• 20 جولائی, 2025

جمال و حسن یارﷺ کی باتیں

مومنوں کے لئے ارشاد بارى تعالىٰ ہے

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ ىَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡىَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِىۡرًا ﴿ؕ۲۲﴾

(الاحزاب: 22)

اور رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے فرماىا

وَ اِنَّکَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِىۡمٍ ﴿۵﴾

(القلم: 5)

پھر اىک حدىث مىں خدا تعالىٰ کى صفت بىان ہوئى ہے کہ وہ جمىل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔تو پھر کىوں محبوب خداجمىل نہ ہوتا اور اس مىں جمال حسن ىار نہ ہوتا۔

پھر ىہى نہىں بلکہ لولاک لما خلقت الافلاک  بھى تواس نبى کرىم کے لئے ہى کہا۔ اب ذرا شان مصطفوىﷺ کى جھلک بھى دىکھتے ہىں جو قاب قوسىن، سراجا منىرا اور المصباح فى زجاجہ جىسى کئى خوبىوں کا مصداق ہے۔

حضرت عائشہ رضى اللہ تعالىٰ عنہا بىان فرماتى ہىں کہ اسوہ کامل اور خلق عظىم پر فائز رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم ىہ دعا کىا کرتے تھے: کہ اے اللہ! جس طرح تو نے مىرى شکل و صورت اچھى اور خوبصورت بنائى ہے اسى طرح مىرے اخلاق و عادات بھى اچھے بنا دے۔

 (مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ155 مطبوعہ بىروت)

 گھر کى گواہى مىں بىوى حضرت عائشہ ؓ بىان کرتى ہىں کہ رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کے اخلاق قرآن کے عىن مطابق تھے وہ اللہ تعالىٰ کى خوشنودى مىں خوش ہوتے تھے۔ اللہ تعالىٰ کى ناراضگى مىں حضور صلى اللہ علىہ وسلم کى ناراضگى ہوتى تھى۔ اور رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم نے فرماىا ہے کہ مىں تو اعلىٰ اخلاق کى تکمىل کے لئے مبعوث کىا گىا ہوں۔

 (الشفاء لقاضى عىاض الباب الثانى۔ الفصل العاشر۔ الاخلاق الحمىدۃ)

حضرت عائشہ ؓ سے اور رواىت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم سے زىادہ اچھے اخلاق کا مالک کوئى بھى نہىں تھا۔ آپ صلى اللہ علىہ وسلم کے صحابہ ىا اہل خانہ مىں سے جو بھى آپ صلى اللہ علىہ وسلم کو بلاتا آپ صلى اللہ علىہ وسلم فوراً اس کى بات کا جواب دىتے اور حضرت جرىر بن عبداللہ ؓ نے بتاىا کہ مَىں نے جب سے اسلام قبول کىا ہے رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم نے جب بھى مجھے دىکھا ىا نہىں بھى دىکھا مگر مَىں نے ہمىشہ آپ صلى اللہ علىہ وسلم کو مسکراتے ہوئے ہى پاىا۔ آپ صلى اللہ علىہ وسلم اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ مزاح بھى فرماىا کرتے تھے اور ان مىں گھل مل جاتے تھے۔ اور ان سے باتىں بھى کرتے تھے اور ان کے بچوں سے خوش طبعى بھى فرماتے تھے۔ (ىعنى ہنسى مذاق کى باتىں بھى کىا کرتے تھے)۔ انہىں اپنى آغوش مىں بھى بٹھا لىتے تھے اور ہر اىک کى پکار کا جواب بھى دىتے تھے۔ ہر اىک جو بلاتا تھا اس کا جواب بھى دىتے تھے خواہ وہ آزاد ہو (اىک آزاد آدمى ہو) ىا غلام ہو (ىا لونڈى ہو) ىا مسکىن ہو۔ آپ صلى اللہ علىہ وسلم شہر کے دور کے حصے مىں بھى مرىض کى عىادت کے لئے تشرىف لے جاىا کرتے تھے او ر معذور کا عذرقبول فرما لىا کرتے تھے۔ (الشفاء لقاضى عىاض۔ الباب الثانى۔ الفصل السادس عشر۔ حسن عشرتہﷺ)

