• 17 جولائی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 30)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 30

اردو زبان میں اسم صفت کی بناوٹ، اقسام اور استعمالات پہ بات جاری ہے۔ گزشتہ سبق میں جہاں سلسلہ رکا تھا وہیں سے اسے لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ صفت نسبتی پہ بات ہورہی ہے۔ صفات نسبتی وہ صفات ہیں جن سے کسی دوسری چیز سے تعلق، دلچسپی یا رشتہ ظاہر ہو۔ مثلاً ہند یا ہندوستان سے ہندی، عرب سے عربی فارس سے فارسی، آب یعنی پانی سے آبی جیسے مچھلی ایک آبی جانور ہے۔ پیاز سے پیازی یعنی پیاز کے چھلکوں کے رنگ کا کپڑا وغیرہ۔ اب اس کے بنانے یا بننے کے مزید قواعد پہ نظر ڈالتے ہیں۔

1۔ ا (الف)، نہ بڑھانے سے بھی نسبت ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے غلام سے غلامانہ۔ غلام ایک اسم ہے جس کا معنی ہے ایسا شخص جو کسی کی ملکیت ہو خواہ مستقل طور پہ یا عارضی طور پہ۔ زمانہ قدیم میں غلام بطور نوکر کے کام کرتے تھے اور جنگوں وغیرہ میں جو جنگی قیدی ہوتے تھے ان کو غلام بنالیا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں غلام گھریلو نوکر، ملازم پیشہ افراد کی شکل میں موجودہیں۔ تو جب غلامانہ کہیں گے تو یہ غلام سے نسبتی صفت بن جائے گی۔ غلامانہ سوچ، کردار وغیرہ۔ پھر عاقل سے عاقلانہ۔ عاقل بذات خود بھی صفت ہے جو عقل سے نکلی ہے۔ یعنی ایسا شخص جو عقل استعمال کرے۔ ایسے شخص کی سوچ یا قوت فیصلہ کو عاقلانہ کہیں گے۔ جاہل سے جاہلانہ اور مرد سے مردانہ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔

2۔ ہندی کی بعض علامتیں اگر کسی اسم کے آخر پہ لگادی جائیں تو وہ نیا لفظ اسی اسم کی صفت نسبتی بن جائے گی۔ یعنی اس اسم سے ایک تعلق کا اظہار کرنے والی صفت بن جائے گی۔

اسم کے آخر پہ را یا لا لگانے سے: سنہرا (سنہری رنگ کا)، روپہلا (اجالے کی لکیر، چاندی جیسا)، چچیرا (چچا زاد)
ار لگانے سے: جیسے گنوار (غیر تہذیب یافتہ) گاؤں سے نکلا ہے

لا یا الا لگانے سے: سانولا (سیاہی مائل گندم گوں رنگ)، رنگیلا (رنگ سے، ماڈرن اور آزاد خیال مگر برے معنوں میں)، مٹیالا(مٹی سے، مٹی جیسے رنگ کا) اکیلا، منجھلا (درمیان والا، جیسے تین بھائیوں میں سے درمیان والا، بڑے سے چھوٹا، سب سے چھوٹے سے بڑا)، پچھلا، اگلا۔

والا لگانے سے: جیسے سبز والا، پہلے والا، چھوٹے والا

کا لگانے سے: جیسے غضب کا (یعنی بہترین)، قیامت کا (اچھے برے دونوں معنوں میں آتا ہے )

سا لگانے سے: چاند سا، پھول سا۔

صفت عددی

یہ کسی اسم کی ایسی صفت ہوتی ہے جو اس کی تعداد بتاتی ہے۔ تعداد دو قسم کی ہوتی ہے۔

معین تعداد: جب کسی چیز کا ٹھیک ٹھیک عدد معلوم ہو جیسے پانچ آدمی، چھ گھوڑے،

تعداد غیر معین: جب ٹھیک ٹھیک تعداد کسی چیز کی معلوم نہ ہو جیسے چند لوگ، بعض احباب۔

تعداد غیر معین کے لئے اکثر یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

کئی، چند، بعض، سب، کل، بہت، بہت سے، تھوڑا، تھوڑے، کم، کچھ

تعداد معین کی اقسام

1۔ معمولی تعداد جیسے دو، تین، چار، وغیرہ

2۔ تعداد ترتیبی: جس سے کسی شے کی ترتیب معلوم ہوتی ہو۔ جیسے ساتواں، پانچواں وغیرہ۔ اس کے بنانے کا طریق یہ ہوتا ہے کہ تعداد معین کے آخر آگے ’وان‘ لگادیتے ہیں۔ لیکن پہلے چار عدد اور چھ کا ہندسہ اس قاعدے کے تحت نہیں آتے۔ ان کی تعداد ترتیبی یہ ہے۔

پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا، چھٹا۔

بعض اوقات اعداد کے آخر پہ ’وں ‘ لگادیا جاتا ہے اس کا مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کے سب کے سب یعنی کلیت کے اظہار کے لئے۔ جیسے پانچوں، تینوں، چاروں، ساتوں، آٹھوں وغیرہ۔ بعض اوقات تاکید کے لئے ایسے الفاظ کو دہرا دیا جاتا ہے۔ جیسے وہ دونوں کے دونوں چلے گئے، وہ ساتوں کے ساتوں نکمے نکلے وغیرہ۔ یہ بات یاد رہے کہ ان تمام طریقوں سے صفت نسبتی بنائی جاتی ہے۔

فارسی زبان میں عدد کے آخر پہ م کا اضافہ کرنے سے بھی صفت نسبتی بن جاتی ہے جیسے یکم، دوم، سوم، چہارم وغیرہ۔

3۔ تیسری قسم تعداد معین کی تعداد اضافی ہے۔ اس میں کسی عدد کا ایک یا ایک سے زائد بار دہرانا پایا جاتا ہے۔ اُردو میں کئی طرح سے استعمال ہوتی ہے۔

(ا)۔ عدد کے آگے گُنا لگادینے سے جیسے دُگنا، تگنا، چوگنا۔ گنا دراصل سنسکرت کے لفظ (گون آ )سے ہے جس کے معنی ہیں قسم۔ تو دُگنا کا آسان مطلب ہوا دو دفعہ، دو بار وغیرہ۔

(ب)۔ عدد کے آگے (چند )بڑہانے سے بھی صفت نسبتی بن جاتی ہے۔ جیسے دو چند، سہ چند، دہ چند وغیرہ۔

(ج)۔ عدد کے آگے (ہرا )لگانے سے صفت نسبتی بن جاتی ہے۔ جیسےاکہرا، دوہرا، تہرا، چوہرا وغیرہ۔

قاعدہ: بعض اوقات تعداد معین کے آگے (ایک) کا لفظ بڑہادینے سے وہ تعداد غیر معین ہوجاتی ہے۔ جیسے وہاں پچاس آدمی بیٹھے تھے۔ یہ فقرہ ایک معین تعداد کو ظاہر کررہا ہے اگر اس کے اس طرح کردیں کہ وہاں پچاس ایک آدمی بیٹھے تھے تو یہ ایک غیر معین تعداد کو ظاہر کرے گا جو بتارہی ہے کہ اندازاً وہاں پچاس آدمی ہوں گے۔

قاعدہ: اسی طرح غیر معین تعداد کو بیان کرنے کے لئے، دس، بیس، پچاس، سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں بھی استعمال ہوتے ہیں جو محض ایک اندازے کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً مجھے دسیوں کام ہیں۔ اس مکان میں بیسیوں کمرے ہیں۔ ہر روز سینکڑوں آدمیوں سے ملنا پڑتا ہے۔ وہاں ہزاروں آدمی جمع تھے۔ اس کام پہ لاکھوں روپیہ صرف ہوگا۔ اسی طرح ان کی جمع بھی استعمال ہوتی ہے جیسے صدہا، لکھوکھا، کروڑہا۔ باقی آئندہ اِنْ شَآءَ اللہُ۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :
جتنے نبیؑ آئے سب کا مدعا یہی تھا کہ تقویٰ کا راہ سکھلائیں۔ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ (الانفال: 35) مگر قرآن شریف نے تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھلایا ہے۔ کمال نبی کا کمال امت کو چاہتا ہے۔ چونکہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین تھے ﷺ اس لئے آنحضرتؐ پر کمالات نبوت ختم ہوئے۔ کمالات نبوت ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم نبوت ہوا۔ جو خداتعالیٰ کو راضی کرنا چاہے اور معجزات دیکھنا چاہے اور خارق عادت دیکھنا منظور ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی بھی خارق عادت بنالے۔ دیکھو امتحان دینے والے محنتیں کرتے کرتے مدقوق کی طرح بیمار اور کمزورہوجاتے ہیں۔ پس تقویٰ کے امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہر ایک تکلیف اٹھانے کے لئے طیار ہوجاؤ۔ جب انسان اس راہ پر قدم اٹھاتا ہے تو شیطان اس پربڑے بڑے حملے کرتا ہے لیکن ایک حد پر پہنچ کر آخر شیطان ٹہر جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کی سفلی زندگی پر موت آکر وہ خدا کے زیر سایہ ہوجاتا ہے۔ وہ مظہر الہیٰ اور خلیفۃاللہ ہوتا ہے۔ مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگادے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ173، 174 ایڈیشن 2016ء)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

مدعا: مقصد، غرض

تقویٰ کا راہ: تقویٰ کا مطلب خدا تعالیٰ کا خوف اور محبت، ایسی حکمت عملی جس کے ذریعے تقویٰ حاصل ہوسکتا ہے۔

باریک راہیں: ایسی حکمت عملی جو تفصیلی ہو اور جس کے ذریعے انسان ترقی کے نئے مدارج طے کرسکتا ہو۔

کمال: یعنی ترقی کا انتہائی مقام، جہاں تمام صلاحتیں نکھر کے سامنے آجائیں۔

خارق عادت: غیر معمولی بات یا کام۔

مدقوق: دق یعنی ٹی بی کا مریض

طیار: تیار کی پرانی تحریری شکل

سفلی زندگی: پست اور ناپاک خواہشات والی زندگی

زیر سایہ: پناہ میں آجانا

مظہر الہیٰ: خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنانے والا

خلاصہ: سمری، بات کا مقصد چند الفاظ میں بیان کرنا۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین مئی 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