• 5 مئی, 2024

شخص نہیں، شخصیت بننے کی کوشش کرو کیونکہ یہ زندہ رہتی ہے

شخص نہیں، شخصیت بننے کی کوشش کرو کیونکہ یہ زندہ رہتی ہے
شخصیت اُجاگر کرنے والی خصوصیات کو اپنانے کی ضرورت

ہمارے ایک مستقل قاری کاشف احمد صاحب جو اپنی مختصر تحریروں اور نگارشات سے روزنامہ الفضل کے قارئین کو محظوظ کرتے رہتے ہیں انہوں نے ایک سبق آموز بات کے تحت قائداعظم رحمہ اللہ کی طرف منسوب درج ذیل کسی قدر غیر معروف مگر شاندار اور سبق آموز قول بھجوایا ہے۔
’’شخص نہیں، شخصیت بننے کی کوشش کرو کیونکہ ایک شخص تو مر جاتا ہے مگر شخصیت زندہ رہتی ہے‘‘

گو اس قسم کے موضوعات پر خاکسار اکثر صفحہ قرطاس پر قلم آزمائی کرتا رہا ہے کہ انسان تو فانی ہےجس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی طبعی عمر پا کر اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے، مگر اس کا کردار، اس کی شخصیت اور اس کے اعمال، اس کی وفات کے بعد بھی جاری و ساری رہتے ہیں اور اس کا اجر ا سے ملتا رہتا ہے۔ یہی وہ شخصیت اور کردار ہوتا ہے جو زندہ رہتا ہے اور اسی سے انسان(شخص) پہچانا جاتا ہے۔ کسی نے پوچھا مرنے کے بعد کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ جواب ملا کہ ایک شخص نے اپنی زندگی میں جو اچھے کام کئے ہوں اور مرنے کے بعدلوگ ان کو یاد کریں تو یہ ہی مرنے کے بعد زندگی کہلاتی ہے۔

اس موضوع کی تفصیلات میں جانے سے قبل ہمیں شخص اور شخصیت کی تعریف اور لغوی معانی کو جاننا ضروری ہے۔ شخص سے مراد آدمی،انسان اوربشر ہوتا ہے۔ اس کی جمع اشخاص ہے۔ جبکہ شخصیت ان انسان کی جسمانی، شخصی، برتاؤ، رویوں، اوصاف، خوبیوں اورکردار کے مجموعہ کا نام ہے۔ اگر آسان زبان میں شخصیت کی تعریف کی جائے تو یہ انسان کے ظاہری و باطنی صفات، نظریات اور اخلاقی اقدار، افعال احساسات اور جذبات سے منسوب ہے۔ جس سے ایک شخص جانا اور پہچانا جاتا ہے اور اس کا وجود ایک تشخص بن کر ابھرتا ہے یا انہی خصوصیات کو اس شخص کی عادات،صفات اور کردار کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ آج دو بڑی شخصیات نے ملاقات کی۔ شعراء نے انسان کی شخصیت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

شخصیت ایسی کس کی تھی ختم رسل کے بعد

*جناب فضاابن فیض نے لکھا ہے۔

شخصیت کا یہ توازن تیرا حصہ ہے فضا
جتنی سادہ ہے طبیعت اتنا ہی تیکھا ہنر

*پھر جناب بشیر بدر نے کہا۔

مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں

*پھر جناب تبسم اعظمی کا یہ شعر جو میرے اس مضمون کی عکاسی کرے گا ملاحظہ فرمائیں۔

زمیں بلندی کی ہوتی نہیں ہموار کبھی
یہاں یہ شخص نہیں شخصیت ٹھہرتی ہے

گویا شخصیت، انسان کے ٹیلہ کی طرح وہ بلند مقام ہے جو کبھی ہموار نہیں ہوتا لیکن ترقی پذیر رہتا ہے۔ انسان کے اندر انتظام و انصرام کی وہ تمام صلاحیتیں اجاگر ہو کر انسان کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں جو اس کی پہچان بن جاتی ہیں۔ انسان کے سوچنے اورسمجھنے کا انداز،بات کرنے کا طریق،لوگوں کے ساتھ برتاؤ کا منفرد مگر پائیدار و منظم روّیہ اور اس کے پیچھے انسان کے دماغ میں کام کرنے والے خیالات،احساسات اور جذبات ہیں جو کبھی نہیں مرتے بلکہ زندہ اور زندہ تر رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارےآقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب بھی کسی مرحوم کا ذکر خیر اپنے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں تو آخر میں یہ دعا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم/ مرحومہ کی خوبیوں کو ان کی اولاد میں جاری رکھے۔ اولاد کو اپنے مرحوم والدین کی سیرت اور خوبیوں پر عمل کرنے والا بنائے یا اولاد کو اپنے اندر اپنے والدین کی خصوصیات کو اجاگر کرنے کی توفیق دے۔ انسان تو مرنے کے بعد خاک ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کا جسم حتٰی کہ ہڈیاں بھی گل سڑ جاتی ہیں بلکہ یورپ اور مغربی ممالک میں چند برسوں کے بعد قبر کا نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے۔ بعض مذاہب میں تو نعش کو جلا دیتے ہیں۔ اب تو اس کا جدید طریق آگیا ہے۔ جسے Electric Cremation یا Electric incineration کہتے ہیں۔ اس سسٹم کے بعد بعض مذاہب میں راکھ کو اپنے پاس یا کسی مخصوص جگہوں پر محفوظ کر لیا جاتا ہے اور ہندوؤں میں تو دریا (گنگا)میں بہا دینے کا رواج پایا جاتا ہے۔ ہمارے ایک بہت قریبی دوست برطانیہ میں ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو وصیت کر رکھی ہے کہ میرے مرنے پر میری نعش کو پاکستان لے جایا جائے کیونکہ یہاں تو چند سالوں کے بعد Dead Body اور قبر کے نشان کو مٹا دیا جاتا ہے۔ جس سے انسان کی قبر کا تشخص مٹ جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ایک دوست نے کچھ عرصہ قبل مجھ سے ایک ملاقات کے دوران خاکسار کی کتب کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک جماعت کا وجود ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ تاقیامت یہ جماعت قائم و دائم ہے تب تک یہ کتب جماعتی لٹریچر کے طور پر احمدی گھرانوں اور لائبریریوں میں موجود رہیں گی اور آنے والی نسلیں اسے پڑھ کر مستفید ہوتی رہیں گی۔ جس سے شخصیت زندہ رہے گی۔

