• 5 مئی, 2024

جامع المناھج والاسالیب

جامع المناھج والاسالیب
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی شہرہ آفاق تصنیف تفسیر کبیر کا ایک اختصاصی مطالعہ
قسط اول

ایک نئے سلسلے کا آغاز

ابتدائیہ

قرآن مجید فرقان حمید کی تفسیر و تشریح کا مبارک آغاز تو حضور نبی کریمؐ کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا۔جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی۔ آپؐ کاتبین وحی میں سے کسی کو بلاتے اور وہ آیت لکھوا لیتے۔ پھر بعد میں اس کی تعلیم اپنے متبعین کو دیتے۔ بعض اوقات تو کسی سورت یا آیت کے نزول کے وقت بکثرت ملائکہ کا نزول ہوتا جو آپؐ کو اس کے معارف و نکات سے مطلع کرتے۔ امام ابن کثیرالطبرانی الصغیر کے حوالہ سے اپنی تفسیر میں ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ جب سورت الانعام کا نزول ہوا تو اس وقت ستر ہزار ملائکہ اس کے ساتھ نازل ہوئے۔

(تفسیر القرآن العظیم، لامام ابن کثیر، الجزء الثانی، صفحہ1057
مطبوعہ دار ابن الہیثم۔ قاہرہ)

ان معارف کے نزول کے بعد آپؐ ان کی تبلیغ کا فرض سرانجام دیتے۔ جب صحابہ میں سے کسی کو کسی مقام قرآن کی سمجھ نہ آتی تو وہ آنحضورؐ سے اس کی معرفت پوچھ بھی لیتے۔ اس کام کے لئے آپ نے چار قرّاء کو خاص طور پر چنا ہوا تھا۔ جن میں سے دو مہاجر اور دو انصاری صحابہ تھے۔ یعنی حضرت ابی بن کعب، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنھم اجمعین۔ اس دور میں ان معروف صحابہ میں سے جنہوں نے علم التفسیر میں ایک نمایاں مقام و مرتبہ حاصل کیا ان میں حضرات خلفاء راشدین، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنھم اجمعین شامل ہیں۔

اس دور کے صحابہ کے میدان تفسیر میں مجاہدات کی تفصیل بھی ملتی ہے۔ مثلاً مکہ معظمہ، مدینہ، بصرہ، شام اور کوفہ کے اسلامی مراکز میں تفسیر کے میدان میں کافی کام ہوا۔ صحابہ کے شاگردوں کی جماعتیں تیار ہوئیں جنہوں نے آگے چل کر کتب مدون کیں۔ اس سلسلہ میں حدیث، تاریخ، تفسیر اور سیرت کی بنیادی اور اول ین باقاعدہ کتب کےحوالہ سے امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ’’الرسالۃ المستطرفۃ‘‘ میں ایک اساسی اہمیت کی حامل بات لکھتے ہیں کہ:
’’سو پہلی (باقاعدہ) تصنیف اس ضمن میں جو مکہ میں لکھی گئی ابن جریج کی ہے، اس میں آثار صحابہ اور کچھ تفسیری نکات جو عطاء، مجاہد اور ان کے علاوہ حضرت ابن عباس کے تلامذہ سے مروی تھے موجود تھے۔اس کے بعدیمن میں معمر بن راشد یمانی کی کتاب تھی جن میں سنن تھیں۔ پھر موٴطا تھی۔ اس کے بعد سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ کی جوامع تھیں جن میں آثار و تفسیر کے نکات تھے۔ یہ پانچ کتابیں اوائل اسلام میں باقاعدہ طور پر تصنیف کی گئیں۔‘‘

(بحوالہ الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ9۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

ابن جریج (ولادت:80ھ-وفات: 150ھ) کی اس تفسیر کا تذکرہ تاریخ میں بھی ملتا ہے۔

(بحوالہ هديۃ العارفين اسماء المؤلفين وآثار المصنفين طبعۃ دار احياء التراث العربی۔جلد اول صفحہ 623)

