• 14 جولائی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 9)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
(قسط 9)

بہترین دعا

  • بہترین دعا وہ ہوتی ہے جو تمام خیروں کی جامع ہو۔ اور تمام مضرات سے مانع ہو۔ اس لئے اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کی دعا میں حضرت آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک کے کل منعم علیھم لوگوں کے انعامات کے حصول کی دعا ہے۔ اور غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ124، آن لائن ایڈیشن 1984ء)

دعا بہر حال کی جاوے

  • دعا بڑی چیز ہے۔ افسوس! لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر دعا جس طرز اور حالت پر مانگی جاوے ضرور قبول ہونی چاہیئے۔ اس لئے جب وہ کوئی دعا مانگتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنے دل میں جمائی ہوئی صورت کے مطابق اس کو پورا ہوتا نہیں دیکھتے۔ تو مایوس اور ناامید ہوکر اللہ تعالیٰ پر بدظن ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ مومن کی یہ شان ہونی چاہیئے کہ اگر بظاہر اسے اپنی دعا میں مراد حاصل نہ ہو تب بھی ناامید نہ ہو۔ کیونکہ رحمتِ الٰہی نے اس دعا کو اس کے حق میں مفید نہیں قرار دیا۔ دیکھو بچہ اگر ایک آگ کے انگارے کو پکڑنا چاہے تو ماں دوڑ کر اس کو پکڑیگی۔ بلکہ اگر بچہ کی اس نادانی پر ایک تھپڑ بھی لگادے تو کوئی تعجب نہیں۔ اسی طرح مجھے تو ایک لذت اور سرور آجاتا ہے۔ جب میں اس فلسفہ دعا پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ علیم و خبیر خدا جانتا ہے کہ کونسی دعا مفید ہے۔

مجھے بارہا افسوس آتا ہے۔ جب لوگ دعا کے لئے خطوط بھیجتے ہیں اور ساتھ ہی لکھ دیتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے یہ دعا قبول نہ ہوئی تو ہم جھوٹا سمجھ لیں گے۔ آہ!

یہ لوگ آدابِ دعا سے کیسے بے خبر ہیں۔ نہیں جانتے کہ دعا کرنے والے اور کرانیوالے کے لئے کیسی شرائط ہیں۔ اس سے پہلےکہ دعا کی جاوے۔ یہ بدظنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اپنے ماننے کا احسان جتانا چاہتے ہیں۔ اور نہ ماننے اور تکذیب کی دھمکی دیتے ہیں۔ ایسا خط پڑھ کر مجھے بدبو آجاتی ہے اور مجھے خیال آتا ہے۔ کہ اس سے بہتر تھا کہ یہ دعا کے لئے خط ہی نہ لکھتے۔

میں نے کئی بار اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور پھر مختصر طورپر سمجھاتاہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے دوستانہ معاملہ کرنا چاہتا ہے۔ دوستوں میں ایک سلسلہ مبادلہ کا رہتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے بندہ میں بھی اسی رنگ کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبادلہ یہ ہے۔ کہ جیسے وہ اپنے بندے کی ہزارہا دعاؤں کو سنتا اور مانتا ہے۔ اس کے عیبوں پر پردہ پوشی کرتا ہے۔ باوجودیکہ وہ ایک ذلیل سے ذلیل ہستی ہے لیکن اس پر فضل و رحم کرتا ہے۔ اسی طرح اس کا حق ہے۔کہ یہ خدا کی بھی مان لے یعنی اگر کسی دعا میں اپنے منشاء اور مراد کے موافق ناکام رہے تو خدا پر بدظن نہ ہو۔ بلکہ اپنی اس نامرادی کو کسی غلطی کا نتیجہ قرار دے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر انشراح صدر کے ساتھ راضی ہوجاوے۔ اور سمجھ لے کہ میرا مولیٰ یہی چاہتا ہے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ195-196 ایڈیشن 1984ء)

