• 16 جولائی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 40)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
(قسط 40)

انڈین ایکسپریس نے اپنی اشاعت 5 فروری 2010 صفحہ 15 پر دو تصاویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی ہے۔ ایک تصویر رنگین مسجد بیت الحمید چینو کی ہے دوسری تصویر خاکسار کی ہے۔

خبر کا متن قریباً وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے جس میں جماعت احمدیہ کی مسجد بیت النور پر زبردستی قبضہ کی خاکسار کی طرف سے مذمت کی گئی ہے اور جماعت احمدیہ کے ترجمان مکرم سلیم الدین صاحب کی پریس ریلیز ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ زبردستی قبضہ ہر لحاظ سے غیرقانونی ہے اور یہ مسجد 20 سال قبل ایک احمدی نے اپنی زمین پر بنائی تھی جس کے تمام قانونی کاغذات موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے یہ غیرمنصفانہ رویہ اختیار کیا ہے۔

الاخبار نے اپنی عربی سیکشن کی اشاعت 11 فروری 2010ء صفحہ 9 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور کی تصویر کے ساتھ اس عنوان سے شائع کیا۔

’’اَلْعَوْنُ الْاِلٰہِیْ‘‘ ’’اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد نے اپنے خطبہ جمعہ میں جو 181 ممالک میں MTA کے ذریعہ دیکھا اور سنا گیا، میں فرمایا کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے نظارے ہر آن دیکھتے ہیں اور اس کی بڑی وجہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی آنحضرتﷺ سے کامل محبت اور اطاعت تھی۔

آپ کی محبت آنحضرتﷺ کے ساتھ بالکل منفرد حیثیت رکھتی ہے اور اس کی اس زمانے میں کامل مثال صرف اور صرف حضرت مسیح موعودؑ کی ہے۔ اور آپ نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ وہ جماعت جو مسیح موعود کی جماعت ہے جس نے حضرت مسیح موعود کو قبول کیا ہے وہ بھی اس مدد اور نصرت سے حصہ پائے گی اور یہ صرف دعویٰ ہی نہیں ہے اگر ہم ماضی کو دیکھیں تو اکثر معاملات میں ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے شامل حال رہی جو کہ آپ کی صداقت کی واضح مثال ہے۔ جیسا کہ سورج اور چاند گرہن (کسوف و خسوف) لگنے کی پیشگوئی کا ظہور ہے۔ اسی طرح زلزلوں کے آنے کی پیشگوئیاں ہیں اور علوم کے پھیلنے کے بارے میں ان سب پیشگوئیوں کے وقوع میں آنے کی وجہ سے اور صداقت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو مسیح موعودؑ کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔

کسوف و خسوف کی پیشگوئی کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ بعض علماء نے اس حدیث رسول کو مشکوک بھی بتایا ہے جو کہ کسی بھی طریقہ سے صحیح نہیں ہے یہ ان کی سوء فہمی ہے حالانکہ یہ علماء آپ کی آمد سے قبل اس حدیث کو صحیح مانتے تھے اور اس کا ذکر کرتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے اور بھی بہت سے دلائل ہیں اور بار بار خداتعالیٰ کی طرف سے یہ دلائل اور نشانات دکھائے گئے۔ جس طرح کہ زلزلوں کے بارے میں پیشگوئیاں ہیں۔ امام مرز امسرور احمد نے حضرت مسیح موعود کی کتب سے بعض حوالہ جات بھی سنائے جن میں حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں بعض مخالفین کی موت کے بارے میں تھے جو آپ کے ساتھ جھگڑتے تھے اور مخالفانہ رویے رکھتے تھے اگرچہ آپ کی آمد کا مقصد کسی کی موت کی پیشگوئی نہیں تھی مگر جب ان دشمنوں نے یہی چاہا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے ان کی موت کے یہ نشانات دکھائے۔ اب احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ اس پیغام کو جو حضرت مسیح موعودؑ لے کر دنیا میں آئے ہیں اس کو تمام دنیا میں پھیلائیں۔