ایسے ہی سفیان بن عیینہ (ولادت:107ھ-وفات:197ھ) کی مرتب کردہ ایک تفسیر ’’تفسیر سفیان بن عیینہ‘‘ بھی موجود ہے۔جس کو تحقیق کے بعد احمد صالح محایری نے المکتب الاسلامی سے شائع کیا۔

سو معلوم ہوا کہ یہ بابرکت کام دور صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں ہی شروع ہو کر اپنی ابتدائی منازل طے کرنے لگ پڑا تھا۔

تفسیر کو بنیادی طور پر دو اقسام میں منقسم کیا جاتا ہے۔

1۔ تفسیر بالماثور
2۔ تفسیر بالرائے

تفسیر بالماثور

پروفیسر محمد علی الصابونی، مدرس مسجد نبوی صاحب تفسیر صفوۃ التفاسیر اپنی ایک کتاب ’’التبیان فی علوم القرآن‘‘ میں اس کو ’’تفسیر بالروایۃ۔۔۔تفسیر بالنقل‘‘ لکھتے ہیں۔ (التبیان فی علوم القرآن صفحہ75، مطبوعہ دار عمر بن الخطاب) اس قسم کی تفسیر کو اردو میں اثری یا نقلی بھی کہتے ہیں۔

معروف مصری عالم پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین الذہبی (المتوفّیٰ 1977ء) کے نزدیک تفسیر بالماثور کے بنیادی ماخذ چار ہیں، آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ، آثار صحابہ اور اقوال تابعین۔

(التفسیر والمفسرون، جلد اول صفحہ137 مطبوعہ دار الحدیث القاھرۃ 2012ء)

تفسیر بالرائے

تفسیر بالرائے سے مرادعلم و عقل، تدبر و تفکیر اور اجتہاد کر کے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا اور قرآنی منطوق سمجھ کر، قرآن ہی کے دوسرے مقامات کی مدد سے اس کو کھولنا اور اس کو بتشریح بیان کرنا ہے۔

مفسرین نے اس کی دو مزید اقسام بیان کی ہیں۔ التفسیر بالرای المحمود اور التفسیر بالرای المذموم۔

پہلی قسم یعنی التفسیر بالرای المحمود کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تفسیر جو قرآنی ہدایت، سنت و تعلیمات نبویہ، قرآنی منطوق، شریعت اسلامی اور اسلامی تشخص کے برخلاف نہ ہو۔ اور دوسری قسم یعنی التفسیر بالرای المذموم وہ ہے جو اس کے اُلٹ ہو۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ عن ابن عباسٍ، عن النبی ﷺ، قال: من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النارِ یعنی جس نے بھی قرآن سے متعلق کوئی بات اپنی آراء کی بنیاد پر کی تو گویا اس نے آگ میں اپنا ٹھکانہ بنایا۔

(بحوالہ سنن الترمذی۔ کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللّٰہ
باب ما جآء فی الذی یفسّر القرآن برایہ
حدیث نمبر 2951)

اس پر وشنی ڈالتے ہوئے مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں۔
’’تفسیر بالرائے کا مطلب سمجھنے میں لوگوں کو لغزشیں ہوتی ہیں، تفسیر بالرائے کی ممانعت سےمقصود یہ نہ تھا کہ قرآن کے مطالب میں عقل و بصیرت سے کام نہ لیا جائے، کیونکہ اگر یہ مطلب ہو تو پھر قرآن کا درس و مطالعہ ہی بے سود ہوجائے گا، حالانکہ خود قرآن کا یہ حال ہے کہ اول سے لیکر آخر تک تعقل و تفکر کی دعوت ہے اور ہرجگہ مطالبہ کرتا ہے کہ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا (محمد: 25) در اصل تفسیر بالرائے میں رائےلغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ رائے مصطلحہ شارع ہے اور اس سے مقصود ایسی تفسیر ہے، جو اس لئے نہ کی جائےکہ خود قرآن کیا کہتا ہے، بلکہ اس لئے کی جائے کہ ٹھہرائی ہوئی رائے کیا چاہتی ہے اور کس طرح قرآن کو کھینچ تان کر اس کے مطابق کر دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً جب باب عقائد میں ردوکد شروع ہوئی تو مختلف مذاہب کلامیہ پیدا ہو گئے، ہر مذہب کےمناظر نے چاہا اپنے مذہب پر نصوص قرآنیہ کوڈھالے، وہ اس کی جستجو میں نہ تھے کہ قرآن کیا کہتا ہے، بلکہ ساری کاوش اس کی تھی کہ کسی طرح اسے اپنے مذہب کا مؤید دکھلا دیں، اس طرح کی تفسیر بالرائے تھی۔‘‘

(بحوالہ تفسیر ترجمان القرآن۔ جلد اول ، صفحہ51، 52۔ مطبوعہ اسلامی اکیڈمی۔ لاہور)

التفسیر بالرای المحمود کی ذیل میں معروف مصری عالم پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین الذہبی (المتوفّیٰ 1977ء) نے چند ایک تفاسیر گنوائی ہیں، جن میں امام فخر الدین الرازی کی مفاتیح الغیب، بیضاوی کی انوار التنزیل و اسرار التاویل، نسفی کی مدارک التنزیل و حقائق التاویل، خازن کی لباب التاویل فی معانی التنزیل، ابو حیان الاندلسی کی البحر المحیط اور امام محمود الآلوسی کی روح المعانی وغیرہ

(بحوالہ التفسیر والمفسرون، جلد اول ۔ماخوذ صفحہ247-300
مطبوعہ دار الحدیث۔ القاہرہ سن 2012ء)

التفسیر بالرای المذموم میں وہ کیا صورتیں ہو سکتیں ہیں جن سے اس کی مناہی آئی ہے؟

اس سلسلہ میں پہلی صورت تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر پختہ علم کے کوئی بات اپنی طرف سے بنا کر قرآن کی تفسیر کے طور پر پیش کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ قرآن کے متشابہ مقامات کو اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر از خود کھولنے کی کوشش کرنا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ان کلمات قرآنیہ کو جن کو شرعی معانی میں استعمال کیا جاتا ہے مثلاً صلوٰۃ، زکوٰۃ، صوم اور حج وغیرہ ان کو لغوی معانی میں استعمال کر کے تفسیر کی جائے۔چوتھی صورت یہ ہو گی کہ اگر کوئی قرآن شریف کی دوسری آیات و تعلیمات، آنحضرتؐ کی ثابت شدہ ہدایات، آثارِصحابہ کے برخلاف کوئی مؤقف اپنائے یا کسی قطعی اور متفق اور ثابت شدہ تفسیری نکتہ کے بر خلاف مؤقف اپنایا جائے۔ پانچویں صورت یہ ہے کہ اگر کوئی قرآن کو اپنی رائے کے تابع کرنے کی کوشش کرے۔ یہ چند ایک صورتیں خلاصۃً بیان کی گئی ہیں، جو کہ مفسرین نے مذموم رائے والی تفسیر کے حوالہ سے بیان کی ہیں۔ ان تفاسیر میں پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین الذہبی (المتوفّیٰ 1977ء) معتزلہ، شیعہ، بابی اور بہائی تفاسیر کا تذکرہ کرتے ہیں۔

(بحوالہ التفسیر والمفسرون، جلد اول و دوم۔ مطبوعہ دار الحدیث۔ القاہرہ سن 2012ء)

تفاسیر القرآن میں اخذ کردہ مناھج و اسالیب

ہر تفسیر کا ایک خاص منہج ہوتا ہے، وہ راستہ جو مفسر اپنے لئے چنتا ہے۔ اس راستہ کی پیروی کرتے ہوئے مفسر اپنے ہدف کو پاتا ہے۔ اس کو اردو میں تفسیری رجحان بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر مفسر ماہر لغت ہے تو وہ رنگ اس کی تفسیر میں بارہا نظر آئے گا۔ اگر مفسر صوفی ہے تو اس کی تفسیر میں صوفیانہ پن نظر آئے گا۔

