• 5 مئی, 2024

اسلام کا ایک فتح نصیب جرنیل

کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے
خاک میں ہوگا یہ سر گر تو نہ آیا بن کے یار
فضل کے ہاتھوں سے اب اس وقت کر میری مدد
کشتی اسلام تا ہوجائے اس طوفاں سے پار
یا الہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا!
اس شکستہ ناوٴ کے بندوں کی اب سن لے پکار

(حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و اخلاق فاضلہ کےمتعلق جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ اور آپؐ کے مثیل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہوگا۔اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ

(جمعہ: 4)

اس سے اللہ تعالیٰ کا مقصود تھا کہ وہ فرزندوں کی طرح آپ کا وارث ہوگا۔ آپ کے خلق کا وارث، آپ کے سب صفات حسنہ کا وارث ہوگا، احادیث میں بھی لکھا ہے کہ مہدی موعود خَلق اور خُلق میں ہم رنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا۔ جن الفاظ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق بیان فرمایا ہے اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ وہ آپ کے نام خلق، علم،کام اور روحانیت کا وارث ہوگا اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر آپ کی تصویر دکھائے گا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار کاموں میں سے ایک اہم کام جسکے لئے آپ ؐ تشریف لائے وہ تھا مخلوق خدا کو دین واحد یعنی اسلام پر جمع کرنا اور اس کام کو آپ نے بڑے ہی کامیاب طریق سے سرانجام دیا جسکے لئے آپؐ نے بڑی تکالیف بھی برداشت کیں۔ اسکی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک مقام پر فرماتے ہیں۔
’’احادیث میں آتا ہے کہ پہلے زمانوں میں خدا تعالیٰ کا دین قبول کرنے والوں کے سر وں پر آرے رکھ کر انہیں چیر دیا جاتا تھا اور وہ اف تک نہیں کرتے تھے لیکن محمد ﷺ پر ایک سال نہیں دو سال نہیں تین سال نہیں دس سال نہیں متواتر وفات تک آرے چلتے رہے اور آپؐ نے اس قدر دکھ اٹھائے کہ زمین و آسمان کے خدا کو یہ کہنا پڑا کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ تو تو اس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کررہا ہے کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح نے ایک دفعہ صلیب پر چڑھ کر سب گنہگاروں کا کفارہ ادا کردیا تھا۔مگر مسیح کو تو ساری عمر میں صرف وہی ایک واقعہ پیش آیا۔لیکن محمدﷺ اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں لوگوں کے لئے صلیب پر چڑھے اور آپ نے ان کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں موتیں قبول کیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ الفاظ جو اسجگہ رسول کریم ؐ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں نہ نوح ؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں۔ نہ ابراھیم ؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں۔ نہ موسی ؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں۔ نہ داودؑ اور سلیمان ؑکے متعلق استعمال کئے گئے ہیں۔ نہ عیسیؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں۔صرف محمدﷺ کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔۔۔ چنانچہ آپ کو خدا ئے واحد کا پیغام پہنچانے کے لئے سال ہا سال تک ایسی تکالیف میں سے گزرنا پڑا کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں‘‘

(تفسیر کبیر جلدہفتم صفحہ63 سن اشاعت بار دوم 2010)

جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ کی سیرت طیبہ میں بھی انہی اخلاق فاضلہ کی جھلک نظر آتی ہے جو آپ کے آقا و مطاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر پائے جاتے تھے۔ یہاں یہ ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جس دور میں دین اسلام کی بہترین رنگ میں خدمت کی اس دور کا مختصر نقشہ کھینچا جائے۔ ہمارے پیارے آقا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حوالے سے فرماتے ہیں۔
’’اُس وقت جو مسلمانوں کی حالت تھی، اُس سے ہر وہ مسلمان جس کے دل میں اسلام کا درد تھا، بے چین تھا۔ برصغیر میں آریوں اور عیسائی پادریوں اور ان کے مبلغین نے اسلام پر بے انتہا تابڑ توڑ حملے شروع کئے ہوئے تھے۔ انتہائی شدید حملے تھے کہ مسلمان علماء بھی اُس وقت سہمے رہتے تھے اور ان کے پاس ان حملوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ تو لاجواب ہونے کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کی جھولی میں گرتے جا رہے تھے اور کچھ بالکل اسلام سے لا تعلق ہو رہے تھے۔عیسائیت اور دوسرے مذاہب جو حملہ کرنے والے تھے، اُس وقت ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر کوئی شخص تھا تو ایک ہی جری اللہ تھا، یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23؍مارچ 2007ء)

