• 17 مئی, 2024

اگر ملنے پر ایک شخص تمہارے لئے نیک جذبات کا اظہار کرے

اس آیت میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات کے اظہار کی نہ صرف تلقین فرمائی بلکہ فرمایا کہ اگر ملنے پر ایک شخص تمہارے لئے نیک جذبات کا اظہار کرے۔ تمہیں سلام کہے۔ ایک ایسی دعا تمہیں دے جو تمہاری دین و دنیا سنوارنے والی ہو تو تمہارا بھی فرض ہے کہ اس سے بڑھ کر اظہار کرو اور فرمایا کہ یہ تمہارا ایک ایسا اخلاقی اور معاشرتی فرض ہے کہ اگر اس کو انجام نہیں دو گے تو خدا تعالیٰ کے سامنے تمہیں اس کا جواب دینا ہو گا۔ یہ خوبی صرف اسلام میں ہے کہ ایک دوسرے سے ملنے کے وقت ایسے بامقصد الفاظ کے ساتھ جذبات کا اظہار ہے اور ایک دوسرے سے ملنے پر السلام علیکم کہنے کا حکم ہے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یعنی تم ہر قسم کی پریشانیوں اور مشکلات سے محفوظ رہو۔ اب یہ دعا ایسی ہے کہ اگر دل کی گہرائی سے دوسرے کو دی جائے تو پیار، محبت اور بھائی چارے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ تمام قسم کی نفرتیں دُور ہوتی ہیں۔ اسی طرح جسے سلام کیا جائے اسے حکم ہے کہ تم ان سلامتی کے الفاظ کا ان جذبات کا بہتر رنگ میں جواب دو اور بہتر شکل کیا ہے۔ یہ کہ جب انسان وعلیکم السلام جب انسان کہتا ہے تو اس کے لئے ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ بھی کہے کہ تم پر اللہ کی رحمتیں بھی ہوں اور برکتیں بھی ہوں۔ یا فرمایا کہ کم از کم اتنا ہی اظہار کر دو جتنا تمہیں سلام میں پہل کرنے والے نے کیا ہے تو یہ عمل تمہیں جزا پہنچائے گا۔

(خطبہ جمعہ 19؍ فروری 2010ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 11؍فروری 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