 حضرت عائشہ ؓ بىان کرتى ہىں کہ حضورصلى اللہ علىہ وسلم اس طرح ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماىا کرتے تھے کہ اگر کوئى شخص آپؐ کے الفاظ کو گننا چاہے تو گن سکتا تھا۔ (سنن ابى داؤد۔کتاب العلم۔باب فى سرد الحدىث)

 حضرت انسؓ  جو خادم البىت تھے بىان کرتے ہىں کہ اگر کوئى شخص بات کرنے کے لئے آپؐ کے کان سے منہ لگاتا تو آپؐ سر کو پىچھے نہ ہٹاتے تھے ىہاں تک کہ وہ خود پىچھے ہٹ جاتا۔ جب بھى کسى نے آپؐ کے دست مبارک کو پکڑا تو آپؐ نے کبھى اپنا ہاتھ نہ چھڑاىا جب تک وہ خود نہ چھوڑ دىتا۔ صحابہ کرامؓ سے مصافحہ کرنے مىں آپؐ پہل فرماىا کرتے تھے۔ جب بھى کوئى شخص ملتا تو رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم اسے پہلے سلام کرتے۔ اپنے ساتھىوں کے درمىان پاؤں پھىلا کر نہىں بىٹھتے تھے جس سے دوسروں کو تنگى ہو۔ جو شخص آپؐ کے پاس حاضر ہوتا آپؐ اس کى عزت کرتے اور بعض اوقات اس کے لئے کپڑا بچھا دىتے ىا وہى تکىہ دے دىتے جو آپؐ کے پاس ہوا کرتا تھا اور آپ اصرارفرماىا کرتے تھے کہ وہ اس پر بىٹھے۔ صحابہ کو ان کى کنىت اور ان کے پسندىدہ ناموں سے بلاىا کرتے تھے۔ کسى کى بات کو ٹوکتے نہ تھے۔ اگر کوئى شخص آپؐ کے پاس اىسے وقت مىں آ جاتا کہ آپؐ نماز مىں مشغول ہوں تو آپ صلى اللہ علىہ وسلم نماز کو مختصر فرما دىا کرتے تھے۔ اس کى ضرورت کو پورى کرنے کے بعد پھر نمازمىں مشغول ہوجاىا کرتے تھے۔ نزول ِقرآن، وعظ و نصىحت اور خطبہ کے وقت کے علاوہ حضور صلى اللہ علىہ وسلم لوگوں مىں سب سے زىادہ متبسم اور ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔ (الشفاء لقاضى عىاض۔ الباب الثانى۔ الفصل السادس عشر۔ حسن عشرتہ)

ہشام بن عروہؓ اپنے والد حضرت عروہ رضى اللہ عنہ سے رواىت کرتے ہىں کہ حضرت عائشہ رضى اللہ تعالىٰ عنہا سے کسى شخص نے پوچھا کہ آنحضورصلى اللہ علىہ وسلم گھر مىں کوئى کام کاج کىا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: ہاں۔ حضورصلى اللہ علىہ وسلم اپنى جوتى خود مرمت کر لىتے تھے، اپنا کپڑا سى لىتے تھے اور اپنے گھر مىں اسى طرح کام کىا کرتے تھے جس طرح تم سب لوگ اپنے گھروں مىں کام کرتے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 167 مطبوعہ بىروت)

پھر  باہر والوں مىں سے نبى ﷺ کے اعلىٰ اخلاق کے بارے مىں  اصحاب نبى کى اىک رواىت مىں حضرت براء بن عاذب رضى اللہ عنہ گواہى دىتے ہىں کہ: رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم لوگوں مىں سب سے زىادہ خوبصورت اور خوش اخلاق تھے۔

 (بخارى کتاب المناقب۔ باب صفۃ النبىﷺ)

