• 3 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 11؍فروری 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک

امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 11؍فروری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

مَیں موعود نبی ہوں جس کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے، جھوٹا نہیں ہوں ۔ اِس لیئے تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار ، مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں اور اَے مشرکو! میری اِس دلیری کو دیکھ کر کہیں مجھے خدا نہ سمجھ لینا، مَیں ایک انسان ہوں اور تمہارے سردار عبد المطّلب کا بیٹا ہوں۔

جب آپؐ نے حضرت عبدالله ؓ مُزنی کو قبر میں رکھ دیا تو دعا کی۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَمْسَیْتُ رَاضِیًا عَنْهُ فَارِضَ عَنْهُ؛ اَے الله! مَیں نے اِس حال میں شام کی ہے کہ مَیں اِس سے راضی تھا پس تُو بھی اِس سے راضی ہو جا۔حضرت عبداللهؓ بن مسعود نے اُس وقت تمنّا کی کہ کاش یہ قبر والا مَیں ہوتا۔

اعلان کردو کہ جنّت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اِس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہو گی، نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت الله کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ہاتھ آنحضرتؐ نے کوئی معاہدہ کیا ہے اُس کی مدّت پوری کی جائے گی۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فتحٔ مکّہ کے حوالہ سے حضرت ابوبکرؓ کی ایک خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! حضرت ابوبکرؓ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا خواب بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! مجھے خواب دکھایا گیا ہے اور مَیں نے خواب میں آپؐ کو دیکھا کہ ہم مکّہ کے قریب ہو گئے ہیں، پس ایک کُتیا بھونکتے ہوئے ہماری طرف آئی پھر جب ہم اُس کے قریب ہوئے تو وہ پُشت کے بل لیٹ گئی اور اُس سے دودھ بہنے لگا۔

یہ تعبیر فرمائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

 اِس پر رسول اللهؐ نے فرمایا کہ اُن کا شرّ دُور ہو گیا اور نفع قریب ہو گیا، وہ تمہاری قرابت داری کا واسطہ دے کر تمہاری پناہ میں آئیں گے اور تم اُن میں سے بعض سے ملنے والے ہو۔ پس اگر تم ابوسفیان کو پاؤ تو اُسے قتل نہ کرنا، چنانچہ مسلمانوں نے ابو سفیان اور حکیم بن حزام کو مَرُّالظَّہْرَان کے مقام پر پا لیا۔

مجھے ابوسفیان کے اسلام کے بارہ میں خدشہ ہے

ابنِ عُقبہؒ بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان اور حکیم بن حزام واپس جا رہے تھے تو حضرت عبّاسؓ نے رسول اللهؐ کی خدمت میں عرض کی، یارسول اللهؐ!مجھے ابوسفیان کے اسلام کے بارہ میں خدشہ ہے۔حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس کی بابت ارشاد فرمایا! یہ ذکر تفصیلی پہلے بھی ہو چکا ہے کہ کس طرح ابوسفیان نے کہا تھا، آنحضرتؐ کی اطاعت قبول کی تھی اور اسلام کی برتری کا اقرار کیا تھا ۔ حضرت عبّاسؓ نے کہا کہ اُسے واپس بُلا لیں یہاں تک کہ وہ اسلام کو سمجھ لے اور آپؐ کے ساتھ الله کے لشکروں کو دیکھ لے۔

اگر آپؐ ابوسفیان کے بارہ میں حکم دیں

ابنِ ابی شَیبہ ؒروایت کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان واپس جانے لگا تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللهؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ! اگر آپؐ ابوسفیان کے بارہ میں حکم دیں تو اِس کو راستہ میں روک لیا جائے۔

