• 19 اپریل, 2024

اطاعت کا مقام و مرتبہ اور شیریں ثمرات

آنحضور ﷺ کی بابرکت حیات ِمبارکہ اور خلفائے راشدین کے دور میں مسلمانوں نے اپنے خالق و مالک مولا کریم کی اطاعت اختیار کرتے ہوئے اُسوۂ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں بے مثال اور حیرت انگیز دینی اور دُنیوی ترقیات حاصل کیں وہ ایک اشارہ پہ اپنا سب کُچھ فدا کرنے پر تیار ہوتے تھے اور اُنہوں نے اطاعت میں مسابقت کی انمٹ تاریخیں رقم کیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ اطاعت کا معیار کمزور پڑتا گیا اور اسلام بتدریج انتہائی کمزوری کی حالت کو پہنچ گیا۔ تب چودھویں صدی میں رسولِ کریم ﷺ کی پیش گوئیاں جو اللہ تعالیٰ سے خبر پاکرکی گئی تھیں پوری ہوئیں اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کیلئے امام ِ مہدی علیہ السلام دُنیا میں تشریف لائے جن کا مشن انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے جوئے کے نیچے لانا تھا۔ انہی پیش گوئیوں کے مطابق لوگوں کی ایک بڑی اکثریت نے مخالفت میں بھر پور زور مارا اور لوگوں کو امام مہدی علیہ السلام سے دور رکھنے کی کوششوں میں سر دھڑ کی بازی لگا دی عین اُسی طرح جسطرح آنحضور ﷺ کے دور میں مخالفینِ اسلام نے کیا۔ اِن مخالفین نے پہلے مخالفین کی طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی بجائے ابلیس کی خصلت اپنائی اور دوسروں کو اپنا ہمنوا بنانے اور ابلیس کے ٹولے میں شامل کرنے کی کوششیں کیں اور مخالفین آج بھی انہی مذموم کوششوں میں اپنی جانیں ہلکان کر رہے ہیں،جبکہ نیک فطرت اور سعید روحیں مہدیٔ موعود ؑ کی جماعت میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیار کرتی جارہی ہیں۔

محبوب و مقبولِ الٰہی بننے کا گُر

اطاعت گزاروں کے اس خوش نصیب گروہ میں جس کا اطاعت کا معیار جتنا بلند ہو گا اُسی نسبت سے وہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ محبوب اور مقبول بنتا جائے گا۔ اس مقدس قافلہ میں آغاز سے ہی اطاعت کے ایسے بیمثال نمونے ملتے ہیں کہ انسان ورطہ حیرت میں گم ہو جاتاہے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جن کو سیدنا مہدئ موعود ؑ کے اوّلین جا نشین ہونے کا اعزاز ملااُنکی زندگی اس پہلو سے ایک درخشاں مثال ہے، اُن کوقرآن کریم کے حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم اورحادیث کا گہرا اور عمیق ادراک حاصل تھا، پھر دُنیاوی طور پر علم وطب میں لاثانی مقام رکھتے تھے، اُن کے قول و فعل سے قرون اولیٰ کے اوّلین صحابہ کی حقیقی جھلک نمایاں تھی،تھوڑے الفاظ میں صوفیانہ رنگ میں علم و حکمت کے خزانے تقسیم کیا کرتے تھے، اُن کے نزدیک قرآن و حدیث کا لب لباب اور خلاصہ اطاعت کے ضمن میں:
’’چاہیئے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مُردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کیساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کیساتھ اور پھر دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں‘‘

(خطباتِ نور صفحہ131)

اطاعت کی اصل روح اور تقاضے

اِس زمانہ کے حَکم اور عدل سیدنا مسیح موعود علیہ السلام جن کی اطاعت اللہ تعالیٰ اور اُسکے پیارے رسول ﷺ کی اطاعت ہے اور آج سب دینی و دُنیاوی برکات اُنکی اطاعت سے وابستہ ہیں اطاعت کے ضمن آپ علیہ السلام میں فرماتے ہیں:
’’کیا اطاعت ایک سہل امر ہے؟ جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے۔ حکم ایک نہیں ہوتا بلکہ حکم تو بہت ہیں۔ جس طرح بہشت کے کئی دروازے ہیں جس میں کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے۔ اسی طرح دوزخ کے کئی دروازے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو بند کر لو اور دوسرا کُھلا رکھو‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ74)

