• 29 اپریل, 2024

مکرم معلم محمد مولیدی مرحوم کا ذکر خیر

مؤرخہ 17؍ستمبر 2022ء کو مرحوم معلم محمد مولیدی صاحب کی میدان عمل میں خدمت بجا لاتے ہوئے ایک اندوہناک روڈ ایکسیڈ نٹ میں عین جوانی کی عمر میں موقعہ پر وفات ہوگئی۔ انا للّٰہ و انا الیہ رجعون۔ آپ جماعتی موٹر سائیکل پر ایک جماعتی کام سے واپس آ رہے تھے کہ ناگہانی موت نے آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے آپ کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور آپ کی جماعت کےلئے کی گئی خدمات کا اعلیٰ و عمدہ اجر عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔ اس جگہ خاکسار اذکروا محاسن مواتکم کے تحت آپ کی چند خوبیاں بطور ذکر خیر بیان کرنا ضرور ی خیال کرتا ہوں تا آپ کا ذکر بعد میں آنے والوں کے لیے ایک مشعل راہ ہو اور جماعتی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو جائے۔ اور گزرتے وقت کے دھندلکوں میں ان گم نام سپاہیوں کی جماعت کے لیے کی گئی قربانیوں کے نقوش مٹ نہ جائیں۔

مکرم محمد مولیدی صاحب کا تعلق پوکومو قبیلہ سے تھا۔ یہ قبیلہ کینیا کے شمال مشرق میں کینیا کے سب سے لمبے دریا (Tana River) کے ڈیلٹا کے قریب سے شروع ہو کر گاریسا (Garissa) شہر تک دریا کے دونوں اطراف میں آباد ہے اور یہان کے لوگوں کا ذریعہ معاش بالعموم کھیتی باڑی ہے۔ اس علاقہ کے مشرق میں بحر ہند اور شمال میں صومالیا ہے۔اس قبیلہ کی اکثریت مسلمان ہے۔اس علاقہ میں جماعت کا باقاعدہ نفوذ سن 2000ء کے قریب ہوا جب اس وقت کے امیر و مشنری انچارج مکرم وسیم احمد چیمہ صاحب نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعہ اس علاقہ میں تبلیغی وفود بھیجے۔ (گو اس سے قبل بھی ایک دواحمدی اس علاقہ میں موجود تھے جن میں مکرم رمضان ڈارا صاحب قابل ذکر ہیں جنہوں نے دوران تعلیم ممباسہ میں مکرم شمشیر سوکھیا صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ آف ماریشس کے ذریعہ سے بیعت کی آپ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس آ گئے اور گورنمنٹ کی ملازمت اختیا ر کی اور چند سال قبل ایک اہم سرکاری عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اس سعی کے نتیجہ میں اس علاقہ میں کافی بیعتیں بھی ہوئی اور چند جماعتیں اور چند عارضی مساجد بھی قائم ہوئیں۔شروع سے ہی یہ ایک شورش زدہ علاقہ رہا ہے اور باہر سے لوگوں کا یہاں آنا، رہنا اور کام کرنا اتنا آسان نہیں۔ ایک تو ان کی اپنی حریف قبیلہ اورما سے جو زیادہ تر گلہ بانی کرتے ہیں اور دریا سے کچھ ہٹ کر آباد ہیں جب قحط سالی ہوتی تو وہ اپنے جانوروں کو چرانے دریا کے قریب لے آتے ہیں جن سے ان کی فصلوں کا نقصان ہوتا ہے اور کئی دفعہ خوںریزی بھی ہو چکی ہے۔اسی طرح صومالیا کی طرف سے بھی یہاں در اندازی ہوتی رہتی ہے۔) اس ساری صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مکرم وسیم احمد چیمہ صاحب کے دور میں چند نوجوانوں کو یہاں سے منتخب کر کے مرکز نیروبی میں اس وقت موجود مدرسہ احمدیہ میں داخل کیا گیا تا ان کی تعلیم و تربیت کی جا سکے اور یہ لوگ واپس جا کر اپنے علاقے میں جماعت کا تعلیم و تربیت کا کام کر سکیں۔انہی نوجوانوں میں سے ایک مکرم محمد مولیدی صاحب بھی تھے۔

مدرسہ احمدیہ نیروبی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصہ آپ کی تعیناتی نیروبی ریجن کی ایک نواحی جماعت میں رہی جس کے بعد آپ کا تقرر مازی معلومے (Mazimalume) جماعت ممباسہ ریجن میں کر دیا گیا۔

