• 24 اپریل, 2024

انیسویں صدی ظہور امام مہدی اور مادی ایجادات کی صدی

ٹیلی مواصلات کا ارتقاء
انیسویں صدی ظہور امام مہدی اور مادی ایجادات کی صدی

انیسویں صدی کو اگر ایجادات کی صدی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔نہ یہ محض اتفاق ہے کہ آج ہوائی جہاز سے لے کر موٹرکاروں، ریل گاڑیوں، فوٹو گرافی، سلائی مشین، گیس لائٹر اور ٹیلی مواصلات کے ذرائع سمیت طبی میدان میں ایجادات و دریافت کی ایک طویل فہرست ہے جو اس صدی میں ہوئیں۔ اسے ہم اتفاق کہہ سکتے تھے اگر اس زمانے کے مصلح کی آمد کی پیش گوئیوں میں ان مادی ایجادات کا صراحت سے ذکر نہ ہوتا۔اس سے نہ صرف امام مہدی کے ظہور کے زمانے کا تعین ہوتا ہے بلکہ یہ اس وجود کے روحانی اور مادی فیض رساں ہونے کا بھی اشارہ اپنے اندر رکھتا ہے۔نیز اس کے زمانے میں ان اشیاء کا ایجاد ہونا ایک بہت بڑا امتیازی نشان ہے اور اس بات کا متقاضی تھا کہ ان کی مدد سے وہ خدائی فرستادہ اور اس کے پیروکار دنیا کے کونے کونے تک پہنچ کر خدا کا پیغام خلق خدا تک پہنچائیں۔

ٹیلی مواصلات کی ایجاد نے دور دراز علاقوں تک پیغام رسانی کو انتہائی کم وقت میں پہنچانا ممکن بنایا۔یہاں تک پہنچنے میں انسان نے لاکھوں سال کی مسافت طے کی ہے اور ان گنت تجربات کیے ہیں۔ آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان نے قریب 50 ہزار سال قبل آپس میں بات چیت کے لیے زبان کا استعمال کرنا شروع کیا۔اس سے قبل اشاروں یا غوں غاں اور حرکات و سکنات سے اپنا مدعا بیان کیا جاتا تھا۔تب انسان غاروں میں بود و باش رکھتے تھے اور دن بھر کے کام سے فارغ ہو کر رات کے وقت آگ دہکاتے اور الاؤ کے ارد گرد بیٹھ کر اپنی دن بھر کی مصروفیات اور اپنے تجربات بیان کرتے۔غاروں میں رہنے والے ان لوگوں کو جب یہ خیال آیا کہ اپنے حالات کا ریکارڈ رکھنا چاہیے تو انہوں نے غاروں کی دیواروں پر نقش و نگار بنانا شروع کیے۔ کئی غاروں میں ابھی بھی وہ نقش و نگار عمدہ حالت میں ملتے ہیں جن سے ان کے حالات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ غاروں میں بودو باش تک مواصلات کی ضرورت نہ تھی تا وقتیکہ جب حضرت انسان نے غاروں سے نکل کر نئے علاقے دریافت کیے اور دنیا میں پھیلنا شروع ہوئے تو ایک دوسرے سے رابطے کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔طویل فاصلہ تک پیغام رسانی کے لیے سب سے پہلے Smoke Signal یعنی دھوئیں کا استعمال کیا گیا۔ دھوئیں کے ذریعے پیغام رسانی کا استعمال سب سے پہلے شمالی امریکہ میں ہوا جہاں ہر قبیلے کا Smoke Signal دینے کا اپنا الگ الگ طریقہ تھا۔پہاڑ کی چوٹی یا بڑے درخت سے دھوئیں کا سگنل دیا جاتا تھا۔ پہاڑ کی چوٹی سے دھوئیں کا سگنل دینے کا مطلب تھا کہ
خطرہ زیادہ ہے۔ دیوار چین کی چوکیوں پر موجود سپاہی بھی ایک دوسرے کو آگاہ کرنے کے لیے دھوئیں کے سگنل کا استعمال کیا کرتے تھے۔ چوکی در چوکی مسلسل اسی طرح سگنل دیا جاتا تھا جو ماضی میں رابطہ کا تیز ترین ذریعہ تھا جس کی مدد سے 750 میل تک پیغام صرف چند گھنٹوں میں پہنچ جایا کرتا تھا۔