’’اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سہل امر نہیں یہ بھی ایک موت ہوتی ہے۔ جیسے ایک زند ہ آدمی کی کھال اتاری جائے ویسی ہی اطاعت ہے‘‘

(الحکم جلد6 نمبر39 صفحہ10۔ 13 اکتوبر1902)

خدا کے پیارے مسیح کی پیاری جماعت میں شامل ہونے کا یہ اوّلین تقاضا ہے کہ ہم اپنے اندر اطاعت کی وہ روح اور شان پیدا کریں جو اِس مقدس مسیحِ پاکؑ نے بیان کی ہے۔ اِس خوش قسمت جماعت میں مسیحِ موعود ؑکے جانشین خلفائے احمدیت کی اطاعت عین اُسی طرح واجب ہے جس طرح خود سیدنا مسیحِ موعود ؑ کی اطاعت۔ ایٹم کا مرکز نیوکلیس ہوتا ہے جس کے گرد الیکٹران گردش کررہے ہوتے ہیں اِسی طرح دینی نظام میں خلیفہ وقت کی مرکزی حیثیت ہے اور ہم سب کو اس مرکزی ذات کے ساتھ اپنا ذاتی کامل اطاعت کا تعلق قائم کرنا چاہیئے اور اُن کے ہر ارشاد کو جان و دل سے سُننا اور اُسپر عمل کرنا چاہیئے۔ مسیحِ پاک کی اس جماعت کا ہر عہدہ دار خلیفۂ وقت کا نمائندہ ہوتا ہے جسکی کی اطاعت خلیف وقت کی اطاعت ہے۔

عہدیداران جماعت کی اطاعت، خلیفہ وقت
اور اللہ کی اطاعت

نظامِ جماعت میں خلیفہ وقت کی حیثیت مرکزکی ہے۔جماعت بفضلِ تعالیٰ دُنیا کے تمام خطوں میں دن بدن وسعت حاصل کرتی جارہی ہے اب ہر فردِ جماعت کا ہمہ وقت کا قریبی براہِ راست تعلق خلیفہ وقت سے ممکن نہیں ہے نظامِ جماعت میں عہدہ داروں کا نظام اس کمی کا کسی حد تک ازالہ کرتا ہے اس طور عہدہ داروں کی اطاعت دراصل خلیفہ وقت کی اطاعت ہے جو دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اس طور عہدہ داروں کی اطاعت اور اُن کے احترام میں سُستی معمولی چیز نہیں لہٰذا اس پہلو سے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والی بات ہوگی کیونکہ عہدہ داران براہِ راست خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں۔ عہدہ دار باقی سب لوگوں کی طرح عام انسان ہیں اور جسطرح باقی لوگوں سے بعض غلطیاں ہو جاتی ہیں اِسی طرح عہدہ داروں سے بھی ہوسکتی ہیں اگر کوئی شخص یہ سمجھنا شروع کردے کہ عہدہ دار کمزوریوں اور غلطیوں سے مبرا ہونے چاہئیں تو وہ غلطی کا شکار ہے۔ عہدہ داروں سے بھی دیگر افراد ِجماعت کی طرح بحیثیت انسان کمزوریاں اور لغزشیں ہو سکتی ہیں۔اب بعض لوگ کسی وجہ سے ایک عہدہ دار کو پسند نہ کرتے ہوں تو عہدہ دار کی معمولی سی غلطی اُن کوبہت بڑی نظر آتی ہے جبکہ اچھائی کی خاصی بڑی بات بھی اُن کو نظر نہیں آتی، ایسے لوگوں کو اطاعت کی اہمیت اور فرضیت کا درست ادراک نہیں ہوتا۔ حضرت عرباض بن ساریہ ؓسے مروی ہے کہ ایک دن حضور ﷺ نے ہمیں صبح کی نمازپڑھائی پھر آپ ﷺ نے مؤثر فصیح و بلیغ انداز میں ہمیں وعظ فرمایا جس سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور دل ڈر گئے۔ حاظرین میں سے ایک نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے آپ کی نصیحت کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، بات سنو اور اطاعت کرو خواہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہو۔