حضرت عبداللہ بن حارث ؓ بىان کرتے ہىں کہ: مَىں نے حضور صلى اللہ علىہ وسلم سے زىادہ متبسم اور مسکرانے والا کوئى نہىں دىکھا۔ (الشفاء لقاضى عىاض۔ الباب الثانى۔ الفصل السادس عشر۔ حسن عشرتہ)

پھر اىک صحابى حضرت قىس ؓ بىان کرتے ہىں کہ انہوں نے جرىر بن عبداللہ کو ىہ بىان کرتے ہوئے سناکہ اسلام لانے کے زمانے سے(ىعنى جب سے وہ مسلمان ہوئے) نبى کرىم صلى اللہ علىہ وسلم نے انہىں کبھى بھى ملنے سے منع نہىں فرماىا۔ اور آنحضورصلى اللہ علىہ وسلم جب بھى انہىں دىکھتے تو مسکرا دىا کرتے تھے۔ (بخارى۔ کتاب المناقب- باب ذکر جرىر بن عبداللہ البجلى)

حضرت اُمّ معبدؓ رسول کرىم صلى اللہ علىہ وسلم کى شخصىت کو ىوں بىان کرتى ہىں کہ: آپ صلى اللہ علىہ وسلم دور سے دىکھنے مىں لوگوں مىں سے سب سے زىادہ خوبصورت تھے اور قرىب سے دىکھنے مىں انتہائى شىرىں زبان اور عمدہ اخلاق والے تھے۔ (الشفاء لقاضى عىاض۔ الباب الثانى۔ الفصل الثالث۔ نظافتہﷺ)

حضرت علىؓ نے نبى کرىم صلى اللہ علىہ وسلم کى صفات کا ذ کر کرتے ہوئے فرماىا کہ:
آپؐ لوگوں مىں سب سے زىادہ فراخ سىنہ تھے۔ اور گفتگو مىں لوگوں مىں سب سے زىادہ سچے تھے۔ اور ان مىں سب سے زىادہ نرم خو تھے اور معاشرت اور حسن معاملگى مىں سب سے زىادہ معزز اور محترم تھے۔ (الشفاء لقاضى عىاض۔ الباب الثانى۔ الفصل السادس عشر۔ حسن عشرتہﷺ)

حضرت ابو سعىد خدرى رضى اللہ عنہ بىان کرتے ہىں کہ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کى زندگى بڑى سادہ تھى۔ آپؐ کسى کام کو عار نہىں سمجھتے تھے۔ اپنے اونٹ کو خود چارہ ڈالتے، گھر کا کام کاج کرتے، اپنى جوتىوں کى مرمت کر لىتے، کپڑے کو پىوند لگا لىتے، بکرى کا دودھ دوہ لىتے، خادم کو اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھلاتے۔ آٹا پىستے ہوئے اگر وہ تھک جاتا تو اس مىں اس کى مدد کرتے۔ بازار سے گھر کا سامان اٹھا کر لانے مىں شرم محسوس نہ کرتے۔ امىر غرىب ہر اىک سے مصافحہ کرتے۔ سلام مىں پہل کرتے۔ اگر کوئى معمولى کھجوروں کى دعوت دىتا تو آپؐ اسے حقىر نہ سمجھتے اور قبول کرتے۔ آپؐ نہاىت ہمدرد، نرم مزاج، اور حلىم الطبع تھے۔ آپؐ کا رہن سہن بہت صاف ستھرا تھا۔ بشاشت سے پىش آتے۔ تبسم آپؐ کے چہرے پر چھلکتا رہتا۔ آپؐ زور کا قہقہہ لگا کر نہىں ہنستے تھے۔ خدا کے خوف سے فکر مند رہتے تھے لىکن ترش روئى اور خشکى نام کو نہ تھى۔ منکسرالمزاج تھے لىکن اس مىں بھى کسى کمزورى، پس ہمتى کا شائبہ تک نہ تھا۔ بڑے سخى تھے لىکن بے جا خرچ سے ہمىشہ بچتے۔ نرم دل رحىم و کرىم تھے۔ ہر مسلمان سے مہربانى سے پىش آتے۔ اتنا پىٹ بھر کر نہ کھاتے کہ ڈکار لىتے رہىں۔ کبھى حرص و طمع کے جذبہ سے ہاتھ نہ بڑھاتے بلکہ صابر و شاکر اور کم پر قانع رہتے۔ (الرسالۃ القشىرىۃ، باب الخشوع والتواضع)