ان تفسیری رجحانات کے بارہ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث د ہلوی (المتوفیٰ 1762ء) اپنی شہرہ آفاق کتاب الفوز الکبیر فی اصول التفسیر میں سات رجحانات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’یہ بھی جاننا چاہئے کہ مفسرین اپنے مباحث اور تفسیری اسالیب کے اختلاف کی وجہ سے مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ قرآنی آیات سے موافق مرفوع اورموقوف احادیث ڈھونڈ کر لاتے ہیں، یا اقوال تابعین اور اسرائیلی روایات۔یہ رجحان محدثین کی تفسیر میں پایا جاتا ہے۔ان میں سے دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی تاویل کرتے ہیں۔ اور وہ جو ان کے مذہب تنزیہہ سے موافق نہ ہو تو اس کو ظاہری معنیٰ سے ہٹا دیتے ہیں۔ اس سے وہ پھر مخالفین (قرآن) کی ادلہ کا رد بعض آیات سے کرتے ہیں۔ یہ انداز متکلمین کا ہے۔ ان میں ایک گروہ وہ ہے جو آیات قرآنیہ سے فقہی احکامات کا استخراج و استنباط کرتے ہیں۔ اور بعض اجتہادات کو بعض پر ترجیح دیتے ہیں۔ اور مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں۔یہ طریق تفسیر فقہاء کا ہے۔ اور ان میں سے ایک چوتھا گروہ ہے جو قرآن کی نحو اور اس کی لغت پر بحث کرتا ہے۔اور ہر موضوع پر عرب کے کلام سے شواہد پیش کرتے ہیں۔ یہ منہج ماہرین لغت اور نحویوں کا ہے۔ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو قرآن کے نکات علم المعانی والبیان کی قبیل سے نکالتے ہیں اور کلام پاک کا حق ادا کرتے ہیں۔ یہ رجحان ادباء اور میدان بلاغت کے علماء کا ہے۔اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ماہرین فن قراء اور علماء سے مروی قراءات کو بیان کرتے ہیں اور اس مجال میں ہر قسم کی کوشش اور محنت کرتے ہیں۔ یہ اسلوب مفسرین میں سے قرّاء کا ہے۔اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو علمِ سلوک اور علمِ حقائق سے متعلق معارف کا بیان کرتے ہیں۔ اور یہ منہج صوفیاء کا ہے۔‘‘

(بحوالہ الفوز الکبیر فی اصول التفسیر صفحہ92،93۔ مطبوعہ بیت العلم کراچی۔ 2006ء)

مشہور تفسیری مناھج و اسالیب
اور تفسیر کبیر کی جامعیت

1۔ اثری منہج/ تفسیر بالماثور/ محدثانہ رجحان

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سب سے پہلے نبی رحمت حضرت اقدس محمد مصطفیٰؐ کو خود سکھایا تھا اور اس کے مندرجات سے با خبر کیا تھا، اس لئے قرآن کے پہلے مفسر آنحضرتؐ خود تھے۔ آپ نے جس انداز میں صحابہ کرام کو قرآن سکھایا اور اس کی تشریح فرمائی، ان روایات کو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے محدثین و شارحین قرآن تک پہنچایا۔ اس طرح آیات قرآنیہ سے متعلق تشریحی احادیث ہم تک پہنچیں۔ اسی منہج کو اثری منہج یا تفسیر بالماثور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر میں مندرجہ ذیل معروف ہیں۔

جامع البیان فی تفسیر القرآن لابن جریر الطبری (224ھ تا 310ھ)
معالم التنزیل لابی محمد الحسین البغوی (433ھ تا 516ھ)
تفسیر القرآن العظیم لابی الفداء الحافظ ابن کثیر (701 ھ تا 774ھ)
الدر المنثور لجلال الدین السیوطی (849ھ تا 911ھ)

اور برصغیر پاک و ہند میں اسی منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر میں مندرجہ ذیل مشہور ہیں۔

ترجمان القرآن (اردو)

