خاکسار کا تعلق موضع مانگٹ اُونچا ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مانگٹ اُونچا حافظ آباد کى دىہى جماعتوں مىں سب سے بڑى جماعت ہے اور تقرىباً گاؤں کى آدھى آبادى اللہ تعالىٰ کے فضل سے احمدى ہے۔ ىہ جماعت حضرت مسىح موعود علىہ السلام کى زندگى مىں ہى قائم ہو گئى تھى، جب اِس گاؤں کے چند افراد نے حضور کى دستى بىعت کى اور صحابى ہونے کا شرف حاصل کىا۔ اِس گاؤں کے رہنے والے مکرم چوہدرى جہاں خاں صاحب وہ آخرى صحابى تھے جنہوں نے حضور کى وفات 26 مئى 1908 ء سے اىک روز قبل لاہور مىں بىعت کى تھى۔ ىہ بات تارىخ احمدىت مىں درج ہے۔
بعد مىں حضرت خلىفۃ المسىح اولؓ اور ثانىؓ کے دور مىں مولوى غلام رسول صاحب راجىکىؓ اور غلام رسول صاحب وزىر آبادى اِ ن علاقوں/ دىہاتوں کا تبلىغى دورہ کرنے کے لئے آتے رہے اور موضع مانگٹ اُونچا کے علاوہ موضع پىر کوٹ، موضع پرىم کوٹ اور شہر حافظ آباد کے لوگ بڑى تعداد مىں احمدى ہو گئے۔ مولوى غلام رسول صاحب راجىکىؓ کى شادى موضع پىر کوٹ ضلع حافظ آباد مىں ہوئى تھى وہ اکثر ىہاں آىا کرتے تھے، اور اُن کى تبلىغ سے پنجاب کے بہت سے علاقوں مىں جماعتىں قائم ہوئىں۔
مولوى غلام رسول صاحب راجىکى ؓکى ہى تبلىغ سے ہمارے گاؤں مانگٹ اُونچا کے بہت گھرانے حضرت خلىفۃ المسىح الاولؓ کے دورِ خلافت مىں احمدى ہوئے۔ خاکسار کے نانا مرحوم مکرم مىاں محمد دىن صاحب نے بھى خلىفۂ اولؓ کے دورِ خلافت مىں بىعت کى۔ آپ گاؤں کے دىگر ساتھىوں کے ہمراہ قرىباً 150 مىل کا پىدل سفر کر کے اپنے گاؤں سے قادىان پہنچے اور حضرت خلىفۃ المسىح الاولؓ کے ہاتھ پر بىعت کر کے سلسلہ عالىہ احمدىہ مىں داخل ہوئے۔ آپ کو ىہ شرف حاصل تھا کہ آپ اپنے خاندان مىں سب سے پہلے احمدى ہوئے۔
آپ کى شادى بىعت سے پہلے ہى غىر احمدى گھرانے مىں ہوئى تھى۔ مگر آپ اُس زمانے کى مخالفت کے باوجود نہ صرف خود احمدىت پر قائم رہے بلکہ آپ کے اخلاق اور نىکى سے متاثر ہو کر آپ کى اہلىہ ىعنى ہمارى نانى مرحومہ بھى احمدى ہو گئىں۔
ہمارا خاندان احمدى کىسے ہوا، اِس کى دلچسپ تفصىل کچھ ىوں ہے کہ ہمارے نانا کى کوئى نرىنہ اولاد نہىں تھى، بلکہ اللہ تعالىٰ نے صرف اىک لڑکى عطا کى تھى جس کا نام رحمت بى بى رکھا گىا۔ اىسى صورت مىں بعض دفعہ والدىن اپنى لڑکى کو شادى کے بعد لڑکے کے پاس بھىجنے کى بجائے لڑکے ىعنى اپنے داماد کو اپنے ہاں گھر داماد رکھ کر اپنا بىٹا بنا لىتے ہىں۔
