قرآن کریم خدائے رب العالمین کا وہ خوبصورت، آفاقی اور عالمی پیغام ہے جو ہر ضروری ہدایت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ایسی کتابِ قَیِم ہے جس کی مثل جنّ و اِنس تا قیامت تلاش نہیں کرسکتے۔ اس خدائی کلام کی ان گنت اور بے شمار خوبیوں میں سے ایک ممتازو یکتا صفت اس کا عالمی ہونا ہے قرآن کریم نے نہایت وضاحت اور انتہائی خوبصورتی سے ابتداء ہی میں اپنے ماننے والوں کو یہ عالمگیریت کا درس دیا کہ اس کلام کا نازل کرنے والا رب العالمین ہے وہ صرف رب المسلمین ہی نہیں۔ درحقیقت اس ایک لفظ نے ہمیشہ ہمیش کے لیے مسلمانوں کو عالمی وحدت، اتفاق و اتحاد، اکائی و یگانگت اور شیرازہ بندی کا دائمی درس دے دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اجتماعیت، یکجائیت اور قرب و وحدت پرخاص زور دیا گیا ہے۔ کل عالَم میں بسنے والے مسلمانوں کا رب ایک، دین ایک، قرآن ایک،شریعت ایک، قبلہ ایک اور محبوب رسول ایک،یہ سب عوامل ایسے ہیں جو آپس کے اتفاق و اتحاد کی زبردست علامت و بنیاد ہیں۔
اس مضمون کی کسی قدر تفصیل سے قبل یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں رمضان کی وجہ تسمیہ کا بیان کردیا جائے لیکن پہلے شیرازہ بندی کے معنیٰ جاننا بھی ضروری ہیں چنانچہ فیروز اللغات اور دیگر کُتبِ لغات میں لکھا ہے کہ شیرازہ بندی فارسی الاصل لفظ ہے جسکا معنیٰ ہے۔ جلد بندی۔ انتظام۔ اتحاد اور تنظیم۔ایک جہتی۔ علامہ اقبال کا شعر بھی ہے کہ:
؎ کتابِ ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ِہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
(بانگ درا)
رمضان کی وجہ تسمیہ
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے رمضان کے مختلف معانی بیان کرتے ہوئےلکھا ہے کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ رمضان کا نام اس وجہ سے رمضان ہے کہ وہ گناہوں کو بھسم کر دیتا ہے اس کا مادہ رمض ہے۔ رمضان کے روزے 2ہجری میں فرض ہوئے۔ یہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔اس کے وجوب کا منکر کافر قرار دیا جائے گا۔
(مکاشفۃ القلوب مطبوعہ مصر صفحہ356)
حضرت شیخ عبد القادرجیلانی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف غنیۃ الطالبین میں رمضان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمت، بخشش اور مغفرت کی کثرت کی وجہ سے گناہوں کو جلاکر ختم کر دیتا ہے۔
(غنیۃ الطالبین مترجم)
حرارتِ جسمانی و روحانی کا حسین امتزاج
امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام، اس زمانے کے حکم و عدل رمضان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
رَمَضَ سورج کی تپش کو کہتے ہیں۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔ اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا اس لیے رمضان کہلایا۔ میرے نزدیک یہ صحیح نہیں کیونکہ عرب کے لیے یہ خصوصیت نہیں ہوسکتی۔ روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارتِ دینی ہوتی ہے۔ رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہوجاتے ہیں۔
(الحکم 24جولائی 1901ء)
اس حرارتِ جسمانی و روحانی کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:
رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے اور جس شخص کے دل میں اسلام کی قدر ہوتی ہے وہ اِس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہت محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتنی ہی صدیاں، ہمارے اور محمد رسول اللہﷺ کے درمیان گذر جائیں، کتنے ہی سال ہمیں اور انکو آپس میں جدا کرتے چلے جائیں، کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اوراُن میں حائل ہوتا چلاجائے لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن صدیوں اور سالوں کواِس مہینے نے لپیٹ لپاٹ کر چھوٹا سا کرکے رکھ دیا ہے اورہم محمد رسول اللہﷺ کے قریب پہنچ گئے ہیں بلکہ محمد رسول اللہﷺ کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لیے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام فاصلہ کو رمضان نے سمیٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچادیا ہے۔
