• 17 جولائی, 2025

خطبہ جمعہ مؤرخہ19؍نومبر 2021ء (بصورت سوال و جواب)

خطبہ جمعہ حضور انور ایّدہ الله مؤرخہ19؍نومبر 2021ء
بصورت سوال و جواب

سوال: صحابہؓ کی پہلی حالت اور اسلام قبول کرنے کے بعد انقلاب جو اِن کی حالتوں میں آیا، اُس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت المصلح الموعودؓ نے ایک مثال کن کی دی ہے؟

جواب: حضرت عمر فاروقؓ کی۔

سوال: حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مذکورہ بالا تناظر میں حضرت المصلح الموعودؓ کے ارشاد فرمودہ حضرت عمرؓ کے کس لمبے واقعہ کا خلاصہ بیان کیا؟

جواب: قبولیّتِ اسلام کا۔

سوال: حضرت المصلح الموعودؓ نے اِس ضمن میں مزید کیا ارشاد فرمایا؟ ’’یہی صحابہؓ تھے جو پہلے شراب پیا کرتے تھے، آپس میں لڑا کرتے تھے اور کئی قسم کی کمزوریاں اُن میں پائی جاتی تھیں لیکن جب اُنہوں نے آنحضرتﷺ کو قبول کیا اور دین کے لیے ہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صِرف خود ہی اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھی اعلیٰ مقام پر پہنچانے کا باعث ہو گئے۔‘‘

جواب: وہ پیدا ہی صحابی نہیں ہوئے تھے بلکہ اِسی طرح کے تھے جس طرح کے اور تھے مگر اُنہوں نے عمل کیا اور ہمت دکھائی تو صحابی ہو گئے۔

سوال: حضرت عمرؓ کی خشیّتِ الٰہی کی کیا حالت تھی؟

جواب: حضرت عمرؓ فرماتے ہیں! اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی بکری بھی ضائع ہو کر مَر گئی تو مجھے ڈر ہے کہ الله تعالیٰ مجھے قیامت کے دن اُس کے بارہ میں سوال کرے گا۔

سوال: حضرت عمر فاروقؓ کی انگوٹھی پر کیا جملہ کندہ تھا نیز حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس کی کیا تصریح پیش فرمائی؟

جواب: کَفٰی بِالْمَوْتِ وَاعِظًا یَا عُمَرُ کہ اَے عمر! واعظ ہونے کے لحاظ سے موت کافی ہے یعنی اگر انسان موت کو یاد رکھے تو وہی نصیحت کرنے والی ایک چیز ہے اور اپنی حالت کو ٹھیک رکھنے کے لیے یہی چیز کافی ہے۔

سوال: یہ کن کا ارشاد مبارک ہے، حضرت عبداللهؓ بن شداد کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نماز پڑھا رہے تھے اور مَیں آخری صف میں تھا لیکن حضرت عمرؓ کی گریہ و زاری کی آواز سُن رہا تھا وہ یہ تلاوت کر رہے تھے۔ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰهِ (یوسف: 87) کہ مَیں تو اپنے الله ہی کے سامنے اپنے سارے دکھ رویا کروں گا، کسی اور کے سامنے مجھے ضرورت نہیں ہے۔ پس جو ذکرِ اِلٰہی میں گم رہتے ہیں اُن کو خدا کے سوا کسی اور کا دَربار ملتا ہی نہیں جہاں وہ اپنے غم اور دکھ روئیں اور اپنے سینوں کے بوجھ ہلکے کریں؟

جواب: حضرت خلیفة المسیحِ الرّابع ؒ

سوال: حضرت عمرؓ بن خطاب نے اہلِ مدینہ کی عورتوں میں سے بعض کو اوڑھنیاں تقسیم کیں۔ ۔ ۔ اِن میں سے ایک اچھی اوڑھنی بچ گئی جو لوگ اُن کے پاس تھے اُن میں سے کسی نے اُن سے کیا کہا نیز اُس پر آپؓ نے کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: اَے امیر المؤمنین!آپؓ یہ رسول اللهؐ کی اُس بیٹی کو دیں جو آپؓ کے پاس ہے (اُس کی مراد حضرت علیؓ کی بیٹی حضرت امّ کلثومؓ تھیں)؍ نہیں! امّ سَلِیطؓ اِس کی زیادہ حقدار ہیں، حضرت امّ سَلِیطؓ اُن انصاری عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللهؐ کی بیعت کی تھی۔ ۔ وہ جنگِ اُحد کے دن ہمارے لیے مشقیں اُٹھا کر لاتی تھیں۔

