• 4 مئی, 2024

خدا کے نبیوں کا امتحان کرنا اچھا نہیں ہوتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
… پھر (حضرت مولوی محمد عبدالعزیز صاحبؓ ولد مولوی محمد عبداللہ صاحب۔ ناقل) بیان کرتے ہیں غرض اسی خاموشی میں جب وقت گزر گیا۔ 1902ء کا زمانہ آ گیا۔ (پندرہ سولہ سال کا عرصہ گزر گیا اور 1902ء آ گیا۔) اس اثناء میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب جنگ مقدس اور آئینہ کمالات اسلام کا مطالعہ کر چکے تھے جس کی وجہ سے کئی سوالات کا تو تصفیہ ہو گیا (جو آپ کے یعنی مولوی صاحب) حضرت مولوی محمد عبدالعزیز صاحبؓ کے والد مولوی محمد عبداللہ صاحب۔ ناقل) کے ذہن میں سوال اُٹھتے تھے۔ یہ دو کتابیں پڑھنے کے بعد بہت سارے سوالوں کا جواب آگیا) لیکن کئی نئے اعتراض بھی پیدا ہو گئے۔ چنانچہ آپ نے اکیس سوالات نوٹ کر لئے۔ (جو اعتراضات پیدا ہوئے وہ اکیس سوالات کی صورت میں نوٹ کئے) اور 1902ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مناظرے کے لئے قادیان کو روانہ ہو گئے کہ وہاں جا کر میں مناظرہ کروں گا اور براہِ راست مسجد مبارک میں تشریف لائے۔ (کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ وہاں کے رہنے والوں میں سے کسی سے کچھ نہیں پوچھا، سیدھے گئے اور مسجد مبارک میں تشریف لے گئے۔ اُس کی بھی ایک وجہ تھی جو آگے بیان ہو گی) اور کسی نماز کے وقت پہنچے (اور نماز باجماعت ادا کی۔) اس لئے کسی کو نہیں بتایا کیونکہ مشہور یہ تھا کہ مرزا صاحب نے چند ایجنٹ رکھے ہوئے ہیں جو آنے والے مہمان سے سب کچھ پوچھ لیتے ہیں، جس طرح پیروں کی عادت ہوتی ہے اور اندر خبر پہنچا دیتے ہیں اور مرزا صاحب جس کمرے میں رہتے ہیں اُس کے کئی دروازے ہیں۔ عجیب عجیب کہانیاں بنائی تھیں۔ اور ہر ایک غرض کے لئے علیحدہ علیحدہ دروازہ تجویز کیا ہوا ہے۔ مرزا صاحب کے پاس جب مہمان اندر جاتا ہے تو چونکہ مرزا صاحب کو پہلے ہی اطلاع پہنچی ہوئی ہوتی ہے، آپ جاتے ہی پوچھتے ہیں کہ آپ کا یہ نام ہے اور آپ فلاں جگہ سے فلاں کام کے لئے آئے ہیں، وغیرہ وغیرہ اور ایسی باتوں سے مہمان کو یقین ہو جاتا ہے۔ (یہ کہانیاں مشہور تھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں اس لئے انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔) تو لکھتے ہیں ایسی باتوں سے اس مہمان کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ یقینا ولی اللہ ہے جو خود بخود ہی سب کچھ بیان کر رہا ہے۔ غرض اُس وقت یہ خیال مولوی صاحب کے دل میں بھی تھا۔ (یہ جو مولوی صاحب گئے تھے ان کے دل میں بھی یہی خیال تھا) اور یہ خیال تھا کہ اگر مجھ سے کوئی پوچھے گا تو کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ اسی واسطے آپ سیدھے مسجد میں آئے اور کسی سے کچھ نہیں پوچھا۔ (بعد میں خود ہی کہتے ہیں کہ یہ امر غلط ثابت ہوا اور مخالفین کا بہتان۔ خیر بہرحال) چونکہ اُس وقت نماز کا وقت تھا یا نماز ہو رہی تھی، آپ نے نماز باجماعت گزاری۔ بعد از نماز حضرت اقدس شاہ نشین پر رونق افروز ہوئے اور دوسرے احباب ادھر ادھر بیٹھ گئے۔ بعد از ملاقات السلام علیکم عرض کرنے کے مولوی صاحب نے چپکے سے حضرت صاحب کے پاؤں پکڑ کر دبانے شروع کئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ (ان کی نیت دبانے کی نہیں تھی، کچھ اور تھی، آگے بیان ہو گی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان لینا اچھا نہیں ہوتا۔ فوراً اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں ڈال دیا کہ یہ دبانا اخلاص کا نہیں ہے بلکہ کوئی اور وجہ ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ) یہ ایک نشان تھا جو حضو رکی پہلی ملاقات میں ہی آپ نے (یعنی مولوی صاحب نے) ملاحظہ فرما لیا۔ اور آپ کو ایمانی روح حاصل کرنے کے لئے ممد ہوا۔ (بیٹا اپنے باپ کے بارے میں کہہ رہا ہے۔ خیر) الحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔ پھر لکھتے ہیں کہ بات یہ تھی جناب مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک حدیث یا روایت میں دیکھا تھا کہ حضرت امام مہدی کی صداقت کا ایک نشان یہ ہو گا کہ آپ کے پاؤں میں (پنجابی میں لکھا ہوا ہے) لپّا یا گڑھا نہیں ہو گا بلکہ سیدھے ہوں گے flat footed جو ہوتے ہیں اُس طرح، زیادہ تلوے میں گڑھا نہیں ہوگا۔ تو آپ نے اسی خیال سے حضور کے پاؤں کو پکڑا۔ (دبانے کی نیت سے نہیں پکڑا تھا یہ دیکھنے کے لئے کہ گڑھا ہے کہ نہیں) اور اُس کے پکڑنے سے دو نشان ملاحظہ فرمائے۔ ایک تو یہ کہ حضور کے پاؤں میں حسب ارشادِ نبوی فی الواقع وہ گڑھا نہیں تھا۔ دوم خود ہی حضور نے فرما دیا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان کرنااچھا نہیں ہوتا۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو کسی نے نہیں بتایا تھا۔ جبکہ بیسیوں آدمی حضور کے پاؤں وغیرہ دبایا کرتے تھے مگر یہ لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی نہیں فرمایا تھاجو اُس وقت آپ نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ یہ کیسے خیال پیدا ہو گیا کہ اُس وقت دبانے والا امتحاناً دبا رہا ہے۔ اور اس وقت یقینا تھا بھی امتحانی دبانا۔ پس یہ ایک بین نشان تھا جو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ایمانی تازگی حاصل کی۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔ پھر لکھتے ہیں کہ اس کے بعد مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرے چند سوالات ہیں اگر حکم ہو تو عرض کروں۔ حضور نے اجازت فرمائی۔ مولوی صاحب نے پہلا سوال پیش کیا جو مولوی صاحب اور حضرت اقدس کے کلام کا جو سلسلہ ہے اُسی طرح لکھا جاتا ہے۔