اہلِ نبوّت دھوکا نہیں دیتے

ابنِ اسحٰقؒ بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان واپس جا رہا تھا تو رسول اللهؐ نے حضرت عبّاسؓ سے فرمایا! اِس یعنی ابوسفیان کو وادی گھاٹی میں روک لو، چنانچہ حضرت عبّاسؓ نے ابوسفیان کو جا لیا اور روک لیا۔ اِس پر ابوسفیان نے کہا ، اَے بنی ہاشم! کیا تم دھوکہ دیتے ہو؟ حضرت عبّاسؓ نے فرمایا! اہلِ نبوّت دھوکا نہیں دیتے۔ ایک اور روایت کے مطابق آپؓ نے کہا! ہم ہرگز دھوکا دینے والے نہیں البتّہ تُو صبح تک انتظار کر یہاں تک کہ تُو الله کے لشکروں کو دیکھے اور اُس کو دیکھے جو الله نے مشرکوں کے لیئے تیار کیا ہے۔ چنانچہ حضرت عبّاسؓ نے ابوسفیان کو اِس گھاٹی میں روکے رکھا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔

اسلامی لشکر کے ابوسفیان کے سامنے سے گزرنے کا سُبُل الہُدٰی والرّشاد میں تذکرہ

ابوسفیان کے سامنے رسول اللهؐ کا سبز پوش دستہ نمودار ہؤا جس میں مہاجرین اور انصار تھے اور اُس میں جھنڈے اور پرچم تھے۔ انصار کے ہر قبیلہ کے پاس ایک پرچم اور جھنڈاتھا اور وہ لوہے سے ڈھکے ہوئے تھے یعنی زِرّہ وغیرہ جنگی لباس میں ملبوس تھے، اُن کی صرف آنکھیں دکھائی دیتی تھیں۔ اُن میں گاہے بگاہے حضرت عمرؓ کی اونچی آواز بلند ہوتی تھی وہ کہتے تھے آہستہ چلو تاکہ تمہارا پہلاحصّہ آخری حصّہ کے ساتھ مِل جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس دستہ میں ایک ہزار زِرّہ پوش تھے، رسول اللهؐ نے اپنا جھنڈا سعدؓ بن عُبادہ کو عطاء فرمایا اور وہ لشکر کے آگے آگے تھے۔جب حضرت سعدؓ، ابوسفیان کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے ابوسفیان کو پُکار کر کہا! آج کا دن خونریزی کا دن ہے ، آج کے دن حُرمت والی چیزوں کی حُرمت حلال کر دی جائے گی، آج کے دن قریش ذلیل ہو جائیں گے۔ اِس پر ابوسفیان نے حضرت عبّاسؓ سے کہا! اَے عبّاس، آج میری حفاظت کا ذمّہ تم پر ہے۔ اِس کے بعد دیگر قبائل وہاں سے گزرے اور اُس کے بعد رسول اللهؐ جلوۂ افروز ہوئےاور آپؐ اپنی اُونٹنی قَصْوَاء پر سوار تھے اور آپؐ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت اُسَیدؓ بن حُضیر کے درمیان اُن دونوں سےباتیں کرتے ہوئے تشریف لا رہے تھے۔ حضرت عبّاسؓ نے ابوسفیان سے کہا! یہ ہیں رسول اللهؐ۔

اَے ابوبکرؓ، حسّانؓ بن ثابت نے کیا کہا ہے؟

حضرت عبداللهؓ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللهؐ فتحٔ مکّہ کے موقع پر مکّہ میں داخل ہوئےتو آپؐ نے دیکھا کہ عورتیں گھوڑوں کےمونہوں پر اپنے دوپٹے مار مار کر اُن کو پیچھے ہٹا رہی تھیں تو آپؐ نے مُسکراتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا! اَے ابوبکرؓ، حسّانؓ بن ثابت نے کیا کہا ہے؟ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے وہ اشعار پڑھے۔