(ترمذی کتاب العلم، باب الاخذ بالسنۃ)

جماعتی مفاد اور جماعتی وقار کا تحفظ اور تکبر کی بیخ کنی

جماعتی اُمور میں تمام افرادِ جماعت بشمول عہدہ داران ِ جماعت کے سب کوذاتیات اور انفرادی پسند ناپسند سے بالاتر ہو کر وسیع تر اجتماعی مفاد کو پیشِ نظر رکھ کر سوچنا چاہیئے۔ نظامِ جماعت کی اطاعت دراصل اللہ اوراُسکے رسول کی اطاعت کی ذیل میں آتا ہے لہٰذاعہدہ داروں کی اطاعت کے سلسلہ میں سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا یعنی ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی کا سنہری مومنانہ اصول (البقرہ۔286) اپنانا چاہیئے۔اطاعت میں کمزوری یا عدم اطاعت کے اسباب پہ غورکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک اہم وجہ تکبر ہے جو ایک شیطانی خصلت ہے۔ (البقرہ۔35)۔ تکبر اپنی ذات کی بڑائی کے زعم میں مبتلا ہونے کے علاوہ جس کی اطاعت کرنی ہو اُس کے متعلق منفی خیالات کی وجہ سے بھی جنم لیتی ہے ایسے خیالات علم، مال و دولت، ذات پات، شہریت (نیشنیلٹی) وغیرہ کی فضولیات کے ذہن میں ہونے کیوجہ سے جنم لے سکتے ہیں۔ اسلام ایسی سب لغویات کی بیخ کنی کرتا ہے اور سرِ تسلیم خم کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔

اختلاف رائے کی عزت و احترام
اور اطاعت کے دائرے

بعض لوگ فطرتاً اطاعت کے پیکر، مؤدب اور ادنیٰ اشارہ پہ سر تسلیم خم کرنے والے ہوتے ہیں اورعموماً اپنی کوئی رائے ہی نہیں رکھتے اور دوسروں پہ انحصار کرنے اور دوسروں کی اطاعت کرنے کی پالیسی پہ گامزن رہتے ہیں جبکہ بعض فطرتاً آزاد منش ہوتے ہیں اور اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں وہ نقصان اور تکلیف بخوشی برداشت کرلیں گے مگر اپنے خود ساختہ اُصولوں کے خلاف کسی کی اطاعت پہ تیار نہیں ہوں گے۔ یہ دو انتہائیں ہیں اور اسلام ان کے بین بین رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ جب کہیں عہدہ داروں سے اختلاف ہو تو مناسب ذرائع اور پراپر چینل سے اور احسن طریق پر اس اختلاف کا اظہار صرف متعلقہ افرادسے کیا جانا چاہیئےاور خواہ مخواہ غیرمتعلق لوگوں سے ایسی باتوں کا ذکر قطعاً نہیں ہونا چاہیئے۔عہدہ داران کا بھی فرض ہے کہ وہ طبائع میں موجود اختلاف کے باوجود ہر ایک سے یکساں طور پہ اطاعت کی توقع نہ رکھا کریں بلکہ پیار و حکمت اور حوصلہ افزائی سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کیا کریں۔