اس ضمن میں آپ نے خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا تذکرہ فرمایا۔ یہ وہ کتاب جو ایک طالب حق کے لئے بات کو کھول کھول کر بیان کرتی ہے اور اسلامی تعلیمات کی حکمت اور فلسفہ کا بیان ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد، نصرت آپؑ کے شامل حال رہی جب آپ نے اس کتاب کو تالیف فرمایا۔ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔

’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کتاب کے تذکرہ کے بعد آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی ایک اور کتاب ’’خطبہ الہامیہ‘‘ کے بارے میں بھی تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا۔ آپ نے فرمایا یہ 11 اپریل 1900ء کو واقع ہوا۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے عیدالاضحیہ کا خطبہ ارشاد فرمایا اور یہ خطبہ وحی الٰہی کے ذریعہ آپ کو القاء کیا گیا اور آپ کو بتا دیا گیا کہ آپ یہ خطبہ عربی میں دیں گے جو کہ فصاحت و بلاغت میں ایک نشان ہو گا۔ جب آپ یہ خطبہ عربی میں فرما رہے تھے تو آپ علیہ السلام کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ فرشتے آپ کی مدد کر رہے ہیں۔

خطبہ کے دوران آپ علیہ السلام نے ان صحابہ سے ارشاد فرمایا جو یہ خطبہ اسی وقت لکھ رہے تھے کہ اگر سمجھنے یا لکھنے میں دقت ہے تو اب پوچھ لو اور یہ خطبہ الہامیہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ ’’یَاعِبَادَ اللّٰہِ‘‘

حضرت امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ یہ تو چند ایک مثالیں بیان کی گئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد، نصرت حضرت مسیح موعودؑ کے ہروقت اور ہر آن شامل حال تھی جو آپ کی صداقت کی دلیل ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو ان امور کے سمجھنے کی توفیق دے اور زمانے کےا مام کو پہچاننے کی توفیق دے اور ہمیں بھی چاہئے کہ ہم حکمت کے ساتھ اس پیغام کو ساری دنیا میں پھیلانے والے ہوں۔ خداتعالیٰ کا عذاب بھی بہت برا ہے اس لئے ہمیں خدا تعالیٰ کی رحمت کے طلبگار بننا چاہئے۔

اس خلاصہ خطبہ کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا فون نمبر بھی درج کیا گیا ہے تا جو لوگ مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں وہ کال کر لیں۔ 909-627-2252

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی شاعت 12فروری 2010ء صفحہ13 پر خاکسار کے مضمون بعنوان ’’ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے‘‘ کی دوسری قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی۔

خاکسا رنے اس مضمون کے شروع میں اللہ تعالیٰ کے اس جاری قانون کی طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔ خاکسار نے لکھا کہ وطنِ عزیز کے بارے میں کبھی بھی کوئی خوشی کی خبر سننے کو نہیں ملتی۔ یہاں امریکہ میں شائع ہونے والے اخبارات ہی کو دیکھ لیں ہر اخبار میں بیسیوں لکھنے والے ہیں جو اپنے اپنے مضامین اور کالموں میں یہی رونا رو رہے ہیں۔ سیاسی، مذہبی، اقتصادی، تمدنی امور میں نہ حکومت کو امن نصیب ہے اور نہ عوام کو۔ یہ ضرور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے اور اس وجہ سے بیرون پاکستان بھی لوگ پاکستانیوں سے نفرت کرنے لگے ہیں اور اس وجہ سے دوسرے ممالک بھی اپنے قوانین میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مغربی ممالک میں ہر قسم کی آزادی تھی خصوصاً مذہبی آزادی۔ یہ ممالک (مغربی) ہر شخص کو ان کے بنیادی حقوق دیتے ہیں اور اس میں مذہب کی آزادی سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی آزادی، تبلیغ کی آزادی، اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کی آزادی، اب ان آزادیوں پر یہی ممالک پابندیاں لگا رہے ہیں۔ جیسے کہ سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے مینار بنانے پر پابندی کا سب نے سنا ہو گا۔ پھر فرانس میں مسلمان عورتوں پر حجاب لینے کی پابندی پھر امریکہ کے ہوائی اڈوں پر حفاظتی اقدامات کے لئے مشینیں۔ اس کا کون ذمہ دار ہے؟ یہ ممالک تو ہر قسم کی آزادیاں دے رہے تھے تو پھر ایسا کیوں ہو رہا ہے یہ سب کچھ مسلمانوں کے اعمال اور کرتوتوں سے ایسا ہونے جارہا ہے۔