خاکسار کی آپ سے پہلی ملاقات 2006ء کے وسط میں ہوئی جب خاکسار کا تبادلہ ممباسہ ریجن میں ہوا۔جیسا کہ اوپر ذکرہوا اس وقت آپ کی تعیناتی مازی معلومے (Mazimalume) جماعت میں تھی جس کا شمار ممباسہ ریجن کی بڑی اور فعال جماعتوں میں ہوتا تھا۔اس کے علاوہ قریبی اور چار جماعتوں جن میں جوروری (Jorori) جماعت مسولوا (Musulwa) جماعت ٹانگینی (Tangini) جماعت اور مابویانی (Maboyani) جماعت تھی کی تعلیم و تربیت کا تمام کام بھی آپ کے سپرد تھا۔اس دور میں (شاید آج) بھی اس علاقہ میں ٹرانسپورٹ کا کوئی خاص نظام یا سہولت نہیں تھی اور جنگل اور ٹیلوں کے درمیان پگڈنڈیوں پر پیدل یا پھر سائیکل پر دس دس کلو میٹر دور جماعتوں کا باقاعدگی سے دورہ کرتے اور بہت عمدگی سے اپنے فرائض منصبی بجا لاتے۔ بہت محنتی اور جفا کش تھے۔ ہر جماعت ممبر سے آپ کا قریبی اور ذاتی تعلق اور رابطہ تھا۔مہمان نوازی کی صفت بھی بہت عمدہ تھی جب بھی خاکسار آپ کے پاس دورے پر جاتا محدود وسائل کے باوجود نہایت عمدہ مہمان نوازی کرتے اور اگر رات کا قیام ہوتا تو ساری رات جاگ کر ہمارا پہرا دیتے۔مرکزی مبلغین سے آپ کو دلی لگاؤ،محبت اور انسیت تھی۔

2011ء میں جب اکونڈا (Ukunda) جماعت کے لیے مسجد اور مشن ہاوٴس کی تعمیر کے لیےسابق امیرو مشنری انچارج جماعت کینیا مکرم نعیم احمد چیمہ صاحب کی زیر ہدایت زمین کے حصول کے لیے ایک بار پھر کام شروع کیا تو یہاں کافی چیلنجز درپیش تھےاکونڈا ساوٴتھ کوسٹ کا مرکزی شہر ہے اور بحر ہند کے کنارے پر واقع ہے اور سیر و سیاحت کے حوالے سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ گو یہاں جماعت تو کافی سالوں سے موجود تھی اور ایک مرکزی مبلغ بھی کچھ عرصہ یہاں تعینات رہ چکے تھے۔ مگر یہاں جماعت کے لیے مسجد اور مشن ہاوٴس کے قیام کے لیے زمین کا حصول ایک بڑا چیلنج بنا ہوا تھا۔ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے کوئی تو جماعت کی مخالفت میں زمین دینے کو تیار نہ تھا دوسرا ٹورسٹ شہر ہونےکی وجہ سے جو دینے کو رضا مند ہوتا وہ اس قدر دام بتاتا جو ہمارے بجٹ سے بہت زیادہ ہوتے۔ خیر خلیفہٴ وقت کی دعاوٴں سے اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت مناسب قیمت پر بہت مناسب قطعہ زمین حاصل کرنے کی توفیق دی۔ جب مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو مخالفین کی طرف سے طرح طرح کی شرارتیں شروع ہو گئیں اور کوششیں ہونے لگیں کہ ہمارے قدم یہاں نہ جمیں۔ مقامی معلم صاحب اور احباب جماعت بھی پریشان اور تذبذب کا شکار ہونے لگے۔ جس پر خاکسار کو محسوس ہوا کہ جب تک یہاں ایک بہادر اور نڈر واقفِ زندگی نہیں آئے گا یہ مسائل بڑھتے جائیں گے۔ جس پر خاکسار کی نظر معلم محمد مولیدی صاحب پر پڑی جو نہایت بہادر نڈر اور جماعت کے لیے جان بھی لڑا دینے والے تھے اس لئے ان کا تبادلہ اس جگہ کروایا۔جس کے چند روز بعد ہی الحمداللّٰہ آپ نے صورت حال کو نہایت حکمت اور دلیری سے کنٹرول کیا اور ایک خوف اور وسوسے کی حالت دور کر کےحالات جماعت کے لئے ساز گار کر دیے۔ اور پھر مسجد اور مشن ہاوٴس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا۔ الحمداللّٰہ ان کی اس گراں قدر خدمت کی وجہ سے ادھر اس وقت جماعت کی مسجد مشن ہاوٴس اور مبلغ موجود ہیں۔ اور ساوٴتھ کوسٹ کا ریجنل ہیڈ کواٹر بن چکا ہے۔ اس حوالہ سے جو کردار آپ نے ادا کیا اللہ تعالیٰ آپ کوا س کی جزائے خیر دے۔ آمین

