• 18 مئی, 2024

انسان کا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارنا اُس وقت کہلاتا ہے …

انسان کا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارنا اُس وقت کہلاتا ہے
جب وہ اللہ تعالیٰ کی تمام قسم کی حدود کا بھی خیال رکھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس وہ مسلمان جس کے نزدیک نمازوں کی بڑی اہمیت ہے، عبادت کی بڑی اہمیت ہے، وہ اس تلاش میں بھی ہمیشہ رہے گا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ بھی انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے والے تعلقات رکھوں۔ اور ایک احمدی اس حکمت کی بات کو سب سے زیادہ سمجھ سکتا ہے اور جانتا ہے۔ کیونکہ اُس نے زمانے کے امام کو قبول کیا ہے، زمانے کے امام کی بیعت میں آیا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹ سکے۔ تا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کر سکے، تا کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچان سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’نوعِ انسان پر شفقت اور اُس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ438 ایڈیشن 2003ء)

پس یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جو جہاں انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے، وہاں خدا تعالیٰ کا قرب بھی دلاتی ہے۔ اور جب انسان مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حق خالص ہو کر ادا کرنے کے لئے مسجد میں جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی آغوش میں آ جاتا ہے۔ پھر عبادت کا حقیقی لطف بھی حاصل ہوتا ہے۔ پھر ایک مومن کی اس عمل پر حکم کرنے کی کوشش کہ وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ یعنی اور تم ہر مسجد میں اپنی توجہات اللہ تعالیٰ کی طرف سیدھی رکھو، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بھی بنائے گی۔ اُن لوگوں میں شامل کرے گی جو یہ مقام حاصل کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہماری ہر کوشش پر اللہ تعالیٰ کا ایک فعل بھی ہوتا ہے۔ اور ہم کسی نیکی کو اپنے زور سے حاصل نہیں کر سکتے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فعل ہمارے کسی عمل کے ساتھ شامل نہ ہو اور اس کے شامل ہو کر ہمیں نیکی کے اعلیٰ نتائج حاصل کرنے والا نہ بنائے تو وہ ہم نیکی حاصل ہی نہیں کر سکتے۔

پس ہماری نیک خواہشات اور ہمارے ہر معاملے میں نیک عمل کی کوشش وہی ہے جو ہماری توجہات اللہ تعالیٰ کی طرف سیدھی رکھنے والا بنائے گی اور اس کے ساتھ جب عبادتیں ہوں گی اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبول بھی کرے تو پھر وہ حقیقی عبادت بن جاتی ہے اور ہم اس قابل ہوں گے کہ پھر اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جو وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کا گروہ ہے۔ اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جو دین کو اُس کے لئے، یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسے پکارتے ہیں اور جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارنے والے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ کا یہ روشن پیغام راستے دکھا رہا ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ: 187) کہ جب دعا کرنے والے مجھے پکارتے ہیں تو میں اُن کی دعا قبول کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘‘دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔’’

(ملفوظات جلد4 صفحہ21 ایڈیشن 2003ء)

پس انسان کا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارنا اُس وقت کہلاتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی تمام قسم کی حدود کا بھی خیال رکھے۔ اور ان حدود کا پتہ چلتا ہے جب ہم قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہیں اور اُس میں سے خدا تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کے اُن کو نکالتے ہیں۔ یہ احکامات ہی وہ حدود ہیں جن کے اندر رہ کر انسان پھر خدا تعالیٰ کا قرب پاتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 25؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

کووڈ – 19، لمحہ بھر کی بے احتیاطی اور اس کی سزا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 ستمبر 2022