آپؑ نے اپنی پوری زندگی تبلیغ اسلام کے لئے وقف کی اور آپ ؑ نے ہر مذہب والوں کو چیلنج دیا اور ہمہ تن اس فریضہ کی تکمیل کے لئے دن رات ایک کئے۔ آپؑ نے اپنے عظیم الشان مشن غلبہ اسلام کی تکمیل کے لئے خدا کے حضور اس قدر دعائیں اور گریہ وزاری کی کہ اسکی مثال سوائے آنحضرتﷺ کے کسی اور نبی میں نہیں مل سکتی۔اسکے ساتھ ساتھ آپؑ نے مضامین لکھے، لیکچر دئے،مناظرات و مباحثات کئے، ہزاروں کی تعداد میں اشتہارات شائع کئے،اسی سے زائد کتابیں لکھیں۔آپ نے اپنی کتب واشتہارات میں اسلام، حضرت محمد ؐ، قرآن کریم اور اپنی صداقت کے ثبوت کے لئے بیسوں انعامی چیلنج بھی دئے لیکن کوئی مرد مجاہد اسکا مقابلہ نہ کرسکا۔ جیساکہ آپؑ اپنی ایک منظوم کلام میں فرماتے ہیں۔

آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند
ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

خدمت اسلام کا یہ قوت و جذبہ آپؑ کی پوری زندگی میں ہمیں نمایاں طور پر نظر آتاہےاور یہ قوت و جذبہ ہمیں حضورؑ کے آخری ایام میں اور زیادہ تیزی پیدا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہےتاریخ میں آتا ہے کہ آپؑ آخری ایام میں لاہور میں غلبہ اسلام کے لئےتحریر وتبلیغ میں اس طرح مصروف رہتے تھے کہ گویا عظیم فاتح جرنیل ہے جو ایک دوسری منزل پر روانہ ہونے سے قبل اپنا کام تیزی سے ختم کرنے کی فکر میں دن رات ایک کئے ہوتا ہے آپؑ کمزوری اور ضعف کے باوجود ہمیشہ غلبہ اسلام کے لئے تقریر اور تحریر میں مصروف رہتے۔ان ہزاروں تکالیف میں سے صرف دوکا ذکر یہاں کرتا ہوں۔

حضرت مہتہ عبد الرحمٰن صاحب قادیانیؓ فرماتے ہیں۔
’’17مئی 1908 کی صبح کو مکرمی جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے چند معزز تعلیم یافتہ روٴسا لاہور کی دعوت کی تھی اور حضرت اقدسؑ سے اس موقع پر کچھ تقریر کرنے کی بھی درخواست کی تھی چنانچہ حضرت اقدسؑ نے اس کو منظور بھی فرما لیا تھا۔ 16 کی رات کو حضرت اقدسؑ کی طبیعت ناساز ہوگئی اور متواتر چند دست آ جانے کی وجہ سے بہت ضعف ہوگیا چنانچہ 17 کی صبح کو جب حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام بیدار ہوئے تو یہ الہام ہوا انی مع الرسول اقوم۔ چنانچہ اس وعدہ الٰہی سے طاقت پاکر حضرت اقدسؑ نے اس موقع پر قریباً اڑھائی گھنٹہ تک کھڑے ہوکر بڑی پرزور تقریر فرمائی‘‘

