• 6 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
(حالیہ دورہٴ امریکہ کی ڈائری)

8؍ستمبر 2022ء کی شام کو میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ گزشتہ چند گھنٹوں میں ملکہ الزبتھ کی صحت کے متعلق مستقل خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ اگرچہ کچھ بھی حتمی نہیں تھا تاہم ایک ذریعہ سے مجھے پیغام موصول ہوا کہ ملکہ کی وفات ہو چکی ہے اور یہ بھی کہ سرکاری طور پر اس کا اعلان جلد ہی متوقع ہے۔

مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ خبریں درست تھیں یا نہیں لیکن میں نے اپنی ملاقات کے بالکل آغاز میں ہی اس موصول شدہ اطلاع کے بارے میں آگاہ کر دیا۔ بعد ازاں میں نے اپنی باقی رپورٹ حضور انور کی خدمت میں پیش کی۔ بسا اوقات حضور انور کے تاثرات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ مجھے عجلت میں طلب فرما رہے ہیں اور اس شام بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔ اس لئے میں نے اپنی رپورٹ چند منٹوں میں جلد ہی پیش کر دی۔ اس یقین دہانی پر کہ میری رپورٹ مکمل ہو چکی ہے حضور انور نے فرمایا کہ ’’چلو پھر کام کرو۔‘‘

اپنے تئیں میرا خیال تھا کہ حضور انور یہ ہدایت فرما رہے ہیں کہ میں جاؤں اور اپنے معمول کے کام میں مشغول ہو جاؤں۔ اس لئے میں نے اپنی فائل اٹھائی اور سلام کرکے حضور انور کے دفتر سے اجازت چاہی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ‘‘تم کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا ہے کہ کام کرو اور تم چھٹی کر رہے ہو۔‘‘

ایک لحظہ کے لئے میں پریشان ہوا پھر سمجھ آئی کہ حضور انور کچھ dictation دینا چاہتے ہیں، اس خطاب کے حوالہ سے جو آپ نے لجنہ یوکے کے نیشنل اجتماع میں فرمانا تھا۔ گزشتہ روز حضور انور نے منشاء ظاہر فرمایا تھا کہ آپ شاید اگلے روز کچھ dictation دیں لیکن پھر بھی پہلے پہل مجھے سمجھنے میں غلطی لگی کہ آپ کا فرمانا کہ ’’چلو پھر کام کرو‘‘ سے کیا مراد تھی۔

شکر ہے کہ میرا لیپ ٹاپ میرے پاس تھا اور تیزی سے میں نے اس کو تیار کیا اور حضور انور کے خطاب کے حوالہ سے dictation لینی شروع کی جو اگلے ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ میرے تجربہ کی رو سے جب حضور انور کوئی دفتری ملاقات فرما رہے ہوں تومحترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب شا ذ و نادر ہی دفتر میں داخل ہو تے ہیں سوائے اس کے کہ حضور انور آپ کو طلب فرمائیں۔ تاہم آپ کا دفتر میں دا خل ہونے کا مطلب تھا کہ کوئی اہم بات تھی جو وہ بتانا چاہتے تھے۔ جو نہی حضور انور نے نظریں اوپر اٹھائیں محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ ’’عوام الناس کی اطلاع کے لئے، سرکاری طور پر ملکہ کی وفات کا ابھی اعلان کر دیا گیا ہے۔‘‘ ملکہ کی وفات کی خبر دینے کے بعد محترم پرائیویٹ سیکر ٹری صاحب دفتر سے باہر تشریف لے گئے۔

اس موقع پر میں نے اپنے تئیں خوش قسمت سمجھا کہ حضور انور کے پہلے تاثرات کو مشاہدہ کیا جیسا کہ سلطنت برطانیہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے دور خلافت کے بعد سے پہلی بار شاہی خاندان میں سے کسی کی وفات ہوئی تھی۔

ہمیشہ کی طرح حضور انور کا رد عمل نہایت با وقار اور متوازن تھا۔ حضور انور نے اوپر دیکھتے ہوئے فرمایا
’’دو دن پہلے کی ایک تصویر تھی جس میں ملکہ نئے وزیر اعظم کا استقبال کر رہی تھیں۔‘‘

جواب میں خاکسار نے عرض کی کہ جی حضور، ملکہ نے نہایت جانفشانی سے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک ملک کی خدمت کی۔