عَدِمْتُ بُنَیَّتِیْ اِنْ لَّمْ تَرَوْهَا
تُثِيْرُ النَّقْعَ مَوْعِدُھَا کَدَاءُ

يُنَازِعْنَ الْاَعِنَّةَ مُسْرِعَاتٍ
يُلَطِّمُهُنَّ بِالْخُمْرِ النِّسَاءُ

کہ مَیں اپنی پیاری بیٹی کو کھو دُوں اگر تم ایسے لشکروں کو غبار اُڑاتے ہوئے نہ دیکھو جن کے وعدہ کی جگہ کداء پہاڑ ہے، وہ تیز رفتار گھوڑے اپنی لگاموں کو کھینچ رہے ہیں ،عورتیں اُنہیں اپنی اوڑھنیوں سے مار رہی ہیں۔

اِس شہر میں وہاں سے داخل ہو جہاں سے حسّانؓ نے کہا

اِس پر رسول اللهؐ نے فرمایا! اِس شہر میں وہاں سے داخل ہو جہاں سے حسّان ؓنے کہا یعنی کداء مقام سے۔ کداء عرفات کا دوسرا نام ہے، فتحٔ مکّہ کے موقع پر آنحضرتؐ یہیں سے مکّہ میں داخل ہوئے تھے۔

یا رسول اللهؐ! ابوسفیان شرف کو پسند کرتا ہے

فتحٔ مکّہ کے موقع پر جب رسول اللهؐ نے امن کا اعلان فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ نےعرض کیا، یا رسول اللهؐ! ابوسفیان شرف کو پسند کرتا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا! جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا وہ بھی امن میں رہے گا۔

اگر محمدؐ کے خدا کے علاوہ بھی کوئی خدا ہوتا تو جو آج ہؤا وہ نہ ہوتا

مکّہ فتح کرنے کے بعد رسول اللهؐ نے ھُبُل بُت کے بارہ میں حکم دیا، چنانچہ وہ گرا دیا گیا اور آپؐ اُس کے پاس کھڑے تھے۔ اِس پر حضرت زُبیر ؓ العوّام نے ابوسفیان سے کہا، اَے ابوسفیان! ھُبُل کو گرا دیا گیا ہے حالانکہ تُو غزوۂ اُحد کے دن اِس کے متعلق بہت غرور میں تھا، جب تُو نے اعلان کیا تھا کہ اِس نے تم لوگوں پر انعام کیا ہے۔ اِس پر ابوسفیان نے کہا، اَے عوّام کے بیٹے!اِن باتوں کو اَب جانے دو کیونکہ مَیں جان چکا ہوں کہاگر محمدؐکے خدا کے علاوہ بھی کوئی خدا ہوتا تو جو آج ہؤا وہ نہ ہوتا۔

حضرت ابوبکرؓ تلوار سونتے رسول اللهؐ کی حفاظت پر مامور

حضرت ابوہُریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهؐ فتحٔ مکّہ کے دن تشریف فرما تھے اور حضرت ابوبکرؓ تلوار سونتے آپؐ کی حفاظت کے لیئے آپؐ کے سَر پر یعنی آپؐ کے سَرہانے کھڑے تھے۔

غزوۂ حُنین

اِس کا دوسرا نام غزوۂ ہَوازن ہے نیز غزوۂ اَوْطاس بھی کہتے ہیں۔ حنین، مکّۂ مکرمہ اور طائف کے درمیان مکّہ سے 30 میل کے فاصلہ پر واقع ایک گھاٹی ہے، یہ غزوہ شوال آٹھ ہجری میں فتحٔ مکّہ کے بعد ہؤا تھا۔

