تاریخ عالم میں بہت سی بستیاں اور شہر مختلف وجوہات ہی بنا پر مشہور ہوئے۔ بعض ان میں سے ایسے بھی تھے جن میں ایسی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں جو دنیا کی تاریخ میں امر ہو گئیں۔ ایسی ہی مقدس اور عظیم بستیوں میں سے ایک بھیرہ کا بھی شہر ہے۔
بھیرہ دریائے جہلم کے کنارے واقعہ صوبہ پنجاب کا ایک قدیم شہر ہے۔ کوہ نمک کے قریب واقعہ یہ شہر نہایت قدیم ہے۔ بعض مورخین تو اس کو عراق اور ہڑپہ کی تہذیبوں جتنا قدیم شمار کرتے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس شہر کا ذکر سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملوں کے دوران بھی ملتا ہے اور محمود غزنوی کے حملوں میں بھی۔بعد ازاں یہ شہر چنگیز خان کے قبضہ میں بھی رہا۔بابر اعظم نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اس شہر کو بھی تہہ تیغ کیا اس کی از سر نو تعمیر جس کے آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں، شیر شاہ سوری کے دور میں1540 ء میں ہوئی۔ مغلیہ حکومت کے زیر تصرف رہنے کے علاوہ یہ شہر سکھوں کے قبضہ میں بھی رہا۔ بھیرہ کا ایک قدیم نام جوبناتھ نگر بھی بیان کیا جاتا ہے۔ بھیرہ کا شہر اس مشہور شاہراہ پر واقع تھا جو کابل سے ہندوستان تجارت کی غرض کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ اس وجہ سے پچھلی کئی صدیوں سے یہ شہر تجارتی و ثقافتی اہمیت کا حامل رہا۔موجودہ دور میں بھی اسلام آباد اور لاہور موٹروے کے عین وسط میں واقعہ ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ یہاں موجود قیام گاہ سب سے جدید اور ہر طرح کی آسائشوں کی حامل خیال کی جاتی ہے۔
بھیرہ کی و جہ تسمیہ
بھیرہ کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے۔ بعض مؤرخین اس کو بےراہ کی بگڑی ہوئی شکل قرار دیتے ہیں اور بعض لوگ اس کو سنسکرت کے لفظ بھے یعنی ڈر و خوف اور ہرا یعنی مبرّا اور پاک کا مرکب خیال کرتے ہیں۔ یعنی ایسی جگہ جہاں لوگ ہر طرح کے خوف و ہراس سے محفوظ ہوں۔
بھیرہ کی تاریخی اہمیت
پرانا شہر بھیرہ دریائے جہلم کے دائیں کنارے آباد تھا۔ شیرشاہ سوری نے اس کی دوبارہ تعمیر کروائی اور دریائے جہلم کے بائیں کنارے آباد کیا اور یہاں ایک نہایت خوبصورت اور وسیع مسجد کی تعمیر بھی کروائی۔ یہ مسجد لاہور کی باشاہی مسجد اور دہلی کی شاہی مسجد کی طرح کی ہے۔ سکھ دور میں اس مسجد کی خوب بے حرمتی بھی کی جاتی رہی اور اسے اصطبل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ تاہم 1858 ء میں اس کی دوبارہ مرمت کر کے اس کو بطور مسجد دوبارہ سے استعمال کیا جانا شروع کیا۔ بابر اپنی تزک بابری میں بھی بھیرہ کا ذکر کرتا ہے۔ اور مغلیہ دور میں یہ شہر ہندوستان کے ان 40 شہروں میں شامل تھا جہاں ٹکسال لگائے گئے تھے۔ تجارتی شہر ہونے کی و جہ سے یہ شہر چاقو اور تلواریں بنانے کا مرکز بھی ہوا کرتا تھا۔ یہاں پر لکڑی کا کام بھی اعلیٰ درجہ کا ہوتا تھا۔ بھیرہ میں کھدائی کے کام کا ایک دروازہ اب بھی لاہور کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ آجکل بھی یہاں کی مہندی پورے ملک میں مشہور ہے۔ بھیرہ کے گرد ایک وسیع فصیل تھی جس کے آٹھ دروازے تھے۔ انہیں دروازوں کے اندر یہ شہر آباد تھا۔ اب ان میں سے صرف چار دروازے موجود ہیں اور شہر اس فصیل کے باہر بھی پھیل گیا ہے تاہم اس فصیل کے آثار اب تک موجود ہیں۔
یہ شہر تو کئی دفعہ تباہ ہوا اور آباد ہوا لیکن اصل زندگی اس شہر کو جس عظیم ہستی نے دی، اور جس کے وجود کی وجہ سے یہ شہر تاریخ عالم میں انمٹ نقوش چھوڑ گیا، وہ حکیم الامت سیدنا حضرت نورالدین کا وجودبا جود تھا۔ آپ اس شہر میں پیدا ہوئے، یہیں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور یہیں بچپن کے دن گزارے۔ آپ کے مولد و مسکن ہونے کی و جہ سے یہ شہر ہمیشہ کے لئے تاریخ میں اپنا مقام پیدا کر گیا اور مقدس بستیوں میں اس کا شمار بھی ہونے لگا۔ یہاں آج بھی آپ کا وہ مکان موجود ہے جہاں آپ کی پیدائش ہوئی ، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے کئی ماہ و سال گزارے۔ اب اس مکان کو دوبارہ سے اس کی اصل شکل میں Renovate کیا جا رہا ہے۔ امتداد زمانہ کے باعث یہ کافی بوسیدہ ہو گیا تھا۔ اس کے دوبارہ نوک پلک ہو جانے سے اس کی شان و شوکت اور عظمت دوبارہ سے واپس آ گئی ہے۔ آرکیٹیکچرز کے ماہرین اس میں بہت محنت سے کام کر رہے ہیں۔
بھیرہ کی قادیان سے نسبت
اس شہر کی اہمیت کا اندازہ حضرت مسیح موعودکے اس قول کی و جہ سے بھی ہو سکتا ہے جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا ہے۔ آپ اپنی کتاب ذکر حبیب میں لکھتے ہیں:
ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود شہر بھیرہ میں منڈی میں جا رہے ہیں جس کو وہاں گنج کہتے ہیں۔ جب یہ خواب میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ بھیرہ کو قادیان سے ایسی مناسبت ہے جیسے کہ (۔) سے کیونکہ بھیرہ سے ہم کو نصرت پہنچی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اس شہر سے جو محبت تھی اس کا ذکر کرنا ہی مشکل ہے۔ کیونکہ ہر شخص کو اس جگہ سے ایک انسیت ہوتی ہی ہے جہاں وہ رہتا ہے، جہاں اپنی ابتدائی زندگی کے دن گزارتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ؐ کو مکہ سے محبت تھی اور آپ نے ہجرت کے وقت اس کا اظہار بھی فرمایا تھا۔ آفرین جائیں اس عاشق مسیح کے جس نے اپنے اس شہر کی محبت کو ہمیشہ کے لئے اس لئے دبا دیا کہ مسیح وقت نے آپ کو فرمایا تھا کہ مولوی صاحب! اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ میں وہاں کبھی نہ جاؤں مگر یہ کس طرح ہوگا کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے مگر آپ فرماتے ہیں:
خداتعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں۔ میرے واہمہ اور خواب میں بھی مجھے وطن کا خیال نہ آیا۔ پھر تو ہم قادیان کے ہوگئے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی بھیرہ سے محبت
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ 26 نومبر 1950ء کو بھیرہ تشریف لے گئے، اس موقع پر آپ نے بھیرہ کی اہمیت کے بارے میں فرمایا:
ایک رُبع صدی سے زیادہ عرصہ ہؤا یعنی تقریباً 30 سال ہوئے جب سے میرے دل میں اِس شہر میں آنے کا شوق تھا۔ بھیرہ، بھیرہ والوں کے لئے اینٹوں اور گارے یا اینٹوں اور چُونے سے بنا ہؤا ایک شہر ہے مگر میرے لئے یہ اینٹوں اور گارے یا اینٹوں اور چُونے کا بنا ہؤا شہر نہیں تھا بلکہ میرے اُستاد جنہوں نے مجھے نہایت محبت اور شفقت سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا اور بخاری کا بھی ترجمہ پڑھایا ان کامولد اور مسکن تھا۔ بھیرہ والوں نے بھیرہ کے رہنے والی ماؤں کی چھاتیوں سے دودھ پیالیکن مَیں نے بھیرہ کی ایک بزرگ ہستی کی زبان سے قرآن کریم اور حدیث کا دودھ پیا۔ پس بھیرہ والوں کی نگاہ میں جو قدر بھیرہ شہر کی ہے میری نگاہ میں اس کی اس سے بہت زیادہ قدرہے۔
آپ نے بھیرہ میں جو تقریر فرمائی۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے اوصاف اور اپنے ان سے وابستہ واقعات کا ذکر کرنے کے بعد آپ نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
چونکہ بھیرہ آنے کا شوق مجھے مدت سے تھا اِس لئے یہاں آکر مَیں خوش بھی ہوں کہ میری ایک دیرینہ خواہش پُوری ہوئی۔ مگر بھیرہ کی دیواروں میں داخل ہونے کے بعد میری دل کے زخم دوبارہ ہرے ہوگئے۔ بھیرے کی ہی ایک لڑکی امۃالحی سے جو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی بیٹی تھیں، میری شادی ہوئی۔ ہم دونوں میں بہت محبت تھی۔ حضرت سیدہ امۃ الحی صا حبہ دختر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو بھیرہ کی بیٹی قرار دیتے ہوئے آپ نے ذکر فرمایا کہ
غرض آج سے چھبیس ستائیس یا اٹھائیس سال پہلے امۃالحی مرحومہ سے جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے مَیں نے کہا کہ مَیں تمہیں تمہارے ابّا کے وطن لے جاؤں گا پھر اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت میں یہاں نہ آسکا اور امۃالحی مرحومہ فوت ہوگئیں اور جب مجھے بھیرہ آنے کا موقع ملا تو ان کی وفات پر26 سال گزر رہے ہیں۔ پس جونہی مَیں بھیرہ میں داخل ہؤا وہ باتیں مجھے یاد آگئیں کہ مَیں نے امۃ الحی مرحومہ سے ان کے ابّا کا وطن دکھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خداتعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت جب تک وہ زندہ رہیں مجھے یہاں آنے کا موقع نہ ملا اور جب مجھے یہاں آنے کا موقع ملا تو بھیرے کی بیٹی اور میری بیوی امۃالحی مرحومہ فوت ہوچُکی تھیں۔ بہرحال جیسے اللہ تعالیٰ کی مشیّت ہوتی ہے اسی طرح ہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے بھیرہ سے تعلق کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا۔
میں مدتوں کے انتظار کے بعد اس بستی میں آیا ہوں۔ اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی تعلق ہے۔ اس بستی کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی میری بیوی تھی اور اس بیوی سے میری اولاد بھی ہے۔ پھر اس بستی کے ایک معزز شخص سے میں نے قرآن کریم بھی پڑھا ۔ بخاری پڑھی اور دینی علوم سیکھے۔ پس اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی نسبت ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ جس بات کو میں سچا سمجھتا ہوں اس کو یہاں رہنے والے لوگ بھی سچا سمجھنے لگ جائیں۔
(محمد فاتح ملک)