دعا کی قبولیت کب؟

  • یہ خوب یاد رکھو کہ انسان کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے غفلت فسق و فجور کو چھوڑ دے۔ جس قدر قرب الٰہی انسان حاصل کرے گا۔ اسی قدر قبولیت دعا کے ثمرات سے حصہ لے گا۔ اسی لئے فرمایا۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ (البقرہ: 187) اور دوسری جگہ فرمایا ہے۔ وَاَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ (سبا: 53) یعنی جو مجھ سے دور ہو۔ اس کی دعا کیونکر سنوں۔ یہ گویا عام قانون قدرت کے نظارہ سے ایک سبق دیا ہے۔ یہ نہیں کہ خدا سن نہیں سکتا۔ وہ تو دل کے مخفی در مخفی ارادوں اور ان ارادوں سے بھی واقف ہے۔ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ مگر یہاں انسان کو قرب الٰہی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ کہ جیسے دور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اسی طرح پر جو شخص غفلت اور فسق و فجور میں مبتلا رہ کر مجھ سے دور ہوتا جاتا ہے۔ جس قدر وہ دور ہوتا ہے اسی قدر حجاب اور فاصلہ اس کی دعاؤں کی قبولیت میں ہوتا جاتا ہے۔ کیا سچ کہا ہے۔

پیدا است ندارا کہ بلند ہست جنابت

جیسے میں نے ابھی کہا گو خدا عالم الغیب ہے لیکن یہ قانون قدرت ہے کہ تقویٰ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔

نادان انسان بعض وقت عدم قبول دعا سے مرتد ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے۔ کہ نوافل سے مومن میرا مقرب ہوجاتا ہے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ198 ایڈیشن 1984ء)

استغفار سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور دعائیں قبول

  • ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میرے لئے دعا کریں کہ میرے اولاد ہوجائے۔ آپؑ نے فرمایا:

استغفار بہت کرو۔ اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتا ہے۔ یاد رکھو یقین بڑی چیز ہے۔ جو شخص یقین میں کامل ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے۔

(الحکم جلد5 نمبر4 صفحہ11 مؤرخہ 31جنوری 1901ء)

روحانی زندگی کس طرح ملتی ہے

  • دعا کا ایک ایسا باریک مضمون ہے کہ اس کا ادا کرنا بھی بہت مشکل ہے جب تک خود انسان دعا اور اس کی کیفیتوں کا تجربہ کارنہ ہو۔ وہ اس کو بیان نہیں کرسکتا۔ غرض جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دعائیں مانگتا ہے۔ تو وہ اور ہی انسان ہوجاتا ہے۔ اس کی روحانی کدورتیں دور ہوکر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرور ملتا ہے اور ہر قسم کے تعصب اور ریاکاری سے الگ ہوکر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میں پیدا ہوں برداشت کرلیتا ہے۔ خدا کے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کرسکتے صرف اس لئے کہ خداتعالیٰ راضی ہوجاوے برداشت کرتا ہے۔ تب خداتعالیٰ جو رحمٰن رحیم خدا ہے۔ اور سراسر رحمت ہے۔ اس پر نظر کرتا ہے۔ اور اس کی ساری کلفتوں اور کدورتوں کو سرور سے بدل دیتا ہے۔

زبان سے دعویٰ کرنا کہ میں نجات پاگیا ہوں یا خدا تعالیٰ سے قوی رشتہ پیدا ہوگیا ہے۔ ا ٓسان ہے۔ لیکن خداتعالیٰ دیکھتا ہے کہ وہ کہاں تک ان تمام باتوں سے الگ ہو گیا ہے۔ جن سے الگ ہونا ضروری ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے وہ پالیتا ہے۔ سچے دل سے قدم رکھنے والے کامیاب ہوجاتے ہیں اور منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔ جب انسان کچھ دین کا اور کچھ دنیا کا ہوتا ہے آخر کار دین سے الگ ہو کر دنیا ہی کا ہوجاتا ہے۔ اگر انسان ربانی نظر سے مذہب کو تلاش کرے تو تفرقہ کا فیصلہ بہت جلد ہوجائے۔ مگر نہیں یہاں مقصود اور غرض یہ ہوتی ہے کہ میری بات رہ جاوے۔ دو آدمی اگر بات کرتے ہیں۔ تو ہر ایک ان میں سے یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کو گرادے۔ اس وقت تو چیونٹی کی طرح تعصب، ہٹ دھرمی اور ضد کی بلائیں لگی ہوئی ہیں۔ غرض میں آپ کو کہاں تک سمجھاؤں بات بہت باریک ہےا ور دنیا اس سے بے خبر ہے۔ اور یہ صرف خدا ہی کے اختیار میں ہے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ274-275 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

تعلیم الاسلام کالج اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن۔ یوکے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اپریل 2022