حضور انور نے ملکہ کی ہمت کو داد دی اور مجھے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ dictation جاری رکھوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح کا کام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کام ہر طرح کے حالات میں جاری رہتا ہے۔ اس میں میرے لئے بھی ایک سبق تھا۔ انگلینڈ میں پلے بڑے ہونے کی وجہ سے مجھے ملکہ کی وفات کی خبر سن کر کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ تاہم حضور انور کا نہایت با وقار رد عمل دیکھنے کے بعد میں بھی مطمئن ہو گیا اور ایک لمحہ کے بعد میں نے پوری توجہ کے ساتھ کام کا دوبار ہ آغاز کر دیا۔ اپنے خطاب کی dictation مکمل کرنے کےبعد حضور انور نے دوبارہ ملکہ کا ذکر خیر فرمایا۔ آپ نے ہدایت فرمائی کہ تعزیت کا بیان آپ کی طرف سے اور جماعت کی طرف سے فوری طور پر جاری ہونا چاہئے۔

میں نے حضور انور سے عرض کی کہ مجلس خدام ا لاحمدیہ کا اجتماع جو اگلے روز شروع ہونا تھا وہ حسب پروگرام ہی منعقد ہونا چاہیئے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ’’میرے خیال میں جب تک گورنمنٹ کی طرف سے کوئی پابندی نہ ہو، اجتماع کو کینسل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

بعد ازاں حضور انور نے محترم صدر صاحب خدام الاحمدیہ یوکے (مکرم عبد القدوس عارف صاحب) کوہدایت فرمائی کہ ’’اجتماع جاری رہے گا تاہم کھیل کے پروگرام کو تعظیم کے پیش نظر ختم کردینا چاہئے۔‘‘

پھر خاکسار کی دفتری ملاقات کے دوران ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ’’میں نے جو صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کو کھیل کے پروگرام کینسل کرنے کی ہدایت کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کھیل کے مقابلے ہوتے ہیں تو نوجوانوں کے لئے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں رہتا اس لئے وہ بآواز بلند شور کریں گے اور نعرے لگائیں گے اور ایسے نعرے عین ممکن ہے کہ ہمارے ہمسایوں کے لئے تکلیف کا باعث ہوں۔‘‘

11؍ستمبر 2022ء کی صبح کو میں اپنے پریس اینڈ میڈیا کے دفتر کے میز پر کام کر رہا تھا جب مجھے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے فون کال موصول ہوئی کہ حضور انور خاکسار سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ایک لمحہ کے بعد حضور انور فون پر خاکسار سے یوں مخاطب ہوئے کہ:
’’میرا خیال ہے کہ میں آج خدام الاحمدیہ کےاجتماع کے خطاب میں ملکہ کا ذکر کروں اور اس پر خراج تحسین پیش کروں کہ ملکہ کے دور حکومت میں اس ملک میں جو مذہبی آزادی ہے اسی کی وجہ سے ہمیں اپنا مرکز یہاں قائم کرنا کا موقع ملا ہے۔‘‘

یوں اگلے چند منٹوں میں حضورانور نے ملکہ الزبتھ کی وفات کےمتعلق چند سطور فون پر ہی dictate کروائیں۔ جنہیں میں نے جلدی سے پرنٹ کیا اور اسلام آباد میں حضورانور کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضورانور نے نوٹس کو پڑھا اور چند فقروں میں تبدیلی تجویز فرمائی۔ یہاں تک کہ آپ کو تسلی ہو گئی اور پھر ان کو اپنے سابقہ نوٹس کے ساتھ شامل کر لیا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، یہ پہلا موقع تھا کہ مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کو کرونا کی وباء کے بعد بھرپور اجتماع کے انعقاد کی توفیق مل رہی تھی۔ ملکہ کے اعزاز میں خراج تحسین بھی پیش کیا گیا جس نے ملکی میڈیا میں خوب پذیرائی حاصل کی۔ میڈیا نے رپورٹ پیش کی کہ کس طرح ہزاروں مسلمان اپنے اجتماع کے لئے اکٹھے ہوئے اور نامور اخبارات جن میں Evening Standard اور The Independent شامل ہیں، نے حضور انور کے خراج تحسین کے الفاظ کو نقل کیا۔

ان چند دنوں میں حضور انو رنے احباب جماعت کی راہنمائی فرمائی اور انہیں سکھایا کہ جب کسی ممتاز سربراہ مملکت یا لیڈر کی وفات ہو تو کیسا رد عمل ہونا چاہیئے۔ اپنی عملی مثال اور ہدایات سے حضور انور نے احساس ہمدردی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور لواحقین کی تعظیم اور اکرام اور ان کے جذبات کا خیال رکھنے کی تلقین فرمائی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی سکھایا کہ سب کچھ روک دینے یا ختم کرنے یا محض دکھاوے کی خاطر دوسروں کو متاثر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

(حضور انور کا دورہٴ امریکہ ستمبر – اکتوبر 2022ء از ڈائری عابد خان)

(باتعاون: مظفرہ ثروت۔ جرمنی)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی