• 6 مئی, 2024

آنحضرتؐ کی کھلی اور فعلی کتاب کا ہمیں مطالعہ کرتے رہنا چاہئے

آنحضرتؐ کی کھلی اور فعلی کتاب
کا ہمیں مطالعہ کرتے رہنا چاہئے

کتاب کی افادیت و اہمیت سے کسے انکار ہے۔ سب سے اول ہمارے لئے اعلیٰ و ارفع کتاب جس کی عزت و توقیر ہمارے دلوں میں بستی ہے وہ قرآن کریم ہے، اس کے علاوہ کتاب خواہ درسی ہو، علمی و تربیتی ہو، کھلی کتاب ہو یا فعلی کتاب ہو، انسان کی دوست ہوتی ہے۔ اور ہونی بھی چاہئے۔ کیونکہ کتاب مطالعہ کے بعد انسان کے اندر تبدیلی کا باعث ہوتی ہے اور تبدیلی بھی وہ جو روحانی کہلائے۔ اور انسان کو جنت کی راہ دکھلائے۔ خصوصی طور پر کسی روحانیت میں بلند مقام کے حامل انسان کی زندگی کی فعلی کتاب ہو۔ اور بالخصوص ہمارے پیارے رسول خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰؐ کی مبارک زندگی کی فعلی کتاب ہو۔ جس کو پڑھنے اور آپؐ کے اعمال صالحہ اور سنت کو دیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی ایک مومن توفیق پائے تو وہ اللہ کے پیار کے حصار میں آجاتا ہے۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو سیدنا حضرت محمد مصطفیٰؐ کی پاکیزہ زندگی کے عظیم ادوارپر مشتمل اخلاقی و تربیتی و دینی تعلیمات جو قرآن و احادیث اور آنحضور ؐ کی سیرت و شمائل کی کتب میں درج ہیں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا چاہئے۔ آپ ؐ کی کھلی اور فعلی کتاب کا مطالعہ کرتے رہنا چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ ؐ کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ہادی کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کُل دنیا کے لئے مقرر فرمایا۔ مگر آپؐ کی زندگی کے کل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں۔ جس طرح قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے۔ اسی طرح پر رسول اللہ ؐ کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ17 ایڈیشن 1966ء)

آنحضور ؐ کی زندگی کے مطالعہ کی بات کریں توصحابہ ؓساتھ ضرور یاد آتے ہیں۔ کیونکہ سب سے زیادہ صحابہ ؓ نے اپنے آقا و مرشد حضرت محمد ؐ کی فعلی کتاب کو پڑھا اور رضی اللہ عنہم ورضواعنہ کا خطاب پا کر امر ہو گئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-
’’انسان کو چاہئے کہ آنحضرت ؐ اور صحابہ ؓ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے۔ وہ تو ایسے تھے کہ بعض مرچکے تھے۔ اور بعض مرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ185 ایڈیشن 1966ء)

اس اداریہ میں اوپر بیان کردہ ارشاد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ
آنحضور ؐ کی زندگی کی فعلی کتاب گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر خاکسار کو حضرت عائشہ ؓ کا وہ قول یاد آرہا ہے کہ جب کسی شخص نے آنحضور ؐ کی سیرت و شمائل کے بارے میں پوچھا تو آپؓ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہٗ القُراٰنَ کہ آپ ؐ کے اخلاق قرآن کے عین مطابق تھے۔

(حدیقة الصالحین از محترم ملک سیف الرحمان مرحوم صفحہ49)

گویا آپ ؐ قرآن کریم کی تشریح اور تفسیر تھے۔

آئیں! اس مبارک ’’فعلی کتاب‘‘ اور اپنے آقا ؐ کی مبارک سنت کا اختصار سے مطالعہ کرتے ہیں۔ تا یہ خوبیاں اور نیک عادات ہم بھی اپنے اندر سمونے والے بن جائیں۔

سب سے پہلے ایک ایسی خوبی کا ذکر کرتے ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد پر برابر کا اثر کرتی ہے اور وہ ہے سچ بولنا۔ آپ ؐ بچپن سے ہی سچ بولا کرتے تھے۔ اور جھوٹ سے سخت نفرت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ؐ اپنے معاشرے میں ’’صادق اور آمین‘‘ کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے۔ بلکہ بعض کفار اور مشرک آپؐ کو ’’صدوق‘‘ یعنی صادق کی اعلیٰ و ارفع صفت سے پکارتے تھے۔ ایک دفعہ آنحضور ؐ نے کفار مکہ سے مخاطب ہوکے پوچھا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر چھپا ہوا ہے تو کیا تم اسے تسلیم کر لوگے؟ تمام کفار بیک زبان ہوکر بولے کہ ہاں ہم مان لیں گے۔ کیونکہ ہم نے تجھے کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔

اسی طرح جب کچھ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے اور آنحضورؐ کا تاریخی خط حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو دیا اور اسلام لانے کی دعوت دی تو اس نے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ جس نبی کا پیغام آپ لائے ہیں کیا اس نے اپنی سابقہ زندگی میں کبھی جھوٹ بولا ہے؟ تو ابو سفیان بے ساختہ بول اٹھا کہ نہیں نہیں۔ اُس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔

(حدیقة الصالحین از صفحہ84)

اوپر دوسری صفت ’’امین‘‘ بیان ہوئی ہے یہ خوبی بھی آنحضور ؐ کے اندر کمال درجہ حد تک تھی۔ اپنے اور پرائے آپ کے پاس بڑی امانتیں رکھ جاتے۔ جو محفوظ رہتیں اسی وجہ سے آپؐ ’’امین‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ مدینہ ہجرت کے وقت آپؐ تمام امانتیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کر کے مدینہ کو روانہ ہوئے اور حضرت علیؓ نے یہ امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں۔

انسان کی زندگی کی ایک اہم خوبی دی ہوئی زبان کا پاس کرنا ہے۔ جسے ہم عہد کی پاسداری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ہمارے پیارے رسولؐ کی فعلی کتاب میں اس عنوان سے بھی ایک رہنما باب موجود ہے۔ جس میں یہ جلی حروف سے کندہ ہے کہ آپ دی ہوئی زبان کا پاس رکھتے تھے۔ اسکی جیتی جاگتی تصویر ہمیں صلح حدیبیہ کے موقع پر اور اسکے بعد پیدا ہونے والے حالات میں نظر آتی ہے۔ جب فریقین میں یہ طے پا گیا تھا کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ جائے گا تو وہ واپس بھجوایا جائے گا۔ جبکہ مدینہ سے کوئی شخص اگر مکہ پہنچے گا تو وہ واپس نہیں بھجوایا جائے گا۔

تو یہ ان شرائط میں سے ایک سخت شرط تھی مگر ہمارے عہد کا پاس کرنے والے رسول آنحضرت ؐ نے ہر اس شخص کو بوجھل دل کے ساتھ واپس بھجوایا جس نے مکہ میں کفار کی سختیوں سے تنگ آکر مدینہ پہنچ کر پناہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔

آنحضور ؐ کی یہ کھلی فعلی کتاب بہت ضخیم ہے اور 63سالوں تک ہی محدود نہیں بلکہ آپ ؐ کی وفات کے بعد خلفاء و صحابہ ؓنے بھی حضرت محمدؐ کو اپنے اندر اُتارتے ہوئے اس کتاب کو کھلا رکھا اور آج حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے ذریعے یہ فعلی کتاب پہلے سے زیادہ روشن و تابندہ ہوتی جارہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں:-
’’آنحضور ؐ کا وقت کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے بہت بڑی خزاں کا وقت تھا۔ اور اسی کے مقابل میں بہار بھی وہ آئی کہ اسکی نظیر نہ پہلے ملتی ہے اور نہ آئندہ ہوگی۔ اس لئے کہ آئندہ تو اسی بہار کا سماں ہے‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ120)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ’’آئندہ تو اسی بہار کا سماں ہے‘‘ غور طلب ہیں کہ آخری زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے اپنی زندگیوں میں اپنے اعلیٰ و ارفع رسول حضرت محمد ؐ اور صحابہ ؓ کے اسوہ کو سمونے والے ہوں گے۔ گو یا یوں لگے گا کہ ہر احمدی چھوٹا محمدؐ بن کے آپؐ کی سیرت کو اجاگر کرے گا اور آپ ؐ کے اخلاق و اطوار کو زندہ رکھ کر اس فعلی کتاب کو کھلا رکھے گا۔ اور اس کا مطالعہ کرتا رہے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی یہی منشاء تھی کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر آنحضرتؐ اور آپؐ کے صحابہ کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے رہیں۔

اس آرٹیکل میں اس فعلی کتاب کا تمام کچھ لکھنا محال ہے۔ تاہم ایک دو باتوں کا ذکر کر کے اس تحریر کو اس دعا سے ختم کر تے ہیں کہ اے اللہ ! ہم سب احمدیوں کو چھوٹا محمدؐ بنادے تا 1400 سال قبل کا دور دوبارہ لوٹ آئے۔ آمین۔ آئیے یاددہانی کے طور پر آنحضرت ؐ کی پھولوں کی طرح مہکتی اور شبنم کی طرح پاک و صاف مبارک زندگی کو ایک نظر دیکھتے ہیں اوراپنے اندر سرائیت کرتے ہوئے اللہ کی قدرت سے حظ اٹھاتے ہیں۔

