• 18 مئی, 2024

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا وصفِ شعرو سخن (قسط اول)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا وصفِ شعرو سخن
قسط اول

ہر صاحب ِ ذوق تجزیہ نگار کسی شاعر کی شعر و سخن میں بلندی اور کمال کے تجزیہ کے لئے اپنے ذوق کے مطابق معیار مقرر کر لیتا ہے۔ لیکن اگر اس کے لئے حسبِ ذیل چار امور مدنظر رکھے جائیں تو امید ہے کہ یہ ایک حقیقی جائزہ ہوگا مثلاً۔

اول: یہ کہ اس کے شعری تخیل، استغراق اور تخلیق کا سرچشمہ کیا ہے۔

دوم: یہ کہ اس کا کلام کن خصائل اور خواص و خوبیوں سے مزین ہے۔

سوم: یہ کہ وہ شعر و سخن میں صاحبِ کمال شعراء اور اساتذہ فن کے کلام
کافہم و ادراک کس حد تک رکھتا ہے اور

چہارم: یہ کہ وہ داد داوری میں کس درجہ خالص وصادق، تنقید میں کس قدربلندو رفیع اور اصلاح وتجویز میں کتنا بلیغ و وسیع ہے۔

شاعری کے تجزیہ میں عموماً شعر کے تکنیکی فن مثلاً علمِ عروض وغیرہ کو بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ شعر کی صنعت اور اس میں الفاظ و جمل کی تنصیب میں علمِ شعر کی جملہ شاخیں انتہائی اہم کردار کی حامل ہیں۔ مگر اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ دست ِ قدرت کے تراشے ہوئے شاعر کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ بذاتِ خودقدرت کی صناعی کا ایک شاہکار ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا کلام شاعری کے مروجہ ما خذاور علم نقد و نظر کی تیش زنی سے بالا بھی ہوتا ہے اور اعلیٰ بھی۔ جس طرح ایک خوش گلو کچھ بھی گنگنائے، اس کی آواز میں خاص کھنک اور نغمگی مترنم ہوتی ہے، اسی طرح دست ِ قدرت کے تخلیق کردہ شاہکار شاعر کا عام کلام بھی شعریت کی بُو باس سے لبریزاورعروض کے اَوزان میں تُلاہواہوتا ہے۔ سو حقیقی شاعر اپنا کلام مشقِ سخن کے ذریعہ قطع وضع نہیں کرتا، استغراقِ ذات سے تخلیق کرتا ہے یادست ِ قدرت خود اسے تراشتا ہے۔ پس جس درجہ کا استغراقِ ذات ہوتا ہے یا جس مرتبہ کی صنعت ِ قدرت کی کارفرمائی ہوتی ہے، اسی مقام کا شعر ظہور کرتا ہے۔

شعر و سخن کی آگہی کے ان دریچوں سے بھی اگر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدصاحب کے شعری کلام کو دیکھا جائے تو آپؒ بحیثیتِ شاعر اسی زمرہ میں سرو قامت دکھائی دیتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ اپنے معجزانہ تصرف سے اورخاص اغراض کے لئے شعر وسخن عطا فرماتا ہے۔ لہٰذا آپؒ کا کلام نہ صرف شاعری کے مروجہ معیاروں پر کماحقہ، پورا اترتا بلکہ ان کی پرکھ سے بالا تر ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ کیونکہ در حقیقت اہل ُ اللہ کی شاعری کا اول مقصد ترسیلِ پیام اور ابلاغ عام ہے۔غالباً اسی کے پیشِ نظر کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘۔ کہ شاعری پیغمبری ہی کا ایک جزو ہے۔ لہٰذا شعر و سخن ایسے باکمال لوگوں سے اپنی سند لیتے ہیں۔ لہٰذا یہ باکمال لوگ شاعری کی روایات و اسالیب کے پابند نہیں ہوتے بلکہ فن شعر و سخن ان سے سند حاصل کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ شعرتخیلاتِ روح کے سوتوں سے پھوٹتا ہے،فکر و ادراک کی گود میں پروان چڑھتا ہے اور مشقت و مزاولت کی منزلیں طے کرتا ہوا روح، احساس اور شعور کے سرچشموں سے سیراب ہوتا ہے۔ لہٰذاچشمے کا بڑا یا چھوٹا ہونا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اصل یہ ہے کہ اس کا منبع کیاہے اور اس سے پھوٹتا کیاہے، اس میں زور ہے تو کتنا،اس کی تأثیر ہے تو کیا، اس میں لذ ت ہے تو کیسی اور درد ہے تو کونسا؟نیز یہ کہ پڑھنے اور سننے والا بقدرِ ہمت و قدرت سیراب بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ

آپؒ کے کلام کا سرچشمہ

دیگر بیشمار صفات کی طرح شاعری بھی انسان کے ان اوصاف میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ اسے ودیعت کرتا ہے۔اور در حقیقت یہی اصل شاعری ہے یا شاعری کی اصل ہے۔حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی مبارک اولاد میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہی شعر ی وصف سے نوازا تھا۔اس مبارک خاندان کے اور افراد بھی اس وصف سے مزین ہوئے۔اسی تسلسل میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدؒ کو بھی قادر و علیم صناعِ قدرت نے یہ وصف خوداپنی جناب سے عطا فرمایا تھا۔چنانچہ آپؒ نے بھی بازیچہ اطفال میں ہی شعربُننے شروع کر دئے تھے۔الفاظ کا جڑاؤ اور شعر و مصرعے کی تراش خراش اور ان کا وزن آپ کے اندر قدرتی طور پر ودیعت تھا۔چنانچہ حسبِ ذیل شعر غالباً آپؒ کا پہلا شعر ہے۔جو آپؒ1934ء میں پانچ برس کی عمر میں گنگناتے پھرتے تھے کہ

نام میرا طاہر احمد، طاری طاری کہتے ہیں
مسیح موعود کے گھر میں بڑی خوشی سے رہتے ہیں

اللہ بہتر جانتا ہے کہ آپؒ کواس کا شعور تھا بھی یا نہیں کہ یہ شعر ہے یا ایامِ طفولیت کی وہ لہر جس میں بچے بسا اوقات ان چند الفاظ کو جو زبان پر مچل جائیں، گنگنانے لگتے ہیں۔ چنانچہ پانچ سالہ صاحبزادہ صاحب جب گنگنانے لگے تو وہ الفاظ منتشر اور غیر منظم نہیں تھے بلکہ ایک شعر میں مرصع و منضبط تھے۔یعنی یہ ایک مکمل شعر تھا۔ اس شعرکا پہلا مصرعہ علمِ شعر و عروض کے لحاظ سے اپنی صنعت میں مکمل طور پر درست ہے۔ گودوسرے مصرعے میں اس کاوزن معمولی سا الجھا ہے۔ مگر اپنی شعریت میں مکمل ہے۔ہاں اسے اگر ماحول کے مروجہ پنجابی لہجے میں پڑھا جائے تو یہ اپنے وزن میں بھی قائم ہو جاتا ہے۔

اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ عام قانونِ قدرت کے تحت اس عمر کے بچے کے تخیلات اس کے آشیانے کی دیواروں کو نہیں پھاند سکتے۔ اس کی یہی کل کائنات ہوتی ہے جس میں وہ اپنی زندگی کی تمام لذ توں، راحتوں اور خوش بختیوں کو محسوس کرتا اور ان سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہی راحتیں اور خوش بختیاں اس کی گنگناہٹوں کو راگ عطا کرتی ہیں۔ شعری صنعت سے بے نیازبچپن کی موج ترنگ میں ڈھلی ہوئی اس گنگناہٹ میں بھی آپؒ کی اس فطرتی سعادت کی آواز سنائی دیتی ہے جو حضرت مسیحِ موعود کے ’’الد ار‘‘ سے وابستہ ہے۔اس زمانے میں تصنع اور تکلف سے مبر ا جن جذباتِ امتنان و اطمینان کا اظہار اس شعر سے پھوٹتا ہے، حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام سے آپؒ کی قلبی وابستگی کاغماز ہے۔ اس کے بعدجب آپؒ کچھ شعور کی عمر کو پہنچے تو باقاعدہ شعر کی تخلیق ہوگئی۔ 1944ء میں آپؒ کی والدہ ماجدہ ؓکا انتقال ہوا توآپؒ نے ان کو سفرِ آخرت کے لئے الوداع کرتے ہوئے کہا:

’’گو جدائی ہے کٹھن د ور بہت ہے منزل
پر مرا آقا بلا لے گا مجھے بھی اے ماں!
اور پھر تم سے مَیں مل جاؤں گا جلدی یا بدیر
اُس جگہ، مل کے جدا پھر نہیں ہوتے ہیں جہاں‘‘

اُس وقت جب آپؒ نے یہ اشعار قلمبند کئے، آپؒ کی عمر سولہ برس تھی۔یہ گویا آپؒ کی شاعری کی شروعات تھیں۔ دردِ نہاں کے سوتوں سے پھوٹتی ہوئی آپؒ کی ابتدائی شاعری میں سے ایک نظم جس کا پہلا شعر آپ کی والدہ مرحومہؓ کی اک تصویر کا مرہونِ منت ہے۔ دل کا جو درد اس شعر میں جھلک رہا ہے، وہ ہرقاری کے دل میں بھی درد کی ایک کسک جگا دیتا ہے۔آپؒ کہتے ہیں:

تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشک بار دیکھ
نظریں اٹھا خدا کے لئے ایک بار دیکھ

پھر آپؒ ضبطِ الم کی کیفیت ِ بے ضبط کو کس بے اختیاری سے بیان کرتے ہوئے بندِ صبر و شکیب کوآنسوؤں سے سجاتے ہوئے کہتے ہیں:

تُو مجھ سے آج وعدہ ضبط ِ الم نہ لے
ان آنسوؤں کا کوئی نہیں اعتبار دیکھ
بندِ شکیب توڑ کر آنسو برس پڑے
اپنوں پہ بھی نہیں ہے مجھے اعتبار دیکھ

یعنی اس دنیا میں اگرکسی پر اعتبارممکن ہے تو خدا تعالیٰ پر ہے جو ہمیشہ سہارا اور ساتھ دینے والا رفیقِ اعلیٰ ہے۔ اپنوں پر کوئی کیا انحصار کر سکتاہے۔ اس آخری شعر میں لفظ ’’اپنوں‘‘ ذو معنی بھی ہے اور سچائیوں سے سینچا ہوا بھی۔ اس شعر میں سموئے ہوئے تخیل کی گہرائی میں ایک منزل بھی اتریں تو اس کی پنہائیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مثلاً یہ کہ دنیا میں ماں سے زیادہ اپنا کوئی نہیں ہوگا۔ اگر وہی چھوڑ جائے تو انسان پھر کس پر اعتبار کرے۔ پس دنیا میں انسان کو کبھی اپنے چھوڑ جاتے ہیں اور کبھی وہ اپنوں کو چھوڑ جاتا ہے۔ یہاں ’’اپنوں‘‘ کا لفظ ایک گہرا اور لطیف پہلو بھی لئے ہوئے ہے جو اپنی ’’ذات‘‘ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ خود مجھے اپنے آپ پر بھی اختیار نہیں کہ آنسوؤں کو اپنے قابو میں رکھ سکوں۔ پس اصل حقیقت، پناہ، ساتھی اورسہارا خدا تعالیٰ ہے جو ساتھ بھی رہتا ہے اورباقی بھی۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام اسی سچائی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

خویش، قوم و قبیلہ پُر ز دغا تُو بریدہ برائے شاں ز خدا

کہ اپنے ہوں یا قوم وقبیلے والے، سب ایک طرح کے دھوکے سے بھرے ہوئے ہیں۔ کیا تُو ان کی خاطر خدا تعالیٰ سے تعلق قطع کرتا ہے؟ یعنی وہ جو چھوڑ جانے والے ہیں، ان پر اعتبار کی بجائے خداتعالیٰ پر اعتبار اور انحصار کرنا ہی اصل حقیقت ہے۔

آپؒ نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اپنی ان ابتدائی نظموں اور اشعار پر نظرِ ثانی فرمائی جو ’’کلامِ طاہر‘‘ میں ’’ابتدائی کلام کے چند نمونے‘‘ والے حصے میں شائع شدہ ہیں۔ ان میں سے چند اشعار بطور نمونہ درج ہیں۔

منتظر میں ترے آنے کا رہا ہوں برسوں
یہ لگن تھی تجھے دیکھوں تجھے چاہوں برسوں
اے مجھے ہجر میں دیوانہ بنانے والے
غمِ فرقت میں شب و روز ستانے والے
اے کہ تو تحفہ درد و غم و ہم لایا ہے
دیر کے بعد بڑی دُور سے آنے والے
جا کہ اب قرب سے تیرے مجھے دکھ ہوتا ہے
اے شب غم کے سویرے مجھے دکھ ہوتا ہے

1944ء کی ایک اورنظم ملاحظہ ہو۔

یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا۔ یا جلتے ہیں پروانے دو
یہ اشک ِ ندامت پھوٹ پڑے۔ یا ٹوٹ گئے پیمانے دو
پہلے تو مری موجودگی میں تم اکتائے سے رہتے تھے
اب میرے بعد تمہارا دل گھبراتا ہے گھبرانے دو