اطاعت کے معیار کا مطاع ہستی کی محبت
میں محو ہونے سے تعلق

اسلام کی نشاۃِ اولیٰ کے دور میں رسولِ کریم ﷺ کے صحابہ کیطرف سے اطاعت کے ضمن میں آنکھ کے اشارہ پہ جان و دل نچھاور کرنے کی تاریخ رقم ہوئی اورپھر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے دور میں مسیحِ پاک ؑ کے صحابہ نے بھی اُسی طرح کے لازوال نمونے چھوڑے ہیں، اُن اطاعت کرنیوالوں نے بلا کسی تحریک وتلقین کے اطاعت کے یہ بے مثال نمونے دکھائے اوراُن کی اطاعت کا اصل محرک بے پناہ محبت کا وہ ناقابلِ بیان جوش و جذبہ تھا جو اُن کے مطاع کی شخصیت اور کردار کی وجہ سے اُن کے دل و دماغ میں موجزن تھا وہ جس ہستی کی اطاعت میں کھوئے گئے اور آنے والی نسلوں کیلئے نمونے یادگار چھوڑے اُس ہستی کو اُن سے اس قدر ہمدردی اور محبت تھی کہ کسی دُنیوی پیمانہ سے اُس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے وہ ہستی اُ ن سے حقیقی اولاد سے بڑھ کر پیار کرتی اور روزمرّہ مسائل میں اُن کیلئے سب سے اوّلین اور سب سے بھرپور مدد اور راہنمائی کا منبع ہستی تھی وہ اُن کی پریشانیوں پہ خود اُن سے زیادہ پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہونے والی ہستی تھی۔ اس بے مثال محبت اور رحمت کے سلوک کے نتیجہ میں وہ لوگ اپنی مطاع اور محبوب ہستی کی محبت میں اس قدرکھوئے گئے کہ اپنے ماں باپ، بیوی بچوں اور دیگر عزیزوں کی محبتوں پر اُن کی محبت غالب آ گئی اور اس لازوال محبت و عشق کے جذبہ کے تحت وہ اطاعت کے انمٹ نقوش رقم کرگئے،جماعتِ احمدیہ میں خلیفہ وقت کی ذات تمام افرادِجماعت کیلئےمخلصانہ محبت و عشق اور بے لوث ہمدردی و غمگسار ی کا مرکز و منبع ہے، افرادِ جماعت کے مسائل پریشانیاں خلیفہ وقت تک خطوط کی شکل میں پہنچتی ہیں تو خدا کا خلیفہ بارگاہِ ایزدی میں مجسم دعا بن کر اُن کیلئے بے چین و بے قرار ہو جاتا اور بے قرار دل کے ساتھ دعا کرتا ہے اور پیارے آقاکے جوابی خطوط سےبے قرار دکھی دلوں کو راحت و فرحت میسر آتی ہے اور وہ مسابقت کی روح و جذبہ کے ساتھ اطاعت میں محو ہو کر خلیفہ وقت کے بہترین سلطانِ نصیر بننے کی کوشش میں جُتے رہتے ہیں،

اولاد کی تربیت میں اطاعت نظامِ جماعت کا کلیدی کردار

موجودہ دور میں جب ہمارے ارد گرد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ بچوں کے تعلیمی اداروں کاماحول بھی بُری طرح سے زہر آلود ہے اور ناقابلِ بیان حد تک خطرناک ہو چکا ہے تو ایسے میں بچوں کو ماحول کی آلودگی کے گندے اثرات سے بچانا اور اُن کی ایسی تربیت کرنا کہ وہ صالح اور متقی انسان بن جائیں والدین کیلئے بہت بڑا چیلنج بن چکاہے۔ ایسے میں کہیں کوئی اُمید اورروشنی کی کرن نظر آتی ہے تو وہ صرف پیارے مسیحِ موعود ؑ کی پیاری جماعت کا نظامِ ہے۔ اگر بچے اس نظام سے بھرپور استفادہ کر رہے ہوں اور ہر جماعتی پروگرام میں باقاعدہ شرکت کرتے ہوں تو وہ ماحول کے ضرر رساں اثرات سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ خلیفہ وقت کی محبت اورخلیفہ وقت سے بچوں کا ذاتی تعلق بچوں کو ماحول کی زہر ناک آلودگیوں سے بچانے کا تیر بحدف کارگر نسخہ ہے۔