(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ 393)
کیا ہی خوبصورت اور زبردست عارفانہ تشریح ہے جو دل میں اترتی چلی جاتی ہے اور کیا ہی عمدہ اتفاق واتحادِ امت کا نظارہ ہے جو ہر رمضان میں ہر صاحبِ ایمان اپنے دل میں محسوس کرتاہے۔
پس یہ کہنا بالکل درست ہے کہ رمضان اُس ماہِ مقدس کا نام ہے جس میں ایک مسلمان جسمانی حرارت کے ساتھ ساتھ قرآنی، تعلیمات اور احکام خداوندی کی بجا آوری کے لیے اپنے اندر ایک خاص روحانی حرارت اور جوش و جذبہ محسوس کرتا ہے جو عام مہینوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس عارفانہ تشریح کا عملی مظاہرہ ہمیں اپنے محبوب رسولِ خدا کی مقدس و مطہرحیات میں ہر رمضان میں نظر آتا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تورسول اکرمﷺ کمرِہمت کس لیتے تھے اور ساری ساری رات بیداررہتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی تہجد کے لئے جگاتے۔
(بخاری کتاب الصوم)
ویسے کتنا عجیب روح پرور منظر ہوتا ہوگا مدینہ منورہ کی پاک بستی کا! ہر گھر کے لوگ جب رمضان المبارک کے دوران خاص اہتمام سے عبادات بجالاتے ہونگے اور ملائکۃ اللہ ان پر خدائی حکم سے رحمتوں اور برکتوں کی بارشیں برساتے ہونگے۔ خدا کرے کہ ہر احمدی گھرانہ اس سنت مبارکہ کو ہر رمضان میں اپنانے والا بن سکے۔ آمین۔
رمضان المبارک میں کئی ایک ایسے عوامل ہیں جو مسلمانوں کو ایک کرنے میں اہم کردار ادا کرتے، باہمی اتفاق و اتحاد کا درس دیتے اورانکی شیرازہ بندی میں ممد و معاون ہوتے ہیں۔ اس مہینہ میں دیگر مہینوں کے مقابل اتحاد امت کا درس کہیں زیادہ ملتا ہے۔
رمضان اور قرآن چونکہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لہذا سب سے اول تو یہ یاد رکھنا لازمی ہے کہ قرآن کریم میں جا بجا اتحاد امت کی تلقین کی گئی ہے اور تفرقہ و پھوٹ اور گروہ بندیوں سے منع فرمایا گیا ہے اور اس مہینہ کے نزول قرآن کے ماہ ہونے کے پیش نظر تمام مسلمانوں کو یہ درس پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کریم ہمیں باہمی پیارو محبت اور اتفاق و اتحاد کی تلقین کرتا ہے جیسا کہ ایک موقعہ پر فرمایا:
وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا
(آل عمران: 104)
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کروکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اورپھر اسکی نعمت سے تم بھائی بھائی ہوگئے۔
(ترجمہ ازخلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں:
کیا ہمیں قرآن کریم کے اس مرتبہ پر ایمان نہیں لانا چاہئے جومرتبہ وہ خود اپنے لیے قراردیتا ہے؟ دیکھنا چاہئے کہ وہ صاف الفاظ میں بیان فرماتا ہے: وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا۔ کیا اس حبل سے حدیثیں مراد ہیں؟ پھر جس حالت میں وہ اس حبل سے پنجہ مارنے کے لیے تاکید شدید فرماتا ہے تو کیا اس کے یہ معنیٰ نہیں کہ ہم ہرایک اختلاف کے وقت قرآن کریم کی طرف رجوع کریں؟
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ37)
پھر فرمایا: وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی۔ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ۔ یاد رکھو!تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو! جب تک تم میں ہرایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