آنحضرتؐ کے پاس صرف چند صحابہؓ رہ گئے جن میں حضرت ابوبکرؓ بھی شامل تھے

جب الله تعالیٰ نے اپنے رسول اللهؐ کے ہاتھ پر مکّہ فتح کرا دیا تو سردارانِ ہَوازن اور ثقیف ایک دوسرے سے ملے اور یہ لوگ ڈر رہے تھے کہ آنحضرتؐ اِن سے بھی لڑائی کریں گے، مالک بن عوف نصری نے قبائلِ عرب کو جمع کیا چنانچہ اُس کے پاس ہَوازن کے ساتھ بنو ثقیف، بنو نصر ، بنو جشم ، سعد بن بکر اور چند لوگ بنو ہلال میں سے جمع ہو گئے۔ یہ سب لوگ جمع ہو کر اوطاس کے مقام پر جمع ہو گئے۔جب رسول اللهؐ نے اِن کے اکٹھے ہونے کی خبر سُنی تو آپؐ نے اپنے اصحابؓ میں سے ایک شخص عبد اللہؓ بن ابو حَدْرَد ْاسلمی کو اُن کی طرف خبریں معلوم کرنے کے لیئے بھیجا۔ اِس کے بعد آنحضرتؐ نے ہَوازن کے مقابلہ کے لیئے کُوچ کا فیصلہ کیا اور جنگ کے لیئے صَفَوان بن اُمَیَّہ اور اپنے چچازاد بھائی نوفلؓ بن حارث سے ہتھیار اُدھار لیئے، اِس طرح رسولِ کریمؐ بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ بنی ہَوازن سے مقابلہ کے لیئے نکلے اور علی الصبح حنین کے مقام پر پہنچے اور وَادی میں داخل ہو گئے۔ مشرکین کا لشکر اِس وادی کی گھاٹیوں میں پہلے سے چھپا ہؤا تھا، اُنہوں نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا اور اتنی شدّت سے تیر مارے کہ مسلمان پلٹ کر بھاگے اور بکھر گئے جس کی وجہ سے آنحضرتؐ کے پاس صرف چند صحابہؓ رہ گئے جن میں حضرت ابوبکرؓ بھی شامل تھے۔

مَیں نبیؐ کے بارہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ نے پیٹھ نہیں دکھائی

ابو اسحٰقؒ سے روایت ہے کہ ایک شخص براءؓکے پاس آیا اور کہا تم لوگ حنین کے دن پیٹھ دکھا گئے تھے، اُنہوں نے کہا! مَیں نبیؐ کے بارہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی لیکن جلد باز اور بغیر ہتھیاروں کے لوگ ہَوازن قبیلہ کی طرف گئے اور وہ تیر انداز قوم تھی ، اُنہوں نے ایسے تیروں کی بارش کی گویا ٹِڈی دَل ہے ، جس کے نتیجہ میں وہ اپنی جگہیں چھوڑ گئے۔

 ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپؐ الله کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ دیں

حضرت ابو قَتادہؓ غزوۂ حنین کے وقت ایک شخص کے قتل کرنے نیز بھاگنے کے بعد سب لوگوں کےرسول اللہ ؐ کی طرف لَوٹ کر جمع ہونے کے تناظر میں بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا جو شخص کسی مقتول کے متعلق یہ ثبوت پیش کر دے کہ اُس نے اِس کو قتل کیا ہے تو اُس مقتول کا سامان اِس کے قاتل کا ہو گا۔ مَیں اُٹھا تاکہ اپنے مقتول کے متعلق کوئی شہادت ڈھونڈوں مگر کسی کو نہ دیکھا جو میری لیئے گواہی دےاور مَیں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا اور مَیں نے اِس مقتول کا واقعہ رسول اللہ ؐ سے ذکر کیا۔ آپؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ اِس مقتول کے ہتھیار جس کا یہ ذکر کرتے ہیں میرے پاس ہیں، آپؐ اِن ہتھیاروں کی بجائے اِن کو کچھ اور دے کر راضی کر لیں۔ حضرت ابوبکرؓ وہاں بیٹھے تھے، آپؓ نے کہا! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔آپ ؐ قریش کے ایک بزدل کو تو سامان دِلا دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ دیں جو اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی طرف سے لڑ رہا ہو۔ حضرت ابو قتادہؓ کہتے تھے کہ رسول اللہ ؐکھڑے ہوئے اور آپؐ نے مجھے وہ سامان دِلا دیا۔ مَیں نے اُس سے کھجوروں کا ایک باغ خرید لیا اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں بطور جائیداد بنایا۔