ایک خطرنا ک اور سنگین غلطی

دیکھا گیا ہے کہ بعض افرادجماعت اور اُن کے بچے ماحول کی آلودگیوں سے پوری طرح محفوظ نہیں ہیں اور خصوصاً اُن کے بچے ماحول سے دن بدن متاثر ہو کر نظامِ جماعت سے دور ہٹتے جارہے ہیں۔ اس افسوسناک صورتِ حال پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ایسے لوگ خود اور پھر خصوصاً اُن کے بچے نظامِ جماعت کی اطاعت و فرمانبرداری میں سُست اور لاپرواہ ہیں۔ اس ضمن میں اہم بات بچوں کیلئے اپنے عمل سے نظامِ جماعت اور عہدہ دارانِ جماعت کی اطاعت اور محبت کا نمونہ پیش کرنا ہے۔ ایک اور انتہائی اہم بات جو اگلی نسل کیلئے ایک زہر ِ قاتل ہے جو اُنکو اطاعت گذار بننے سے نہ صرف روکتی ہے بلکہ عہدہ دارانِ جماعت کے خلاف باغیانہ اور نفرت آمیز روش پیدا کرتی ہے وہ گھر میں بچوں کی موجودگی میں عہدہ دارانِ جماعت کے خلاف باتیں کرنا ہے یہ ایک انتہائی گھناؤنے جرم کا ارتکاب ہے اور بچوں کو نظامِ جماعت سے کاٹ کر دورکرنے اور ہلاک کرنے کے مترادف ہے بچوں کے معصوم ذہن اس گندی حرکت کی وجہ سے عہدہ داران جماعت کے خلاف نفرت سے بھر جاتے ہیں اوربچے ایسی صورتوں میں ضائع ہوجاتے ہیں لہٰذا اس خطرناک غلیظ اور گھٹیا حرکت سے ہر فردِ جماعت کومکمل طور پہ اجتناب برتنا چاہیئے۔

اطاعت نظامِ جماعت بڑھانے کے بعض طریق

عہدہ داران جماعت کوکوشش کرنی چاہیئے کہ وہ احبابِ جماعت کے اوّلین مونس و غمگسار اور ہمہ تن ہر پہلو سے اُن کی فلاح و بہبود کے متلاشی ببنے کی کوشش کرتے رہیں، اُنہیں خدمت دین کا جو موقع مل رہا ہو اُسے غنیمت جاننا چاہیئے۔ روز مرہ کے بظاہر معمولی کاموں میں اگر افرادِ جماعت کی مدد کی جائے تو وہ جذبہ احسان کے تحت اطاعت میں کمال دکھاتے ہیں۔ مثلاً ملازمت کے حصول میں مدد اور راہنمائی، ڈرائیونگ لائینس یا کسی اور دستاویزے حصول میں مدد، بوقتِ ضرورت کہیں آنے جانے میں سواری فراہم کردینا، یا ممکنہ وقتی مالی مدد وغیرہ۔الغرض ہر کسی کی پہنچ میں ہونا یعنی ہرچھوٹی بڑی بات پوری توجہ سے سننا اور دلی ہمدردی اور خلوص سے ایک خادمانہ طرزِ عمل پیش کرنا۔ رسولِ کریم ﷺ کی تمام زندگی ایسے واقعات سے عبارت ہے آپ ہر کسی کی بات کمال پیار سے سنا کرتے تھے یہاں تک کہ بعض دفعہ کوئی فاتر العقل لوگ آ پ کو بازو سے پکڑ کر لے جاتا اور جب اُس کا دل بھرتا اور وہ چھوڑتا تو آپ اُس سے رخصت ہوتے۔ ہمارے اس زمانہ میں سیدنا مہدئ موعود ؑ نے اِسی طرح کے بے شمارحسین نمونے ہمارے سامنے پیش کیا ہیں۔ آپ اس تعلق میں فرماتے ہیں:
’’مرا مطلوب ومقصود تمنا خدمتِ خلق است : ہمیں کارم ہمیں بارم، ہمیں رسمم، ہمیں راہم‘‘

(درثمین فارسی)