سوال: حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عمرؓ کے رعایاء کی خدمت کے عظیم معیار کی بابت کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: حضرت عمرؓ کی لوگوں، ضرورتمندوں، عورتوں، بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی بہت سی روایات ہیں کہ کس طرح الله تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے آپؓ پوری کیا کرتے تھے اور کس طرح بے چین ہو جایا کرتے تھے، آپؓ جب دیکھتے تھے کہ کسی کی ضرورت پوری نہیں ہوئی اور آپؓ کی رعایاء میں ہے وہ تو بہت بے چین ہوتے تھے۔

سوال: کس نے ارشاد فرمایا کہ حضرت عمرؓ کو دیکھ لو! اُن کے رعب اور دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کانپتے تھے، قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تک لرزہ براندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمرؓ جیسا عظیم المرتبت انسان تِلملا اُٹھا اور وہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لاد کر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اُٹھا کر اُن کے پاس پہنچا اور اُس وقت تک واپس نہیں لَوٹا جب تک کہ اُس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر اُن بچوں کو نہ کھلا لیا اور وہ اطمنان سے سو نہ گئے؟

جواب: حضرت المصلح الموعودؓ

سوال: حضرت عمر فاروقؓ نے ایک بُڑھیا سے اُس کے حقِ مظلومیت کو کتنے دینار میں خرید لیا؟

جواب: پچیس دینار میں۔

سوال: حضرت اسلم ؓسے مروی ہے جو حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ تھے کہ بعض راتوں میں سے ایک رات میں مَیں امیر المؤمنین کے ساتھ مدینہ کی اطراف میں پِھر رہا تھا، آپؓ نے ایک گھڑی کے لیے اِستراحت کی غرض سے ایک دیوار کی جانب سہارا لیا تو آپؓ نے کیا سُنا؟

جواب: گھر کے اند ر بڑھیا اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ اُٹھ اور دودھ میں پانی مِلا دے، لڑکی نے کہا! آپ نہیں جانتیں کہ امیر المؤمنین کے منادی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ دودھ میں پانی نہ مِلایا جائے، ماں نے کہا! نہ اِس وقت امیر المؤمنین موجود ہے اور نہ اُس کا منادی۔ لڑکی نے کہا، خدا کی قسم! یہ بات تو ہمارے لیے مناسب نہیں ہے کہ سامنے تو ہم اُن کی اطاعت کریں اور خلوت میں نافرمانی کرنے لگیں، حضرت عمرؓ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ اور اُس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم سے کر دیا (اُس کی اِسی سچائی پر نیکی کو دیکھتے ہوئے اپنے بیٹے کا رشتہ اُس لڑکی سے کر دیا)، اُس سے عاصم کی ایک لڑکی پیدا ہوئی، حضرت عمرؒبن عبدالعزیز اِسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے۔

سوال: مذکورہ بالا واقعہ حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کس تناظر میں بیان فرمایا؟

جواب: اَولاد کا رشتہ دیکھنے کے لیے لوگ کیا معیار رکھتے ہیں، آجکل بھی ہم دیکھتے ہیں بڑے بڑے اونچے معیار ہوتے ہیں، حضرت عمرؓ کا کیا معیار تھا۔

سوال: طاعون عَمواس کی وجۂ تسمیہ کیا ہے، اِس سے شام میں کتنی اموات ہوئیں نیز حضرت ابو عُبیدہؓ بن الجرّاح کے علاوہ کونسے اصحابِ رسولؐ اِس وباء سے فوت ہوئے؟

