• 4 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

حضور انور کے ساتھ چند لمحات

اگلے روز 23؍نومبر کی صبح اندازاً ساڑھے گیارہ بجے میں اپنے کمرے میں تھا جب احمد بھائی کمرے میں تشریف لائے۔ وہ نیچے استقبالیہ تقریب کے انتظامات چیک کرنے کے لیے گئے تھے جو اسی دن بارہ بجے بعد دوپہر ہوٹل میں ہونی تھی۔ آپ کو وقت کا اندازہ ہی نہیں رہا اس لیے جب وہ کمرے میں داخل ہوئےتو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ لیٹ ہو رہے ہیں اور جلدی سے نہانا چاہتے ہیں۔ چند منٹ کے بعد میں نے حضور انور کے سلام کی آواز سنی اور آپ نے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دی۔ شکر ہے کہ گزشتہ روز کی طرح آپ کی تشریف آوری پر میں سو نہیں رہا تھا۔

حضور انور کمرے میں تشریف لائے اور ایک کرسی پر جو برآمدہ کے رخ رکھی ہوئی تھی، تشریف فرما ہوئے۔پہلے تو میں حضور انور کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا لیکن حضور انور نے دیکھا کہ میں احمد بھائی کی ٹائی اور شرٹ پر بیٹھ گیا ہوں جو انہوں نے وہاں رکھی تھی۔ اس لیے آپ نے ہدایت فرمائی کہ میں آپ کے ساتھ پڑی ہوئی کرسی پر آکر بیٹھ جاؤں۔ اگلے چند منٹ مجھے حضور انور کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا اور حضور انور نہایت مطمئن تھے جبکہ استقبالیہ کی تقریب کے آغاز میں چند منٹ ہی باقی تھے۔

میں نے حضور انور سے عرض کی کہ میں نے حضور انور کے (گزشتہ) خطاب کا متن پڑھا ہے اور جو آپ نے چند روز قبل Nagoya میں استقبالیہ تقریب میں فرمایا تھا تو اس کا لطف دوبالا ہو گیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ اس مختصر وقت کے باوجود حضور انور نےکس قدر وسیع موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ اس پر حضور انور نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا تمہیں اکثر میرے خطاب یا تقاریر پسند آتے ہیں، جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے پہلے سے زیادہ۔ میں نے عرض کی کہ میں ہمیشہ سے حضور انور کے خطابات کو بہت پسند کرتا ہوں لیکن جب زیادہ پڑھتا ہوں یا بار بار سنتا ہوں تو مجھے حضور انور کی حکمت کا زیادہ فہم اور ادراک حاصل ہوتا ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ایسی تقاریب استقبالیہ میں اکثر مختلف عمر اور طبقات کے لوگ آتے ہیں تو اس لیے آپ کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے نکات بیان کیے جائیں جو ہر طبقہ اور عمر کے لوگوں کو سمجھ آجائیں۔

ایک یادگار Dive

جب ہم (کمرے میں) اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تو ایک چیز میرے دماغ میں چلتی رہی۔ میں سوچتا رہا کہ احمد بھائی باتھ روم میں نہا رہے ہیں اور انہیں پتہ بھی نہیں کہ ہمیں حضور انور کی صحبت نصیب ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ آپ کے کپڑے بھی ہمارے پاس ہی پڑے ہیں۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ ہم اس صورتحال سے کب باہر نکلیں گے۔

اسی دوران میں نے جو منظر دیکھا وہ میری زندگی کا سب سے زیادہ پُر لطف اور یادگار منظر بن گیا۔ میں باتھ روم کے قریب ہی اور اس کی طرف منہ کر کے بیٹھا ہوا تھا اور باتھ روم میرے سے چند میٹر کے فاصلے پر تھا۔ حضور انورکچھ یوں تشریف فرما تھے کہ باتھ روم پر آپ کی نظر تو پڑ رہی تھی مگر مکمل طور پر نہیں۔ جب ہم بات کر رہے تھے تو اچانک باتھ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور نہایت بے فکری سے دنیا و مافیہا سے بے فکر ہو کر احمد بھائی باتھ روم سے باہر نکلے اور آپ نے صرف ایک تولیہ اپنے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ جب انہوں نے اوپر دیکھا کہ میرے ساتھ کون تشریف فرما ہیں تو احمد بھائی کے چہرے کی کیفیت یکسر بدل گئی۔ میں نے کبھی کسی کے چہرے کی کیفیت کو اس سرعت سے بدلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ کی آنکھوں میں شدید گھبراہٹ نمایاں تھی اور ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو چکا تھا۔

ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر احمد بھائی نے واپس باتھ روم میں dive لگائی۔ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس موقع پر احمد بھائی کی رفتار نوٹ کی جا سکتی تو کوئی نہ کوئی عالمی ریکارڈ ضرور بن سکتا تھا۔ جب احمد بھائی باتھ روم میں واپس چلے گئے تو حضور انور کی نگاہ آپ پر پڑی تھی یا نہیں اس کا مجھے صحیح اندازہ نہیں لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ حضور انور نے احمد بھائی کے کپڑے کرسی پر پڑے ہوئے دیکھے اور اچانک سے مجھے فرمایا ’’ہمارے لیے بہتر ہے کہ ہم باہر چلتے ہیں کیونکہ احمد کے کپڑے یہاں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘

جس دوران ہم کمرے سے باہر جا رہے تھے میں اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں حضور انور کے بعد کمرے سے باہر نکلا اور ایک لمحہ کے لئے باتھ روم کے دروازہ پر دستک دی ۔ احمد بھائی نے باہر جھانکا تو میں نے انہیں بتایا کہ سب ٹھیک ہے ۔ ان کے چہرے پر شرمندگی اور حیرت کے آثار خوب نمایاں تھے۔

ذاتی طور پر میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ شرمندگی جو مجھے حالیہ دورہ ہالینڈ میں اٹھانی پڑی جب حضور انور نے مجھے رات کے کپڑوں میں دیکھا تھا وہ اس واقعہ کے مقابلہ پر ماند پڑ گئی تھی۔ دن کے باقی حصہ میں جب بھی مجھے احمد بھائی کے باتھ روم میں واپسی dive لگانے کا منظر یاد آیا تو میں بے اختیار ہنسنے لگا اور اب وقت تحریر بھی میرے لیے اپنی ہنسی پر قابو رکھنا ممکن نہیں ہے۔

Corridor میں بیٹھنا

جونہی حضور انور اور خاکسار کمرے سے باہر نکلے تو ابھی استقبالیہ کے آغاز میں دس منٹ رہتے تھے تو حضور انور اپنے کمرے کے باہر corridor کے آخر میں رکھی گئی کرسی پر تشریف فرما ہوئے۔ وہاں ایک دوسری کرسی بھی تھی اس لیے حضور انور نے مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔

کچھ عرصہ قبل میں نے حضور انور کو ایک ویڈیو دکھائی تھی جو مالہ نے مجھے واٹس ایپ پر بھجوائی تھی۔ اس ویڈیو میں ایک Chinese چور تھا جو سڑک پر موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور ایک نوجوان عورت کو دیکھنے پر وہ اپنے موٹر سائیکل سے اترا اور اس کےپرس کو چھین کر بھاگ نکلا۔ تاہم بجائے گھبرانے کے یا رُکے رہنے کے وہ عورت بھاگ کر موٹر سائیکل کی طرف گئی جس میں چابی لگی ہوئی تھی۔ پھر وہ موٹر سائیکل لے اڑی اور وہ گھبراہٹ اور پریشانی میں دیکھتا رہ گیا۔ جس دوران ہم وہاں بیٹھے تھے، حضور انور نے اس ویڈیو کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ اس عورت نے چور کو خوب سبق سکھایا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور انور اس ویڈیو سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ ماشاءاللّٰہ

(حضور انور کا دورہ جاپان نومبر 2015ء از ڈائری عابد خان)

(باتعاون: مظفرہ ثروت۔ جرمنی)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

جلسہ جو بلی جماعت احمدیہ۔ مہدی آباد جرمنی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 فروری 2023