خاکسار نے بی بی سی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جو 12 جنوری کو شائع ہوئی تھی۔ اس میں Islam for UK کا فیصلہ ہے۔ دوسری خبر اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے جس میں ایک 17 سالہ نوجوان عبدالمالک نے اقرار کیا کہ انہیں رات کے اندھیرے میں لڑکیاں جسمانی اعضاء لگا کر بہکاتی ہیں کہ تم شہادت کا درجہ پاؤ تو جنت میں اس سے بھی بہتر حوریں تمہارا استقبال کریں گی۔

یہ خبر اس سے قبل بھی خاکسا رٹورانٹو کے اخبار لیڈر کے حوالہ سے گزشتہ لکھ چکا ہے۔ اس خبر کو پڑھ کر آپ کیا کہیں گے کیا یہ اسلامی تعلیم ہے؟ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے دوسرے مسلمان بھی ان ممالک میں نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پس توبہ کرنی چاہئے، استغفار کرنی چاہئے اور خداتعالیٰ سے صحیح تعلق قائم کر کے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے۔ مضمون کے آخر میں خاکسار نے حضرت مسیح موعود کا ایک حوالہ درج کیا ہے جو کشتی نوح سے لیا گیا ہے کہ
’’اس کی توحید کو زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو…… چاہئے کہ ہر صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔‘‘

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 19 فروری 2010ء صفحہ 14 پر پورے صفحہ پر ہمارا اشتہار حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس اشتہار کا عنوان ہے۔

’’ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں، سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘

آسمان میرے لئے تو نے بنایا اِک گواہ
چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار

یہ پورے صفحہ کا اشتہار ہے۔ حضرت مسیح موعود کی تصویر کے نیچے جلی حروف میں یہ الفاظ لکھے گئے ہیں:
’’میرے خدا نے عین صدی کے سر پر مجھے مامور فرمایا ہے اور جس قدر دلائل میرے سچا ماننے کے لئے ضروری تھے وہ سب دلائل تمہارے لئے مہیا کر دیئے اور آسمان سے لے کر زمین تک میرے لئے نشان ظاہر کئے اور تمام نبیوں نے ابتداء سے آج تک کے لئے خبریں دی ہیں۔ پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو اس قدر دلائل اس میں کبھی جمع نہ ہو سکتے تھے۔ علاوہ اس کے خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں اس بات پر گواہ ہیں کہ مفتری کو خدا جلد پکڑتا ہے اور نہایت ذلت سے ہلاک کرتا ہے۔ مگر تم دیکھتے ہو کہ میرا دعویٰ منجانب اللہ ہونے کا تئیس برس سے بھی زیادہ کا ہے۔‘‘

اے تمام لوگو سن رکھو! کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے کہ جس نے زمین و آسمان کو بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا…… اور ہر ایک جو اس کو معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔ ’’ضرور تھا کہ مسیح موعود کے ساتھ ٹھٹھا کیا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚؑ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ (یاسین: 31) پس خدا کی طرف سے یہ نشان ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے۔‘‘

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 26 فروری 2010ء صفحہ A9 پر ہماری ایک انٹرفیتھ کی خبر شائع کی ہے جس کی شہ سرخی یہ ہے:

Mosque is visited by Lutheran Church Members

لوتھرن چرچ کے لوگوں نے مسجد (بیت الحمید) کا وزٹ کیا

مسجد بیت الحمید نے گزشتہ ہفتہ چینو کے لوتھرن چرچ کے 15 افراد (سنڈے سکول کے) کی مہمان نوازی کی۔ امام شمشاد ناصر نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ لوتھرن چرچ کی لیڈر Namey Perez اپنے لوگوں کو لے کر آئی تھیں۔ آنے والے مہمان، خصوصاً مسلمانوں کی نماز کا طریق دیکھنے کے لئے آئے تھے کیونکہ یہ ان کی سٹڈی کا ایک اہم حصہ تھی۔ انہوں نے امام شمشاد کے ساتھ دیگر سوالات بھی کئے۔ گروپ کے لوگ نماز مغرب کے وقت مسجد آئے تاکہ نماز کی ادائیگی کو دیکھ سکیں۔ نماز کے بعد کانفرنس روم میں ان کی مہمان نوازی اور سوالوں کے جواب دیئے گئے۔ یہ میٹنگ 2گھنٹے تک جاری رہی۔ اخبار نے لکھا:

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 5 مارچ 2010ء صفحہ 6 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’پردہ …… حیا اور عفت کا نگہبان‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اخبار کے ایڈیٹر نے اس کے ساتھ 2 خواتین کی تصویر دی ہے جو برقع میں ملبوس ہیں۔

اس مضمون میں خاکسار نے مختصراً یہ بتایا ہے کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے انسان کی تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق راہنمائی کی ہے۔ مذہب کا سب سے بڑامقصد انسان کو خدا کے قریب تر لانا اور اس کے ساتھ زندہ تعلق پیدا کرنا ہے اور اس کے لئے اسلام نے بعض بہت ہی بنیادی باتیں سکھائی ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان با اخلاق اور پھر باخدا انسان بن جاتا ہے۔

خاکسار نے لکھا کہ آج کل یورپین ممالک میں پردہ کے خلاف بہت بڑی مہم چلائی جارہی ہے یہ لوگ نہیں چاہتے کہ مسلمان خواتین پردہ کریں۔ اس میں ایک تو خود بعض مسلمانوں کا ہی قصور ہے کیونکہ انہوں نےد ہشت گردی کر کے اسلام کو بدنام کر دیا ہے، دوسرے یہ لوگ تو شروع ہی سے اسلام کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ جن جن بے حیائیوں میں یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں مسلمان بھی اسی طرح ہو جائیں۔ پھر مسلمان بھی خود احساس کمتری کا شکار ہو رہے ہیں اور وہی حرکتیں کرتے ہیں جو غیرمسلم کر رہے ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں خاکسار نے سویڈن کے وزیراعظم کا بیان بھی نقل کیا ہے کہ ان کا بیان قابلِ ستائش ہے کہ ان کے ملک میں پردہ یا برقع پر پابندی نہیں ہو گی کیونکہ سویڈن کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ لوگوں کے نجی معاملات میں دخل دے۔

اس کے بعد خاکسار نے ’’اسلامی پردہ‘‘ کے عنوان سے قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیات کا ترجمہ لکھا ہے اور پھر بتایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ بدی سے بچنے کا اور عفت و حیا کو قائم رکھنے کا نسخہ کا بتایا ہے کہ وہ آنکھیں اور نظریں ہمیشہ نیچے رکھیں۔ پھر انجیل کی تعلیم بتائی ہے جس میں حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ اگر تمہاری آنکھیں دوسروں کو دیکھتی ہیں شہوانی نگاہ سے تو آنکھوں کو نکال دو۔ کیا اس پر عمل ہو سکتا ہے؟ خاکسار نے لکھا کہ گزشتہ ہفتہ لوتھرن چرچ کے 15 مرد و خواتین ہماری مسجد میں آئے انہوں نے مسجد دیکھی، نماز مغرب میں شامل ہوئے اور پھر انہوں نے درج ذیل سوالات کئے۔

1۔ ہماری عورتیں الگ نماز کیوں پڑھتی ہیں؟
2۔پارٹیوں سے آپ لوگ عورتوں کو الگ کیوں رکھتے ہو؟
3۔خواتین سے پردہ کیوں کرایا جاتا ہے۔ وغیرہ۔

خاکسار نے اسلامی تعلیم کی حکمت بیان کی اور پھر حضرت مریم کی جو یہ مزعومہ تصویر بناتے ہیں اس کے بارے میں اور چرچ میں سو ڈیڑھ سو سال پہلے جو روایت تھی کہ وہ بھی اپنی عورتوں کی مردوں سے الگ رکھتے تھے اس کا بیان کیا۔ اور پھر پوچھا کہ یہ سب کچھ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے کہ نہیں؟