حضرت براء بن عاذب رضى اللہ تعالىٰ عنہ بىان کرتے ہىں کہ: مَىں نے حضور صلى اللہ علىہ وسلم کو دىکھا۔ آپ نے سرخ جوڑا دھارى دار پہنا ہوا تھا اور پٹکا باندھا ہوا تھا۔ آپؐ سے بڑھ کر خوبصورت مَىں نے کبھى کسى کو نہىں دىکھا۔

حضرت براء بن عاذب رضى اللہ عنہ سے پوچھا گىا کہ کىا آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کا چہرہ مبارک تلوار کى طرح (لمبا اور پتلا) تھا تو آپؓ نے جواب دىا کہ نہىں بلکہ چاند کى طرح (گول اور چمکدار) تھا۔

(بخارى۔کتاب المناقب۔ باب صفۃ النبىﷺ)

پھر حضرت کعب بن مالک رضى اللہ تعالىٰ عنہ کہتے ہىں کہ مىں نے آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کو سلام کىا۔ آپؐ کا چہرہ دمک رہا تھا اور جب حضور صلى اللہ علىہ وسلم کوخوشى کى خبر ملتى تھى تو آپ ؐ کا چہرہ اىسے چمک اٹھتا تھا گوىا چاند کا ٹکڑاہے اور اسى سے ہم آپؐ کى خوشى پہچان لىتے تھے۔ (بخارى۔ کتاب المناقب۔ باب صفۃ النبىﷺ)

حضرت جابر بن سمرہ رضى اللہ تعالىٰ عنہ بىان کرتے ہىں کہ مَىں نے حضور صلى اللہ علىہ وسلم کو چاندنى رات مىں دىکھا آپ صلى اللہ علىہ وسلم نے سرخ رنگ کا لباس زىب تن فرماىا ہوا تھا مَىں کبھى آپ صلى اللہ علىہ وسلم کو دىکھتا اور کبھى چاند کو۔ پس مىرے نزدىک تو آنحضور صلى اللہ علىہ وسلم ىقىنا اَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرَ ىعنى چاند سے کہىں زىادہ حسىن تھے۔ (شمائل ترمذى۔ باب ماجآء فى خلق رسول اللّٰہﷺ)

