• 14 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 48)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 48

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ
والی دعا کی ضرورت

اگر یہ سوال پیدا ہو کہ یہود نے تو انبیاءکے مقابل پر شوخیاں اور شرارتیں کی تھیں مگر اب تو سلسلہ نبوت ختم ہو چکا ہے اس لئے غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ والی دعا کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود نازل ہوگا اور مسلمان لوگ اس کی تکذیب کرکے یہود خصلت ہوجائیں گے اور طرح طرح کی بدکاریوں اور قسم قسم کی شوخیوں اور شرارتوں میں ترقی کرجاویں گےاس لئے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ والی دعا سکھائی گئی کہ اے مسلمانو! پنجگانہ نمازوں کی ہر ایک رکعت میں دعا مانگتے رہو کہ یا الٰہی ہمیں ان کی راہ سے بچائے رکھیو جن پر تیرا غضب اسی دنیا میں نازل ہوا تھا اور جن کو تیرے مسیح کی مخالفت کرنے کے سبب سے طرح طرح کے آفات ارضی و سماوی کا ذائقہ چکھنا پڑا تھا۔

(ملفوظات جلد10صفحہ47-48 ایڈیشن1984ء)

آخری زمانے میں یہود سے
مشابہت نہ کرنے کی دعا

سو جاننا چاہئے کہ یہی وہ زمانہ جس طرف آیت غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ: 7) اشارہ کرتی ہے اور وہی خدا کا سچا مسیح ہے جو اس وقت تمہارے درمیان بول رہا ہے… چونکہ خدا جانتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جبکہ مسلمان یہود سیرت ہوجائیں گے۔ اس لئے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ والی دعا سکھا دی اور پھر فرمایا وَلَاالضَّآلِّیْنَ یعنی نہ ہی ان لوگوں کی راہ پر چلانا جنہوں نے تیری سچی اور سیدھی راہ سے منہ موڑ لیا۔اور یہ عیسائیوں کی طرف اشارہ ہے جن کو اللہ تعالےٰ کی طرف سے انجیل کے ذریعہ سے یہ تعلیم ملی تھی کہ خدا کو ایک اور واحد لاشریک مانو مگر انہوں نے اس تعلیم کو چھوڑ دیا اور ایک عورت کے بیٹے کو خدا بنا لیا۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ48-49 ایڈیشن1984ء)

قرآن مجید کی ابتداءاور انتہاء دعا پر ہے

یاد رکھو کہ یہ جو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتدا بھی دعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دعا پر ہی کیا ہےتو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا (الفاتحہ: 6) اور جب تک خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی کر ہی نہیں سکتا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سب مردے ہیں مگر جس کو خدا زندہ کرے۔ اور سب گمراہ ہیں مگر جس کو خدا ہدایت دے۔ اور سب اندھے ہیں مگر جس کو خدا بِینا کرے۔ غرض یہ سچی بات ہے کہ جب تک خدا کا فیض حاصل نہیں ہوتا تب تک دنیا کی محبت کا طوق گلے کا ہار رہتا ہے اور وہی اس سے خلاصی پاتے ہیں جن پر خدا اپنا فضل کرتا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کا فیض بھی دعا سے ہی شروع ہوتا ہے۔

لیکن یہ مت سمجھو کہ دعا صرف زبانی بک بک کا نام ہے بلکہ دعا ایک قسم کی موت ہے جس کے بعد زندگی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ پنجابی میں ایک شعر ہے

جو منگے سو مر رہے۔ مرے سو منگن جا

دعا میں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

یہ کیا دعا ہے کہ منہ سے تو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحہ: 6) کہتے رہے اور دل میں خیال رہا کہ فلاں سودا اس طرح کرنا ہے۔فلاں چیز رہ گئی ہے۔ یہ کام یوں چاہئے تھا۔ اگر اس طرح ہو جائے تو پھر یوں کریں گے۔ یہ تو صرف عمر کا ضائع کرنا ہے۔ جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اسی کے مطابق عمل درآمد نہیں کرتا تب تک اُس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے۔ قرآن مجید میں تو صاف طورپر لکھا ہے قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ﴿۳﴾ (المومنون: 2-3) یعنی جب دعا کرتے کرتے انسان کا دل پگھل جائے اور آستانۂ اُلوہیت پر ایسے خلوص اور صدق سے گر جاوے کہ بس اُسی میں محو ہو جاوے اور سب خیالات کو مٹا کر اُسی سے فیض اور استعانت طلب کرے اور ایسی یکسوئی حاصل ہو جائے کہ ایک قسم کی رِقّت اور گداز پیدا ہو جائے تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ دو محبتیں ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں۔ جیسے لکھا ہے

ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دُوں
ایں خیال است و محال است و جنوں

(ملفوظات جلد10 صفحہ62-63 ایڈیشن1984ء)

رزق میں کشائش کی دعا

توبہ استغفار کرتے رہو کیونکہ یہ اللہ تعالےٰ کا وعدہ ہے جو استغفار کرتا ہے اسے رزق میں کشائش دیتا ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ110 ایڈیشن1984ء)

دعا کی دوقسمیں

جو خط آتا ہے میں اسے پڑھ کر اس وقت تک ہاتھ سے نہیں دیتا جب تک دعا نہ کرلوں کہ شاید موقع نہ ملے یا یاد نہ رہے۔ مگر دعا دو قسم کی ہے۔جو اس کوچہ میں داخل ہووے وہی خوب سمجھتا ہے۔ ایک معمولی۔ ایک شدت توجہ سے۔ اور یہ آخری صورت ہر دعا میں میسر نہیں آتی۔ سوز اور قلق کا پیدا ہونا اپنے اختیار میں نہیں۔ کوئی مخلص ہو تو اس کے لئے خود ہی دعا کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یوں تو ہر ایک شخص جو ہماری جماعت میں داخل ہے اس کےلئے ہم دعا کرتے ہیں مگر مذکورہ بالا حالت ہر ایک کےلئے میسر نہیں آتی۔ یہ اختیاری بات نہیں۔ پس جسے جوش دلانا ہو وہ زیادہ قرب حاصل کرے۔

دعا دو قسم (کی) ہے۔ ایک تو معمولی طور سےدوم وہ جب انسان اسے انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ پس یہی دعا حقیقی معنوں میں دعا کہلاتی ہے۔ انسان کو چاہئے کہ کسی مشکل پڑنے کے بغیر بھی دعا کرتا رہے کیونکہ اسے کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ کے کیا ارادے ہیں اور کل کیا ہونے والا ہے۔ پس پہلے سے دعا کرو تا بچائے جاؤ۔بعض وقت بلا اس طور پر آتی ہے کہ انسان دعا کی مہلت ہی نہیں پاتا۔ پس پہلے اگر دعا کر رکھی ہو تو اس آڑے وقت میں کام آتی ہے‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ122-123 ایڈیشن1984ء)

قبولیت دعا

اللہ تعالیٰ کی یہ عادت نہیں کہ ہر ایک دعا قبول کرے۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا کہیں نہیں ہوا۔ ہاں مقبولوں کی دعائیں بہ نسبت دوسروں کے بہت قبول ہوتی ہیں۔ خدا کے معاملہ میں کسی کا زور نہیں۔

(بدر جلد7 نمبر14 صفحہ3 مؤرخہ 9اپریل 1908ء)

(ملفوظات جلد10 صفحہ149 ایڈیشن1984ء)

اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے

اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ (الاحقاف: 16) میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما۔ اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے۔دیکھو پہلا فتنہ حضرت آدم پر بھی عورت ہی کی وجہ سے آیا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلے میں بلعم کا ایمان جو حبط کیا گیا اصل میں اس کی وجہ بھی توریت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بلعم کی عورت کو اس بادشاہ نے بعض زیورات دکھا کر طمع دے دیا تھا اور پھر عورت نے بلعم کو حضرت موسیٰ پر بددعا کرنے کے واسطے اُکسایا تھا غرض ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں تو ان کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔

(ملفوظات جلد10صفحہ139 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

دو طرفہ محبت کا عجیب سماں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اکتوبر 2022