از نواب صدیق حسن خان (1832ء – 1890ء)

فتح البیان (عربی)

از نواب صدیق حسن خان قنوجی (1832ء – 1890ء)

تفسیر احسن التفاسیر

از سید احمد حسن محدث دہلوی (1850ء – 1912ء)

مواہب الرحمٰن

از سید امیر علی ملیح آبادی (1849ء – 1928ء)

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ اثری تفسیر میں محدث مفسرین مرفوع اور موقوف احادیث کے ذریعہ سے تفسیر کرتے ہیں۔ یا پھر کسی اسرائیلی روایت کا ذکر کر کے اس حصہ قرآن کی تفسیر کرتے ہیں۔

تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ 
میں اثری منہج کی چند مثالیں

آپ سورت الفرقان کی آیت 76 کی تفسیر میں فرماتے ہیں، (حوالہ درج کرنے سے قبل آیت کا متن دیا جا رہا ہے)

اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَیُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا

’’پھر غُرْفَة کے ایک معنے جیسا کہ حل لغات میں (اَلْغُرْفَةُ: اس کے معنے ہیں اَلسَّمَآءُ السَّابِعَۃُ۔ اقرب) بتایا جا چکا ہے ساتویں آسمان کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ عبادالرحمٰن جنہوں نے دنیا میں انکسار اور عدل و انصاف کے ساتھ اپنی عمر بسر کی۔ جو دن کے اوقات میں بھی احکام الٰہی کے تابع رہے اور رات کی تاریکیوں میں بھی سجدہ و قیام میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور دعائیں کرتے رہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرتے ہوئے انہیں ساتویں آسمان پر جگہ عنایت فرمائے گا یعنی وہ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ کیونکہ حضرت ابراہیمؑ ساتویں آسمان پر ہی ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ207 – 209) اس کی طرف رسول کریمؐ نے اس حدیث میں بھی اشارہ فرمایا ہے کہ إذا تواضع العبد رفعه اللّٰه إلى السماء السابعة (کنزالعمال جلد2 صفحہ25) کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ساتویں آسمان میں جگہ دیتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کے لئے ھون اور تذلّل اختیار کیا ہو گا اس لئے خدا تعالیٰ بھی انہیں سب سے اونچا مقام رفعت عطا فرمائے گا۔اور انہیں منازل قرب میں سے سب سے اونچی منزل عطا کی جائے گی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ597 پرنٹ ویل۔ امرتسر۔ 2010ء)

آپ سور ۃ البقرہ کی آیت 274 کی تفسیر میں فرماتے ہیں، (حوالہ درج کرنے سے قبل آیت کا متن دیا جا رہا ہے)

لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ ۫ یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۲۷۴﴾