آپ صلى اللہ علىہ وسلم کے حسن و جمال، خوبصورتى، وجاہت اور اخلاق کے بارے مىں اىک تفصىلى رواىت اس طرح بىان ہوئى ہے۔ حضرت حسن بن على رضى اللہ تعالىٰ عنہما بىان کرتے ہىں کہ مَىں نے اپنے ماموں ہند بن ابى ہالہ سے جو آنحضور صلى اللہ علىہ وسلم کا حلىہ بىان کرنے مىں بڑے ماہر تھے اور مَىں چاہتا تھا کہ ىہ مىرے پاس اىسى باتىں بىان کرىں جنہىں مَىں گرہ مىں باندھ لوں۔ چنانچہ ہند نے بتاىا کہ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم بارعب اور وجىہہ شکل و صورت کے تھے۔ چہرہ مبارک ىوں چمکتا تھا گوىا چودھوىں کا چاند۔ مىانہ قد ىعنى پستہ قامت سے دراز اور طوىل قامت سے قدرے چھوٹا۔ ىعنى نہ چھوٹا قد تھا نہ بہت لمبا۔ درمىانہ قد تھا۔ سر بڑا، بال خم دار اور گھنے جو کانوں کى لَو تک پہنچتے تھے۔ مانگ نماىاں، رنگ کھلتا ہوا سفىد، پىشانى کشادہ، ابرو لمبے بارىک اور بھرے ہوئے جو باہم ملے ہوئے نہىں تھے بلکہ درمىان مىں سفىد سى لکىر نظر آتى تھى جو غصے کے وقت نماىاں ہو جاتى تھى۔ رىش مبارک گھنى، رخسار نرم اور ہموار، دہن کشادہ، دانت رىخدار اور چمکىلے، آنکھوں کے کوئے بارىک، گردن صراحى دار مگر چاندنى کى طرح شفاف جس پر سرخى جھلکتى تھى۔ معتدل الخلق، بدن کچھ فربہ لىکن بہت موزوں۔ پىٹ اور سىنہ ہموار ہوتا تھا۔ سىنہ چوڑا اور فراخ۔ جوڑ مضبوط اور بھرے ہوئے۔ جلد چمکتى ہوئى نازک اور ملائم۔ چھاتى اور پىٹ بالوں سے بالکل صاف سوائے اىک بارىک سى دھارى کے جو سىنے سے ناف تک چلى گئى تھى۔ کہنىوں تک دونوں ہاتھوں اور کندھوں پر کچھ کچھ بال۔ پہنچے لمبے، ہتھلىاں چوڑى، اور گوشت سے بھرى ہوئى۔ انگلىاں لمبى اور سڈول۔ پاؤں کے تلوے قدرے بھرے ہوئے۔ قدم نرم اور چکنے کہ پانى بھى ان کے اوپر سے پھسل جائے۔ جب قدم اٹھاتے تو پورى طرح اٹھاتے۔ رفتار باوقار لىکن کسى قدر تىز جىسے بلندى سے اتر رہے ہوں۔ جب کسى کى طرف رخ پھىرتے تو پورا رخ پھىرتے۔ نظر ہمىشہ نىچى رہتى۔ ىوں لگتا جىسے فضا کى نسبت زمىن پر آپ کى نظر زىادہ پڑتى ہے۔ آپ واکثر نىم وا آنکھوں سے دىکھتے۔ اپنے صحابہ کے پىچھے چلتے اور ان کا خىال رکھتے۔ ہر ملنے والے کو سلام مىں پہل فرماتے۔ (شمائل ترمذى۔ باب ماجآء فى خُلُقِ رسول اللّٰہﷺ)

آپؐ کے حسن کے بارے مىں حضرت ابو ہرىرہ رضى اللہ تعالىٰ عنہ بىان کرتے ہىں کہ حضورصلى اللہ علىہ وسلم اس قدر شفاف حسىن اور خوبصورت تھے گوىا آپ صلى اللہ علىہ وسلم کا بدن مبارک چاندى سے ڈھالا گىا ہے۔ (شمائل ترمذى۔ باب ماجآء فى خلق رسول اللّٰہﷺ)

اور آپؐ کى خوبصورت چال کا نقشہ ىوں کھىنچا گىا ہے۔ حضرت ابو ہرىرہ رضى اللہ تعالىٰ عنہ فرماتے ہىں کہ مَىں نے حضورصلى اللہ علىہ وسلم سے زىادہ حسىن کوئى نہىں دىکھا گوىا آپ ؐ کا چہرہ مبارک اىک درخشندہ آفتاب کى مانند تھا۔ اور مَىں نے چلنے مىں آپ ؐ سے تىز کسى کو نہىں پاىا گوىا زمىن آپ کے لئے سمٹتى جاتى تھى۔ ہمىں آپؐ کے ساتھ چلتے رہنے مىں کافى دقت پىش آتى تھى جبکہ حضور صلى اللہ علىہ وسلم اپنى معمول کى رفتار سے چل رہے ہوتے تھے۔ (شمائل ترمذى- باب ما جاء فى مشىۃ رسول اللہﷺ)

حضرت انس ؓ بىان کرتے ہىں کہ رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم روشن اور صاف رنگ کے تھے اور آپ صلى اللہ علىہ وسلم کا پسىنہ موتىوں کى طرح نظر آتا تھا۔ اور جب آپ صلى اللہ علىہ وسلم چلتے تھے توجس طرح آدمى ڈھلوان سے اترتے ہوئے چل رہا ہوتا ہے آپؐ کے چلنے مىں اس طرح کى روانى ہوتى تھى۔