ہم اپنی زبان میں بالعموم یہ کہتے ہیں شخص کی اہمیت نہیں بلکہ تشخص قائم رہنا چاہیے۔ اس سے بظاہر شخصیت ہی مرادہوتی ہے۔ جیسے ایک شخص قرآن حفظ کر لیتا ہے تو یہ اس کا تشخص ہے۔ جماعت احمدیہ میں حافظ محمد رمضان صاحب ہوا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت پر آپ ہمیشہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقاریر و خطابات کے وقت ساتھ ہوتے تھے تا قرآنی آیت کا حوالہ بتایا جا سکے۔ کچھ اشخاص احادیث کے یا فقہ کے یا کسی اور علم و فن پر مہارت حاصل کر لیتے ہیں جو ان کی پہچان بن جاتی ہے وہ ان علوم کے ماسڑ کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اسی کو ان کا تشخص کہا جائے گا۔ کسی زمانہ میں مسجد مبارک ربوہ میں ماہ رمضان المبارک کے دوران مکرم حافظ شفیق احمد کی قراٴت کی دھوم ہوتی تھی۔ احباب دور دور سے ان کے پیچھے نماز تراویح پڑھنے آیا کرتے تھے۔ ان کی وفا ت کے بعد مکرم قاری محمد عاشق صاحب کی قرات مشہور ہوگئی۔ جامعہ احمدیہ میں بعض ذہین اور قابل طلبہ کو بعض علوم و فنون پر تخصّص (specialization) کروایا جاتا ہے۔ جس میں وہ مہارت حاصل کر کے ڈگری لیتے ہیں۔ PhD یا ایم فل بھی ایک قسم کے تشخص کا ہی نام ہے۔ میں اپنے اساتذہ جامعہ احمدیہ کے بیشتر نام لے سکتا ہوں جو آج بھی مختلف علوم کے لحاظ سے اپنا منفرد تشخص رکھتے ہیں۔ جیسے محترم سید میر داؤد احمد صاحب جو انتظامی امور پر عبور رکھنے کے علاوہ حدیث کے ماسٹر کے طور پر اپنی مثال آپ تھے۔ محترم ملک سیف الر حمٰن صاحب فقہی امور پر دسترس رکھنے کی وجہ سے اپنا ایک الگ تشخص رکھتے تھے۔ مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اس تحقیق سے پہچانے جاتے ہیں کہ ایک ایٹم کو پھاڑنے کا سبق قرآن کریم سے حاصل کیا۔ اور وہ کائنات کی بنیادی طاقتوں کو یکجا کرکے ایک قوت ثابت کرنا چاہتے تھے۔ جس سے آخر کار اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل نکھر کر سامنے آجاتی۔ یہی آپ کی انتھک محنت اور تحقیقا ت کا تشخص چلا آرہا ہے۔ کائنات کی بنیادی چار قوتوں کو تین ثابت کرنے پر آپ کو نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ آپ کی آئندہ آنے والی تحقیقات میں تین قوتوں کو دو اور پھر ایک ثابت کرنا شامل تھا۔ آ پ کی توحید کو ثابت کرنے کی یہ سائنسی تحقیق کو مستقبل میں آنے والے احمدی سائنسدان ثابت کردیں گے اور اس طرح سائنس کی رو سے بھی توحید ثابت ہوجائے گی ان شاءاللّٰہ تعالیٰ۔

جس طرح مادی دنیا میں بعض اہم عہدے ایک انسان کی شخصیت بتا دیتے ہیں، جیسے ممالک کے صدور یا وزرائے اعظم۔ اسی طرح روحانی دنیا میں ولی،قطب و ابدال کا بھی تشخص یہی روحانی عہدے بن جاتے ہیں۔ ہماری جماعت میں خلفاء کا اسٹیٹس ان کی پہچان ہو جاتا ہے اور بجائے نام کے ہم خلیفۃ المسیح کے ٹائٹل سے ان کو پکارتے اور لکھتے ہیں۔ یہی خلفاء کی شخصیت ہے۔ یہی ان کی پہچان اور تشخص۔ پس ہر انسان کو اس دنیا میں ایسے کارہائے نمایاں کر جانے چاہئیں جو اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ نظر آئیں اور ان سے وہ شخص پہچانا جائے۔ مگر آج المیہ یہ ہے کہ معاشرہ میں شخص کو زندگانی مل رہی ہے اسے مختلف self-given خصوصیات سے پہچان کروائی جاتی ہے۔ جبکہ شخصیت کا تشخص مرتا نظر آرہا ہے اور جن خصوصیات اور صفات سے شخصیت اور کردار بنتا ہے وہ معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو شخصیت اُجاگر کرنے والی خصوصیات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

استغفار اور گناہوں سے راہِ فرار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اکتوبر 2022