’’لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا کے یہ معنے نہیں کہ وہ سوال تو کرتے ہیں مگر لوگوں سے چمٹ کر نہیں صرف نرمی سے مانگ لیتے ہیں۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ لوگوں سے سوال ہی نہیں کرتے۔گویا إِلْحَاف سوال کو مقید کرنے کے لئے نہیں بلکہ سوال کی شناعت بیان کرنے کے لئے ہے۔ یعنی وہ إِلْحَاف نہیں کر سکتے۔ کیونکہ إِلْحَاف چاہتا ہے کہ انسان دائماً مسئول عنہ کے ساتھ لگا رہے۔ اور وہ خدا کے لئے وقف ہو چکے ہیں۔ پس وہ اپنی غربت چھپانے کے لئے امراء کا سایہ بننے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اور اس طرح دوسرے لوگوں سے جو سوالِ مجسم بن کر انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔ گویا یہ الفاظ بطور تفسیر ہیں نہ کہ بطور قید۔ خود رسول کریمؐ سے بھی یہی معنیٰ ثابت ہیں۔ چنانچہ رسول کریمؐ فرماتے ہیں۔ لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِى تَرُدُّهُ التَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ،و لَا اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ انّمَا الْمِسْكِينُ الذِي يَتَعَفَّفُ اقرؤوا إن شئتم لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا (بخاری کتاب التفسیر) یعنی مسکین وہ نہیں جسے ایک یا دو کھجوریں یا ایک لقمہ یا دو لقمے دے دیں۔ بلکہ مسکین وہ ہے جو سوال ہی نہیں کرتا۔ یہ إِلْحَاف کی رسول کریمؐ نے خود تفسیر بیان فرمائی ہے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے۔ لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِى يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ وَلَكِنِ الْمِسْكِينُ الَّذِى لاَ يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ وَلاَ يُفْطَنُ بِهِ فَيُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ وَلاَ يَقُومُ فَيَسْأَلُ النَّاسَ۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب قول اللہ عزّ و جلّ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا) یعنی مسکین وہ نہیں جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے اور اسے ایک دو لقمے یا ایک دو کھجوریں مل جاتی ہیں بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس کوئی مال نہ ہو اور نہ لوگوں کو اس کے متعلق معلوم ہو کہ وہ اسے صدقہ ہی دے دیں اور نہ ہی وہ لوگوں سے سوال کر کے اپنی حاجت پوری کرے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسکین دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو لوگوں سے سوال کرتے پھرتے ہیں اور انہیں دوسروں سے مانگنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ دوسرے وہ جو لوگوں سے مانگتے نہیں بلکہ کام کر کے روزی کماتے ہیں۔ لیکن ان کی آمد اس قدر کم ہوتی ہے کہ وہ بھی قابل امداد ہوتے ہیں۔ بہر حال احادیث میں سوال کرنے سے سخت روکا گیا ہے۔ اور سوائے تین آدمیوں کے اور کسی کے لئے سوال کرنا جائز نہیں سمجھاگیا۔چنانچہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِثَلَاثَةٍ لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ (مشکوٰۃ المصابیح) یعنی تین آدمیوں کے سوا اور کسی کے لئے سوال کرنا جائز نہیں۔ اول اس کے لئے جس کو کھانے کے لئے کوئی چیز نہ ملتی ہو۔ یعنی ایسی حالت ہو گئی ہو کہ اور کسی ذریعہ سے اس کو کھانا ملنا ناممکن ہو۔ دوم جس پر بِلا اس کے کسی قصور کے چٹی پڑ گئی ہو اور اسے وہ ادا نہ کر سکتا ہو۔ سوم کوئی قتل ہو گیا ہو اور اس کی دیت ادا کرنے کی اس میں طاقت نہ ہو۔ ایسے موقع پر اس کے لئے سوال کرنا جائز ہے۔ مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے معنے یہ ہوں کہ ان لوگوں کے لئے دوسروں کو سوال کرنا جائز ہے نہ کہ خود اس کو۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ دو شخص رسول کریمؐ کے پاس سوالی بن کر آئے آپ نے ان کو سرتاپا دیکھا اور فرمایا۔ إن شئتما أعطيتكما، ولا حظ فيها لغني، ولا لقوي مكتسب (مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ362) یعنی اگر تم چاہو تو میں تم کو مال دے دیتا ہوں۔ مگر صدقہ کے مال میں صدقہ دینے والے آسودہ حال اور کمانے والے کا کوئی حق نہیں۔ اسی طرح آپ نے ایک اور موقع پر فرمایا۔ من سأل وعنده ما يغنيه فإنما يستكثر من نار جهنم یعنی جو شخص دوسروں سے سوال کرے اور اس کے پاس اتنی چیز موجود ہو جو اس کے کام آسکے تو وہ جہنم کی آگ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ ﷺ ومايغنيه؟ کفایت کرنے والی چیز سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا ما يغديه أو يعشيه ایسی چیز جو اس کے صبح یا شام کے کھانے میں کام آسکے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ181)

غرض لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا (البقرہ: 274) میں بتایا کہ وہ لوگ دوسروں سے سوال ہی نہیں کرتے۔ کیونکہ خود سوال کرنا ہی اپنی ذات میں إِلْحَاف ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ628-629 پرنٹ ویل۔ امرتسر۔ 2010ء)

