• 2 مئی, 2024

فقہی کارنر

سفر کی تعریف

ایک شخص کا تحریری سوال (حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں) پیش ہوا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک اِدھر اُدھر جانا پڑتا ہے۔ میَں کس کو سفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں۔ حضرت اقدسؑ نے فر مایا :
میرا مذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُ پر نہ ڈالے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو۔ اس میں قصر و سفر کے مسائل پر عمل کرے اِ نَّمَا الْا عْمَا لُ بِالّنِیَّاتِ بعض دفعہ دو تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آ تا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گھٹڑی اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑے تو مسافر ہوتا ہے۔ شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے۔

( الحکم 17 فروری 1901ء صفحہ 13)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

استغفار اور گناہوں سے راہِ فرار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اکتوبر 2022