اور آخری سوال خاکسار نے یہ کیا کہ جس آزادی کا پرچار آپ کر رہے ہیں یہ آزادی آپ کو کس نے دی ہے؟ حضرت عیسیٰؑ نے؟ انجیل نے؟ پرانے عہدنامے نے؟ جس کا جواب ان کے پاس کچھ نہ تھا۔

خاکسار نے مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کبیر سے سورۃ النور کی مذکورہ بالا آیت کی تشریح بھی لکھی۔ اسلامی پردہ کے عنوان کے تحت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ملفوظات سے حوالہ بھی درج کیاجس میں آپ علیہ السلام نے اسلامی پردہ کی فلاسفی اور حکمت بیان فرمائی ہے اور اسلامی پردہ سے زنداں مراد نہیں ہے بلکہ ہر دو کو ٹھوکر سے بچانا ہے۔

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 5 مارچ 2010ء سٹی نیوز صفحہ 2 پر مختصراً اس عنوان سے ہماری خبر دی:

Mosque is visited by Christian Church members.

کہ ’’مسجد کو عیسائیوں نے وزٹ کیا‘‘

اس میں بتایا گیا ہے کہ عیسائی چرچ کے 15 لوگوں نے مسجد بیت الحمید کا وزٹ کیا اور امام شمشاد ناصر نے انہیں مسجد میں خوش آمدید کہا۔ مہمان (عیسائی) اس بات میں خاص دلچسپی رکھتے تھے کہ وہ مسلمانوں کی نماز کا مشاہدہ کریں کہ یہ کس طرح ادا کی جاتی ہے۔ نماز کے بعد تمام مہمان کانفرنس روم میں جمع ہوئے جہاں ان کی ضیافت بھی کی گئی اور امام شمشاد ناصر نے ان کے سوالوں کے جواب بھی دیئے۔ یہ میٹنگ دو گھنٹے تک جاری رہی۔ میٹنگ کے اختتام پر سب نے کہا کہ انہیں اسلام کے بارے میں بہت غلط فہمیاں تھیں لیکن اس میٹنگ میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کی میٹنگز ہوتی رہنی چاہئیں۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی 5 مارچ 2010ء صفحہ B-21 پر ایک اچھی بڑی تصویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی۔ اس تصویر میں خاکسار لوتھرن چرچ کے عیسائی مہمانوں کے ساتھ بیٹھا ہے اور ان کے سوالات کے جوابات دے رہا ہے۔ خبر کا عنوان بھی یہ ہے کہ لوتھرن چرچ کے عیسائی لوگوں کی بیت الحمید مسجد میں مہمان نوازی کی گئی۔ خبر کا متن وہی ہے جو اس سے قبل گزر چکا ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 5 مارچ 2010ء صفحہ 15 پر دو بڑی تصاویر کے ساتھ ہماری بھی خبر شائع کی ہے جس کا متن اوپر گزر چکا ہے۔ ایک گروپ فوٹو ہے سب کے ساتھ اور دوسری تصویر میں کانفرنس روم میں سب مہمان خاکسا رکے ساتھ بیٹھے ہیں۔

خبر میں ایک بات کو جلی حروف میں لکھا گیا ہے کہ دونوں گروپ اس بات پر متفق تھے کہ اس قسم کی میٹنگز سے آپس میں تعلقات بڑھائے جا سکتے ہیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔

اس خبر کے رائٹر مسٹر جے ایس بیدی صاحب ہیں۔

الاخبار نے جو عربی اخبار ہے اپنی انگریزی سیکشن کی اشاعت 11 مارچ 2010ء صفحہ 25 پر ہماری مندرجہ بالا خبر تین تصاویرکے ساتھ دی ہے۔ خبر کا عنوان ہے کہ چرچ کے لوگ چینو کی مسجد کا وزٹ کرتے ہیں۔ خبر کا متن وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 11 مارچ 2010 صفحہ 11 پر عربی سیکشن میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ نصف سے زائد صفحہ پر حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ خطبہ کا عنوان اخبار نے یہ لگایا ہے:

