• 26 اپریل, 2024

سورۃ الشورٰی اور الزخرف کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورۃ الشورٰی اور الزخرف کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ الشوریٰ

یہ سورة مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی چَوّن آیات ہیں۔

گزشتہ سورة کی آخری آیات میں ایک تو یہ تنبیہ فرمائی گئی تھی کہ جب نبوت کی نعمت اترتی ہے تو لوگ اس کو قبول کرنے سے اعراض کرتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں جب ان کو شر چمٹ جاتا ہے تو پھر لمبی چوڑی دعائیں کرتے ہیں کہ وہ شر ٹل جائے۔ پس ان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے وہ نشانات بھی دکھائے گا جو آفاق پر ظاہر ہوتے ہیں اور جو قانون ِ قدرت کے عظیم مظاہر ہیں۔ اور وہ نشانات بھی دکھائے گا جو ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی ہستی کی گواہی دینے کے لئے موجود ہیں۔

اس سورة میں مقطعات کے بعد فرمایا کہ جس طرح اس سے پہلے وحی کی گئی اور اُسے پہلے لوگوں نے نظر انداز کر دیا اسی طرح اب تجھ پر بھی وحی نازل کی جا رہی ہے جو ایک عظیم نعمت ہے لیکن دنیا دار اس آسمانی نعمت کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ ان کو صرف دنیا کی نعمتوں کی حرص ہوتی ہے۔

اس کے بعد آیت کریمہ نمبر8 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کُل عالم کا ڈرانے والا بیان فرمایا گیا ہے کیونکہ تمام بستیوں کی ماں یعنی مکہ، جسے اللہ تعالیٰ نے سب دنیا کا مرکز مقرر فرمایا ہے، اگر اسے ڈرایا جائے تو گویا کل عالم کو ڈرایا گیا۔ اور وَمَنْ حَوْ لَھَا کے الفاظ میں تو گویا تمام جہانوں کی بستیاں آ جاتی ہیں۔ پھر یَوْ مُ الْجَمْعِ کا ذکر بھی فرما دیا گیا کہ جس طرح مکہ کو تمام بنی نوع انسان کے جمع ہونے کی جگہ بتایا گیا اسی طرح ایک جمع آخرت میں بھی ہو گا جس میں تمام بنی نوع انسان کو جمع کیا جائے گا۔

پس باوجود اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان کو ایک بنانے کی سعی فرمائی گئی لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اہلِ دنیا اس نعمت کو ردّ کر کے پہلے کی طرح آپس میں پھٹے رہیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو مجبور کر کے ہدایت پر اکٹھا نہیں کرتا ورنہ تمام بنی نوع انسان کو ایک ہی امّت بنا دیتا۔

اس کے بعد گزشتہ انبیاء پر وحی کے نزول کا مقصد یہی بیان فرمایا گیا کہ وہ لوگوں کو اکٹھا کریں۔ لیکن جب بھی وہ آئے بد نصیبی سے لوگ اس نعمت کا انکار کر کے اور بھی زیادہ انشقاق کا شکار ہو گئے۔ ان کے تفرقہ کی بنیادی وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ دراصل وہ ایک دوسرے سے عناد رکھتے تھے۔ پس سوال یہ ہے کہ ان کا ان مسلسل نافرمانیوں کے باوجود کیوں قضیہ طے نہیں کیا جاتا ؟۔ اس کا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ جب تک زمین پر انسانوں کی آزمائش کا سلسلہ مقدّر ہے، اس سے پہلے ان کا قضیہ یہاں طے نہیں کیا جائے گا۔ اگرچہ وقتی طور پر ہر قوم کا قضیہ اس کی اجل مسمّٰی کے اندر طے کیا گیا لیکن اس کے بعد ایک اور قوم اور پھر ایک اور قوم دنیا میں آتی چلی گئی اور مجموعی طور پر انسان کا قضیہ آخری اجلِ مسمّٰی کے وقت طے کیا جائے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تاکید فرمائی گئی ہے کہ منکرین کے اختلاف اور نافرمانیوں پر کسی تردّد کی ضرورت نہیں۔ جب اللہ یہ فیصلہ فرمائے گا کہ ان کو جمع کیا جائے تو ضرور جمع کر دے گا۔ اس جمع کی ایک عظیم پیشگوئی سورۃ الجمعۃ میں بھی موجود ہے۔

اس سورة کی آیت نمبر 24کا شیعہ مفسرین سیاق و سباق سے ہٹ کر ایک ظالمانہ ترجمہ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنے کا ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ
لوگو! میں تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا لیکن میرے عزیز رشتہ داروں کو اس کے بدلہ میں اجر دو۔ اس آیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں۔ کیونکہ اپنے عزیزوں کے لئے اجر طلب کرنا دراصل اپنے لئے ہی اجر طلب کرنا ہوتا ہے۔ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ میں تو تم سے اپنے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے بھی کوئی اجر طلب نہیں کرتا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ میرے عزیزوں اور آگے اُن کی نسل کو کبھی صدقہ نہ دیا جائے لیکن تم اپنے اقرباء کو نظر انداز نہ کرو۔ ان کی ضروریات پر خرچ کرنا تم پر فرض ہے۔