شعری تخلیق کا سلسلہ جاری ہو چکا تھا اورجاری رہا۔تقسیمِ ہند کے بعد بھی آپؒ نے کچھ نظمیں کہیں جن میں ’’خدام احمدیت‘‘ نغمہ بھی قابلِ ذکر ہے۔ اسی طرح لندن میں تعلیم کے لئے قیام کے دوران بھی آپؒ اپنے رہائشی کمرے کی تنہائیوں میں حسبِ آمدو آوُرد فکر ِ سخن کرتے تھے۔ لیکن آپؒ کے صرف چند ایک ہم عصر ہی اس سے واقف تھے۔ ان دنوں ٹیپ ریکارڈر کی ایجاد نئی نئی تھی۔ مکرم چوہدری انوراحمد کاہلوں صاحب نے پاکستان جاتے وقت آپؒ سے خواہش ظاہر کی کہ اپنی کچھ نظمیں اور غزلیں ریکارڈ کروادیں تاکہ ربوہ جا کر وہ آپؒ کے والد ماجد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر سکیں۔

مکرم چوہدری انور احمدکاہلوں صاحب نے آپؒ کا کچھ کلام ریکارڈ کیا اور پاکستان جانے سے قبل ایک دن اتفاقاً حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانؓ کو آپؒ کا ریکارڈ کردہ منظوم کلام سنایا۔ بڑی توجہ اور غور سے سماعت کے بعد حضرت چوہدری صاحبؓ فرمانے لگے:
’’ان اشعار میں تو ان زخموں کے نشان صاف دکھائی دے رہے ہیں جو اُن کے قلب و ذہن پر ان کی والدہ کی وفات کی وجہ سے مرتسم ہوئے ہیں۔‘‘

سالوں بعد جب حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کے اس تبصرے کاصاحبزادہ صاحب ؒکو علم ہوا تواس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہ صحیح ہے کہ میرے ابتدائی اشعار غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے شعر کیا تھے میرے قلبی حزن و ملال کا اظہار تھا۔ میں سطحی موضوعات پر شعر کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ شعر میں جذبے کا ہونا ضروری ہے۔ … ہو سکتا ہے کہ شعر کے اس تخلیقی عمل کا تعلق اس صدمے سے ہو جس کی طرف چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے اشارہ کیا تھا۔

لیکن حقیقت تمام تر یہ نہیں تھی۔ میں اپنے گردوپیش اوروں کے غم دیکھ کر بھی اکثر غمگین ہو جایا کرتا تھا اور دل ہی دل میں غم کی یہ صلیب اٹھائے پھرتا تھا اور پھر غم کا یہ احساس شعر کے قالب میں ڈھل جاتاتھا۔ مجھے بتایا گیا کہ جب میرے والد ماجد نے میرے اشعار کے ریکارڈ سُنے تو فرمایا۔ ’’میری خواہش تو یہ ہے کہ نوجوان اپنی نظریں بلند رکھیں‘‘۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ نوجوان چاروں طرف پھیلے ہوئے غم اور اندوہ کے اس طوفان کے سامنے ڈٹ جائیں اور اپنی منظومات میں اسی عزم کا اظہار کریں اور اسی کو موضوع سخن بنائیں۔ ہمارے والد ماجد ہماری تعریف کرتے وقت بڑے حزم و احتیاط سے کام لینے کے عادی تھے۔ اپنی خوشنودی کا اظہار بڑے محتاط لفظوں میں کرتے۔ کبھی کبھی تعریف بھی کرتے لیکن اکثر خاموش رہتے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہماری شخصیت بلا روک ٹوک کسی قسم کی دخل اندازی اور سہارے کے بغیر پروان چڑھے۔

ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ہمارے اندر یہ شعور بیدار ہو کہ ہم بھی عام انسانوں کی طرح کے انسان ہیں اور امامِ وقت کا فرزند ہونے کی وجہ سے ہمیں کوئی خصوصیت یا برتری حاصل نہیں‘‘

حضرت مصلحِ موعود رضی اللہ عنہ کے نوجوانوں کے لئے مذکورہ بالا اظہارات اور توقعات کی جھلک بھی آپؒ کے کلام میں نمایاں نظر آتی ہے۔ آپؒ نے نہ صرف اپنی نظروں کو بلند و بلیغ رکھا اور رفعتوں کا سفر اختیار کیا بلکہ اپنے ساتھیوں اور اپنی جماعت کو بھی ان رفعتوں سے ہمکنار ہونے کا درس، حوصلہ اور زادِ راہ دیا۔

آپؒ کے کلام کے محاسن

حضرت صاحبزادہ صاحبؒ کا کلام شعر و سخن کی تمام درخشندہ خوبیوں سے مزین اوراس کی صنعت و ترکیب کے ہرپہلو پر حاوی ہے۔ حمدو ثنا میں آپؒ کا کلام بے نظیر ہے تو طرب و مزاح میں بے مثال۔ نعت بھی اپنے مضمون میں کمال عروج پر ہے تو رنگِ تغزل بھی دلفریب جوبن کی دلکشی پیش کر تاہے۔ الغرض جس پہلو سے دیکھیں یا جس نوع سے بھی پرکھیں آپؒ شاعری کے روایتی معیاروں کی بلندیوں پر فائزہیں۔یعنی اصنافِ شاعری کے کسی پیمانے پر بھی پرکھا جائے اور دیگر شعراء سے موازنہ کیا جائے تو لا جرَم آپؒ ان میں شمشاد قامت ہیں۔

صنف ِ نعت

آپؒ کے نعتیہ کلام میں نعت ’’اے شاہِ مکی و مدنی سید الورٰیؐ‘‘ میں رؤیا میں سنائی دینے والے کلمات ’’اے میرے والے مصطفی ؐ‘‘ میں جہاں وارفتگی میں ٹوٹ کر ایک استغراقی اپنائیت کا اظہار ہواہے وہاں اس میں اپنے محبوب آقا و مولیٰ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ؐ پر اپنے اس خاص حقِ ایمان کا بھی اظہار ہے جس میں ایک احمدی دوسروں سے لاکھوں گنا ممتاز ہے۔یہ حق وہ ہے جس کے بارے میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے فرماتے ہیں:
’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ؐ کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔ یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوت، یقین، معرفت اور بصیرت سے آنحضرت ؐ کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں، اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختمِ نبو ت میں ہے، سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختمِ نبوت کیا ہوتاہے، اس پر ایمان لانے کامفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت ؐ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خد اتعالیٰ نے ہم پر ختمِ نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس کے عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جواس چشمہ سے سیراب ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ243)

اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ؐ پر اپنے اس حق ِ ایمان کااظہار اس نعت میں نمایاں ہے جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے اس مذکورہ بالا بیان میں علیٰ وجہ البصیرت اور عملی سچائیوں کے ہمراہ موجود ہے۔