’’مسلمانوں کی زندگی میں جمعہ کی اہمیت‘‘

خطبہ کے شروع ہی میں اخبار نے لکھا کہ امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد نے جمعہ کی اہمیت پر خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ جمعہ کا دن دنوں میں بہت مبارک ہے۔ ہمیں یہ دن عبادت، دعاؤں میں گزارنا چاہئے اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مسجد میں جمعہ کی ادائیگی سے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ملاقات ہو جاتی ہے۔ جس سے اخوت و محبت اور بھائی چارہ بڑھتاہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں اس دن آنحضرتﷺ کی اتباع میں جمعہ کی ادائیگی آپ کی سنت کے مطابق کرنی چاہئے اور اس کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ الحدید کی آیت یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَاٰمِنُوۡا بِرَسُوۡلِہٖ یُؤۡتِکُمۡ کِفۡلَیۡنِ مِنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَیَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (الحديد: 29)

آپ نے فرمایا کہ ہماری حقیقی خوشی اس میں ہے کہ ہمیں خداتعالیٰ کے حضور توبہ کرتے رہنا چاہئے۔ اس سے اللہ تعالیٰ ہمارے سارے سابقہ گناہ بخش دیتا ہے اسی طرح امام مرزا مسرور احمد صاحب نے سورۃ مائدہ کی آیت بھی تلاوت کی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ کَثِیۡرًا مِّمَّا کُنۡتُمۡ تُخۡفُوۡنَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَیَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ۬ؕ قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ (المائدہ: 16)

حضور انور نے اس آیت کی تشریح کے بعد فرمایا کہ جمعہ کی ایک اہمیت یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے جمعہ کے دن کثرت سے مجھ پر درود بھیجا کرو۔ کیونکہ یہ میرے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے انسان خدا تعالیٰ سے برکتیں حاصل کرتا ہے اور اس طرح آپ کا قدم جنت کی طرف بڑھے گا۔

حضور نے سورۃ رحمٰن کی آیت وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتَانِ بھی پڑھی۔ آپ نے فرمایا ایک جنت تو آخرت میں ہے لیکن ایک جنت انسان کو اس دنیا میں بھی ملتی ہےاور اس کے لئے مسلسل جہاد کرنا پڑتا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ تقویٰ اور جہالت بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ تقویٰ کی کنہ تک پہنچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا نہایت ضروری ہے۔ اس لئے یہ بھی ممکن نہیں ہو سکے گا کہ جہل اور تقویٰ ایک جگہ جمع ہو جائیں اور ایک حقیقی مومن کا فرض ہے کہ وہ مستقل طور پر اعمال صالحہ بجا لاتا رہے اور پھر خداتعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہے کہ وہ اسے تقویٰ کی راہوں پر چلائے اور پھر وہ تقویٰ کو اپنے روزمرہ کے اعمال میں بڑھائے اور حسنات دنیا سے وافر حصہ پائے۔ اس ضمن میں امام مرزا مسرور احمد (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)نے سورۃ الاسراء اور سورۃ البقرہ کی آیات بھی تلاوت کیں۔ جن میں انسان کو حسنات اختیار کرنے اور دنیوی عذاب اور عذاب النار سے بچنے کی تلقین اور دعا کرتے رہنا چاہئے۔ انسان اس دنیا میں بھی آگ کے عذاب سے گزرتا ہے جس کی مثال جنگیں بھی ہیں، حسرتوں اور حسد کی آگ بھی ہے۔

انسان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچان سکے اور اس کی ربوبیت سے حصہ لے سکے جب تک وہ دوسرے ارباب کی محبت دل سے نہ نکال دے اور ان کو جو عظمت اور عزت دیتا ہے اسے بکلی دل سے نکال کر ایک خدائے واحد اور رب کی طر ف نہ آجائے۔

مومن کو یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اے اللہ ہمیں ہر قسم کی آگ سے بچا۔ خواہ اس دنیا کی آگ ہو جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے یا آخرت کی آگ کا عذاب ہو۔

آخر میں لکھا ہے کہ اگر مزید معلومات حاصل کرنی ہوں تو دئیے گئے فون نمبر پر مسجد بیت الحمید سے رابطہ کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔

(باقی اگلے بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

رمضان المبارک کادوسرا عشرہ مغفرت اور اس میں بخشش طلب کرنے کی قرآنی دعائیں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