یہ جو مضمون چھیڑا گیا تھا کہ غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرو خصوصاً اپنے اقرباء پر، اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیوں انہیں براہ راست خود ہی عطا نہیں فرما دیتا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رزق کے وسیع یا تنگ ہونے کا مضمون اَور حکمتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ بعض دفعہ لوگ رزق میں وسعت کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں اور بعض دفعہ رزق میں تنگی کے ذریعہ۔ اور جو وسعت کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں انہی کا ذکر پہلے گزرا ہے کہ وہ فراخی کے باوجود کمزوروں کا حتی کہ اقرباء تک کا خیال نہیں کرتے۔

اس کے بعد آیت نمبر 30ایک حیرت انگیز انکشاف کر رہی ہے جس کا تصور بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے کسی زمینی انسان کو نہیں ہو سکتا تھا۔ اس زمانہ میں تو آسمانوں کو پلاسٹک کی قسم کی سات تہوں پر مشتمل سمجھا جاتا تھا جس میں چاند ستارے اس طرح جڑے ہوئے ہیں جس طرح کپڑوں پر نگینے ٹانکے جاتے ہیں۔ کون کہہ سکتا تھا کہ زمین کی طرح وہاں بھی چلنے پھرنے والی مخلوق موجود ہے۔ نہ صرف آسمانوں میں ایسی مخلوق کی حتمی طور پر خبر دی گئی بلکہ جمع کے مفہوم کو یہ فرما کر آسمانوں تک بلند کر دیا گیا کہ زمینی مخلوق اور یہ آسمان پر بسنے والی مخلوق ایک دن ضرور جمع کر دی جائے گی۔ یہ ’’جمع‘‘ جسمانی ہو گا یا مواصلاتی، اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے مگر آج سائنسدان اس جدو جہد میں ہیں کہ کسی طرح ان کا آسمان پر بسنے والی مخلوق کے ساتھ کوئی رابطہ ہو جائے۔ گویا وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ زمین کے علاوہ اَور اجرامِ فلکی پر بھی چلنے پھرنے والی مخلوق موجود ہو گی۔

اسی سورة میں جس کا عنوان بھی شوریٰ ہے ایک اور اجتماع کا بھی ذکر فرما دیا گیا یعنی مسلمانوں کا یہ شعار مقرر کر دیا گیا کہ جب کبھی اہم امور انہیں در پیش ہوں تو وہ اکٹھے ہو کر ان پر غور کیا کریں۔

اس سورة میں ایک اور چھوٹی سی آیت نمبر 41قرآنی تعلیم کی فوقیت گزشتہ تمام تعلیمات پر ثابت کرتی ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کوئی انسان کسی زیادتی کا شکار ہو تو اسی حد تک اسے بدلہ لینے کا ختیار ہے جس حد تک زیادتی کی گئی ہو، نہ کہ انتقام کے جوش میں آکر خود زیادتی کا مرتکب ہو جائے۔ لیکن یہ بہت بہتر ہے کہ ایسے عفو سے کام لے جس کے نتیجہ میں اصلاح ہو۔ بعض دفعہ عفو کے نتیجہ میں لوگ اور بھی زیادہ بدی پر دلیر ہو جاتے ہیں۔ پس ایسے عفو کی اجازت نہیں بلکہ ایسے عفو کی تلقین ہے جو اصلاحِ احوال کا موجب ہو۔

آیت نمبر 52میں وحی کی مختلف قسموں کا بیان ہے جو یہ ہے کہ کسی انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ۔ بعض دفعہ یہ وحی حجاب کے پیچھے سے ہوتی ہے یعنی بولنے والا دکھائی نہیں دیتا مگر انسان کا دل وضاحت سے اس کلام کو موصول کرتا ہے۔ اور بعض دفعہ ایک فرشتے کی صورت میں اللہ کا ایلچی اس پر نازل ہوتا ہے اور وہ جو وحی اس پر کرتا ہے وہ بعینہٖ وہی ہوتی ہے جس کا اللہ نے اسے حکم دیا ہوتا ہے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے بھی اسی طرح تجھ پر وحی نازل کی اور اپنے حکم سے تجھے ایک زندگی بخش کلام عطا فرمایا۔

اس سورة کی آخری آیات میں ایک دفعہ پھر اس مضمون کا اعادہ کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب اللہ ہی کی ملکیت ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام امور لوٹائے جائیں گے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 859-861)