جہاں تک مصرعے ’’اے میرے والے مصطفی ؐ….‘‘ کا تعلق ہے، آپؒ اس کی عمیق گہرائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس نظم کا شانِ نزول تو ایک رؤیا میں ہے جس میں ایک شخص کو دیکھا جو بڑی پُر درد آواز میں حضرت اقدس محمد مصطفی رسول اللہ ؐ کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑکا کوئی کلام پڑھ رہا ہے۔ ان شعروں کا عمومی مضمون تو مجھے یاد رہا مگر الفاظ یاد نہیں رہے۔ البتہ ایک مصرعہ جو غیر معمولی طور پر میرے دل پر اثر کرنے والا تھا وہ ان الفاظ پر مشتمل تھا:

’’اے میرے والے مصطفی ؐ‘‘

خواب میں اس کا جو مفہوم سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ لفظ ’والے‘ نے بجائے اس کے کہ سقم پیدا کیا ہو اس میں غیر معمولی اپنائیت بھر دی اور قرآن کریم کی بعض آیات کی بھی تشریح کر دی جن کی طرف پہلے میری توجہ نہیں تھی۔ عموماً یہ تأثر ہے کہ صرف رسول اللہ ؐ ہی مصطفی ہیں حالانکہ قرآن کریم میں حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، اور آل ابراہیم (اسحٰقؑ، یعقوبؑ، اسمٰعیلؑ) حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت مریمؑ حتیٰ کہ بنی آدم کے لئے بھی لفظ اصطفیٰ استعمال ہوا ہے۔ تو مصطفی ایک نہیں، کئی ہیں۔ پس اگر یہ کہنا ہو کہ باقی بھی مصطفی ہوں گے مگر میرے والا مصطفی یہ ہے تو اس کا اظہار ان الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ میں ممکن نہیں۔ یہ بات ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی بچہ ضد کرے کہ مجھے میرے والی چیز دو۔ میرے والی کہنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ مجھے محض یہ چیز نہیں چاہئے بلکہ وہی چیز چاہئے جو میری تھی۔ اس طرزِ بیان میں اظہارِ عشق بھی محض ’’میرے مصطفی‘‘ کہنے کے مقابل پر بہت زیادہ زور مارتا ہے۔ پس رؤیا میں ہی میں یہ نہیں سمجھ رہا کہ اس میں کوئی نقص ہے بلکہ اس ظاہری نقص میں مجھے فصاحت و بلاغت کی جو لانی دکھائی دی اور مضمون میں مقابلۃ ً بہت زیادہ گہرائی نظر آنے لگی۔‘‘

(الفضل 4؍ستمبر 2003ء)

صنف ِ نعت میں جو کلام حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی جماعت کو عطا کیا ہے وہ اپنے حسن و خوبی، عشقِ رسولؐ کے اظہار اور آپؐ کے مقام و مرتبہ کے بیان اور دیگر خصوصیات میں بے بدل ہے۔ ایسا اعجازی کلام کسی اور جگہ دستیاب نہیں ہے اور فارسی میں ایک شعر تو ایسا ہے کہ ہزاروں اشعار پربھی وزنی اور فائق ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:

اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمدؐ ہست برہانِ محمدؐ

کہ اگر محمد ؐ کی صداقت و عظمت کی دلیل چاہتا ہے تو بس (آپؐ کا) عاشق ہو جا۔ پھر دیکھ کہ محمدؐ خود اپنی دلیل آپؐ ہیں۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی ذات میں اس شعر کا عکس نمایاں نظر آتا تھا۔محمدؐ نام زبان پر آتے ہی آپؒ کا دل ہربار آبِ چشم بن کر ٹپک پڑتا تھا اور ورافتگی میں آپؒ کی رندھی ہوئی آواز کے ہمراہ آپؒ کا سراپا اس بات کی شہادت دیتا تھا کہ ؎ محمدؐ ہست برہان ِ محمدؐ

وہ ایک عظیم الشان شخص جو عشقِ محمدؐ میں ایسا سرخوش ہوا، ایسا جذب اور ایسا فنا ہوا کہ سچ مُچ اس کا مثیل ومہدی بن گیا۔ وہ پھر اس مقام پر پہنچا کہ جس کا مقتضائے حال یہ تھا کہ ’’مَنْ فَرَقَ بَیْنِی وَ بَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَا عَرَفَنِی وَمَا رَاَی‘‘ کہ جس نے مجھ میں اور میرے مصطفیؐ میں فرق کیا اس نے نہ مجھے پہچانا نہ (میری محبت کی حقیقت ِعظمت کو) مشاہدہ کیا۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؒ اپنی نعت ’’ظہورِ خاتم الانبیاء‘‘ میں اس حقیقت کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ ؎

وہ ماہِ تمام اس کا، مہدی تھا غلام اس کا
روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام اس کا
مرزائے غلام احمد، تھی جو بھی متاعِ
جاں کر بیٹھا نثار اس پر، ہو بیٹھا تما م اس کا
دل اس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اس کا
اخلاص میں کامل تھا وہ عاشقِ تام اس کا
اِس دَور کا یہ ساقی، گھر سے تو نہ کچھ لایا
مَے خانہ اسی کا تھا، مَے اس کی تھی، جام اس کا
سازِندہ تھا یہ، اِس کے۔ سب ساجھی تھے مِیت اس کے
دُھن اِس کی تھی، گیت اُس کے
لب اِس کے، پیام اُس کا

اورپھر اس کی وساطت سے ایک درد بھری یہ التجا بھی کرتے ہیں کہ ؎

اِک میں بھی تو ہوں یارب، صیدِ تہ ِ دام اس کا
دِل گاتا ہے گُن اُس کے،لب جپتے ہیں نام اُس کا
آنکھوں کو بھی دکھلا دے، آنا لبِ بام اس کا
کانوں میں بھی رس گھولے، ہر گام خرام اُس کا
خیرات ہو مجھ کو بھی اک جلوہ عام اس کا
پھر یوں ہو کہ ہو دل پر الہام کلام اس کا

اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ صنفِ نعت میں مبنی بر رؤیا آپؒ کی ایک نعت کا ذکر پہلے گزر چکا ہے،اب ایک اور نعت کا ذکر سنئے جو غزل کے نام پر از راہِ رؤیا اتری۔یہ نعت نما غزل یا غزل نما نعت بھی یقینا شعر و سخن میں ایک منفرد نوع کے علاوہ اور کچھ نہیں۔آپؒ فرماتے ہیں:
’’میں نے رؤیا میں دیکھا کہ کوئی عزیز ہے وہ میرے لئے ایک مصرعہ پڑھتا ہے اور وہ مصرعہ خواب میں بالکل موزوں ہے یعنی باقاعدہ با وزن مصرعہ ہے لیکن اٹھنے کے بعد پورا یاد نہیں رہا۔ لیکن آخری حصہ اس کا یاد رہا جس کے مطابق پھر یہ غزل کہی گئی۔ مضمون اس کا یہ تھا کہ لوگ آج کل کے زمانہ میں، ابتلا کے زمانہ میں، ایسے ایسے شعر لکھ کر بھجواتے رہتے ہیں، نظمیں کہتے رہتے ہیں تو اجازت ہو تو میں بھی کہوں ایک غزل آپ کے لئے۔