جیسا کہ خاکسار اوپر ذکر کر چکا ہے کہ آپ کا تعلق ایک شورش زدہ علاقہ سے تھا،جہاں کسی باہر کے فرد کے لیے جانا ایک مشکل امر تھا۔اور یہاں جماعتیں تو قائم ہو چکی تھی مگر تب تک کوئی مرکزی مبلغ اس علاقہ میں نہیں جا سکا تھا اور اس کے بعد ابھی تک بھی کوئی نہیں جا سکا۔اس ضمن میں اپریل 2011ء کے آخر میں امیر و مشنری انچارج صاحب کینیا کے زیر ہدایت اس علاقہ میں جانے کا حکم ملا تا وہاں جا کر تمام جماعتوں کا دورہ کر کے اصل حالات سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اس ضمن میں ایک دفعہ تو خاکسار پریشان ہوا مگر پھر دعا کے ساتھ تیاری شروع کی اور ایک ٹیم بنائی۔ جس کے ایک اہم رکن معلم محمد مولیدی صاحب تھے۔ جب خاکسار نے ان کو بلایا اور مشورہ کیا تو آپ نے کہا کہ آپ فکر مت کریں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ اور آپ نے کام کو بخوبی نبھایا بھی۔ خیر آپ نے رابطہ کر کے وہاں اپنے قوم قبیلہ کے لوگوں سے ہمارے آنے کا مقصد اور وہاں دورہ کرنے اور رہنے کا انتظام کیا۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے تو پہلے سے آپ کے اپنے ایک کزن کا بطور گن مین انتظام کیا ہوا تھا۔ جتنے دن ہم وہاں رہے انہوں نے ہمیں اسکارٹ کیا اور جہاں قیام تھا وہاں ساری رات جاگ کر ہمارا پہرہ دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کار خیر کی عمدہ جزا دے۔

اسی طرح ان کا ایک اور واقعہ مجھے یا د آتا ہے ایک دفعہ ایک پاکستانی دوست جو میرے جاننے والے تھے نہایت پریشانی میں میرے پاس آئے اور بتایا کہ ان کے ایک اور پاکستانی دوست جو وکیل ہیں اس علاقہ میں کسی کام سے گئے تھے مگر اب کافی دن ہو گئے ان سے رابطہ نہیں ہو رہا فون بھی بند ہے اور پاکستان سے ان کے بیوی بچوں کا بار بار فون آ رہا ہے اور بہت پریشان ہیں آپ کے لوگ (احمدی) اس علاقہ میں ہیں کچھ پتہ کریں۔جس پر خاکسار نے معلم محمد مولیدی صاحب کو بلایا اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور فوری وہاں جا کر ان کا پتہ معلوم کرنے کا کہا۔ جس پرآپ نے اس دوست سے اپنے لا پتہ دوست کے حوالے سے استفسار کیا اور انھوں نے بتایا کے وہ اکثر ایک ہیڈ ٹیچر کا ذکر کرتے تھے کہ وہ ان کا دوست ہے۔ بہر حال خاکسار نے آپ کو بھجوایا جس پر چند دن کی تگ و دو بھاگ دوڑ کے بعد آپ اس شخص تک پہنچ گئے اور ان کا رابطہ ان کے گھر والوں سے کروایا۔جس پر وہ پاکستانی جب بھی ملتے اس بات کا ذکر ضرور کرتے۔

کچھ عرصہ بعد آپ کا تبادلہ بطور ریجنل انچارج وئ (Voi) ریجن کر دیا گیا وہا ں کچھ سال خدمت کی توفیق پائی اس دوران خاکسار کا تبادلہ بھی ممباسہ سے ویسڑن ریجن ہو گیا۔ اسی اثناء میں آپ کا بھی تبادلہ میرے ریجن میں ہوگیا۔قریباً دس سال آپ کے ساتھ اکٹھے کام کرنے کی توفیق ملی ہمیشہ آپ کو اطاعت گزار ایک سچامخلص دوست، خلافت کا وفادار سپاہی اور جماعت کی خدمت میں ہمہ تن مشغول پایا۔