جواب: رملہ سے بیت المقدس کے راستہ پر چھ میل کے فاصلہ پر ایک وادی ہے جس کا نام عَمْواس ہے، کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ یہاں سے مرض طاعون کا آغاز ہوا اَور ارضِ شام میں پھیل گیا، اِس لیے اُسے طاعون عَمْواس کہا جاتا ہے۔ لا تعداد اموات ہوئیں، بعض کے نزدیک اِس سے پچیس ہزار کے قریب اموات ہوئیں؍ حضرت مُعاذؓ بن جبل، حضرت یزید ؓبن ابو سفیانؓ، حضرت حارثؓ بن ہشام اور حضرت سہیل ؓ بن عَمرو اور حضرت عُتبہؓ بن سہیل اور اِن کے علاوہ بھی دیگر معززین۔

سوال: کب حضرت عمرؓ مدینہ سے شام کے لیے روانہ ہوئےاور سَرْغمقام پر پہنچ کر سپۂ سالارانِ لشکر سے ملاقات کی، آپؓ کو کس بات کی اطلاع دی گئی جس پر آپؓ مشورہ کے بعد واپس لَوٹ آئے؟

جواب: سترہ ہجری؍ اِس زمین عَمْواس میں بیماری پھیلی ہوئی ہے۔

سوال: حضرت عمرؓ نے صحابہؓ کے مشورہ پر مدینہ واپسی کا ارادہ کیا توحضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ اَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللّٰهِ کیا الله تعالیٰ کی تقدیر سے آپؓ بھاگتے ہیں، اِس پر حضرت عمرؓ نے فورًا کیا جواب دیا؟

جواب: نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللّٰہِ اِلٰی قَدَرِ اللّٰہِ یعنی ہاں! ہم خدا تعالیٰ کی ایک تقدیر سے اُس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔

سوال: طاعون عَمْواس کے تناظر میں کس نےعرض کیاکہ میرے پاس اِس مسئلہ کا علم ہے، مَیں نے رسول اللهﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارہ میں سُنو کہ وہاں کوئی وباء پُھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ، اگر کوئی مرض کسی ایسی جگہ پر پُھوٹ پڑے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے مت نکلو، اِس پر حضرت عمرؓ نے الله تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور وَاپس لوٹ گئے؟

جواب: حضرت عبدالرّحمٰن ؓ بن عوف

سوال: حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کس کی برکت اور قیصرِ روم کے بارہ میں ملنے والے ذکر کو بالفاظ حضرت المصلح الموعودؓ نیز تفسیر رازی سے پیش فرمایا؟

جواب: حضرت عمرؓ کی ٹوپی

سوال: موجودہ خطبہ میں حضرت عمرؓ کی بعض کن دعاؤں کا تذکرہ ہوا؟

جواب: اَللّٰھُمَّ تَوَفَّنِیْ مَعَ الْاَبْرَارِ وَ لَا تُخَلِّفْنِیْ فِی الْاَشْرَارِ وَ قِنِیْ عَذَابَ النَّارِ وَ اَلْحِقْنِیْ بِالْاَخْیَارِ؛ اَے الله! مجھے نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے اور مجھے بُرے لوگوں میں پیچھے نہ چھوڑ اور مجھے آگ کے عذاب سے بچا اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ مِلا دے۔ اَللّٰھُمَّ کَبُرَتْ سِنِّیْ وَ ضَعُفَتْ قُوَّتِیْ وَانْتَشَرَتْ رَعِیَّتِیْ وَاخْفِضْنِیْ اِلَیْكَ غَیْرِ مُضَیِّعٍ وَ لَا مُفَرِّطٍ؛ اَے الله! میری عمر زیادہ ہو گئی ہے اورمیری قوّت کم ہو گئی ہے اور میری رعیّت پھیل گئی ہے تو مجھے بغیر ضائع کیئے اور کم کیئے وفات دے دے۔ اَللّٰهُمَّ لَا تَجْعَلْ هَلَاكَ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ عَلٰى يَدَيَّ؛ اے الله! میرے ہاتھوں محمدؐ کی امّت کو ہلاکت میں نہ ڈالنا۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ سَرِيْرَتِيْ خَيْرًا مِّنْ عَلَانِيَتِيْ وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِيْ صَالِحَةً؛ اَے الله! میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو اچھا کر۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین مئی 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