(تذکرہ صفحہ نمبر639،الحکم نمبر35 جلد12 مورخہ 30مئی 1908ء صفحہ1)

اسی طرح حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلویؓ ایک جگہ ذکر فرماتے ہیں۔
’’ایک مرتبہ حضرت اقدسؑ کو خارش کی بہت سخت شکایت ہوگئی تمام ہاتھ بھرے ہوئے تھے۔ لکھنا یا دوسری ضروریات کا سرانجام دینا مشکل تھا۔ علاج بھی برابر کرتے تھے مگر خارش دور نہ ہوتی تھی۔۔۔۔ ایک دن میں حضرتؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عصر کے قریب وقت تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ بالکل صاف ہیں مگر آپؑ کے آنسو بہ رہے ہیں۔۔۔ میں نے جراٴت کر کے پوچھا کہ حضور! آج خلافِ معمول آنسو کیوں بہہ رہے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک معصیت کا خیال گزرا کہ اللہ تعالیٰ نے کام تو اتنا بڑا میرے سپرد کیا ہے اور ادھر صحت کا یہ حال ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی شکایت رہتی ہے۔ اس پر مجھے الہام ہوا:
’’ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لیا ہے‘‘

اس سے میرے قلب پر بےحد رقت اور ہیبت طاری ہے کہ میں نے ایسا خیال کیوں کیا۔ ادھر تو یہ الہام ہوا مگر جب اٹھا تو ہاتھ بالکل صاف ہو گئے اور خارش کا نام و نشان نہ رہا۔ ایک طرف اس پرشوکت الہام کو دیکھتا ہوں دوسری طرف اس فضل اور رحم کو تو میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور اس کے رحم اور کرم کو دیکھ کر انتہائی جوش پیدا ہو گیا اور بے اختیار آنسو جاری ہوگئے‘‘

(تذکرہ صفحہ نمبر 685-686 الحکم جلد37 نمبر 12 مورخہ7 اپریل 1934ء صفحہ4)

یہ عظیم فاتح جرنیل ان تکالیف کے باوجود غلبہ اسلام کے لئے قلمی جہاد میں ہمیشہ مصروف رہتا۔ اسلام کا ایک درد آپ ؑاپنے اندر رکھتے اور اپنے ماننے والوں کو بھی نصیحت وتاکید کرتے کہ یہ درد اپنے اندر واپنی اولادوں کے اندر پیدا کریں۔اس حوالے سے چند اقتباسات پیش ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں۔
’’جو اسلام کے لئے سینہ بریاں اور چشم گریاں نہیں رکھتا وہ یاد رکھےکہ خدا تعالیٰ ایسے انسان کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ اس کو سوچنا چاہیے کہ جس قدر خیالات اپنی کامیابی کے آتے ہیں اور جتنی تدابیر اپنی دنیاوی اغراض کے لئےکرتا ہے۔اسی شوزش اور جلن اور درد دل کے ساتھ کبھی یہ خیال بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر حملے ہو رہے ہیں، میں ان کے دفاع کی بھی سعی کروں؟ اور اگر کچھ اور نہیں ہوسکتا تو کم ازکم پر سوز دل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کروں؟اگر اس قسم کی جلن اور درد دل میں ہو تو ممکن نہیں کہ سچی محبت کے آثار ظاہر نہ ہوں۔ اگر ٹوٹی ہانڈی بھی خریدی جائے تو اس پر بھی رنج ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک سوئی کے گم ہو جانے پر بھی افسوس ہوتا ہے۔ پھر یہ کیسا ایمان اور اسلام ہے کہ اس خوفناک زمانے میں اسلام پر حملوں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ امن اور آرام کے ساتھ خواب راحت میں سو رہے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 202-203)

نیز آپؑ فرماتے ہیں۔
’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا۔یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے۔اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے۔اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے‘‘

(فتح اسلا م صفحہ10-11 طبع 2018 بمقام لندن)

حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام اور قرآن کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے مامور کیا گیا ہوں۔ اسی مقصد کی خاطر آپ نے ساری زندگی جدوجہد کی اور اس شان سے کی کہ آپ کے دعویٰ کو تسلیم نہ کرنے والوں نے بھی آپ کے شاندار کارناموں کو خراج تحسین پیش کیا اور خدا کی تقدیر نے ان کے پرزور الفاظ کو محفوظ کروا دیا تاکہ بعد میں آنے والوں کی ہدایت کا باعث بنتے رہیں۔

ذیل میں چند مسلم وغیر مسلم مشاہیر کے قلبی جذبات اور اعترافات درج کرتا ہوں جنہوں نےآپؑ کی غلبہ اسلام کے خدمات کو سراہا۔

• ’’صادق الاخبار‘‘ ریواڑی نے لکھا کہ:
’’مرزا صاحب نے اپنی پرزور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لیے ساکت کردیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کماحقہ ادا کرکے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ565)

• ایڈیٹر کرزن گزٹ دہلی، مرزا حیرت دہلوی صاحب لکھتے ہیں۔
’’مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت تعریف کی مستحق ہیں۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی۔ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کہ بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا۔‘‘

(کرزن گزٹ دہلی مورخہ یکم جون 1908ء)

• فرقہ اہل حدیث کے مشہور لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ہماری نظر میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظرسے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔ ۔۔۔ اور اس کا موٴ لف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ و برہم سماج سے اس زور شورسے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو۔‘‘

(رسالہ اشاعۃ السنہ جلد7 نمبر6 صفحہ169)

• اخبار وکیل امرتسر نے لکھا۔
’’غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گر انبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے۔ قائم رہے گا۔‘‘

(بحوالہ بدر 18 جون 1908ء صفحہ 2-3)

• ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ‘‘ علی گڑھ نے لکھا کہ۔
’’مرحوم ایک مانے ہوئے مصنف اور مرزائی فرقہ کے بانی تھے۔ 1874 سے 1876ء شمشیر قلم عیسائیوں آریوں اور برہمو صاحبان کے خلاف خوب چلایا۔آپ نے 1880ء میں تصنیف کا کام شروع کیا۔آپ کی پہلی کتاب اسلام کی ڈیفنس میں تھی جس کے جواب کے لئے آپ نے دس ہزار روپے انعام رکھا تھا۔۔۔ آپ نے اپنی تصنیف کردہ اسی کتابیں پیچھے چھوڑی ہیں جس میں سے بیس عربی زبان میں ہیں۔۔۔ بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ565)

• ادیب، شاعر، ایڈیٹر علامہ نیاز فتحپوری صاحب فرماتے ہیں۔
’’اس میں کلام نہیں کہ انہو ں نے یقیناً اخلاق اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کرکے دکھادی جس کی زندگی کو ہم یقیناً اسوہ نبی کا پرتو کہہ سکتے ہیں۔‘‘

(ملاحظات نیاز فتحپوری، صفحہ 29)

• ’’جیون تت‘‘ میں دیو سماج کے سیکرٹری نے لکھا:
وہ اسلام کے مذہبی لٹریچر کے خصوصیت سے عالم تھے۔سوچنے اور لکھنے کی اچھی طاقت رکھتے تھے۔کتنی ہی بڑی بڑی کتابوں کے مصنف تھے۔۔۔۔ مرزا صاحب اپنے خاص عقائد اور اردہ کے پکے تھے اسلئے انہیں اپنی راہ میں بہت سخت مخالفتیں اور بدنامیاں سہنی پڑیں مگر وہ ان پر قائم رہے۔

(تاریخ احمدیت جلد دوم 568، الحکم 7تا14جولائی 1936ء ص11 کالم1تا2)

• امرتسر کے ایک غیراحمدی اخبار ’’وکیل‘‘ کے ایڈیٹر نے آپؑ کی ذات پر لکھا:
انکی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے بر خلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے۔ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے۔۔۔۔مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کو سند حاصل کرچکا ہے۔۔۔۔آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو۔‘‘