کبوتروں کے ذریعے پیغام رسانی

تیز ترین رابطے میں کبوتروں کا استعمال زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ کبوتروں کا شمار ان پرندوں میں ہوتا ہے جنہیں آسانی سے سدھایا جا سکتا ہے۔ ان میں سیکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے۔ اپنی شاندار یاداشت کی بدولت کبوتر گھروں میں تفریق کر سکتے ہیں اور علاقوں اور سمت کو بخوبی پہچاننے کی قدرت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ کہ طویل فاصلہ تک تیز ترین رابطوں میں کبوتروں نے تاریخی خدمات فراہم کی ہیں۔ماضی میں کبوتروں کو رابطے کے لیے استعمال کرنے والوں میں اہل فارس، رومن، اہل یونان اور مغل پیش پیش رہے ہیں۔ انیس ویں صدی عیسوی میں کبوتروں سے ایک شہر سے دوسرے شہر تک تجارتی مال کی رسیدات کا تبادلہ بھی کیا جاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران چیرمی نامی کبوتر کو فرانسیسی اعلیٰ فوجی اعزاز “فرینچ وار کراس” سے بھی نوازا گیا۔ کبوتروں کے ساتھ کوؤں کو بھی طویل فاصلہ تک رابطوں کا وسیلہ بنایا گیا۔

PONY EXPRESS

پرانے وقتوں میں بادشاہ اپنے ملازمین کے ذریعے بھی پیغام رسانی کا کام لیتے تھے جسے Pony Express کہا جاتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی سروس تھی جس کے ذریعے زبانی پیغامات، خطوط، اخبارات اور چھوٹے پارسل وغیرہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھجوائے جاتے تھے۔ شہروں کے درمیان مخصوص فاصلہ پر ہارس اسٹیشن بنے ہوتے تھے۔ ایک سوار شہر سے روانہ ہو کر جب اس اسٹیشن پر پہنچتا تو تازہ دم گھوڑا اور سوار وہاں سے آگے ان تمام اشیاء کی ترسیلات کے لیے موجود ہوتے۔ اسی طرح اسٹیشن در اسٹیشن تیز اور نسبتاً محفوظ مواصلات کا نظام رائج تھا۔ اس نظام کو پہلی کورئیر سروس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مواصلات کا یہ نظام انیس ویں صدی کے دوران ایسٹ کوسٹ سے ویسٹ کوسٹ آف امریکہ کے درمیان رابطے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

SEMAPHORE FLAGE

سیمافور فلیگ مواصلات کی اصطلاح میں ایک ٹیلی گرافی نظام تھا جس میں مخصوص فاصلے پر موجود خدمت گار اپنے ہاتھوں میں جھنڈے لیے ہوئے ہوتے تھے۔ ان جھنڈوں کو لہرانے کے مخصوص انداز سے مختلف پیغام پہنچائے جاتے تھے۔

TELEGRAPH

ٹیلی گراف مواصلات کے نظام میں اس وقت ایک انقلابی ایجاد تھی۔ یہ سموک سگنل اور سیمافور فلیگ جیسے ذرائع مواصلات سے مختلف نظام تھا لیکن بجلی کی بدولت الیکٹرو ٹیلی گرافی کا جنم ہوا جس نے پیغام رسانی کو نئی جہت عطاء کی۔ چند دھائیاں قبل پیغام رسانی کے لیے ٹیلی گرافی ایک بہت زیادہ مقبول اور قابل اعتماد مواصلاتی نظام کے طور پر رائج تھا جس کے ذریعے طویل فاصلوں تک تیز ترین پیغام رسانی ممکن ہوئی۔امریکہ میں باضابطہ طور پر ٹیلی گراف کا نظام 2006ء میں متروک کر دیا گیا جبکہ بھارت میں BSNL کے زیر انتظام ٹیلی گراف سروس 2013ء میں اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس طرح بھارت دنیا کا آخری ملک بنا جہاں ٹیلی گراف سروس ختم کی گئی۔