(الحکم جلد4 نمبر 14 مؤرخہ 17 اپریل 1900ء صفحہ 9بحوالہ تفسیر مسیح موعود علیہ السلام)
روئے زمین پر موجود تمام اہل اسلام کے مابین ایک نقطہ اتحاد ماہ رمضان میں یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے مطلع اور وقت کے مطابق روزہ کے لئےطلوعِ فجر سے پہلے کھانے سے رک جاتے ہیں اور مغرب کی اذان پرروزہ افطار کرتے ہیں، یوں کل عالم اسلام روزہ اور دیگررمضان کی عبادات کو بجا لانے میں مستعد ہوجاتا ہے اور سب ایک چاند کی رویت کوگواہ بناتے ہوئے سحر و افطار کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن کاش امت مسلمہ اُس مقدس چاند کو پہچان کر اسکی مطیع بھی بن جائے جوپوری امت مسلمہ کے محبوب رسول خداﷺ کی بشارات کے تابع چودھویں صدی میں طلوع ہوا ہے اور ان کی اکائی اور وحدت کا بین ثبوت ہے۔
جسے اللہ عزَّوجلَّ نے الہاماً یہ حکم دیا ہوا ہے کہ: سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں ایک دین پر جمع کرو۔
(الہام 20نومبر 1905ء۔ تذکرہ صفحہ490)
رمضان المبارک میں مسلمانوں کے درمیان ایک نقطہ اتحاد یہ بھی ہوتا ہے کہ سال کے دوسرے ماہ واوقات وشہور کے بالمقابل رمضان المبارک میں باجماعت نماز کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے اورکالے گورے، شکلوں اور رنگوں اور نسلوں کے اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے،مسلمان ایک امام کے پیچھے نمازیں ادا کرتے ہیں، اس کی اتباع واقتداء کرتے ہیں، اس کے رکوع پر رکوع، سجدہ پر سجدہ اور اس کے سلام پھیرنے پر سلام پھیرتے ہیں، جو باہمی اتحاد واتفاق اور ’’وحدتِ امت‘‘ کی اہم علامت اور نشانی ہے۔ اوریوں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہمیں بار بار سمجھایا جاتا ہے کہ ہماری عبادات و قربانیاں خدا کے حضور تبھی پایہ قبولیت کو پہنچ سکتی ہیں جب ہم ایک امام کے ہاتھ پر جمع ہونگے جیساکہ ہمارے آقا و مطاع رسولِ عربی ﷺ نے ہمیں آخری زمانے کے لیے تاکیدی ارشاد فرمایا تھا کہ تم اُس پر آشوب زمانے میں ایک امام اور اس کی جماعت کا ساتھ چمٹ جانا اوراگر کوئی امام والی جماعت نہ ہو تو تمام فرقوں سے کنارہ کش رہنا خواہ تمہیں جنگل میں رہ کر درختوں کی جڑیں کھا کر گذارہ کرنا پڑے یہاں تک کہ تجھے موت آجائے۔
(بخاری کتاب المناقب)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ فرقہ واریت اور گمراہی کی طرف دعوت دینے والوں کے زمانے میں اگر تم خدا کا کوئی خلیفہ دیکھو تو اس سے چمٹ جانا خواہ تجھے مارا جائے اور تیرا مال لوٹ لیا جائے۔
(مسند احمد جلد5 صفحہ403 دارالفکرالعربی۔بیروت)
اسی طرح ایک دوسری حدیث مبارکہ میں آپﷺ نے اُس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے حضور رکوع و سجود یعنی عاجزی و فروتنی اور مکمل اطاعت کا اجر بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
اُس وقت خدائے رب العزّت کے حضور ایک سجدہ بھی دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔
(بخاری کتاب الانبیاء)
بلاشبہ اس حدیث میں جس سجدے کا ذکر ہے یہ وہی سجدہ ہے جو امامِ وقت کی اقتداء میں کیا جائے۔ پس احمدی قوم آج یقینًا ایک انتہائی خوش نصیب قوم ہے جسے یہ فخرو سعادت میسّر ہے مگر ہماری اولّین ذمہ داری ہے کہ اپنی جان،مال، عزّت و آبرواور دنیا و ما فیہا کی ہر چیز سے بڑھ کر اس امانت کی تا قیامت حفاظت کرتے چلے جائیں تا ایسے مقبول سجدے ہمیں ہمیشہ نصیب ہوتے رہیں۔ان شاءاللہ۔