ایک اور مقام ِقرآنی کی تفسیر میں یہی رجحان نظر آتا ہے۔ چنانچہ آپ سورت التکویر کے تعارف میں قرآنی کلمہ ’’الساعۃُ‘‘ کو احادیث نبویہ کی روشنی میں مزید کھولتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’جیسا کہ قرآن کریم کے محاورہ میں قیامت سے مراد اس دنیا کا انقلاب بھی لیا گیا ہے۔ احادیث نبی کریمؐ میں بھی قیامت اور ساعۃ ان معنوں میں مستعمل ہوئے ہیں۔ چنانچہ بخاری کتاب الایمان باب سوال جبریل عن علم الساعۃ میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت جبریل انسانی شکل میں متمثل ہو کر رسول کریمؐ اور آپ کے ساتھ کے صحابہ کو بھی نظر آئے اور رسول کریمؐ سے سوال کیا کہ متى الساعة؟ قیامت کب آنے والی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ما المسئول عنها باعلم من السائل، وساخبرك عن اشراطها إذا ولدت الامة ربها، وإذا تطاول رعاة الإبل البهم في البنيان یعنی اس بارہ میں سائل سے زیادہ مجھے علم نہیں ہاں میں اس کی علامات بتا دیتا ہوں۔ اس کی علامات یہ ہیں کہ لونڈی اپنے مالک کو جنے گی اور اونٹوں کے چرانے والے اونچے اونچے مکان بنائیں گے۔ چنانچہ یہ بنو عباس کی ترقی کے زمانہ میں ہوا۔ اکثر بادشاہوں نے لونڈیوں کو گھر میں ڈالا اور ان کی اولاد بادشاہ ہوئی اور ان کے رشتہ داروں کے ذریعہ سے عرب حکومت تباہ ہو گئی۔ اسی طرح اس زمانہ میں بجائے محنت اور قربانی اور سفروں کے عرب لوگوں نے شہری زندگی اختیار کر لی اور بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں مشغول ہو گئے۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک مجلس میں رسول کریمؐ باتیں کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے ساعت کے بارہ میں سوال کیا۔ آپؐ بات کرتے رہے اور اس کی بات کا جواب نہ دیا۔ جب پہلی بات ختم کر چکے تو فرمایا۔ ساعت کے بارہ میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ سوال کرنے والے نے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا۔ فإذا ضيعت الامانة فانتظر الساعة یعنی جب امانت میں کمی آ جائے گی تو اس وقت سے قیامت کا انتظار کرو۔ اس پر اس شخص نے کہا۔ كيف إضاعتها؟ یا رسول اللہ ﷺ امانت کس طرح ضائع ہو گی؟ اس پر آپؐ نے فرمایا۔ إذا وسد الامر إلى غير اهله فانتظر الساعة۔ (بخاری کتاب العلم بَابُ مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مشغُولٌ فِي حَدِيثِهِ) یعنی امانت سے مراد امانت حکومت ہے۔ پس جب حکومت نااہل لوگوں کے سپرد کی جائیگی اس وقت سے قیامت کے منتظر ہو جاؤ۔ اس جگہ قیامت سے مراد مسلمانوں کی تباہی اور تنزّلی کا وقت ہے۔

اسی طرح بخاری میں آتا ہے۔ إن من اشراط الساعة ان یرفع العلم ويثبت الجهل، ويشرب الخمر، ويظهر الزنا (کتاب العلم باب رفع العلم) یعنی قیامت کی علامات میں سے یہ علامات ہیں کہ علم اٹھ جائیگا اور جہالت قائم ہو جائیگی اور شراب پی جائیگی اور زنا علیٰ الاعلان کیا جائے گا۔ یعنی کنچنیوں کا طریق رائج ہو جائیگا اور لوگ اپنی زناکاریوں کا مجالس میں فخر سے ذکر کریں گے۔ اس حدیث میں قیامت سے مراد اسلام کا تنزّل ہے۔