RADIO

ریڈیو لاطینی لفظ ہے جس کے معنی ہیں روشنی کی لہر۔ 1864ء میں جیمس کلارک نے الیکٹرو میگنیٹک لہروں کے خلاء میں سفر کر سکنے کا نظریہ پیش کیا۔جیمس کلارک سے پہلے اور بعد میں کئی سائنسدان الیکٹرو میگنیٹک لہروں کے وجود کے تو قائل تھے لیکن عملاً انہیں دریافت نہیں کیا گیا تھا۔ تاوقتیکہ کہ 1886ء میں ہنرک ہرٹز نے ان لہروں کا پتہ لگانے میں کامیابی حاصل کی۔ 1888ء میں الیکڑو میگنیٹک لہروں کا پتہ لگانے اور انہیں پیدا کرنے کا عملی مظاہرہ کیا جنہیں آج ہم ریڈیو ویو کے نام سے جانتے ہیں۔ 1894ء میں جگدیش چندرا نے گن پاؤڈر کو شعلہ دکھا کر مائکرویو کی مدد سے کچھ فاصلہ پر موجود گھنٹی کو بجانے کا کامیاب تجربہ کرکے ٹیلی مواصلات کے میدان میں انقلاب کا نقارہ بجا دیا۔ اسی دور میں اٹلی کے سائنسدان گلیمو مارکونی نے ایک ایسی برقی گھنٹی بنائی جیسے ایک ٹرانسمیٹر کی مدد سے بجایا جا سکتا تھا۔ یہی وہ تجربہ تھا جس نے مواصلات کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ ابتداء تھی آج کے جدید وائرلیس کمیونیکیشن کی جس پر قریب قریب ہر طرح کے مواصلاتی نظام کا دارو مدار ہے۔ بیسویں صدی کی ابتداء میں ریڈیو ویو کے ذریعے پیغام رسانی کے کامیاب تجربات ہو چکے تھے۔ یہ پیغام صرف لہروں پر ہی مشتمل ہوتے تھے البتہ آواز اور موسیقی طویل فاصلہ تک بھیجنے میں جزوی کامیابیاں ملی تھیں۔ جنگ عظیم اول میں رابطے کی اشد ضرورت نے ریڈیو کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا جسے نتیجے میں ریڈیو مواصلات نے بہت زیادہ ترقی کی۔ جنگ عظیم اول کے بعد 1920ء میں کمرشل سطح پر ریڈیو کی نشریات کا آغاز ہو چکا تھا۔ رابطے کی ضرورت جنگ عظیم دوئم میں ریڈیو کمیونیکیشن میں اور زیادہ اصلاحات اور ایجادات کا موجب بنی اور زمین سے فضاء اور فضاء سے زمین پر ریڈیو کے ذریعے رابطے ممکن ہوئے۔

TELEPHONE

اب تک فرد سے فرد کے درمیان تیز تیرین رابطے کا ذریعہ ٹیلی گراف ہی تھا۔ 1876ء میں الیگزینڈر گراہم بیل کے ٹیلی فون کی ایجاد نے ٹیلی گراف سے یہ اعزاز واپس لے لیا۔ ابتداء میں ٹیلی فون کی سہولت حاصل کرنے والے کے گھر یا دکان تک علیحدہ تار بچھائی جاتی تھی اور یہ ایک مہنگی سہولت تھی جو اس دور میں صرف امراء تک ہی محدود تھی۔ ہر گھر کا فون کنیکشن ایکسچینج سے منسلک ہوتا تھا۔ اور ہر ایکسچینج کو شہر در شہر، ملکوں اور بر اعظموں سے جوڑا جاتا تھا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد ٹیلی فون کے میدان میں بڑی تیزی سے اصلاحات ہوئیں۔ لیکن یہ گویا مواصلات کے سنہرے دور کی ابتداء تھی۔ غاروں میں رہنے والے انسان جو پہاڑوں پر چڑھ کر آگ جلا کر ایک دوسرے کو پیغام پہنچایا کرتے تھے آج 5G کی بدولت تیز ترین رابطوں کو اپنی ہتھیلی پر لیے پھر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی مواصلات کے باہم اشتراک نے ہمارے لیے زمین پر الگ ہی دنیا آباد کر دی ہے اور پوری دنیا کے کونے کونے میں بسنے والوں کو آپس میں real time میں جوڑ دیا ہے جس کا چند دہائیاں قبل تصور بھی محال تھا۔

باہمی رابطہ کی اس مختصر انسانی تاریخ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انسان نے اس کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں اور اسے ماضی میں کن مشکلات کا سامنا رہا ہوگا۔لیکن خدائے علیم و خبیر نے یہ ترقی بھی اپنے پیارے کے ظہور تک اٹھا رکھی تھی۔اس کے نزول کے ساتھ ہی زمین و آسمان نے اپنے اپنے سینے کھولے اور یہ زمانہ اسمعو صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح کی عملی تصویر بن گیا اور آج عالم احمدیت کا ایک ایک فرد اس بات کا گواہ ہے کہ ہمارے آقا و مطاع کی پیشگوئی کا یہ حصہ بھی اپنی تمام تر شان و شوکت کے ساتھ پورا ہوا۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

جلسہ یوم مسیح موعودؑ جماعت احمدیہ یونان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مئی 2022