رمضان الکریم کے مقدس ایام میں ایک مرکزی نقطہ جو مسلمانوں کے ایک ہونے کی نشانی ہے وہ بالعموم مسلمانوں کی اکثریت کا روزانہ مساجد میں یااپنے اپنے گھروں میں مل کر قرآن کریم کی تلاوت کرنا ہے، یہ عمل عام دنوں میں اس شد و مد سے دکھائی نہیں دیتا۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کا یہ خاص وصف ہے کہ وہ عام دنوں میں بھی تلاوتِ قرآن سے غافل نہیں ہوتے اور یہ وہ عمل ہے جسکی گواہی اپنے کیا بیگانے بھی دیتے چلے آرہے ہیں۔ قادیان میں کوئی ایسا احمدی گھرانہ نہیں تھا جہاں سے نماز فجر کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کی آواز نہ آتی ہو اور یوں قادیان کی ہر صبح پُر نور ہوتی اور کلامِ پاک سے اس بستی کی گلی گلی گونجتی تھی پھر ربوہ کی گلیوں میں بھی یہی نظارے ایک وقت تک دکھائی دیتے رہے تا آنکہ ظالم و جابر حکمرانون نے کالے قوانین کے ذریعہ اہالیان کو ایسا کرنے سے حکماًوجبرًا روک دیا۔ ہمارے ملک عزیز سے باہر رہنے والے خاص کر یورپین لوگ بلکہ افریقن بھی ایسی باتیں سن کر حیران و پریشان اور انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ کیا واقعی صرف اس بات پرمقدمات ہو سکتے ہیں اور قید وبند کی مشقت برداشت کرنی پڑسکتی ہے کہ ایک احمدی نے دوسرے شخص کو جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے موبائل فون پر قرآن کریم کی کاپی بھجوائی ہے۔ ہمارے بزرگ مکرم و محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب اپنی تقاریرمیں یہ اشعار پڑھا کرتے تھے کہ
خدا خود جبر و استبداد کو برباد کردے گا
وہ ہر سواحمدی ہی احمدی آباد کردےگا
صداقت میرے آقا کی زمانے پر عیاں ہوگی
جہاں میں احمدیت کامیاب و کامراں ہوگی
خدا نے چاہا تو وہ دن دور نہیں جب صرف قادیان یا ربوہ نہیں بلکہ دنیا کی کئی ایک بستیوں سے روازانہ صبح تلاوتِ قرآن کی خوبصورت اور پاکیزہ آوازیں گونجتی سنائی دیں گی۔ ان شاءاللہ العزیز۔
قرآن کریم کوسیکھنا، پڑھنا پڑھانا، سمجھنا سمجھانا، اس سے دل و جان سے پیار کرنا اور اس پر عمل کرنا درحقیقت قومِ احمد کو تو شیرِمادر کی طرح گھٹی میں ملاکر پلادیا گیا ہے۔احمدی جس طرح قرآن پاک سے محبت کرتے اور سیکھنے کی سعی کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے، ہمارے گائوں 121ج۔ب۔گوکھوال کا ایک واقعہ درج کرنا چاہتا ہوں تا ہماری موجودہ نسل بھی اس صفت کو حرزِجان بناسکے۔ خاکسار کی عمر اندازاً بارہ سال کے لگ بھگ ہوگی کہ ایک دن مسجد میں نماز کے بعد ہمارے ایک بزرگ چوہدری عبدالواحد صاحب مرحوم جن کی عمر اس وقت پچاس سال سے زائد ہوگی، (آپ ایک اچھے متمول خاندان سے تھے، پنچائیت کے آدمی تھے) انہوں نے مجھے روکا اور کہنے لگے بیٹا مجھے قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا اس لیے اگر تم مجھے روزانہ کچھ حصہ سکھا دیا کرو تو ممنون ہوں گا۔ چنانچہ انہوں نے اس عمر میں مسلسل کئی ماہ محنت کی اور قرآن کریم پڑھنا سیکھ لیا اور پھر روزانہ مسجد میں بیٹھ کر انتہائی عقیدت و احترام سے اسکی تلاوت کرتے دکھائی دیتے۔ میں نےانکو باقاعدگی سے مسجد میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کرتے دیکھا، تاوقتیکہ عاجز جامعہ احمدیہ ربوہ تعلیم کے لیے چلا گیا۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے، اس طرح کے بے شمار اور خوبصورت و دلنشین واقعات احمدیوں کے دیہات، انکے گھروں اور سینوں میں محفوظ ہیں جو آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔اور جب تک قرآن کریم سیکھنے اور پڑھنے کی یہ روح قومِ احمد میں زندہ ہے دنیا کی کوئی قوم انہیں شکست نہیں دے سکتی اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام جیسے وجود قرآن کریم سے سیکھ کر نوبل انعام حاصل کرتے رہیں گے ہاں مگر آخرت میں تو یقینا ان کے لیے بہت ہی عظیم انعامات مقدر کیے گئے ہیں۔ یہ مثالیں ہمارے پیارے نبی حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کی اس حدیث کی عملی تصاویر ہیں کہ:
تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھتا ہے اور پھر دوسروں کو بھی سکھاتا ہے۔
