• 25 اپریل, 2024

جماعت احمدیہ کا نام رکھنے کی وجہ تسمیہ اور قیام کا مقصد

حضرت مسیح موعودومہدی معہودعلیہ السلام بانی جماعت احمدیہ کے ارشادات کی روشنی میں

ہندوستان میں مردم شماری کے موقع پر حضرت بانی جماعت احمدیہ نے 4 نومبر 1900ء کو ’’اشتہار واجب الاظہار‘‘ کے نام سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ نے تحریر فرمایا :۔
’’چونکہ اب مردم شماری کی تقریب پر سرکاری طور پر اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر ایک فرقہ جودوسرے فرقوں سے اپنے اصولوں کے لحاظ سے امتیاز رکھتا ہے علیحدہ خانہ میں اس کی خانہ پُری کی جائے اور جس نام کو اس فرقہ نے اپنے لئے پسند اور تجویز کیا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں اس کا لکھا جائے۔ اس لئے ایسے وقت میں قرین مصلحت سمجھا گیا ہے کہ اپنے فرقہ کی نسبت ان دونوں باتوں کو گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یاد دلایا جائے اور نیز اپنی جماعت کو ہدایت کی جائے کہ وہ مندرجہ ذیل تعلیم کے موافق استفسار کے وقت لکھوائیں اور جو شخص بیعت کرنے کے لئے مستعد ہے۔ گو ابھی بیعت نہیں کی اس کو بھی چاہئے کہ اس ہدایت کے موافق اپنا نام لکھوائے اور پھر مجھے کسی وقت اپنی بیعت سے اطلاع دے دے…..اور وہ نام جوا س سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلم فرقہ احمدیہ ہے….. یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلم فرقہ احمدیہ…..

اس فرقہ کا نام مسلم فرقہ احمدیہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسم محمد جلالی نام تھااور اس میں یہ مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت ﷺ ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے۔ سو خدا نے ان دوناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا۔ اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا اور مخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے۔ تا اس نام کو سُنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کوکچھ سروکار نہیں۔

سواے دوستو!آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے یہ فرقہ بشارت دیتا ہے نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے۔ خداایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں۔تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلِّی ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے۔ اے قادر و کریم تو ایسا ہی کر۔آمین‘‘

ایک مسلمان صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج: 79) کے برخلاف ہے۔

اس کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا۔
’’مسلمان بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہےاسلام کے تہتر (73) فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے … اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی،حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آج کل نیچریوں کا ایک ایسافرقہ نکلا ہے جو جنت ، دوزخ، وحی،ملائک سب باتوں کا منکر ہے… غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لئے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔

حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ : لَاتَفَرَّقُوْا (ال عمران: 104) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔ حضرت نے فرمایا:
ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔ اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی،حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے، مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحامانتے ہیں۔ وہ شخص بدبخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور اُن کو برا کہے۔ صرف امتیاز کے لیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ ہمارا کاروبارخدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔

اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔خداتعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی… ہم کومسلمان ہونے سے انکار نہیں،مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھاگیا ہے۔ پیغمبر خدا ﷺنے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے……

جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے …… بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتاہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا۔ اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں۔ وہ احمدی ہیں۔‘‘

(بدر مؤرخہ 3 نومبر 1905 صفحہ 3)

حضرت مسیح موعودنے یکم دسمبر 1888ء کو درج ذیل اشتہار شائع کیا:۔
’’میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔

اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشاء تھا جو سمجھ لیا گیا ہے یا وہ بلند غرض ہے؟ میں تویہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اُس سے تسلی پاتا ہے۔


حضرت مسیح موعودنے یکم دسمبر 1888 ء کو درج ذیل اشتہار شائع کیا:۔
’’میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔

اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشاء تھا جو سمجھ لیا گیا ہے یا وہ بلند غرض ہے؟ میں تویہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اُس سے تسلی پاتا ہے۔

(بدر مؤرخہ 3 نومبر 1905 صفحہ3)

حضرت مسیح موعودنے یکم دسمبر 1888 ء کو درج ذیل اشتہار شائع کیا:۔
‘‘میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔

اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشاء تھا جو سمجھ لیا گیا ہے یا وہ بلند غرض ہے؟ میں تویہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اُس سے تسلی پاتا ہے۔

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