مولوی صاحب پوچھتے ہیں کہ: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حاضنہ (دائی) تھیں، (کھلانے والی تھیں) حضرت ایمن جن کا نام تھا جن کو حضور روزانہ یا اکثر دفعہ آپ کے پاس پہنچ کر اپنی تازہ وحی سے مشرف فرمایا کرتے تھے جس سے آپ مسرور رہتی تھیں۔ (وحی سن کے خوش ہوا کرتی تھیں) حتی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انتقال ہو گیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ جانشین مقرر ہوئے۔ آپ بھی ایک دن والدہ صاحبہ سے یعنی اُمّ اَیمن سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے۔ تو والدہ صاحبہ رونے لگ گئیں۔ آپ نے فرمایا کیا آپ اس لئے روتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔ یہ سنت اللہ تھی جو پوری ہوئی۔ امّاں جان نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں اس لئے روتی ہوں کہ اِنْقَطَعَتِ الْوَحْیُ۔ کہ آج وحی منقطع ہو گئی۔ پس جب اماں جان صاحبہ انقطاع وحی کی قائل ہیں تو آپ کیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کے قائل ہو سکتے ہیں؟یہ اُن کا سوال تھا۔ بڑی لمبی تمہید کے بعد یہ سوال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو انقطاعِ وحی ہو چکا ہے تو اب کس طرح وحی ہو سکتی ہے؟ آپ کہتے ہیں مجھے وحی ہوتی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا آپ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ کے ماتحت تسلیم کرتے ہیں کہ یہ امت خیر امت ہے۔ مولوی صاحب نے کہا: ہاں مَیں مانتا ہوں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ کیا آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آیت اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ (المائدہ: 112)، وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی اُمِّ مُوْسٰیٓ (القصص: 8)، وَاَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ (النحل: 69) کے ماتحت مسیح کے حواریوں اور موسیٰ کی والدہ اور شہد کی مکھیوں وغیرہ کو وحی الٰہی ہوئی اور ہوتی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا ہاں ضرور ہوتی تھی اور ہوتی ہے۔ (بڑا اچھا یہ ایک تبلیغی قسم کا مناظرہ چل رہا ہے۔)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تو پھر کیا یہ امت مسیح کے حواریوں اور موسیٰ کی امت کی عورتوں اور حیوانوں سے بھی گئی گزری ہو گئی کہ اُنہیں تو وحی ہوئی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو جو خیرِ امت ہے، وحی نہ ہو۔ (جاری ہے)

(خطبہ جمعہ 19؍اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سورۃ الشورٰی اور الزخرف کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2022