• 27 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدین (قسط 13)

حیاتِ نورالدین
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی مبارک تحریکات
قسط13

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد تجدید دین تھا اور آپؑ کی مئی 1908ء میں وفات کے بعد اللہ نے یہ مبارک کام اپنے وعدوں کے مطابق آپؑ کے خلفاء کے سپرد کیا۔ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ کا وجود وہ مبارک وجود تھا جسے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد خدا نے یہ کام سونپا۔ 27مئی 1908ء کو اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو مسند خلافت پر متمکن فرمایا اور 14؍مارچ 1914ء کو اپنی وفات تک آپؓ نے یہ کام بخوبی سرانجام دیا۔ احباب جماعت کی تعلیم وتربیت اور ان کو روحانیت میں بڑھانے کے لئے آپؓ نے بہت سی تحریکات اپنے دور خلافت میں پیش فرمائیں ان میں سے بعض پیش خدمت ہیں۔

تمام بیعت کنندگان قادیان میں آئیں
اور خلافت سے براہ راست فیض پائیں

حضرت خلیفۃ المسیحؓ کا حکم ہے کہ تمام بیعت کنندگان کے لئے ضروری ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے کچھ نہ کچھ فرصت نکال کر ملاقات کے واسطے سب قادیان آویں۔ کیونکہ اس سے روحانی ترقی ہوتی ہے اور ایمان میں تقویت پیدا ہوتی ہے۔

(اخبار بدر 9؍ جون 1908ء)

خوشنویس حضرات کو مرکز میں آکر رہنے کی تحریک

حضور نے یہ تحریک فرمائی تھی کہ خوشنویس حضرات یہاں مرکز میں آکر رہیں تاکہ سلسلہ کے کام بروقت ہوسکیں۔

(الحکم 14 جون 1908ء)

حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں دینی مدرسے کے لئے تحریک

آپ کے دل میں خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی یہ تحریک اٹھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی یادگار میں اعلیٰ پیمانے پر ایک دینی مدرسہ قائم کیا جائے جس میں واعظین تیار کیے جائیں۔ 1905ء میں ایک شاخ دینیات مدرسہ تعلیم الاسلام کے ساتھ قائم تھی۔ مگر غالبا فنڈ کی کمی کی وجہ سے اس کی حالت نہایت درجہ ناقص تھی۔ لہذا حضرت خلیفہ اول کے حکم سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت نواب محمد علی خان صاحب،حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب نے یہ تحریک پوری جماعت کے سامنے رکھی اور بتایا کے اعلیٰ پیمانہ پر مدرسہ چلانے کے لئے عمدہ مکان اور بہترین لائبریری کا ہونا ضروری ہے۔ یہ مدرسہ دنیا میں اشاعت اسلام کا ایک بھاری ذریعہ ہوگا اور حضرت مسیح موعودؑ کی عظیم الشان یادگار بھی، لہذا دوستوں کو اس کے لئے پوری پوری مالی قربانی کرنی چاہئے۔ نیز لکھا اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ یہ بڑے بھاری اخراجات ہیں اور قوم ان اخراجات کے بوجھ کو برداشت نہ کر سکے گی تو یہ ایک کمزوری کا خیال ہوگا۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ215-216)

واعظین سلسلہ کے تقرر کی تحریک

حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ مبارک میں انجمن کی طرف سے باقاعدہ کوئی واعظ تبلیغ سلسلہ کے لئے مقرر نہ تھے مگر اب خلافت اولیٰ کے شروع میں ہی اس کی پوری شدت سے ضرورت محسوس ہوئی اور خود حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے اس کی تحریک ہوئی۔ اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اول کی اجازت سے انجمن نے سب سے پہلے شیخ غلام احمد صاحب نومسلم کو اور بعدازاں مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی، حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کو واعظ مقرر کیا۔ ان کےبعد بعض اور واعظ مثلاً الہ دین صاحب فلاسفر بھی نامزد ہوئے۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ216)