(مسلم ۔کتاب الفضائل۔ باب طىب رىحہ …)

آپؐ کے ہاتھوں کى نرمى کے بارے مىں حضرت انس رضى اللہ تعالىٰ عنہ کہتے ہىں کہ مَىں نے کوئى رىشم ىا رىشم ملا کپڑا جو رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کى ہتھىلى سے زىادہ نرم ہو کبھى نہىں چھوا۔ (بخارى ۔کتاب المناقب۔ باب صفۃ النبىﷺ)

حضرت جابر بن سمرہؓ بىان کرتے ہىں کہ مَىں نے حضور صلى اللہ علىہ وسلم کے ساتھ ظہر کى نماز پڑھى آپؐ اپنے اہل خانہ کى طرف چلے اور مىں بھى آپ صلى اللہ علىہ وسلم کے ساتھ ہو لىا تو کچھ بچے آپؐ کے سامنے آگئے۔ آپ صلى اللہ علىہ وسلم ان مىں سے ہر اىک کے رخسار کو چھونے اور پىار کرنے لگے۔ راوى بىان کرتے کہ حضور صلى اللہ علىہ وسلم نے مىرى گال پر بھى پىار کرتے ہوئے چھوا تو مىں نے آپ صلى اللہ علىہ وسلم کو ٹھنڈا اور اىسا خوشبو دار پاىا گوىا کہ آپ نے اسے کسى عطار کے برتن مىں سے نکالا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب طىب رىحہﷺ ولىن مسہ …)

خوشبو آپؐ کو بہت پسند تھى، خوشبولگاىا کرتے تھے اور اىک خاص جگہ رکھا کرتے تھے۔ ىہ بھى رواىت مىں آتا ہے کہ اىک شىشى مىں رکھا کرتے تھے۔ اس سے خوشبو لگاىا کرتے تھے۔ (شمائل ترمذى۔ باب ماجاء فى تعطر رسول اللّٰہﷺ)

اىک رواىت مىں آتا ہے حضرت ابو سعىد خدرى رضى اللہ تعالىٰ عنہ بىان کرتے ہىں کہ حضور صلى اللہ علىہ وسلم پردہ دار کنوارى دوشىزہ سے بھى زىادہ حىا دار تھے۔ (بخارى۔کتاب المناقب۔ باب صفۃ النبىﷺ)

حضرت انس ؓ اىک دعوت کا ذکر کرتے ہىں کہ آپؐ اىک دعوت مىں تشرىف لے گئے۔ کہتے ہىں مَىں بھى ساتھ تھا۔ اس دعوت مىں جو کى روٹى اور کدو گوشت کا سالن پىش کىا گىا۔ راوى کہتے ہىں چونکہ حضور صلى اللہ علىہ وسلم کو کدو پسند تھا۔ حضورصلى اللہ علىہ وسلم شوربے مىں سے کدو تلاش کر کرکے نو ش فرماتے رہے۔ اس لئے مجھے بھى کدو سے رغبت ہو گئى۔ (شمائل ترمذى- باب ما جاء فى صفۃ ادام رسول اللہﷺ)

پھر حضرت عائشہؓ بىان فرماتى ہىں کہ حضور صلى اللہ علىہ وسلم کھانے مىں مىٹھى چىز اور شہد پسند فرماىا کرتے تھے، آپؐ کو مىٹھا پسند تھا۔ (بخارى۔ کتاب الأطعمۃ ۔باب الحلوٰى والعسل)

حضرت ابن عباسؓ بىان کرتے ہىں کہ حضور صلى اللہ علىہ وسلم اور آپؐ کے اہل خانہ اکثر کئى کئى راتىں بھوک مىں گزار دىا کرتے تھے۔ (شمائل ترمذى۔ باب ما جاء فى صفۃ اکل رسول اللّٰہﷺ)