(اخبار وکیل امرتسر بحوالہ بدر18 جون 1908ء ماخوذ از اخبار بدر 19 مارچ 1970ء)

آج حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر خدا کے فضل سے حضورؑ کی جلیل القدر شخصیت اور عظیم الشان غلبہ اسلام کے لئے قلمی خدمات کے اعتراف کا سلسلہ آج تک جاری ہے بلکہ جوں جوں صداقت کی روشنی پھیلتی جاتی ہے حضورؑ کی مقدس ذات دنیا کی گہری توجہ اور خاص دلچسپی کا مرکز بنتی جارہی ہے اور عالمی رجحانات بڑی تیزی سے اس حقیقت کی طرف آرہے ہیں کہ بیسوی صدی کی کوئی مذہبی تاریخ آپؑ کے قلمی جہاد جو آپ ؑنے اسلام کی غلبہ کے لئے کی ذکر کے بغیر مکمل ہوہی نہیں سکتی اگر ہم دین اسلام کی خدمت کرنے کا شوق، جذبہ وجوش رکھتے ہیں تو ہمیں اس ذکر کو محفوظ رکھنا ہے کیونکہ یہ وہ روحانی خزائن ہیں جن کی بدو لت ہمیں اسلام کی بہترین ودلکش تعلیمات کے بارے میں اطلاع ملتی ہے نیزخدا جیسے قیمتی خزانے پر اطلاع ملتی ہے۔ اور اس کا عرفان نصیب ہوتا ہے۔ ہر قسم کی علمی اور اخلاقی، روحانی اور جسمانی شفاء اور ترقی کا زینہ آپ کی یہی تحریرات ہیں اس خزانے سے منہ موڑنے والا دین و دنیا، دونوں جہا نوں سے محروم قرار پاتا ہے۔ اور خدا کی بارگاہ میں متکبر شمار کیا جا تا ہے۔ جیسا کہ آپؑ نے فر مایا کہ:
’’وہ جو خدا کے ما مور اور مرسل کی با توں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑ ھتا اُس نے بھی تکبر سےحصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو۔ تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ403)

آپؑ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا۔
’’سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طا قت ہے اور طا قت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ361)

اسکی ہر کتاب میں ہے نور معرفت
عارف وہ تھا خدا کا یہ اس پر دلیل ہے
اے دوستو تم اس کی کتب سے اٹھاوٴ فیض
اب زندگی کا عرصہ عزیز وقلیل ہے

(حضرت میر ناصر نواب، الحکم 28 فروری 1912 صفحہ8)

پس یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اس سلطان القلم مسیح و مہدی ؑ کو ماننے کی تو فیق ملی اور اس نے ہمیں ان رو حا نی خزائن کا وارث ٹھہرایا گیا ہے جس کے بدولت ہم بہتر رنگ میں دین اسلام کا دفاع کرسکتے ہیں۔اس لئے ہمیں چا ہئےکہ ہم ان با بر کت تحریروں کا مطالعہ کریں۔ تا کہ ہمارے دل، ہمارے سینے اور ہمارے ذ ہن اس روشنی سے منور ہو جائیں۔ اللہ کرے ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں ان بابرکت تحریرات کے ذریعہ سنوار سکیں اور اپنے دلوں اور اپنے گھروں اور اپنے معا شرہ میں دین اسلام کی سنہری تعلیمات کے ذریعہ امن وسلامتی کے دئے جلانے والے بن سکیں۔اللہ ہمیں اسکی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

اِسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ یہی ہے
اَے سونے والو جاگو! شمس الضّحٰی یہی ہے
مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا
اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے

(حلیم خان شاہد۔ مربی سلسلہ پونے، مہاراشڑا، انڈیا)

پچھلا پڑھیں

کووڈ – 19، لمحہ بھر کی بے احتیاطی اور اس کی سزا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 ستمبر 2022