’’غزل آپ کے لئے‘‘ کے لفظ بعینہٖ وہی ہیں جو رؤیا میں دیکھے گئے تھے۔ ۔۔۔۔۔ چنانچہ اس ’’آپ کے لئے‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو میں نے غزل کہی اس کے پہلے چند اشعار اور آخری در اصل نعتیہ ہیں۔ وہ میں نے حضرت محمد ؐ کو مخاطب کر کے کہے ہیں اور بیچ میں چند اشعار دوسرے مضامین کے لئے ہیں لیکن میں یہ سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے متعلق نہیں کہہ رہا۔ میں نے خود اپنے متعلق تو وہ غزل نہیں کہی تھی۔ اگرچہ کسی اور کے خیال سے بعض دفعہ انسان اپنے متعلق بھی اک آدھ شعر کہہ لیتا ہے کسی انسان کی زبان میں کہ گویا تم یہ چاہتے ہو کہ مجھے یہ پیغام دو۔ ایسے بھی ایک دو شعر اس میں ہیں لیکن در اصل اس کے اکثر شعر نعتیہ ہیں۔ پہلے چند اور آخری خصوصیت کے ساتھ۔ تو اس کا پس منظر ہے جو امید ہے معلوم ہونے کے بعد اس غزل کی طرز بھی سمجھ آ جائے گی کہ کیا طرز ہے۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ 15فروری 1990ء)

چست بندشیں

حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمدؒ کے کلام کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس میں بندشیں بھی چست ہیں اور محاورے بھی۔ جس کی وجہ سے مضمون اور پیغام میں کمزوری یازبوں کی جھلک تک نہیں ہے۔ آپؒ کے ابتدائی کلام میں سے ’’عشقِ نارسا‘‘ کے عنوان سے کہی گئی پچیس اشعار کی نظم کو دیکھیں۔ اس کی ردیف میں لفظ ’سا‘ اور اس کی سادگی نے ایک عجیب کیفیت پیدا کر دی ہے۔ہر شعر کو صرف اس دوحرفی لفظ نے آسمان پر بٹھا دیا ہے۔ چنانچہ آپؒ لکھتے ہیں:

کبھی اپنا بھی اک شناسا تھا کوئی میرا بھی آسرا سا تھا
کبھی میں بھی کسی کا تھا مطلوب یا مجھے بس یونہی لگا سا تھا
یوں لگا جب ملا وہ پہلی بار جیسے صدیوں سے آشنا سا تھا
بھر دیا اس نے جو برسوں سے میرے سینہ میں اک خلا سا تھا

ہمہ جہتی

اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ آپؒ چونکہ ایک ہمہ جہات، ہمہ صفات اور ہمہ اغراض الٰہی قائد تھے اور شاعری آپؒ کا مطمح نظر نہ تھی۔ اس لئے آپؒ نے زیادہ نہیں لکھا۔ لیکن آپؒ کے کلام میں طرب و مزاح کے ساتھ میرؔو غالبؔ کے ہنر کی تابانی، معرفت ِ یزدانی کی نور افشانی، تصوف کے حال و مقام، جلوہ ہائے حسنِ فطرت بکمالِ تام، مسیحِ زماں کی مسیحائی، عشقِ رسولؐ کی دلربائی، نبیوں ؑ سا انذار، رومی و سعدی مثال افکار، تقدیرِ خداوندی سے جُڑی ہوئی پیشگوئیاں اور خوشخبریاں نیزکروڑ وں دلوں کی دھڑکنیں بھی موجود ہیں۔ وہ دَورِ گزشتہ کے فکر و ادب سے بھی مرصع ہے اورعصری فکرو نظر کے اعلیٰ سانچے اور زاوئے بھی دکھاتا ہے۔ یعنی اس میں دَورِ ماضی کی جوت بھی ہے اور نئے دَور کی دمک بھی۔

سلاست و روانی

سلاست و روانی آپؒ کے کلام کی ہمراز ہے، جو کسی بھاری بھر کم لفظ کو بھی بڑی آسانی اور ملائمت کے ساتھ اپنے اندر ایسے سمو لیتی ہے جیسے ایک خرام ناز ندی کسی سنگِ راسخ سے چھُوکرایک گداز ساز چھیڑتی ہوئی گزر جائے۔ پھر آپؒ کے کلام میں لفظوں پر بند بھی کمال کا ہے۔ مثلاً ایم ٹی اے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

جو اُس کے ساتھ، اسی کی دعا سے ا ترا ہے
یہ مائدہ ہے ڈشوں میں اتارکر دیکھو

یہ شعر بتاتا ہے کہ قرآن کریم میں مذکور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی دعا والے آسمانی مائدہ کو اب مسیحِ زمان کے ذریعہ آسمان سے اترنے والے آسمانی فیوض وبرکات سے مماثلت و مشابہت ہے۔ اس دَور کایہ آسمانی مائدہ ہے، جسے طعام و طباق (ڈش) کی تشبیہہ میں چن کر آپؒ نے سیٹلائٹ ڈشوں میں پیش فرمایا ہے۔

الغرض آپؒ کے میکدہ سخن کے تمام جام وسبو پُر کیف و پُر سرور اور نشہ خیزہیں جو قاری کوبقدرِ ہمت عرفان و مطالب سے مخمور اور غور کرنے والے کو مسحور کر تے ہیں۔ اور حق یہ ہے کہ آپؒ کے اشعار دِل میں اترتے ہی،اثر کرتے ہیں اور انقلاب خیز ہیں۔

شدت و توازنِ جذبات

کہتے ہیں کہ شاعری تو جذبات اور احساسات کا اظہار ہے۔ چنانچہ آپؒ کی شاعری میں شدتِ جذبات و وسعتِ احساسات، لغت کا احاطہ اور پیرایہ اظہار منفرد تھا۔ دَورِ ہجرت میں اہلیہ حضرت سیدہ آصفہ بیگم نور اللہ مرقدھا کی وفات کا صدمہ بہت بھاری تھا۔ مگر اس ضبطِ غم کا اظہار بھی ایک اعجاز تھا۔ اور آپؒ اسی ضبط ِغم کو اللہ تعالیٰ کا ایک فیض پُراز اعجاز بتا تے ہیں۔ آپؒ نے لکھا:

اسی کا فیض تھا ورنہ میری دعا کیا تھی
کہے سے اس کے دکھاتا تھا میرا غم اعجاز
جب اُس کا اذن نہ آیا خطا گئی فریاد
رہی نہ آہ کرشمہ نہ چشمِ نم اعجاز
غِنا نے اس کی جو عرفانِ بندگی بخشا
نہیں تھا وہ کسی جود و عطا سے کم اعجاز
اسی کو ہوگئیں تم اسی کے اَمْر ہی سے تمہیں
اَمَر بنانے کا دکھلا گئی عدم اعجاز
کبھی تو آکے ملیں گے چلو خدا حافظ
کبھی تو دیکھیں گے احیاءِ نو کا ہم اعجاز

یہاں چند اشعار نقل کئے گئے ہیں۔ جبکہ پوری نظم اس ردیف قافیہ کے ساتھ ایک اعجاز سے کم نہیں۔ زندگی کی ایک رفاقت ختم ہو رہی ہے لیکن رفیقِ اعلیٰ کی رفاقت کا ذکر بھی دوش بدوش چل رہا ہے۔ یہی نہیں۔ صدمے کی اس شدت میں بھی احساس کی وسعت اپنے دامن میں جن خیالات کو سمیٹتی ہے اور جن غریبوں کی محرومیوں کا احاطہ کر کے صدمے کی شد ت کو اور انگیخت کر دیتی ہے، وہ آپؒ کے ایک خط کے اقتباس سے شاید کسی حد تک ظاہر ہوسکے۔ فرمایا:
’’ہجروفراق کے موضوع پر اچھے شعراء کا پُر تاثیر کلام پڑھ کر بعض دفعہ میں سوچتا ہوں کہ شاعر تو انجمنِ خیال سجا کر اپنی خلوتوں میں کچھ نہ کچھ جلوتوں کے رنگ بھر ہی لیتے ہیں۔ سادہ لوح صلاحیت ِ سخن سے عاری لوگ کیا کرتے ہوں گے۔ ان مجبوروں کی تنہائیوں کے خلا کے تصو ر سے بھی وحشت ہوتی ہے۔اس ویرانی میں تو لالہ صحرا کا سایہ بھی افعی نظر آتا ہوگا۔‘‘

ہجر وفراق کی ایک الگ داستاں

جدائی کا ذکر چلا ہے توآپؒ کی ہجرت کے نتیجہ میں ہجر و فراق کی جو تاریخ شروع ہوئی،اس میں پاکستان میں پھیلے ہوئے آپؒ کے پیاروں پر ظلم وتشددکی داستانِ دلفگار بھی داخل ہے۔ اس فضائے درد میں لگتا ہے کہ آپؒ کا کلام ان مہجوروں کے لئے وقف ہوگیا جو آپؒ کی جدائی میں تڑپ رہے تھے۔ ان اسیرانِ راہ مولا کے لئے جن کا جرم کوئی نہیں تھا مگر پسِ دیوارِ زنداں پابند ِ سلاسل تھے۔ ان میں وہ بے قصور بھی تھے جو محض خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے دین سے وابستگی کے ’’جرم‘‘ میں پھانسی کی سزائیں سن چکے تھے اور کال کوٹھڑیوں میں موت کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے غم کو دل سے زبان تک لاتے ہوئے آپؒ اپنے خدا سے فریاد بھی کرتے ہیں اوربڑے پیارسے حقِ وفا میں لپٹا ہوا گلہ بھی کرتے ہیں کہ:

ہیں کتنے ہی پابند سلاسل وہ گنہگار
نکلے تھے جو سینوں پہ ترا نام سجا کے
میں ان سے جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چَین
دل منتظر اس دن کا کہ ناچے انہیں پاکے
عشاق تیرے جن کا قدم تھا قد َم ِصدق
جاں دے دی نبھاتے ہوئے پیمانِ وفا کے
آداب محبت کے غلاموں کو سکھا کے
کیا چھوڑ دیا کرتے ہیں دیوانہ بنا کے

ایک طرف اگر اللہ تعالیٰ سے التجاؤں کے دوش بدوش محبتوں کے مان پر شکوے بھی ہو رہے تھے تو دوسری طرف پیار اور شفقتوں بھرے پیغاموں اور دل سے دلاسوں کی ترسیل جاری تھی۔ اپنی سانسوں میں بسنے والوں سے بڑی دل سوزی سے خطاب ہو رہا تھا ؎

دیارِ مغرب سے جانے والو! دیارِ مشرق کے باسیوں کو
کسی غریب الوطن مسافر کی چاہتوں کا سلام کہنا
ہمارے شام و سحر کا کیا حال پوچھتے ہو کہ لمحہ لمحہ
نصیب ان کا بنا رہے ہیں تمہارے ہی صبح و شام کہنا
تمہاری خاطر ہیں میرے نغمے، میری دعائیں تمہاری دولت
تمہارے درد و الم سے تر ہیں مرے سجود و قیام کہنا

اور اس کے ساتھ ساتھ یقین اور عزم کے ساتھ آنے والے اچھے دنوں اور ایک جہانِ نو کی بشارتیں بھی دی جارہی تھیں کہ:

تمہیں مٹانے کا زُعم لے کر اٹھے ہیں جو خاک کے بگولے
خدا اڑا دے گا خاک ان کی کرے گا رسوائے عام کہنا
بساطِ دنیا الٹ رہی ہے حسین اور پائیدار نقشے
جہانِ نو کے ابھر رہے ہیں بدل رہا ہے نظام کہنا
کلید فتح وظفر تھمائی تمہیں خدا نے اب آسماں پر
نشانِ فتح و ظفر ہے لکھا گیا تمہارے ہی نام کہنا

پھرجلسہ سالانہ کے وہ د ن بھی آتے ہیں جو کبھی ربوہ کے گلی کوچوں کو شادماں کر دیتے تھے۔ مگر اب وہ ایک بدیس آشیاں کو غم سے بھر دیتے ہیں۔ فضاؤں میں اُڑتے ہوئے قافلے دور دیسوں سے آکر اُس کے آنگن میں اترتے ہیں مگر کچھ ایسے پر شکستہ بھی ہیں جو پیچھے رہ جاتے ہیں۔ان کے لئے اس کا شاعردل اداس ہو جاتا ہے اور کہتا ہے:

آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں
گنتے تھے دن اپنی تسکینِ جاں کے لئے
پھر وہ چہرے ہویدا ہوئے جن کی
یادیں قیامت تھیں قلب ِ تپاں کے لئے
پیار کے پھول دل میں سجائے ہوئے
نورِ ایماں کی شمعیں اٹھائے ہوئے
قافلے دور دیسوں سے آئے ہوئے
غمزدہ اک بدیس آشیاں کے لئے
دیر کے بعد اے دور کی راہ سے آنے
والو! تمہارے قدم کیوں نہ لیں
میری ترسی نگاہیں کہ تھیں منتظر اک
زمانے سے اس کارواں کے لئے
تم چلے آئے میں نے جو آواز دی
تم کو مولیٰ نے توفیقِ پرواز دی
پر کریں پَر شکستہ وہ کیا جو پڑے
رہ گئے چشمک ِ دشمناں کے لئے
حبس کیسا ہے میرے وطن میں جہاں
پا بہ زنجیر ہیں ساری آزادیاں
ہے فقط ایک رستہ جو آزاد ہے
یورشِ سیلِ اشکِ رواں کے لئے

اس عظیم فقیرِ توحید پرست کے سیلِ اشکِ رواں کی یورشِ طوفاں نظیرکس طرح دعاؤں میں ڈھلی اور کس طرح عملاًسنگدل فرمانرواؤں کے بے رحم اور سنگلاخ فیصلوں کے ساتھ جیل خانوں کی آہنی دیواروں کو بھی بہا کر لے گئی، ایک طویل داستان ہے۔ جو اپنی جگہ پیش ہو گی لیکن وہ کیفیتِ دردِ دل کیا تھی اور وہ طوفاں نظیریورشِ دعا کیا تھی؟چند اشعار ملاحظہ ہوں۔؎

جو درد سسکتے ہوئے اشکوں میں بھرا
ہے شاید کہ یہ آغوشِ جدائی میں پلاہے
ہیں کس کے بدن دیس میں پابند ِسلاسل
پردیس میں اک روح گرفتارِ بلا ہے
کس دن تم مجھے یاد نہیں آئے مگر آج
کیا روزِ قیامت ہے! کہ اک حشر بپا ہے
یارب یہ گدا تیرے ہی در کا ہے سوالی
جو دان ملا تیری ہی چوکھٹ سے ملا ہے
گم گشتہ اسیرانِ رہِ مولا کی خاطر
مدت سے فقیر ایک دعا مانگ رہا ہے
جس رہ میں وہ کھوئے گئے اس رہ پہ گدا
ایک کشکول لئے چلتا ہے لب پہ یہ صدا ہے
خیرات کر اب ان کی رہائی مرے آقا! کشکول
میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے
میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں کا کسی سے
میں تیرا ہوں، تو میرا خدا میرا خدا ہے

آفاقیت

آپؒ کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں آفاقیت پائی جاتی ہے کیونکہ وہ ایسے دل سے پھوٹتا ہے جو نہ مشرقی تھا نہ مغربی۔ اس میں عالمگیر جذبوں کی لَو ہے جودعوت و پیامِ اسلام کی طرح افق تا افق ہے۔ چنانچہ وہ اگر پاکستان کے لئے چمکار دکھاتی ہے تو بوسنیا اور انڈو نیشیا کے لئے بھی روشنی مہیا کرتی ہے۔ اس کی تابش اگراپنے احمدیوں کے لئے راہیں روشن کرتی ہے تودوسروں کے لئے بھی پرکاشی ہے۔ وہ بلا رنگ و نسل اورمذہب و ملت تمام پر یکساں نور فگن ہے۔

انقلاب خیزی

آپؒ کے کلام کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ محض شاعری کی غرض کے لئے شاعرانہ سخن نہیں ہے بلکہ ایک ایسے میرِ کارواں کا پیام ہے جوایک جارحانہ رَوپیش قدمی پر یقین رکھتا ہے اور آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔چنانچہ اس کا کلام بھی اپنے قبیلے کوسریع سرعت کے ساتھ پیش قدمی، بلند حوصلگی اور غلبے کی منازل کے حصول کے لئے عزم و اقبال عطا کر تا ہے۔ چونکہ حضرت صاحبزادہ صاحبؒ ایک انقلاب روزگار لیڈر ہیں۔ آپؒ کے شعر کے اسلوب اور آہنگ میں حیات افروز پیغام ہے اور اس میں جماعت کے ہر طبقے کے افراد کے دل دھڑکتے ہیں۔ آپ ؒ ایک سحر خیز شاعر ہیں لیکن آپؒ نے نفرتیں پھیلانے کی بجائے سچائی کے سازوں میں روحانیت کے تاروں پر پیار و محبت اور اخوت و وحدت بڑھانے والے گیت سنائے۔ آپؒ نے کاسہ اشعار میں آبِ زندگی پیش کیا اور دلوں کو روحِ تابانی سے ہمکنار کیا۔

آپؒ کے محاسنِ کلام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپؒ نے اس کے ذریعہ اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قرآنی احکام کے ترازو میں قوم کو اس کی برائیوں سے آگاہ کر کے نیکیوں کی طرف توجہ اور کشش دلائی ہے۔

مسیحانہ کلام

بالآخرآپؒ کی شاعری کی تاجو َری یہ ہے کہ اس میں شعراء کے علم و فن کا رسمی دخل نہیں ہے،بلکہ اس کا خمیر جس نادر چیز سے اٹھا ہے اس پربھی وہی الہامِ الٰہی سند ہے جو اس دَور کے مسیح ومہدی کے کلام پر تھی کہ

’’در کلامِ تو چیزے است کہ شعرآء را درآں دخلے نیست‘‘ (الہام حضرت مسیح موعود)

کہ تیرے کلام میں ایک خاص چیز ہے جس میں شعراء کو دخل نہیں ہے۔ پس آپؒ کی خلافت مسیحِ موعود کی خلافت ہے تو آپؒ کے شعر وسخن کو بھی اسی مسیحانہ شعرو سخن کی جانشینی کی جاگ لگی ہے۔حضورؒ کا اللہ تعالیٰ سے جو تعلق تھا اسی ناتے سے جو کلام زبان پر جاری تھا اس کی بے ساختگی خود گویا ہے کہ وہ کسی چشمہ الوہیت سے جاری ہوا ہے۔ ربوہ میں آپؒ کے آخری جلسہ سالانہ (1983ء) پر پڑھی جانے والی آپؒ کی مایہ ناز اور تاریخ ساز نظم کا ہر شعر اپنے اندر گویا ملاءِ اعلیٰ سے جاری شدہ عظیم الشان پیشگوئی کو سموئے ہوئے تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اسی الہام کی طرف اشارہ کر رہا تھا ’’یَأْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی‘‘ کہ تجھ پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جیسا زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آیا تھا۔حضورؒ نے اس نظم میں جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:

دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو!
آفتِ ظلمت و جور ٹل جائے گی
آہ مومن سے ٹکرا کے طوفان کا رخ
پلٹ جائے گا رُت بدل جائے گی
تم دعائیں کرو یہ دعا ہی تو تھی
جس نے توڑا تھا سر کِبرِنمرود کا
ہے ازل سے یہ تقدیر نمرودیت
آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی
یہ دعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ساحروں کے مقابل بنا اژدھا
آج بھی دیکھنا مرد ِحق کی دعا سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی
ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا ساتھ میرے ہے تائیدِ رب الوریٰ
کل چلی تھی جو لیکھوؔپہ تیغِ دعا آج بھی اذن ہوگا تو چل جائے گی

اس نظم میں جہاں جماعت پر ظلم ڈھانے والے ظالموں کے لئے انذار کا پہلو ہے وہاں اپنی جماعت کے لئے الٰہی تبشیر کی گٹھائیں بھی امڈتی ہیں۔ بہرحال اس میں جس پیشگوئی کا ذکر تھا،وہ کس شان سے پوری ہوئی یہ ایک الگ داستان جو دنیا نے سنی بھی اور مشاہدہ بھی کی۔یہ ساری داستان شاہد ہے کہ آپؒ کے کلام میں کوئی ایسی چیز ضرور ہے کہ عام شعراء کااس میں دخل نہیں ہے۔

اساتذہ فن کے کلام کا فہم و ادراک

شعرو سخن کے عام اور رسمی فن پربھی حضرت صاحبزادہ صاحبؒ کی دسترس انتہاکی ہے۔ عام شعراء کے کلام کی کنہ تک تو اکثر لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ مگر استادہائے شعرو سخن کے کلام کے سربستہ زاویوں اور کونوں کھدروں میں مخفی رازہائے قلب ونظرکی خبرپانا ہر ایک کی رسائی میں نہیں۔ اس کے لئے فنِ شعر کے گہرے ادراک کے ساتھ نورِ فہم و فراست بھی درکار ہے۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؒ عطائے الٰہی کے ساتھ ان تمام ہتھیاروں اور صلاحیتوں سے لیس، شاعری کے جملہ اسرار سے آشنا اوراس کے مخفی پہلوؤں سے بھی آگاہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ شاعری کے حسن و نکھار سے لذ ت بھی بلا کی اٹھاتے ہیں۔

جنوری1981ء کی بات ہے، حضرت شیخ محمد احمد مظہرؓ ربوہ تشریف لائے اور دار الضیافت میں قیام فرما ہوئے۔ آپؓ نے حضرت صاحبزادہ صاحبؒ سے خواہش کی کہ آکر مل جائیں۔ اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ صاحبؒ اپنا حال بیان فرماتے ہیں:
’’بعض مجالس کے تا ثرات پھولوں کی خوشبو کی طرح ہوتے ہیں۔ان پھولوں کو کھِلے ہوئے کچھ دیر گزر جائے تو وہ بات نہیں رہتی۔مختلف موضوعات پر فارسی کے بلند پایہ شعراء کا منتخب کلام انہوں نے سنایا۔ کئی مرتبہ تو قدم قدم روَش روَش ان کے ساتھ چلتا رہا اور وہ انگلی اٹھا اٹھا کر شعروں کے اس چمن کے مختلف گوشوں کا حسن مجھے دکھاتے رہے۔ جیسے یورپ میں شوکی ؔاور فائزہؔ کومیں قدرت کے حسین مناظر دکھایا کرتا تھا۔یا جیسے وُلزے پارک انگلستان میں درختوں کے جھرمٹ سے جھانکتی ہوئی بے حد حسین و دلکش پھولوں کی کیاریاں دیکھ دیکھ کر انہیں متوجہ کرتا تھا کہ دیکھو وہ بھی وہ بھی دیکھو وہ بھی تو دیکھو۔لیکن شعروں کی دنیا کی اس سیر میں بسا اوقات شیخ صاحب آگے نکل جاتے اور میں کسی ایک شعر کے حسن میں ڈوب کر کھویا جاتا۔جیسے کسی پھول کا در کھلا دیکھ کر بھنورا اس میں ڈوب جاتا ہے۔ شعر کے اس دریچے کے اس پار مجھے حسن کا ایک جہاں نظر آتا جس کی میں تنہاسیر کرتارہتا۔ایسی ہی ایک تنہا سیر کے دوران میں نے سوچا کہ میں بھی تو تضادات کا مجموعہ ہوں،ساتھی ہوں تو تنہائی کو ترستا ہوں۔تنہائی ملے تو ساتھی ڈھونڈتا ہوں۔آخر یہ پاگل من چاہتا کیا ہے۔کسی چیز پر بھی راضی نہیں ہوتا۔ بے چین بچہ ضدی کہیں کا۔ کھلونا نہ ہو توکھلونے کو روئے،کھلونا دو تو پٹخ کر اس ٹوٹے ہوئے بکھرے ہوئے ٹکڑوں پر واویلا کرنے لگے۔میں نے سوچاانسان نا شکرا اپنے رب سے ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔ تبھی تو بار بار اسے کہنا پڑتا ہے فَبِاَیِ آلآءِ رَبِکُمَآ تُکَذِبَانِ زندگی دیتا ہوں تو موت مانگنے لگتے ہو، موت دیتا ہوں تو زندگی کی دُہائی دینے لگتے ہو۔آخر میری کن کن نعمتوں کی تم تکذیب کرتے چلے جاؤ گے۔

پس ایسے کئی بار ہوا کہ میں کسی ایک پھول کی سیر میں کھویا گیا اور شیخ صاحب آگے نکل گئے اور پھر مجھے پیچھے مُڑ کر اس طرح آوازیں دے کر بلایا جیسے بچہ سیر کے دوران پیچھے رہ جاتا ہے تو ماں باپ ٹھہر ٹھہر کر اسے بلاتے رہتے ہیں۔میں نہیں کہہ سکتا کہ آج سیر کرانے والے نے زیادہ سیر کی یا ا س نے جسے سیر کروائی جا رہی تھی۔حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کا ایک ایساپیارا شعر انہوں نے سنایاتو اس کی سیر میں جو کھویا گیا تو بہت دور نکل گیا۔ادھر شیخ صاحب سارے چمن کی سیر کر کے مجھے ڈھونڈتے ہوئے واپس لوٹے تو وہیں ملا جہاں مجھے چھوڑ کر گئے تھے۔‘‘

یہ واقعہ حضرت صاحبزادہ صاحب ؒکے ذوقِ شعر کی پاکیزگی اور ادراک کی رفعت کاعکاس ہے۔جس گہرائی اور سچائی کے ساتھ آپؒ مشکل سے مشکل ترین شعر کی تہہ میں آسانی سے اترکر سیراب ہولیتے تھے، یہ آپؒ ہی کا مقسوم تھا۔اس میدان میں آپؒ یکتا ہیں۔

(باقی کل ان شاء اللہ)

(ہادی علی چوہدری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

تعلیم الاسلام کالج اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن۔ یوکے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اپریل 2022