سورۃ الزخرف

یہ سورة مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی نوے آیات ہیں۔

اس سورة کے آغاز ہی میں لفظ اُمّ کی تکرار ہے۔ گزشتہ سورة میں اُمّ القریٰ کا ذکر تھا کہ مکہ سب بستیوں کی ماں ہے اور یہاں سورۃ فاتحہ کا ذکر ہے جو اس عظیم الشان کلام کی ماں کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی سارے قرآن کریم کے مضامین اس میں اس طرح سمیٹ دئیے گئے ہیں جیسے رِحم مادر اس بات کا احاطہ کرتا ہے کہ انسان کو پیدائش سے پہلے ان تمام صفات سے مرصّع کر دیا جائے جو اس کے لئے مقدر ہیں۔

پھر فرمایا گیا کہ جب تم سمندری یا زمینی سفر کرتے ہو تو یاد کر لیا کرو کہ اللہ ہی ہے جس نے سمندر میں چلنے والی کشتیوں کو یا زمین میں چلنے والے جانوروں کو، جن پر تم سواری کرتے ہو، تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ اور تم میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جو حادثات کا شکار ہو کر اُن منازل کو نہیں پا سکیں گے جن کی خاطر وہ روانہ ہوئے تھے۔ لیکن یاد رکھنا کہ آخری منزل وہی ہے جس میں تم اللہ کے حضور حاضر ہونے والے ہو۔

اس سورة کی پہلی آیات تو اہلِ کتاب کاتذکرہ کرتی ہیں اور بعد میں آنے والی آیات مشرکین کا۔ چنانچہ اس کے بعد گزشتہ انبیاء جو بالخصوص مشرک قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے ان کا اور ان کے انکار کے نتائج کا ذکر ہے جو منکرین کو بھگتنا پڑے۔

اللہ تعالیٰ اس سے پہلے تمام بنی نوع کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کا ذکر فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر ہم نے ایسا کرنا ہوتا تو ان دنیا کے حریصوں کو اکٹھا کرنے کی صرف ایک صورت ہو سکتی تھی کہ ان کے گھروں کو سونے چاندی اور دیگر نعمتوں سے بھر دیتے۔ لیکن یہ تو محض ایک ایسا ظاہری عیش و عشرت کا سامان ہوتا جس کی کوئی بھی حقیقت نہیں اور صرف دنیا کی چند روزہ عارضی دولت ان کو نصیب ہوتی لیکن آخرت تو صرف متقیوں ہی کو نصیب ہوا کرتی ہے۔

اس جگہ ہدایت پر لوگوں کے جمع نہ ہونے کا ایک سبب یہ بیان فرمایا گیا کہ ان کے ساتھی بے دین ہوتے ہیں اور ان کے اثر کے تابع وہ بھی دہریت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن قیامت کے دن ان میں سے ہر ایسا شخص جس کے بد ساتھی نے اُس پر بُرا اثر ڈالا ہو، اپنے اس بد ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے اس حسرت کا اظہار کرے گا کہ کاش میرے اور تمہارے درمیان مشرق و مغرب کا بُعد ہوتا تو میَں اس بد انجام کو نہ پہنچتا

اس سورة میں ایک اور بہت اہم آیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزول کی کیفیت سے پردہ اٹھا رہی ہے جس میں بیان فرمایا گیا ہے کہ حضرت مسیح تو ایک مَثَل تھے اور مشرکوں کے سامنے جب حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر کیا جاتا تھا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب ہو کر یہ کہتے تھے کہ اگر غیر اللہ کو ہی قبول کرنا ہے تو دوسری قوم کے غیر اللہ کو قبول کرنے کی بجائے اپنی قوم کے ہی غیر اللہ کو کیوں قبول نہیں کر لیتے۔ وہ اس بات کو سمجھتے نہیں تھے کہ مسیح خدا نہیں تھے بلکہ وہ اللہ کے ایک انعام یافتہ بندے تھے اور ان کے لئے محض ایک مثال تھے جن سے بہت سے سبق حاصل کئے جا سکتے تھے۔

پھر اسی سورة میں یہ پیشگوئی فرمائی گئی ہے کہ آئندہ بھی مَثَل کے طور پر مسیح نازل ہو گا جو اس علامت کے طور پر ہوگا کہ عظیم انقلاب کی گھڑی آگئی ہے۔

اس سورة میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عظیم مقام بینا فرمایا گیا ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑھ کر عبادت کرنے والے ہیں۔ اگر واقعتہً اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہوتا تو آپؐ ہر گز اس کی عبادت سے اعراض نہ کرتے۔ پس آپؐ کا اللہ تعالیٰ کے کسی فرضی بیٹے کی عبادت سے انکار قطعی طور پر ثابت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کامل یقین پر قائم تھے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورةوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ873-874)

(عائشہ چودھری۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین مئی 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