میری جان آپؐ پر قربان ہو! یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں ہے

حضرت المصلح الموعودؓ بیان کرتے ہیں کہ دیکھو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جنگِ حنین کے موقع پر جب مکّہ کے کافر لشکرِ اسلام میں یہ کہتے ہوئے شامل ہو گئے کہ آج ہم اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گےاور پھر بنو ثقیف کے حملہ کی تاب نہ لا کر میدانِ جنگ سے بھاگے تو ایک وقت ایسا آیا کہ رسولِ کریمؐ کے گرد صرف 12 صحابیؓ رہ گئے۔ اسلامی لشکر جو دسّ ہزار کی تعداد میں تھا اِس میں بھاگڑ مچ گئی، کفّار کا لشکر جو تین ہزار تیز اندازوں پر مشتمل تھا آپؐ کے دائیں بائیں پہاڑوں پر چڑھا ہؤا آپؐ پر تیر برسا رہا تھا مگر اُس وقت بھی آپؐ پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے تھے بلکہ آگے جانا چاہتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر آپؐ کی سواری کی لگام پکڑ لی اور عرض کیا کہ یا رسول اللهؐ ، میری جان آپؐ پر قربان ہو! یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں ہے، ابھی لشکرِ اسلام جمع ہو جائے گا تو پھر ہم آگے بڑھیں گے مگر آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایاکہ میری سواری کی باگ چھوڑ دو اور پھر ایڑھ لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہتے جاتے تھےکہ

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

یعنی مَیں موعود نبی ہوں جس کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے، جھوٹا نہیں ہوں ۔ اِس لیئے تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار ، مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں اور اَے مشرکو! میری اِس دلیری کو دیکھ کر کہیں مجھے خدا نہ سمجھ لینا، مَیں ایک انسان ہوں اور تمہارے سردار عبد المطّلب کا بیٹا یعنی پوتا ہوں۔

اَے سورۂ بقرہ کے صحابیوؓ! خدا کا رسول تم کو بُلاتا ہے

آپؐ کے چچا حضرت عبّاس ؓکی آواز بہت اونچی تھی، آپؐ نے اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا! عبّاس آگے آؤ اَور آواز دو اَور بلند آواز سے پکارو کہ اَے سورۂ بقرہ کے صحابیوؓ! اَے حُدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آواز میرے کان میں پڑی تو مجھے یوں معلوم ہؤا کہ مَیں زندہ نہیں بلکہ مُردہ ہوں اور اِسرافیلؑ کا صُور فضاء میں گونج رہا ہے ۔ ۔۔نیز چند لمحوں ہی میں وہ لشکر جو بے اختیار مکّہ کی طرف بھاگا جا رہا تھا آپؐ کے گرد اکٹھا ہو گیا اور تھوڑی دیر میں پہاڑیوں پر چڑھ کر اُس نے دشمن کا تہس نہس کر دیا اور یہ خطرناک شکست ایک عظیم الشّان فتح کی صورت میں بدل گئی۔

غزوۂ طائف

ہَوازن اور ثقیف کے پیشر شکست خوردہ افراد اپنے سرادر مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر طائف ہیآئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہو گئے تھے لہٰذارسول اللهؐ نے حنین سے فارغ ہو کر اور جِعرانہ میں مالِ غنیمت جمعکروا کر تقسیم فرمایا اور اِسی ماہِ شوال یعنی آٹھ ہجری میں طائف کا قصد فرمایا۔