اسى ضمن مىں نبى کامل ﷺ کے عاشق صادق حضرت اقدس مسىح موعودؑ  شان احمد عربى ﷺ ىوں بىان فرماتے ہىں:

زندگى بخش جام احمد ہے
کىا پىارا ىہ نام احمد ہے
لاکھ ہوں انبىاء مگر بخدا
سب سے بڑھ کر مقام احمد ہے

پھر اىک جگہ محبت کا اظہار ىوں کىا:

محمد جو ہمارا پىشوا ہے
محمد جوکہ محبوب خدا ہے
ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ
کہ وہ شاہنشہ ہر دو سرا ہے
اسى سے مىرا دل پاتا ہے تسکىں
وہى آرام مىرى روح کا ہے

ىوں تو حضرت مرزا غلام احمد قادىانى مسىح موعود و مہدى معہود علىہ السلام کى سارى زندگى عشق نبوى ﷺ سے پر ہے وہ حقىقى طور پر اس زمانہ کے اس نبى کے کامل پىروکار اور غلام احمد ہونے کے مصداق ہىں۔ ان کى تمام تر منظوم اور نثرى تحرىرات اردو، فارسى و عربى اسى عشق سے لبرىز ہىں۔ جن کا اس انتہائى مختصر سى تحرىر مىں احاطہ ممکن ہى نہىں بلکہ کئى قرطاس بھى کم پڑجائىں۔

آپ نے اپنى اىک تحرىر مىں فرماىا:
آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کا مزاج بغاىت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھا نہ ہر جگہ حلم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا۔ بلکہ حکىمانہ طور پر رعاىت محل اور موقعہ کى ملحوظ طبىعت مبارک تھى۔ سو قرآن شرىف بھى اسى طرز موزون و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت و رحمت و ہىبت و شفقت و نرمى و درشتى ہے۔

اسى جگہ آگے مزىدپھر فرماتے ہىں:
ان کى نسبت اىک دوسرے مقام مىں بھى اللہ تعالىٰ نے آنحضرت کو مخاطب کرکے فرماىا ہے اور وہ ىہ ہے۔ ۳۱ الجزو نمبر ۹۲ ىعنے تو اے نبى! اىک خلق عظىم پر مخلوق و مفطور ہے ىعنے اپنى ذات مىں تمام مکارم اخلاق کا اىسا متمم و مکمل ہے کہ اس پر زىادت متصور نہىں کىونکہ لفظ عظىم محاورۂ عرب مىں اس چىز کى صفت مىں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعى کمال پورا پورا حاصل ہو۔

(براہىن احمدىہ ہر چہار حصص، روحانى خزائن جلد۱ صفحہ194 بقىہ حاشىہ نمبر11)

پھر فرماىا کہ ’’وہ انسان جس نے اپنى ذات سے اپنى صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانى اور پاک قوىٰ کے پر زور درىا سے کمالِ تام کا نمونہ علماً وعملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلاىا اور انسان کامل کہلاىا‘‘ … ’’وہ انسان جو سب سے زىادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبى تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آىا جس سے روحانى بعث اور حشر کى وجہ سے دنىا کى پہلى قىامت ظاہر ہوئى اور اىک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گىا۔ وہ مبارک نبى حضرت خاتم الانبىاء امام الاصفىاء، ختم المرسلىن، فخر النبىّىن جناب محمد مصطفى صلى اللہ علىہ وسلم ہىں۔ اے پىارے خدا! اس پىارے نبى پر وہ رحمت اور درود بھىج جو ابتدائِ دنىا سے تو نے کسى پر نہ بھىجا ہو۔ اگر ىہ عظىم الشان نبى دنىا مىں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبى دنىا مىں آئے جىسا کہ ىونس ؑ اور اىوب ؑ اور مسىح بن مرىم ؑ اور ملاکى ؑ اور ىحىىٰ ؑ اور زکرىاؑ وغىرہ وغىرہ ان کى سچائى پر ہمارے پاس کوئى بھى دلىل نہىں تھى اگرچہ سب مقرب اور وجىہہ اور خداتعالىٰ کے پىارے تھے۔ ىہ اسى نبى کا احسان ہے کہ ىہ لوگ بھى دنىا مىں سچے سمجھے گئے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَىْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِىْنَ۔ وَاٰخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِىْنَ۔‘‘