ضرورت واعظین

چند روز کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح کے دل میں اس بات کا جوش ڈالا کہ جماعت میں واعظین پیدا ہوں جو علوم دینیہ سے اچھی طرح واقف ہوکر اور مسائل شرعیہ سے آگاہ ہوکر اور دلائل حقیقت اسلام سے ماہر ہوکر مختلف ملکوں میں پھریں مخلوق الٰہی کو راہ ہدایت پر لاویں، آپ اسی خیال میں تھے کہ اس کی کیا تجویز ہو کہ حکمت الٰہی سے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک پرانا اشتہار 1901ء کا چھپا ہوا آپؓ کو کہیں سے مل گیا جس میں حضرت موصوف نے ایسے واعظین کو تیار کرنے کے واسطے ایک امتحان مقرر فرمایا تھا جو غالبا ًکسی سبب سے اس وقت نہ ہوسکا۔ مگر اب اس کے لئے وقت آگیا ہے اس لئے خلیفۃ المسیح کا منشاء ہے کہ دسمبر آئندہ کے جلسہ میں ایسا امتحان قادیان میں ہو اور جو دوست اس میں شامل ہوسکیں وہ ابھی سے مطلع فرماویں تاکہ ان کے نام ایک رجسٹر میں درج کرلئے جائیں۔

(بدر 23 جولائی 1908ء جلد7 نمبر28 صفحہ1)

مبائعین کی مکمل فہرست تیار کرنے کی تحریک

ایک اہم تحریک آپ نے یہ فرمائی کہ جماعت کے مبائعین کی مکمل و مفصل فہرست تیار کی جائے تا قادیان سے جو کچھ شائع ہو جلد سے جلد جماعت کے ہر فرد تک پہنچ جائے۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 232)

ناصر وارڈ کے لئے چندہ کی تحریک

میر ناصر نواب صاحبؓ کو جو انجمن ضعفاء کے سرگرم ممبر تھے بیماروں کے لئے ایک وسیع مکان بنانے کا خیال آیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ تحریر فرماتے ہیں:
میر صاحب کی تجویز ہے کہ بیماروں کے لئے ایک وسیع مکان بنانا ضروری ہے تا کہ ڈاکٹر اور طبیب ایک جگہ پر ان کو دیکھ لیا کریں اور انکی تیمارداری میں کافی سہولت ہو۔ ان کی اس جوش بھری خواہش کو میں نے محسوس کرکے 100 روپیہ کا وعدہ ان سے بھی کر لیا ہے اور 30 روپے نقد بھی دئے ہیں۔ ایک پرانی رقم 60 روپیہ کی جو اس کام کے لئے جو میں نے جمع کی اس کو بھی نکلوا دینے کا وعدہ کیا۔ اس جوش بھرے مخلص نے قادیان کی بستی مخالفوں اور موافقوں اور ہندؤوں اور مسلمان دشمن ودست سب کو چندہ کے لئے تحریک کی۔ جہاں تک مجھے علم ہے اس کا اثر تھا کہ رات کے وقت میری بیوی نے مجھ سے بیان کیا کہ آج جو میر صاحب نے تحریک کی ہے اس میں میں نے سچے دل اور کامل جوش اورپورے اخلاص سے چندہ دیا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اگر ایسے مکان کے لئے ہمارے کو ئی مکان کسی طرح بھی مفید ہوسکیں تو میں اپنی خام حویلی دینے کو دل سے تیار ہوں۔

(الحکم جلد13 صفحہ4 کالم1)

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لئے چندہ کی تحریک

’’چونکہ اس وقت ایک عام تحریک اسلامی یونیورسٹی کے ہندوستان میں قائم کرنے کے لئے ہو رہی ہے اور بعض احباب نے دریافت کیا ہے کہ اس چندہ میں ہمیں بھی شامل ہونا چاہئے یا نہیں۔ اس لئے ان سب احباب کی اطلاع کے لئے جو اس سلسلہ میں شامل ہیں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اگرچہ اپنے سلسلہ کی ضروریات بہت ہیں اور ہماری قوم پر چندوں کا بوجھ ہے تاہم چونکہ یونیورسٹی کی تحریک ایک مفید اور نیک تحریک ہے اس لئے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے احباب بھی اس میں شامل ہوں اور قلمے، قدمے، سخنے، درمے مدد دیں۔’’ (نورالدین)

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 368)

لنگر خانہ کے لئے چندہ کی تحریک کی یاددہانی

یہاں ایک لنگر خانہ ہے جو ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنی دنیاوی کاروبار سے فراغت کا وقت نکال کر یہاں علم دین سیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ اس سلسلہ کی سب سے پہلی شاخ ہے وہ بھی اس وقت قریبا 2000 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ اگر سب احمدی اپنے اوپر حسبِ استطاعت ایک رقم مقرر کرکے اسے باقاعدہ ادا کریں تو اس کے اخراجات باآسانی چل سکتے ہیں۔ مگر بہت ہیں جن کو باوجود باربار کی تاکید کے اس طرف توجہ نہیں ہوئی۔ یا کوئی رقم مقرر کرکے وعدہ کرلیتے ہیں تو پھر ادا نہیں کرتے۔ پھر ایک مدرسہ ہے جس میں تمہارے بچوں کی دنیاوی ودینی تعلیم کا سامان کیا گیا ہے اور اس زہریلی ہوا سے بچانے کی فکر اس میں کی جاتی ہے جس نےبہت سی روحوں کو ہلاک کردیا ہے۔ ایک دوسرا مدرسہ ہے جس میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے اس کے استحکام کے لئے ابھی بہت سے روپے کی ضرورت ہے۔اشاعت اسلام کا سلسلہ ہے۔یتامیٰ اور مساکین کے لئے علیحدہ ضرورت ہے ایسے ہی اور کئی قسم کے ضروری کاروبار ہیں جن میں تم سب کو حصہ لینا ضروری ہے۔ پھر ان کے ساتھ ہر ایک کام کے لئے عمارت کی ضرورت ہے۔تمہیں ان اخراجات کا فکر کم ازکم اتنا تو ہونا چاہئے جتنا اپنی ضروریات کا فکر رکھتے ہو۔

ان اغراض کے لئے جو اس سلسلہ کے اہم اغراض ہیں چندہ دینے کو اپنے اوپر فرض کرلو۔ دنیا کی حرص کو کم کرو اور ہر ایک قسم کے ناجائز طریق حصولِ روپیہ کو سخت آگ سمجھو۔ میں نے محض تمہاری خیر خواہی کے لئے اور تمہارے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے یہ باتیں تم کو کہی ہیں۔ اگر تم ان باتوں کو مان لو گے تو دنیا اور آخرت میں سکھ پاؤ گے۔ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ التَّبَعَ الْھُدیٰ (نورالدین 7 اکتوبر 1911ء)

(بدر 9نومبر 1911ء جلد11 نمبر2-3 صفحہ9)

حضرت صاحب کی کتابوں کی اشاعت کرو

ایڈیٹر اخبار بدر نے لکھا:
ہمیں اس بات کے معلوم ہونے سے بہت افسوس ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں کی فروخت بہت کم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کے متعلق اشتہار نہیں دیا جاتا۔ پرانے احباب سب خرید چکے ہوں اور نئے بیعت کنندہ ان کی فہرست سے ناواقف ہوں۔ بہرحال ان کتابوں کی کثرت اشاعت کی طرف احباب کو توجہ کرنا از بس ضروری ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے اس مضمون کو سن کر فرمایا ہے:
میں توجہ میں اتنا ضرور کہونگا کہ توجہ دو طرف مشکل ہوتی ہے۔ جب تک احباب ان کتب اور ریویو پر توجہ نہ فرمائیں گے کام نہیں چلے گا۔

ہم ان شاء اللہ وقتاً فوقتا ًحسب ضرورت حضرت اقدس کی کتابوں کی فہرست اخبار بدر میں شائع کرتےرہیں گے۔

(اخبار بدر قادیان 22 فروری 1912، جلد11 نمبر22 صفحہ3)

مال غنیمت کی تقسیم کے بارہ میں تشریح اور اس کی تحریک

آپ نے ایک تحریک یہ فرمائی کہ مال غنیمت کی تقسیم کے لئے جو اللہ اور رسول کا حق ہے اس کا مصرف اس زمانہ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کی صفات اس کے افعال، اس کے اسماء، ا س کے کلام پاک کی اشاعت پر رسالے اور ٹریکٹ لکھے جائیں اور… حدیث شریف کی اشاعت اور آپ پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان کے جواب پر خرچ کیا جائے۔