آنحضور ؐ اکثر چپ رہتے تھے۔ بلا ضرورت بات نہ کرتے تھے۔ جب بات کرتے تو پوری وضاحت سے کرتے۔ آپؐ کی گفتگو مختصر لیکن فصیح و بلیغ، پُر حکمت اور جامع ہوتی۔ کسی کی مذمت و تحقیر نہ کرتے اور نہ توہین و تنقیض۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ48)

شکر گزاری کا رنگ نمایاں تھا۔ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ آپؐ سے عرض کی جب خدا نےآپؓ کی اگلی پچھلی کمزوریاں معاف فرما دی ہیں تو اتنے لمبے سجدے کیوں بجا لاتے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اَفَلَا اَ کُونَ عَبْدًاشَکُورًا کہ کیا میں اپنے خدا کا عبد شکور نہ بنوں۔

ایک موقع پر اخلاق حسنہ کے حوالے سے فرمایا کہ میں ان کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔

(موٴطا امام مالک باب فی حسن الخلق)

آپؐ نے ان اخلاق کا ذکر یوں فرمایا کہ اے لوگو! سلام کو عام کرو، ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو اور جب لوگ سوئے ہوں تو نماز پڑھو یعنی نماز تہجد ادا کرو۔

(سنن داری کتاب استذان باب فی افشا ءالسلام)

اپنے گھر کے کام کاج خود کر لیتے، اپنا جوتا خود مرمت کر لیتے، اپنا کپڑا سی لیا کرتے (مسند احمد) آپؐ کام کام کاج میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے، اور جب نماز کا وقت آتا تو نماز کے لئے باہر چلے جاتے۔

(بخاری کتاب الاذان)

آنحضرت ؐ میں تکبر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ آپ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ چلتے۔ بے سہارا عورتوں اور مسکینوں اور غریبوں کی مدد کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے۔

(حدیقتہ الصالحین صفحہ68)

اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے غرباء میں تلاش کیا کرو۔

آپ کھجور کی شاخوں سے بنی چٹائی پر سو جایا کرتے تھے۔ اور آپ کی کمر مبارک پر چٹائی کے کھردرے پن کی وجہ نشان بن جاتے تھے یہ نظارہ دیکھ کر صحابہ آبدیدہ ہوجاتے ایک مرتبہ اپنے جان سے پیارے آقا ؐ کے آرام کی خاطر اور چٹائی کی بے آرامی سے بچنے کے لئے صحابہ نے اس پر گدیلا بچھانے کی کوشش کی تو آؐپ نے فرمایا کہ مجھے دنیاوی لذتوں سے کیا غرض؟ میں تو صرف ایک مسافر کی طرح ہوں جو کچھ دیر سستانے کی غرض سے ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور تھوڑا بہت سستانے کے بعد اپنے اگلے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔

(ابن ماجہ)

ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی کا مسافر ہے۔ ایک دنیاوی سفر کرنے والا اپنی ضروریات سفر اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔ اسی طرح اس روحانی سفر میں ہمیں ہر اس خُلق کو ساتھ رکھنا ہے۔ جو آنحضور ؐ نے اپنی زندگی کے سفر میں اپنایا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اس مضمون کو اپنے ایک لیکچر میں یوں بیان فرمایا کہ۔ ایک مومن ایک پرندہ نہیں جو خود اڑتا ہے بلکہ وہ ہوائی جہاز ہے جو خود بھی اُڑتا ہے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ساتھ لے کر جاتا ہے۔ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ ہوائی جہاز کا سفر کرتے وقت محدود سامان ساتھ لے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ہم رخت سفر باندھنے سے قبل جب اپنا سازو سامان تیار کرتے ہیں تو غیر ضروری چیزوں کو نکال دیتے ہیں تا ہوائی جہاز کی انتظامیہ کے بتائے ہوئے وزن کے مطابق بیگ تیار ہوں۔ اگر ہم اپنی زندگیوں کے سفر کو دیکھیں تو ہمیں بھی اخلاق سئیہ کی صورت میں اضافی سامان (Extra Luggage) کو اپنی زندگی سے الگ کرکے اصل سامان یعنی اخلاق حسنہ کو ساتھ لے کر چلیں جس طرح مادی سفر میں مسافر ہلکا پھلکا ہو کر سفر کرتا ہے اسی طرح اس سفر میں بھی اخلاق سئیہ کا بوجھ اُتار کر مکمل ہلکے پھلکے ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف اپنے سفر کو جاری و ساری رکھیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

سورۃ الشورٰی اور الزخرف کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2022