(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن)
اس بات میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگ ہی بہترین امت کہلانے کے حق دار ہیں اور خیرِامت کا تاج دنیا و آخرت میں انہی کے سروں کی زینت بنے گا۔ اورآج بحیثیت جماعت کوئی ایسی جماعت روئے زمین پر دکھائی نہیں دیتی جواحمدیوں سے بڑھ کر خدا کے اس پاک کلام سے محبت کرنے والی ہو۔
خاکسار، رمضان المبارک کی مناسبت سے تلاوتِ قرآن کریم کے حوالے سے مزید ایک دو احادیث معزز قارئین کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہے۔
خیر البشر و افضل الرسلﷺ فرماتے ہیں: حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ روزہ اور قرآن مجید کی شفاعت بندے کے حق میں قبول کی جائے گی۔ روزہ کہے گا۔اے میرے رب! میں نے اس کو کھانے اور شہوات سے دن کے وقت روکے رکھا تو اسکے بارے میں میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن مجید کہے گا میں نے رات کے وقت اسے نیند سے باز رکھا بس تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ پس ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
(الجامع الصغیرللسیّوطی 5185)
واہ! کیا عظیم الشان ثواب اور برکت ہے رمضان اور قرآن کی۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس کا حق دار بنائے۔ آمین۔
قرآن شریف حفظ کرنا: قرآن پاک کو ظاہری طور پر پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا حسب توفیق کچھ نہ کچھ حفظ کرنا بھی موجب ثواب اور نہایت مقبول عمل ہے۔ ہمارے محبوب رسول حضرت خاتم الانبیاءﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ آدمی جس کے دل میں قرآن کا کوئی حصہ نہیں وہ ایک ویران اور برباد گھر کی طرح ہے۔
(ترمذی فضائل القرآن)
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ اگر انسان صرف سورۃ اخلاص کے برابر حصہ روزانہ یاد کرلے تو چند سالوں میں پورا قرآن زبانی یاد کرسکتا ہے چنانچہ آپ نے ایک شخص کا ذکر بھی فرمایا کہ اس نے آپ کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے غالباً سات سالوں میں پورا قرآن شریف یاد کرلیا تھا۔ تو جہاں آجکل لوگوں کی اکثریت کئی گھنٹے روزانہ صرف موبائیل فونز اور انٹرنیٹ پر خرچ کرتی ہے اگر کچھ وقت اس مبارک کام کے لیے بھی نکال لیا جائے،خاص کر رمضان المبارک کے ان ایام میں، تو یقینا ہم قرآن کریم کی کئی سورتیں زبانی یاد کر سکتے ہیں اورروزانہ کی نمازوں میں ان کی تلاوت سے اپنی نمازوں کا لطف دوبالا کرسکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ جو آدمی قرآن مجید میں ماہر ہو وہ معزّز اور بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو قرآن مجید اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے تلاوت میں مشکل پیش آتی ہے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔
(صحیح مسلم فضائل القرآن حدیث نمبر 1862)
رمضان المبارک کی ایک اجتماعی برکت، نماز تراویح کا باجماعت مسجد میں ادا کرنا ہے، جس کی وجہ سے مساجد و نماز سنٹرز قراء ت قرآن کریم، نماز، عبادت اوردعاء سے معمور ہوجاتے ہیں، یہ اہم عبادت بھی ان کے آپسی اتحاد کا مظہر اتم ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی لوگوں نے آپ کے ساتھ پڑھی پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے تیسری رات میں اور زیادہ ہوگئے چوتھی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح کے لیے مسجد تشریف نہیں لے گئے صبح ہوئی تو لوگوں نے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق وذوق دیکھ لیا اس ڈر سے میں مسجد میں نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کر دی جائے۔
(صحیح بخاری کتاب الصیام حدیث نمبر 2012)