(الحکم 14 دسمبر 1912ء نمبر 38جلد16 صفحہ6 کالم1)

درس قرآن میں شامل ہونے والی مستورات کی
فہرست تیا رکرنے کا ارشاد

آپ کے درس قرآن میں بہت بڑی تعداد مستورات کی ہوتی ہے۔ اس میں غیر احمدی عورتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ آپ نے مستورات کی درخواست پر ان کی بیعت لی تاکہ ایسی بیبیوں کے لئے خصوصیت سے دعائیں ہوں اور حضور کو علم ہوجائے کہ کون کون بی بی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہے۔ حضرت اماں جان کو فرمایا کہ ان کی فہرست تیار کرا دیں۔

(الحکم 14 دسمبر 1912ء نمبر38 جلد16 صفحہ6 کالم1)

مکرم خواجہ کمال الدین کی طرف سے لندن سے جاری کردہ رسالہ کی امداد کے لئے تحریک

احباب و اہل اسلام اس چٹھی پر غور فرماویں ایک درد مند دل کی تحریر ہے دردمند دل سے پڑھو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ پوری توجہ کریں۔ تین ہزار ایک پرچہ کے لئے۔ زیادہ نہیں۔ چاہو خریدار بنو۔چاہو امدادی رنگ میں دو۔ جس طرح ہو خواجہ صاحب کی ہمت بڑھاؤ۔

وَلَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ۔والسلام

(اخبار بدر 6مارچ 1913 نمبر1 جلد13 صفحہ1۔2)

درس ہال تعمیر کرنے کی تحریک

حضرت خلیفہ اولؓ نے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے سپرد یہ خدمت فرمائی کہ قرآن مجید کے درس کے لئے ایک خاص کمرہ تعمیر کیا جائے۔ حضرت ام المؤمنینؓ نے زمین کا ایک حصہ اس غرض کے لئے مرحمت فرمایا۔

(تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 438)

نیر الاسلام کتاب خریدنے کی تحریک

کتاب نیر الاسلام میں واقف کار مصنف نے بائبل کی پیش گوئیوں کو جو بانئ اسلام ؑ کی صداقت کو ظاہر کرتی ہیں بہت عمدگی سے واضح کیا ہے۔ کچھ اپنا اور اپنی مرحومہ بی بی کے ترک دین عیسوی وقبولیت اسلام کا حال بھی دلچسپ الفاظ میں بیان کیا ہے اور عیسائیت کے رد میں مختلف مفید باتوں کو نئے طرز میں ادا کیا ہے۔ جس کا پڑھنا ان شاء اللہ مفید ہوگا۔ احباب اس کو خرید کریں۔ اس میں شیخ رحیم بخش صاحب نومسلم کی امداد بھی ہے۔ قیمت کتاب 5 فی نسخہ ہے۔ نوالدین 22 مارچ 1913

(بدر 3 اپریل 1913ء جلد13 نمبر5 صفحہ1)

ترجمہ قرآن مجید اور کتب احادیث کی اشاعت کی تحریک

حضرت میر ناصر نواب صاحب نے بیت نور اور دارالضعفاء اور ہسپتال کے لئے چندہ کی فراہمی کے بعد جماعت کی طرف سے قرآن مجید کے مستند اردو ترجمہ اور بخاری اور دوسری اسلامی کتب کے تراجم شائع کرنے کی تحریک کی اور حضرت خلیفہ اول سے درخواست کی کہ

آپ مجھے ترجمہ اور نوٹ عنایت فرماویں نیز۔ کچھ روپیہ بھی بخشیں۔

حضرت خلیفہ اول نے اس تحریک پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے دعا فرمائی اور اعانت کا وعدہ فرمایا۔

(تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ467)

اے خدا بر تربت او بارشِ رحمت ببار
داخلش کن از کمالِ فضل در بیت النعیم

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

کووڈ – 19، لمحہ بھر کی بے احتیاطی اور اس کی سزا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 ستمبر 2022