اسی طرح بخاری کی حدیث ہے لا تقوم الساعة حتى يقبض العلم وتكثر الزلازل ويتقارب الزمان وتظهر الفتن ويكثر الهرج وهو القتل حتى يكثر فيكم المال فيفيض (کتاب الاستسقاء۔ باب ما قیل فی الزلازل) یعنی قیامت اس وقت تک نہ آئیگی جب تک علم مٹ نہ جائے اور زلازل کثرت سے نہ آئیں اور علم تاریخ ترقی نہ کر جائےاور کثرت سے فتن ظاہر نہ ہوں اور قتل کا رواج ترقی نہ کر جائے اور مال کی اس قدر زیادتی نہ ہو جائے کہ لوگ مسرف ہو جائیں۔ یہ حدیث بھی مسلمانوں کے تنزّل کو قیامت کا نام دیتی ہے۔ اسی طرح بخاری میں حدیث ہے۔ لا تقوم الساعة حتى تقاتلوا قوما نعالهم الشعر’’لا تقوم الساعة حتى تقاتلوا قوماً كانّ وجوههم المجان المطرقة (کتاب الجہاد باب قتال الترک) یعنی قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک تم اس قوم سے جنگ نہ کرو کہ ان کی جوتیاں بالوں والی ہو ں گی اور ان کے منہ ڈھالوں کی طرح چپٹے ہوں گے۔ یہ ترکوں کے حملوں کی طرف اشارہ ہے اور مراد یہ ہے کہ اسلامی تنزل کا زمانہ ترکوں کے حملوں سے شروع ہو گا۔

اسی طرح حدیث میں ہے کہ بعثت انا والساعة كھاتين، يعني إصبعين (بخاری، کتاب الرقاق۔ باب قول النبی انا والساعة كھاتين) یعنی آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو جوڑ کر دکھایا اور فرمایا کہ میرا اور قیامت کا زمانہ اسی طرح ساتھ ملا ہوا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ رسول کریمؐ کے زمانہ پر تو تیرہ سو سال ہو گئے اور اب تک قیامت نہیں آئی۔ پس اس جگہ قیامت کے معنے کچھ اور ہیں۔ اور وہ معنے اسلام کی ترقی کے ہیں اور آپؐ کا ارشاد یہ ہے کہ بعض نبی ایسے آئے ہیں کہ ان کی قوم نے ان کے مرنے کے بہت بعد جا کر ترقی کی ہے مگر مجھ سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میرے زمانہ میں ہی اسلام کی ترقی ہو جائے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

اسی طرح ترمذی میں ہے۔ اقتراب الساعة هلاك العرب یعنی قیامت کے قریب آنے کے ایک معنے عربوں کی ہلاکت کے ہیں چنانچہ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ کے میں نے یہی معنے کئے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ قرآن کریم اور احادیث میں لفظ قیامت کے معنے قیامت کبریٰ کے بھی ہیں یعنی اس قیامت کے جو تمام انسانوں کی ہلاکت سے یا ان کے دوبارہ اٹھنے سے ظاہر ہو گی اور اس کے معنے کسی قومی ترقی کے بھی ہیں اور کسی قوم کے تنزّل کے بھی اور کسی فرد کی موت کے بھی۔ پس رسول کریمؐ نے جو یہ فرمایا کہ جو شخص یوم القیامۃ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہے تو وہ ان سورتوں کو پڑھ لے اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہو سکتا کہ ان سورتوں میں صرف اسی قیامت کا ذکر ہے جو مرنے کے بعد آنیوالی ہے۔ اگر قرآن قیامت کے کئی معنے لے سکتا ہے تو رسول کریمؐ بھی اس لفظ کو اس کے متعدد معانی میں استعمال فرما سکتے ہیں۔

(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ192-194 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

(باقی آئندہ بروز منگل ان شاءاللہ)

(خواجہ عبدالعظیم احمد۔ مبلغ سلسلہ نائیجیریا)

پچھلا پڑھیں

کووڈ – 19، لمحہ بھر کی بے احتیاطی اور اس کی سزا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 ستمبر 2022