پھر نبیء اکرمﷺ کے اس ارشاد کہ تم پر خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا ضروری ہے، کی اتّباع یقینًا باعثِ خیر و برکت ہی ہے۔
اِس بات کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچوں، بوڑھوں، کمزوروں، مزدوروں اور بیماروں وغیرہ کیلے تو نمازِ تراویح کفایت کرے گی مگر باقی لوگوں کو قیامِ تہجد کے قرآنی حکم پر عمل کرنا چاھیے۔ وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ کا امرِ ربانی واضح ہے۔ ہمارے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کا رمضان حتی کہ غیر رمضان میں بھی باقاعدگی سے گیارہ رکعات تہجد کا معمول تھا۔
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ آنحضرتﷺ رمضان المبارک میں رات کے وقت کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے۔ آپ نے فرمایا:
رمضان ہو یا غیر رمضان آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔چار رکعت بڑی لمبی اور بڑی عمدگی سے پڑھتے، پھر چار رکعت بڑی لمبی اور بڑی عمدگی سے پڑھتے اس کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے۔
(بخاری، کتاب الصیام حدیث نمبر 2013)
امام الزمان اورامت کے حکم و عدل کا فرمان: آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
آنحضرتﷺ کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہیں اور آپﷺ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اور یہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اول حصہ میں اسے پڑھا۔بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں مگرآنحضرتﷺ کی سنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔
(فتاویٰ مسیح موعود بحوالہ فقہ احمدیہ حصہ عبادات ص208)
مسلمان اکٹھے روزہ رکھ کر، اپنے آپ کو اللہ کے حکم پر بھوکا اور پیاسارکھ کر اپنے غریب مسلمانو بھائیوں کی بھوک اور پیاس کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے ہیں،اپنے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی سنت مبارکہ کے احیاء کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ:
رسول کریمﷺ جود و سخا میں عام دنوں میں بھی دوسروں سے بڑھ کر تھے البتہ رمضان میں جب جبرائیلِ امین کی آپ سے ملاقات ہوتی تھی تو آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ آنحضرتﷺ جب جبرائیل پر رمضان کی راتوں میں قرآن شریف پیش کرتے تو آپﷺ ہر اس دن تیز ہوا سے بھی سخی تر ہوجاتے تھے۔ (بخاری)
آپﷺ کی سخاوت کے متعلق، ایک عربی شاعر کا یہ شعر بہت موزوں ہے۔ عربی شاعر کہتا ہے:
مَا قَالَ لَا قَطُّ اِلَّا فِیْ تَشَھُّدِہٖ
لَوْلَا التَّشَھَّدُ لَکَانَتْ لَائَہٗ نَعَمُ
یعنی میرے محبوب نے کبھی لا نہیں کہا سوائے تشھد کے اور اگر تشھد میں یہ گواہی دینی لازمی نہ ہوتی تو آپ وہاں بھی نعم یعنی جی ہاں ہی کہتے۔
مشکوٰۃ المصابیح کی ایک حدیث ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول کریمﷺ سب قیدیوں کو رہا کر دیتے اور ہر سائل کو بخشش سے نوازتے۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو حضرت مصلح موعود کے فرمان کے مطابق چھوٹے چھوٹے محمد بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