ىہى ہمارے نانا جى مرحوم نے کىا۔ انہوں نے اپنے داماد مکرم مىاں سردار محمد صاحب کو اپنا بىٹا بناىا اور اپنے ہى گھر مىں رکھا۔ والد صاحب احمدى نہ تھے، بلکہ شادى کے بعد اپنے آبائى گاؤں کو چھوڑکر نانا مرحوم کے گاؤں مانگٹ اُونچا آگئے اور اس کے نتىجہ مىں اور نانا جى کے ماحول کے زىر اثر ہمارے والد صاحب کو احمدىت مىں داخل ہونے کى توفىق ملى۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلىٰ ذَالِکَ۔
اِس چھوٹے سے واقعہ مىں اللہ تعالىٰ کى خاص مشىعت کام کرتى ہوئى نظر آتى ہے کہ اگر ہمارے نانا مرحوم اپنے داماد کو اپنا بىٹا بنا کر اپنے پاس نہ لاتے اور اپنے آبائى گاؤں(گھنىاں کلاں) مىں ہى رہتے تو شاىد اُن کو اور اُن کى اولاد کو احمدىت کى نعمت نصىب نہ ہوتى، کىونکہ اِس گاؤں مىں آج تک کوئى احمدى نہ ہوا۔ اس طرح گو ہمارے نانا مرحوم کو اولاد نرىنہ نہ ملى مگر آپ کا دل اس پہلو سے مطمئن تھا کہ آپ کى بىٹى رحمت بى بى اور اُن کے خاوند مىاں سردار محمد صاحب کو اللہ تعالىٰ نے کثرت سے اولاد کى نعمت سے نوازا جو احمدىت پر قائم ہىں۔ اِن کى نسل سے اللہ تعالىٰ نے 6 بىٹے اور 2 بىٹىاں عطا کىں جن کى نسلىں آج سارى دنىا مىں پھىلى ہوئى ہىں۔
اىمان افروز واقعات
ہمارے نانا مرحوم عمر کے آخرى دو سالوں مىں بىمار ہو گئے اور کمزورى اِ س قدر ہو گئى کہ بعض اوقات آپ بے ہوش ہو جاتے تھے۔ اىسے حالات مىں اىک دفعہ آپ کے بستر کو آگ لگ گئى اور قرىب تھا کہ آپ جل کر وفات پا جاتے، مگر اللہ تعالىٰ نے اپنے خاص فضل سے آپ کو بچا لىا اور بروقت علم ہونے پر آگ بجھا دى گئى۔
نصرت الٰہى کا اىک اور اىمان افروز واقعہ قىام پاکستان سے قبل آپ کى زندگى مىں پىش آىا۔ وہ ىہ تھا کہ آپ نے اىک اونٹنى پال رکھى تھى۔اىک دفعہ آپ اپنے گھر کے صحن مىں اونٹنى کو پکڑ کر کھڑےتھے۔ موسم خراب تھا، بادل گرج رہا تھا کہ اچانک آسمانى بجلى اُس اونٹنى پر گرى اور آنِ واحد مىں اسے بھسم کر کے چھوڑ گئى۔ اللہ تعالىٰ نے معجزانہ طور پر ہمارے نانا مرحوم کو جو اُس اونٹنى کو پکڑے ہوئے تھے اپنے خاص فضل سے اُس بجلى سے محفوظ رکھا اور آپ زندہ سلامت وہىں کھڑے رہے۔
آپ کى وفات 25 دسمبر 1970ء بروز جمعہ (جلسہ سالانہ سے اىک دِن قبل) اپنے آبائى گاؤں مانگٹ اُونچا مىں ہوئى۔ نمازِ جنازہ مىں گاؤں کے تمام افراد شرىک ہوئے اور قبر پر دعا کے وقت غىر از جماعت دوستوں کى کثىر تعداد نے بھى شرکت کى۔ وفات کے وقت آپ کى عمر 90 سال تھى۔ طوىل عمر آپ نے اىک مخلص اور خدمت گار احمدى کى حىثىت سے گزارى، اور اپنى سادگى کے باوجود ہر طبقہ کے لوگوں مىں مقبول تھے۔
اللہ تعالىٰ نانا مرحوم کو جنّت مىں اعلىٰ مقام عطا فرمائے اور اُن سے اپنى رحمت اور بخشش کا سلوک فرمائے۔ آمىن اَللّٰھُمَّ آمىن۔
(محمد یونس جاوید۔لاہور)