مَیں بھی ایسا ہی ہوتا ہؤا نہیں دیکھ رہا

آنحضرتؐ نے طائف کا کتنے روز محاصرہ کیا تھا اِس بارہ میں متعدّد روایات ملنے کا تذکرہ ہؤا۔ جب رسول اللهؐ نے طائف میں ثقیف کا محاصرہ کر رکھا تھا تو آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا! اَے ابوبکرؓ، مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے مکھن سے بھرا ہؤا ایک پیالہ پیش کیا گیا مگر ایک مُرغ نےڈھونکا مارا تو اِس پیالہ میں جو کچھ تھا سب بہہ گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا، یا رسول اللهؐ! مَیں نہیں سمجھتا کہ آپؐ آج کے دن اِن سے جس چیز کا اِرادہ رکھتے ہیں وہ حاصل کر لیں گے۔ رسول اللهؐ نے فرمایا! مَیں بھی ایسا ہی ہوتا ہؤا نہیں دیکھ رہا۔ تھوڑی دیر بعد با اِجازت نبیٔ کریمؐ حضرت عمرؓ نے لوگوں میں واپسی کااعلان کر دیا۔

غزوۂ تبوکء؍ رجب9 ہجری

تبوک مدینہ سے شام کی اُس شاہراہ پر واقع ہے جو تجارتی قافلوں کی عام گزرگاہ تھی اور یہ وادیٔ القریٰ اور شام کے درمیان ایک شہر ہے، اِسے اَصْحَابُ الْاَیْکَہْ کا شہر بھی کہا گیا ہے، اِس کی طرف حضرت شعیب ؑ مبعوث ہوئے تھے۔

حضرت ابوبکرؓ رسول اللهؐ کے آخری غزوہ میں ہمراہ

حضرت ابوبکرؓ غزوۂ تبوک میں رسول اللهؐ کے ہمراہ تھے اور آپؐ نے اِس غزوہ میں ایک بڑا جھنڈا آپؓ کو عطاء فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اِس موقع پر اپنا کُل مال جو آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کیا تھا اُس کی مالیّت چار ہزار دِرہم تھی۔رسولِ کریمؐ نے جب صحابۂ کرامؓ کو غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیئے حکم دیا تو آپؐ نے مکّہ اور دیگر قبائلِ عرب کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ بھی آپؐ کے ساتھ چلیں اور آپؐ نے اُمراء کو الله کی راہ میں مال خرچ کرنے اور سواری مہیّا کرنے کی تحریک فرمائی یعنی آپؐ نے اِس بات کا اُنہیں تاکیدی حکم دیا اور یہ آپؐ کا آخری غزوہ ہے۔

گھر والوں کےلیئے الله اور اُس کا رسولؐ چھوڑ آیا ہوں

چنانچہ اِس موقع پر جو شخص سب سے پہلے مال لے کر آیا وہ حضرت ابوبکر صدّیقؓ تھے، آپؓ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے، رسول اللهؐ کے دریافت فرمانے کہ اپنے گھر والوں کے لیئے بھی کچھ چھوڑا ہے کہ نہیں، پر عرض کیا! گھر والوں کےلیئے الله اور اُس کا رسولؐ چھوڑ آیا ہوں۔ اِسی طرح حضرت عمرؓ بن خطاب اپنے گھر کاآدھا مال لے آئے، حضرت عبدالرّحمٰنؓ بن عوف نے ایک سَو اَوقیہ (تقریبًا چار ہزار دِرہم) پیش کیئے پھر آپؐ نے فرمایا! عثمانؓ بن عفان اور عبدالرّحمٰنؓ بن عوف زمین پر الله تعالیٰ کے خزانوں میں سےخزانہ ہیں جو الله کی رضا کے لیئے خرچ کرتے ہیں۔ اِس موقع پر عورتوں نے بھی اپنے زیوارات پیش کیئے اور حضرت عاصمؓ بن عدی نے ستّر وَسَقْ (تقریبًا ڈیڑھ ٹَن) کھجوریں پیش کیں۔