رمضان المبارک میں مسلمانوں کے اندر من حیث القوم، اپنے پیارے نبیﷺ کی جود و سخا کی متابعت کی مقدور بھر کوششوں کی وجہ سے صدقات میں اضافہ ہوجاتاہے، ان کے اندر جذبہ انفاق فزوں تر ہوجاتا ہے، اس طرح مسلمانوں کے مابین ہمدردی اور غم خواری پنپتی ہے، جو بجائے خود ان کے آپسی اتحاد واتفاق کا ایک نمونہ ہے۔ نیزبانیٴ اسلام نے اپنے امتیوں کو رمضان کریم میں کئی طرح کے زائد انفاق کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے مثلاً ایسے افراد جو کسی شرعی عذر کے باعث روزہ یا روزےنہ رکھ سکیں وہ فدیہ دیں یعنی ہر روزہ کے بدلے میں کسی غریب کو ایک دن (دو وقت) کا کھانا کھلائے یا اس کے برابر رقم بطور فدیہ ادا کرے ہاں اگر اسکی طاقت بھی نہ ہو تو ایسا آدمی معذور ہوگا مگر جو صاحبِ حیثیت روزہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی فدیہ بھی ادا کرتے ہیں، وہ دہرا بلکہ کئی گنا زیادہ ثواب حاصل کرتے ہیں اور بہت بابرکت کام کرتے ہیں اسی طرح اگر کسی فوت شدہ شخص، جس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے بھی فدیہ ادا کرنا موجبِ خیر و برکت ہے۔
رمضان کے آخر پر صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم ہے اور اس قدر تلقین ہے کہ ایک حدیث مبارکہ میں آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ صدقۃ الفطر ادا کئے بغیر روزہ ہی قبول نہیں ہوتا۔ یہ صدقہ ہر گھر کے ہر فرد کی طرف سے ادا کرنا ضروری ہے اور عید کی نماز سے قبل پیدا ہونے والے بچوں کی طرف سے بھی ادائیگی کا ارشادِ ہے۔تا کہ غرباء و مساکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ آنحضورﷺ نے صدقۃ الفطر کی حکمت ان الفاط میں بیان فرمائی ہے کہ یہ:
طُھْرَۃٌ لِّلصِّیَامِ وَ طَعْمَۃٌ لِّلْمَسَاکِیْن ہے یعنی روزوں کی پاکیزگی کا موجب ہے اور مساکین کے لیے غذا اور خوراک ہے۔صدقۃ الفطر کو مختلف احادیث میں زکوٰۃ الصوم، زکوٰۃ الفطر، اور زکوٰۃ رمضان کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ یہ صدقہ بہت سے انفرادی و اجتماعی فوائد کا حامل ہے۔ اور امت مسلمہ کی اجتماعیت کو مضبو طی عطا کرتا ہے۔
ایک اہم اجتماعی برکت اہلِ اسلام کا اس ماہ میں بکثرت اپنے اموال کی ز کوٰ ۃ ادا کرنا بھی ہے۔احمدی تو اللہ کے فضل سے زکوٰۃ کی ادائیگی کےلیے کسی خاص مہینے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ جب جب نصابِ زکوٰۃ ان پر فرض ہوتی ہے ساتھ ساتھ ادا کرتے رہتے ہیں کہ امامُ الزمان نے بھی انہیں تاکیدِ مزید فرمائی ہوئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ ادا کرے‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ15)
نیز زکوٰۃ کی جماعتی نظام کے تحت ادائیگی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
چاہئے کہ زکوٰۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوٰۃ بھیجے اور ہر ایک شخص فضولیوں سے اپنے تئیں بچاوے اور اس راہ میں وہ روپیہ لگادےاور بہرحال صدق دکھاوے تا فضل اور روح القدس کا انعام پاوے کیونکہ یہ انعام اُن لوگوں کے لیے تیار ہے جواِس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں۔
(کشتئ نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ83)
لہذا زکوٰۃ کی ادائیگی نظام کے تابع مرکز میں ہی ہونی چاہئے۔اپنی مرضی سے کسی کو بھی دینا درست نہیں۔
احمدی احباب تواس ماہِ بابرکات میں ایک خاص ذوق وشوق اور چاہت ومحبت سے بکثرت اپنے چندے اس ماہ میں ادا کرتے ہیں، خاص کر وقف جدید اور تحریک جدید تو سبھی مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا رمضان المکرم کے آخر پر ہونے والی اجتماعی دعا میں ان کا نام شامل ہوسکے جو دعا امام ِوقت کرواتے ہیں اور کل عالم کے احمدی اِس میں شریک ہوکر فیضیاب ہوتے ہیں درحقیقت یہ نظارہ بھی عالمی اخوت کا ایک عجیب و حبیب مظہر ہوتا ہے جو احمدیوں کے دلی اطمینان و سکون کا باعث ہے کہ انہیں ان کے پروردگار کے مقبول و منظور بندوں میں شامل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