(اتمام الحجۃ، روحانى خزائن جلد8 صفحہ308)

ہمارے پىارے امام حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز ان ارشادات کى روشنى مىں فرماتے ہىں
’’تو ىہ ہىں وہ عظىم اخلاق ہمارے نبى صلى اللہ علىہ وسلم کے جن کے بارے مىں اللہ تعالىٰ نے فرماىا ہے کہ ان کے اعلىٰ معىار تک تمہارى عقل و سوچ پہنچ ہى نہىں سکتى۔ وہ سوچ سے باہر ہىں۔ اور جب وہ اىک مومن کى سوچ سے باہر ہوجائىں تو اىک اىسا آدمى جو مومن نہىں ہے، اس کى سوچ تو ان تک پہنچ ہى نہىں سکتى۔ وہ تو ہراىسے پہلو کى اپنى سوچ کے مطابق اپنى ہى تشرىح کرے گا۔ اور اگر کرے گا بھى تو اگر اچھائى کى طرف بھى جائے تواس کا اىک محدود دائرہ ہو گا۔ ہمىں بہرحال ىہ حکم ہے کہ تم بہرحال اپنى استعدادوں کے مطابق ان اخلاق کى پىروى کرنے کى کوشش کرو۔ اللہ تعالىٰ کى اس زبردست گواہى کے باوجود کہ آپؐ عظىم خلق پر قائم ہىں اور اللہ کا قرب پانے کے لئے، آپؐ کے نقش قدم پر چلنا ضرورى ہے آپ(صلى اللہ علىہ وسلم) نے ہمىشہ اپنے آپ کو عاجز بندہ ہى سمجھا ہے۔ چنانچہ اىک دعا جو آپؐ مانگا کرتے تے وہ آپؐ کے اس خلق عظىم کو اور بلندىوں پر لے جاتى ہے۔ اور بے اختىار آپ کے لئے درود و سلام نکلتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 25؍فرورى 2005ء)

 اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِىْدٌ مَّجِىْدٌ

اختتام

درود بھىجنے کے بعد تحرىر کا اختتام صرف ان الفاظ پر کرتا ہوں کہ حب احمدﷺ کے دعوىدارو اگر نبى کامل ﷺاور اس کے غلام صادق علىہ السلام کى پىروکار بننا ہے توپھر ہمىں اسى بہترىن نمونہ کو اپنانا ہوگا۔ انہى اخلاق فاضلہ پر چلنا ہوگا۔ وىسى صورت اور سىرت کے لئے کہ جس قدر وہ حسىن تھے اپنے رب سے ہمىں ىہ دعا مانگنى ہوگى کہ ہمىں بھى وىسا بنادے تا کہ ہم بھى تجھے پسند آجائىں کىونکہ اس کے فضل کے بدوں کچھ بھى مىسر نہىں۔

کہتے ہىں کہ مىرا نبى عربى ﷺ تو پردہ دار کنوارى دوشىزہ سے بھى زىادہ حىا دار تھا۔ چاند سے کہىں زىادہ حسىن تھا۔ جىسے مبارک چاندى سے ڈھالا گىا ہو۔ لوگوں مىں سب سے زىادہ خوبصورت اور خوش اخلاق تھا۔ کىا خوب کہا ہے:

حسىنان عالم ہوئے شرمگىں
جو دىکھا وہ حسن اور وہ نور جبىں
پھر اس پر وہ اخلاق اکمل ترىں
کہ دشمن بھى کہنے لگے آفرىں
زہے خلق کامل زہے حسن تام
علىک الصلٰوۃ علىک السلام

(ابن صادق)

پچھلا پڑھیں

ہالینڈ میں تبلیغی مساعی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2021