جب آپ نئے نئے ویسٹرن ریجن میں تبادلہ ہو کر آئےتو خاکسار نے ایک روز نماز فجر کے بعد آپ کو کہا کہ بارشوں سے مسجد پر لکھا کلمہ کافی مدھم پڑ گیا ہے اس کو تازہ پینٹ کر دیں ویسے تو ہر فن مولا تھے اور بہت سے مشن اور مساجد کے کام بغیر کسی لالچ کے خود اپنے ہاتھ سے ہی کر لیتے تھے مگر عربی رسم الخط لکھنے میں آپ کو کافی مہارت تھی اور آج بھی جماعت کی کئی مساجد پر آپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا کلمہ موجو د ہے یہ کہہ کر خاکسار مشن ہاوٴس چلا گیا تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ کسی کہ گرنے کی آواز آئی خاکسار فوری باہر آیا تو دیکھا جس سیڑھی پر چڑھ کر آپ کلمہ لکھ رہے تھے وہ ٹوٹ گئی اور آپ فرش پر گر پڑے جس پر خاکسار نے فوری طور پر سہارا دیکر اٹھایا تو معلوم ہوا کہ ایک پاؤں پر ضرب آئی ہے جس پر فوری طور پر آپ کو ہسپتال لیکر گیا ایکسرے وغیرہ کروا یااور پلاسٹر لگا۔ جس پر کافی عرصہ تک ایک ٹانگ میں آپ کو تکلیف رہی جس پر خاکسار نے ایک دفعہ آپ کو کہا میں معذرت چاہتا ہوں آپ کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی تو فورا ًکہا شیخ! (یہ لفظ مشرقی افریقہ میں مسلم امام کے لئے مستعمل ہے) کیا بات کرتے ہو میں تو اللہ رسول کا نام لکھ رہا تھا وہی میرا محافظ و مدد گار ہے۔ کبھی اس بات کو جتایا تک نہیں ورنہ یہاں بعض دفعہ ان باتوں کا بڑا ایشو بن جاتا ہے۔

کچھ عرصہ آپ نے انسپکٹر مال کی تربیت بھی حاصل کی جس کی وجہ سے جماعتوں میں چندہ جات کی وصولی اور اس کے حسابات کو درست طریق پر رکھنے میں بہت مہارت تھی۔عموماً جس جماعت میں بھی آپ ہوتے اس کا چندہ باقی تمام ریجن سے زیادہ ہوتا۔

جماعت اور خلفائے احمدیت سے آپ کو والہانہ عشق تھا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات اور خلفائےِ احمدیت کے اقوال و تحریرات اکثر آپ کے سوشل میڈیا ہینڈلائنز کی زینت ہوتیں۔مجھے کئی دفعہ کہا کرتےتھے کہ شیخ! بعض احمدی جب میری بات نہیں سنتے یا توجہ نہیں دیتے تو میں ان کے سامنے خلیفہٴ وقت کا حوالہ پیش کرتا ہوں کہ خلیفہ وقت نے یہ فرمایا ہے کہ ایسا کرنا ہے تو فوراً مان لیتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود ؑکی بعض تحریرات آپ کو زبانی یاد تھیں۔قرآن کریم بھی تلفظ کے ساتھ پڑھتے تھے اور اگر کسی جگہ تبلیغ و تربیت کے دوران کسی حوالے کی ضرورت پڑتی تو خاکسار آپ سے پوچھتا تو فورًا بتا دیتے۔

وفات سے چند ماہ قبل آپ کی بڑی بیٹی جس کی عمر قریباً بارہ سال تھی اچانک وفات پا گئی گھر سے دور میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اس کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے اور اس صدمے کو بڑے حوصلہ سے برداشت کیا۔آپ نے وفات سے قبل چند خوابیں بھی دیکھیں جن کا مجھ سے ذکر بھی کیا۔آپ نے وفات سے چند گھنٹے قبل اپنے واٹس ایپ سٹیٹس پر درج ذیل تحریر لگائی ہوئی تھی؛

If you knew how fast people will forget you after your death, you will stop spending your life trying to impress them. You were created to please the Creator, not his creation. Allah will NEVER let us down. We have to put our trust on Him. He will always look after us.

آپ نظام وصیت میں شامل تھے۔ موٴرخہ 19؍ستمبر 2022ء کو آپ کی تدفین آپ کے آبائی علاقہ میں کر دی گئی۔ اللّٰھم نور مرقدہ

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اعلیٰ علیّن میں اپنے پیاروں کی قربت میں جگہ دے۔ اور ان جیسے بے نفس بے شمار خدام ِدین جماعت کا عطا ہوں۔ آمین

(ناصر محمود طاہر۔مبلغ سلسلہ نکورو ریجن کینیا)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2023