الله کی قسم! مَیں اِن سے کسی چیز میں کبھی بھی سبقت نہیں لے جا سکتا

زیدؒ بن اسلمؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے عمرؓ بن خطاب کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ رسول اللهؐ نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہم صدقہ کریں اور اُس وقت میرے پاس مال تھا اور مَیں نے کہا! آج کے دن مَیں ابوبکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا اگر مَیں اُن سے کبھی سبقت لے جا سکا تو آج کے دن !مگر اپنی اورحضرت ابوبکرؓ کی متذکرۂ بالا قربانی کے تناظر میں کہتے ہیں کہ الله کی قسم! مَیں اِن سے کسی چیز میں کبھی بھی سبقت نہیں لے جا سکتا۔

الٰہی دین پر لوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح نثار کرتے تھے

حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام فرماتے ہیں۔ ’’ایک وہ زمانہ تھا کہ الٰہی دین پر لوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح نثار کرتے تھے مالوں کا تو کیا ذکر۔ حضرت ابوبکر صدّیق ؓ نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنا کُل گھر بار نثار کیا۔حتّی کہ سوئی تک کو بھی اپنے گھر میں نہ رکھا اور ایسا ہی حضرت عمرؓ نے اپنی بساط و انشراح کے موافق اور عثمانؓ نے اپنی طاقت و حیثیت کے موافق، عَلٰی ہٰذَا الْقِیَاسِ عَلٰی قَدْرِ مَرَاتِب ۔ تمام صحابہؓ اپنی جانوں اور مالوں سمیت اِس دینِ الٰہی پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ایک وہ ہیں کہ بیعت تو کر جاتے ہیں اور اقرار بھی کر جاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدّم کریں گے مگر مدد و اِمداد کے موقعہ پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑ رکھتے ہیں۔ بھلا ایسی محبّتِ دنیا سے کوئی دینی مقصد پا سکتا ہے؟ اور کیا ایسے لوگوں کا وجود کچھ بھی نفع رساں ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے! لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰلِ عمرٰن: 93)؛ جب تک مال جو تمہیں پیارا ہے اُسے خرچ نہیں کرو گے اُس وقت تک تمہاری نیکی، نیکیاں نہیں ہیں۔

حضرت ابوبکرؓ کا آنحضورؐ کے ساتھ مل کر ایک صحابیؓ کو دفن کرنا

حضرت عبداللهؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں ، مَیں غزوۂ تبوک میں رسول اللهؐ کے ساتھ تھا کہ ایک مرتبہ مَیں آدھی رات کو اُٹھا تو مَیں نے لشکر کے ایک طرف آگ کی روشنی دیکھی۔ چنانچہ مَیں اُس کی طرف گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللهؐ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ہیں اور مَیں نے دیکھا حضرت عبدالله ؓ ذُوالبِجَادَین (دو چادروں والے) مُزنی فوت ہو گئے ہیں اور یہ لوگ اُن کی قبر کھود چکے تھے اور رسول اللهؐ قبر کے اندر تھے جب کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اُن کی میّت کو آپؐ کی طرف اُتار رہے تھے اور آپؐ فرما رہے تھے تم دونوں اپنے بھائی کو میرے قریب کرو، جب آپؐ نے اُنہیں قبر میں رکھ دیا تو آپؐ نے دعا کی۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَمْسَیْتُ رَاضِیًا عَنْهُ فَارِضَ عَنْهُ

اَے الله! مَیں نے اِس حال میں شام کی ہے کہ مَیں اِس سے راضی تھا پس تُو بھی اِس سے راضی ہو جا۔حضرت عبداللهؓ بن مسعود نے اُس وقت تمنّا کی کہ کاش یہ قبر والا مَیں ہوتا۔