رمضان المبارک میں اجتماعی افطار کا انتظام اغنیاء اور امراء کرتے ہیں، جس میں بلا تفریق امیر وغریب کے سب شامل ہوتےہیں۔روزہ دار کی افطاری کروانے کی بہت فضیلت و برکت اور اجر احادیث میں مذکور ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ افطاری کا ثواب اُس شخص کو بھی ملتا ہے جو روزہ دار کو خواہ پانی کے گھونٹ سے ہی افطار کروائے۔ یہ عمل بھی مسلمانوں کے آپسی اتحاد واتفاق اور یگانگت کا مظہر ہے۔
امام وقت کے دروس:رمضان المبارک میں مسلمان ایک انتظام و اہتمام سے قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات پر مبنی درس و تدریس کی مجالس و محافل اور دینی و قرآنی حلقے سجاتے ہیں، جہاں دین سیکھنے سکھانے کا عمل جاری ہوتا ہے انفرادی و اجتماعی اور دینی و سیاسی اصلاح پر ابھارا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں یہ اعمال رمضان میں اپنے زوروں پر ہوتے ہیں جن کا نقطہ عروج حضرت خلیفۃ المسیح کے دروس ہوتے ہیں جو سب کی علمی و عملی اور تربیتی پیاس بجھانے کا بہترین ذریعہ ہیں اوریقیناً خدا و ر رسول کی محبت و رضا کے حصول کا باعث ہیں۔ امامِ وقت کے یہ دروس احمدیہ مسلم ٹیلی ویژن کے ذریعہ کل عالم میں دیکھے اور سنے جاتے ہیں جو ہماری اجتماعیت، اخوت و محبت اور اتفاق و اتحاد کا عظیم الشان نمونہ ہوتا ہے جس کی مثال اِس کرہ ارض پر تلاش کرنا ناممکن ہے۔
رمضان کی تین اجتماعی عبادات تراویح، اعتکاف اور لیلۃ القدربھی ہیں۔ بلا شبہ مسنون اعتکاف تو جامع مسجد میں ہی ہوسکتا ہے اور یہ عظیم عبادت بھی مسلمانوں کی اجتماعیت و یکجائیت کی مظہر ہے پھر ساری دنیا کے مسلمانوں کا اکٹھےلیلۃ القدرکی طلب و جستجوبھی انہیں اپنی شیرازہ بندی کی طرف ہی توجہ دلاتی اور ان کی راہنمائی کرتی ہے گویا رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے آپسی اتحاد واتفاق اور ’’وحدت امت‘‘ اور ’’اتحاد امت‘‘ کا مظہر اتم اور اعلی وارفع نمونہ ہوتا ہے، بہت سارے امور میں یہ مہینہ بلا کسی تفریق کے غریب اورامیر کو ایک مقصد پر اکٹھا کرتا ہے، سب میں صبر و برداشت، عزم وہمت، باہمی احساس و ہمدردی، ایک دوسرے کی تکلیف و درد کا خیال کرنا، خاص طور پر اپنے معاشرے کے کمزورو غریب اوربے سہارا افراد کو سنبھالنے کی کوشش کرنا جیسی بہت سی بنیادی صفات ان میں پیدا کرتا ہے۔ اور ایسی خوبیاں امت مسلمہ میں جاگزیں کرتا ہے جو معاشرے کے اونچے نیچے، چھوٹے بڑے سب طبقات کو باہم جوڑنے اور ایک کرنے کا ذریعہ ہے۔
امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کی بابت فرماتے ہیں کہ:
خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جوزمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے مَیں دنیا میں بھیجا گیا، سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاوٴں پر زور دینے سے۔
(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد20 صفحہ306)
ہمیں ہرگزاِس بات میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ یہ کام آج خلافتِ احمدیہ مسلمہ بڑی خوبصورتی سے سرانجام دے رہی ہے۔ اللہ کرے کہ تمام امت مسلمہ جلد از جلد اپنے اختلافات، عقائد و نظریات کو ایک طرف رکھ کر اِس حَبلُ اللہ سے چمٹ جائے۔ آمین۔ خاکسار اس مضمون کو خلیفۃ المسیح الرابع حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے ان الفاظ پر ختم کرنا چاہے گا۔ آپ فرماتے ہیں۔
اُمَّتِ واحدہ بنانے کا کام خلافتِ احمدیہ کے سپرد ہے۔میں خدا کی قسم کھا کر اس مسجد میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہﷺ کی غلام امت واحدہ بنانے کا کام خدا تعالیٰ نے اِس دور میں خلافتِ احمدیہ کے سپرد کر دیا ہے جو اِس سے تعلق کاٹے گاوہ امت واحدہ سے اپنا تعلق کاٹ لے گا۔۔۔۔۔۔ خلافتِ احمدیہ وہ مُثمر شاخ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے توحید کے پھل لگانے کے لیے سرسبزوشاداب کرکے دوبارہ دنیا میں قائم کیا ہے۔
(بدر۔12 اگست 1993ء)
(کریم الدین شمس۔ مبلغ سلسلہ تنزانیہ)