک باتوں کو سمجھ نہیں سکتے ان کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے دو رسول ظاہر کرکے ان کو دو مستقل شریعتیں عطا فرمائی ہیں۔ ایک شریعت موسویہ۔دوسری شریعت محمدیہ۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ192)

’’اب سوچ کر دیکھ لو کہ ان تینوں کاموں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ذرّہ بھی مناسبت نہیں۔ نہ وہ پیدا ہوکر یہودیوں کے دشمنوں کو ہلاک کرسکے اور نہ وہ ان کے لئے کوئی نئی شریعت لائے اور نہ انہوں نے بنی اسرائیل یا ان کے بھائیوں کو بادشاہت بخشی۔ انجیل کیا تھی وہ صرف توریت کے چند احکام کا خلاصہ ہے جس سے پہلے یہود بے خبر نہیں تھے گو اس پر کاربند نہ تھے۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ300)

ابن خلدون کا بھی یہی خیال ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو شریعت محمدیہ سے وہی نسبت ہوگی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شریعت موسویہ سے تھی۔ یعنی دونوں غیر تشریعی نبی ہیں اور اپنے سے پہلے نبی کی شریعت کے احیاء کے ذمہ دار ہیں۔

’’قال ابن أبی واطیل: وما ورد من قولہ ’’لا مھدي إلا عیسی‘‘ فمعناہ: لا مھدي تساوي ھدایتہ ولایتہ۔۔۔قلت: و علیہ حمل بعض المتصوفۃ حدیث لا مھدي إلا عیسی أي لا یکون مھدي إلا المھدي الذي نسبتہ إلی الشریعۃ المحمدیۃ نسبۃ عیسی إلی الشریعۃ الموسویۃ في الاتباع و عدم النسخ‘‘

(تاریخ ابن خلدون۔ الفصل الثاني و الخمسون)

ابن ابی واطیل کہتے ہیں کہ اس قول کہ عیسیٰ کے سوا کوئی مہدی نہیں کا یہ معنی ہے کہ کوئی مہدی ان کے ساتھ ہدایت و ولایت میں برابر نہیں ہوسکتا۔ میں (ابن خلدون) کہتا ہوں کہ بعض صوفیاء نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ کوئی مہدی نہیں سوائے اس مہدی کے جسے شریعت محمدیہ سے اس کی پیروی کرنے اور منسوخ نہ کرنے میں وہی نسبت ہوگی جو عیسیٰ کو شریعت موسویہ سے تھی

(انصر رضا۔ واقفِ زندگی، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

خطباتِ امام کوئز جامعۃ المبشرین گھانا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اکتوبر 2021