• 4 مئی, 2024

’’زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں‘‘ (الہام حضرت مسیح موعود ؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی کی وجہ سے اپنی حدوں کو پھلانگ رہے ہیں، اُن کا مقابلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی منادی کرنے والے سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اُس بندے سے ہے جس کی اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عابد کی پرواہ کرتا ہے اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑا عابد کوئی نہیں۔ ماضی میں بھی ہم دشمنوں کا انجام دیکھتے آئے اور آجکل بھی دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں کہ ان مغلّظات بکنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے طریقے سے پکڑا جو یقینا بہت سوں کے لئے عبرت کا باعث بنا یا عبرت کا باعث بننے والا تھا اور ہے۔ پاکستان میں بھی دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں۔ مَیں بوجوہ بعض جگہوں کے نام تو نہیں لیتا جہاں ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں ان دریدہ دہنی کرنے والوں کو، بیہودگیاں کرنے و الوں کو اللہ تعالیٰ نے پکڑا۔ یہ دریدہ دہنی کرنے والے کئی قسم کے ہیں۔ جو بڑے نیک، پارسا تھے۔ ان کو کسی نہ کسی گھناؤنے الزام میں، نہ صرف الزام میں بلکہ جرم میں اُن کے اپنے لوگوں نے جو اُنہیں بہت بڑا بزرگ سمجھتے تھے، ذلیل کر کے اپنے علاقے سے نکلوایا یا نکال دیا۔ یا پھر یہ بھی ایسے لوگوں کے ساتھ ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اَور رنگ میں ان کی ذلت کے نظارے دکھا کر جہاں اُن کے حامیوں کو شرمندہ کیا، وہاں احمدیوں کے ایمان کو بھی مضبوط کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ان الزام تراشیاں کرنے والوں نے بعض ایسی ایسی ذلیل حرکات کی ہیں کہ بعض لوگ مجھے واقعات لکھتے ہیں اور بعض دفعہ اخباروں میں بھی آ جاتی ہیں کہ ان کا تو میں یہاں بیان بھی نہیں کر سکتا۔ کس قسم کی گھٹیا سوچیں ہیں۔ کس قسم کے گھٹیا ان کے عمل ہیں اور دشمنی ہے زمانے کے امام کے ساتھ۔ عوام کی اکثریت یا تو بے حس ہے، (پاکستان کی میں بات کر رہا ہوں) یا خوفزدہ ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے بعض علاقوں میں بھی ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر پھر بھی یہ لوگ سبق حاصل نہیں کرتے کہ ان نام نہاد اسلام کا درد رکھنے والوں کی جو ذلت ہو رہی ہے یا ہوتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی دشمنی کی وجہ سے ہے اور غور کریں تو یہی چیز ان کے لئے عبرت کا نشان بن جاتی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں جیسا کہ مَیں نے کہا افریقہ میں بھی بعض دفعہ دشمنیاں ہیں لیکن مسلمان اپنے علماء کی جب یہ گھٹیا حالت دیکھتے ہیں تو پھر یہ احمدیت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ افریقہ میں بہت سے علاقوں میں تو احمدیت پھیلی بھی اس وجہ سے ہے۔ اپنے علماء کی حالت دیکھ کر انہوں نے صحیح دین کو پہچانا ہے۔ ان میں یہ جرأت ہے کہ اپنے ان نام نہاد علماء کی حرکتوں سے سبق حاصل کریں اور حق کی تلاش کریں۔ بہر حال مَیں احمدیوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مخالفینِ احمدیت کی حرکتوں اور کمینگیوں سے پریشان نہ ہوں۔ گزشتہ دنوں مجھے کسی احمدی نے پاکستان سے لکھا کہ ہمارے علاقے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کا زور اس قدر ہے اور اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ دشمن ہر اوچھی حرکت کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر بگاڑ کر یا تصویر کے ساتھ بڑا توہین آمیز سلوک کر کے ہمارے دلوں کو چھلنی کر رہے ہیں۔ یہ جہالت جو ہم دیکھتے ہیں تو اب برداشت نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ دل پھٹ جائے گا۔ اتنے غلیظ پوسٹر دیواروں پر لگا رہے ہیں کہ بعض غیر از جماعت جو شرفاء ہیں اُن کی دیواروں پر جو پوسٹر لگے ہوئے تھے، انہوں نے بھی وہ اتار دئیے کہ اب یہ انتہا ہو رہی ہے۔ تو یہ لکھتے ہیں کہ یہ دیکھ کر بے ساختہ روتے ہوئے چیخیں نکل جاتی ہیں۔ میں نے اُن کو بھی لکھا ہے کہ صبر اور دعا سے کام لیں۔ ہمیں دشمن کے شور و فغاں میں بڑھنے، بیہودگیوں میں بڑھنے کے بعد یارِ نہاں میں نہاں ہونے کا سبق ملا ہے۔ پس ہمیں اس سبق کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے۔ یہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھا کر اُس میں فنا ہونے کا سبق ہے۔ ایسے لوگ اپنی موت کو خود دعوت دینے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی اہانت کرنے والے ہمیشہ ہی تباہ و برباد ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بھی اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو جس طرح لیکھو پر دعا کی تلوار چلی تھی، ان پر بھی اللہ تعالیٰ کے اِذن سے چلے گی۔ پس اپنے دکھ، اپنے درد، اپنی چیخیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ ایسے شریروں کو عبرت کا نشان بنائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مجلس میں جو 19؍ اپریل 1904ء کی ہے فرمایا کہ:
’’مَیں اپنی جماعت کے لئے اور پھر قادیان کے لئے دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا۔ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔ فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔ فرمایا میرے دل میں آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے؟ اتنے میں میری نظر اُس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے۔ اور وہ دعا یہ ہے۔ یَارَبِّ فَاسْمَعْ دُعَآئِیْ وَ مَزِّقْ اَعْدَآ ئَکَ وَ اَعَدَآ ئِیْ وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْ لَنَا حُسَامَکَ وَ لَا تَذَرْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا۔‘‘

یعنی ’’اے میرے رب! تُو میری دعا سن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرما اور ہمیں اپنے دن دکھا۔ اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ۔‘‘

انکار کرنے والے بہت سارے ہوتے ہیں لیکن بعض انکار کرنے والے شریر ہوتے ہیں جو اپنی شرارتوں میں انتہا کو پہنچے ہوتے ہیں۔ پس یہ دعا اُن کے لئے ہے۔ فرمایا کہ:
’’اس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’ہمیشہ سے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اُس کے ماموروں کی راہ میں جو لوگ روک ہوتے ہیں اُن کو ہٹا دیا کرتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کے دن ہیں۔ ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین بڑھتا ہے کہ وہ کس طرح اُن امور کو ظاہر کر رہا ہے۔‘‘

(تذکرہ صفحہ426-427 مع حاشیہ2004ء)

(خطبہ جمعہ 15؍مارچ 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تعلیم الاسلام کالج اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن۔ یوکے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اپریل 2022