حضرت ابوبکر صدّیقؓ کی موقعٔ حج پر امارت

آنحضرتؐ نے 9 ہجری میں آپؓ کو امیر الحج بنا کر مکّہ روانہ فرمایا تھا۔ آپؐ جب تبوک سے واپس آئے تو حج کا اِرادہ کیا، پھر آپؐ سے ذکر کیا گیا کہ مشرکین دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حج کرتے ہیں ، شرکیہ الفاظ بھی ادا کرتے ہیں اور خانۂ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں۔ یہ بات سُن کر آپؐ نے اِس سال حج کا اِرداہ ترک کردیا۔ حضرت ابوبکر صدّیقؓ 300 صحابہؓ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور آنحضرتؐ نے اُن کے ساتھ20 قربانی کے جانور بھیجے جن کے گلے میں خودآپؐ نے اپنے ہاتھ سے گانیاں پہنائیں اور نشان لگائےنیز آپؓ خود اپنے ساتھ 5 قربانی کے جانور لے کر گئے۔

میرے اہلِ بیعت میں سے کسی کے سواء کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادا نہیں کر سکتا

ابوجعفر محمدؒ بن علیؓ سے روایت ہے کہ جب سورۂ براءۃ ؍ سورۂ توبہ رسول اللهؐ پر نازل ہوئی تو آپؐ حضرت ابوبکرؓ کو بطورِ امیرِ حج بجھوا چکے تھے۔ آپؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللهؐ! اگر آپؐ یہ سورت حضرت ابوبکرؓ کی طرف بھیج دیں تاکہ وہاں وہ پڑھیں تو آپؐ نے فرمایاکہ میرے اہلِ بیعت میں سے کسی شخص کے سواء کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادا نہیں کر سکتا۔ پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کو بُلوایا اور اُنہیں فرمایاکہ سورۂ توبہ کے آغاز میں جو بیان ہؤا ہے اِس کو لے جاؤ اور قربانی کے دن جب لوگ منٰی میں اکٹھے ہوں تو اُس میں اعلان کردو کہ جنّت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اِس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہو گی ، نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت الله کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ہاتھ آنحضرتؐ نے کوئی معاہدہ کیا ہے اُس کی مدّت پوری کی جائے گی۔ حضرت ابوبکرؓ نے حج کے امور کی نگرانی کی ، جب قربانی کا دن آیا تو حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور لوگوں میں اِس بات کا اعلان کیا جس کا رسول اللهؐ نے ارشاد فرمایا تھا۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل سے مکرمہ امتہ الطیف خورشید صاحِبہ کا تفصیلی تذکرۂ خیر

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیزنے عندیہ دیا کہ یہ ذکر تو ابھی چلے گا،مزید برآں مکرمہ امتہ الطیف خورشید صاحِبہ (حال مقیم کینیڈا) اہلیہ مرحوم مکرم شیخ خورشید احمد صاحِب؍ سابق اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ربوہ کی نمازِ جنازہ غائب پڑھانے نیز تفصیلی تذکرۂ خیر کرتے ہوئے مرحومہ کے سکھائے گئے وصف، ایمان اورمغربی معاشرہ کو کس طرح ہم آہنگ طریقہ سے متوازن کرنا ہے کی بابت درج ذیل اِختتامی کلمات ارشاد فرمائے۔

تو یہ ہے ماؤں اور بزرگوں کا کام کہ جو نئی نسل کو سنبھالنے کے لیئے ضروری ہے ، کس طرح تربیّت کرنی ہے نئی نسل کی ،  اُن کو دین بھی سکھانا ہے اور اِس معاشرہ میں رہتے ہوئے بغیر کسی احساسِ کمتری کے اُن کو اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کی طرف توجّہ بھی دِلانی ہے۔ الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے ، اِن کے درجات بلند فرمائے، اِن کی اولاد کو، اِن کی نسل کو، نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آنلائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 فروری 2022

اگلا پڑھیں

اگر ملنے پر ایک شخص تمہارے لئے نیک جذبات کا اظہار کرے