کہ خدمت، خلق ہی میرا کام، میری ذمہ داری، میری رسم، میری راہ ہے۔ الغرض عہدہ دار حضرات افرادِ جماعت کے مسائل اور تکالیف کا درد اپنے ذاتی مسائل و تکالیف جیسا محسوس کیاکریں توعہدہ داروں کو بفضلِ تعالیٰ افرادِ جماعت کیطرف سے اطاعت کے قابلِ رشک اور بے مثال نمونے ملیں گے۔

مثالی عہدہ دار وہ ہوتے ہیں جو افرادِ جماعت سے ایک ذاتی نوعیت کا بے تکلّفانہ محبت کا تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی افراد جماعت کی طبائع کے امتزاج پہ نظر ہوتی ہے اور ہر فرد ِ جماعت کے ذاتی حالات سے آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ افرادِ جماعت کی جماعتی قربانیوں کی قدر مقدار کی بجائے معیار کی بناپہ کرتے ہیں۔ اگر کبھی کسی فردِ جماعت سے کسی کام میں لغزش یا سُستی ہوجائے تو وہ پیارو حکمت کیساتھ سمجھاتے ہیں اور ہر ممکن چشم پوشی سے کام لیتے ہیں کیونکہ عدم اطاعت کی تشہیر مزید لوگوں کو عدم اطاعت کی طرف مائل کر سکتی ہے۔وہ ہراہم معاملہ میں کسی حتمی نتیجہ پہ پہنچنے اور فیصلہ کرنے سے قبل احبابِ جماعت سے لازماً مشورہ کر لیا کرتے ہیں۔ بظاہر مشورہ دینے اور اطاعت کرنے کا جوڑ نظر نہیں آتا کیونکہ اطاعت کرنیوالا مشورہ نہیں دیا کرتا لیکن دراصل حقیقی اطاعت جو طبعی جذبۂ فدایت کے تحت ہوتی ہے اُس کا معیار بلند کرنے کیلئے مشور ہ لیا جانا ضروری ہے قبل اس کے کہ دوسری طرف سے شکوہ پیدا ہو کہ اُن سے مشورہ نہیں کیا گیا اور اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مشورہ لینے کو عمومی طرزِ عمل کے طور پہ اپنایا جائے اور ہر صائب مشورہ کو تشکر کے جذبات کیساتھ قبول کیا جائے قطع نظر اسکے کہ وہ مشور ہ عہدہ دارکی ذاتی رائے اور پسند کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔

(ترمذی کتاب الجہاد، باب ما جاء فی المشورۃ)

حرفِ آخر

نظامِ جماعت کی اطاعت و فرمانبرداری کا مفہوم یہ ہے کہ عہدہ دارانِ جماعت کی راہنمائی میں تمام جملہ جماعتی اُمورسرانجام دئے جائیں اور ہر جہت سے ہر ممکن اطاعت کی جائے کیونکہ نظامِ جماعت عہدہ دارانِ جماعت کی ہدایات ہی کا نام ہے۔تمام افراد ِجماعت کو اخلاص اور قومی درد کے جذبہ کیساتھ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطرجماعتی خدمات بجالانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیئے، خلیفہ وقت سے خطوط، بالمشافہ ملاقاتوں، خطباتِ جمعہ اور ایم ٹی اے کے دیگر پروگرام باقاعدہ سُننے کے ذریعہ مضبوط تعلق نظام جماعت کا حقیقی اطاعت گزاربننے اور بامراد ہونے کا موثر ترین اور بہترین ذریعہ ہے، مولاکریم و قادرسب عہدہ دارانِ جماعت اور احبابِ جماعت کو نظام جماعت کی اطاعت کی اصل روح کو سمجھ کرعاجزی انکساری کیساتھ جماعت کے کامل اطاعت گذار بن کر مقبول خدماتِ دینیہ بجالاتے رہنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین

(ڈاکٹر محمد ظفر وقار کاہلوں۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

خطباتِ امام کوئز جامعۃ المبشرین گھانا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اکتوبر 2021