• 25 اکتوبر, 2024

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً (كتاب العلم حصہ 4) (قسط 9)

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً
كتاب العلم حصہ 4
قسط 9

سوال: مکّہ سے کس گھاس کے کاٹنے کی حضورؐ سے اجازت طلب کی گئی؟

جواب: ایک قریشی شخص نے حضورؐ سے اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت طلب کی اس نے عرض کی یہ گھاس گھروں کی چھتوں پر ڈالا جاتا ہےاور قبروں پہ بھی ڈالا جاتا ہے یعنی معمولات زندگی کے لئے ضروری ہےتو حضورؐ نے اذخر گھاس کاٹ کر استعمال کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔

سوال: کون سے صحابی سب سے زیادہ احادیث بیان فرماتے تھے؟

جواب: ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے صحابہؓ میں سےعبداللہ بن عمروؓ کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا۔

سوال: آپؐ کے آخری ایّام میں تحریر لکھنے کا کیا واقعہ ہوا؟

جواب: جب نبی کریمؐ کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو۔

اس پر عمرؓ نے کہا کہ اس وقت آپؐ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمارے لئےکافی ہے۔

اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔تو آپؐ نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں۔

ابن عباسؓ یہ کہتے ہوئے باہرنکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے جو ہمارے اور رسول اللہؐ کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔ یعنی عمرؓ کی رائے سے ابن عبّاسؓ کو اختلاف ہوا تھا۔

سوال: حضورؐ نے نیم عریاں لباس پہننے والی عورتوں کے بارے میں کیاوعید سنائی؟

جواب: ام سلمہؓ کی روایت ہے کہ ایک رات نبی کریمؐ نے بیدار ہوتے ہی فرمایا کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ! آج کی رات کس قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں۔ ان حجرہ والیوں کو جگاؤ۔ کیونکہ بہت سی عورتیں جو دنیا میں باریک کپڑا پہننے والی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی۔

سوال: کیا عشاء کے بعد وعظ کرنا جائزہے؟

جواب: عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہؐ نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپؐ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔

سوال: حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا اپنی خالہ امّ المؤمنین میمونہؓ کے گھر رات گزارنے کا واقعہ کیا ہے؟

جواب: عبداللہ بن عباسؓ نے بیان فرمایاکہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہؓ کے پاس گزاری اور نبی کریمؐ اس رات انہی کے گھر تھے۔ آپؐ نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت نفل نماز پڑھ کر آپؐ سو گئے، پھر اٹھے۔

اور فرمایا کہ یہ لڑکا ابھی تک سو رہا ہے۔

پھر آپ نفل نمازکے لئےکھڑے ہو گئے اور میں بھی وضو کر کےآپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپؐ نے مجھے پکڑ کردائیں جانب کر دیا، تب آپؐ نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپؐ سو گئے۔

یہاں تک کہ میں نے آپؐ کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپؐ نماز کے لیے باہرتشریف لے آئے۔

سوال: حضرت ابو ہریرہؓ نے بہت ساری احادیث کیوں بیان فرمائی ہیں؟

جواب: ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں بہت حدیثیں بیان کرتا ہوں، ان کے لئے میرا جواب ہے کہ قرآن میں یہ دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر یہ آیات پڑھیں: اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَالۡہُدٰی

(البقرہ: 160)

ىقىناً وہ لوگ جو اُسے چھپاتے ہىں جو ہم نے واضح نشانات اور کامل ہداىت مىں سے نازل کىا۔

ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے تھے اور انصار بھائی اپنی جائیدادوں میں مشغول رہتے اور ابوہریرہؓ رسول اللہؐ کے ساتھ ان مجالس میں حاضر رہتا جن میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور حضورؐ کی باتیں سن کر یاد رکھتا۔

سوال: حضرت ابو ہریرہ کے احا دیث کے بھولنے پر آپؐ نے کیا فرمایا؟

جواب: ابوہریرہؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپؐ سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔

آپؐ نے فرمایا۔ اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو میری چادر میں ڈال دی فرمایا کہ چادر کو اپنے سر پہ لپیٹ لو۔

میں نے چادر کو لپیٹ لیا، پھر اس کے بعدمیں کوئی چیز نہیں بھولا۔

سوال: حضرت ابو ہریرہؓ نے دو برتن یاد کر لینے کے متعلق کیا فرمایا؟

جواب: ابوہریرہؓ نےفرمایا کہ میں نے رسول اللہؐ سے علم کےدو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے یعنی لوگوں میں بیان کردیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا یعنی شہ رگ کاٹ دیا جائے۔ یعنی ان باتوں کو سننے کی تمھارے اندر طاقت نہیں۔

سوال: آپؐ نے لوگوں کو حجۃ الوداع کے موقعہ پر خاموش کیوں فرمایا؟

جواب: جریرؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو تاکہ وہ اچھی طرح سن لیں جب لوگ خاموش ہوگئے۔

تو پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔ یعنی ایک دوسرے کو واجب القتل ٹھہرا کر مارتے پھرو۔

(مختار احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 1)