• 25 اپریل, 2024

حکومتِ برطانیہ کا تازہ انقلاب اور الفضل

حکومتِ برطانیہ کا تازہ انقلاب اور الفضل
ازسیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ
(اشاعت مکرر از الفضل قادیان 22؍ دسمبر 1936ء)

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ

(تحریر فرمودہ 20؍دسمبر 1936ء)

14دسمبر کے ’’الفضل‘‘ میں ایک افتتاحیہ ’’حکومتِ برطانیہ میں تازہ انقلاب‘‘ کے نام سے چھپا ہے میں اِس کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ گو جو کچھ ’’الفضل‘‘ میں شائع ہوتا ہے ضروری نہیں کہ میری نظروں سے گزرے نہ یہ ضروری ہے کہ اسے پڑھ کر اگر مجھے اختلاف ہو تو میں اس اختلاف کا اظہار کروں۔ کیونکہ ’’الفضل‘‘ اجمالی طور پر جماعت احمدیہ کا ترجمان ہے نہ کہ تفصیلی طور پر۔ تفصیلی طور پر لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر اختلاف پر گرفت کی جائے۔ بعض باتوں کو ایسی اہمیت نہیں دی جاتی کہ علم ہو جانے پر بھی ان کی تردید کی جائے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس مقالہ کی تردید ضروری ہے کیونکہ اس میں بعض اصول کا سوال ہے۔

’’الفضل‘‘ کے افتتاحیہ کا خلاصہ یہ ہے سابق بادشاہ ایڈورڈ ہشتم نے ایک عورت کی خاطر ملک کو چھوڑ کرکوئی قابلِ تعریف کام نہیں کیا۔ ان کو مجبور اور قابلِ ہمدردی سمجھا جا سکتا ہے لیکن ایثار اور قربانی کرنے والا نہیں کیونکہ چھوٹی چیز بڑی چیز کےلئے قربان کی جا سکتی ہے نہ کہ بڑی چھوٹی کے لئے اور اس کی تائید میں ’’الفضل‘‘ نے آرچ بشپ آف کنٹر بری کے بعض فقروں کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ جو یہ ہیں۔
’’ایڈورڈ ہشتم کو خدا کی طرف سے ایک اعلیٰ اور مقدس امانت ملی تھی مگر انہوں نے یہ امانت دوسروں کے حوالے کر دینے کے لئے اپنی مخصوص صاف بیانی سے کام لیا۔ وہ ہر اقدام ذاتی خوشی کے حصول کے لئے کر رہے تھے۔ یہ امر افسوسناک اور حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے اس قسم کے مقصد کے پیشِ نظر اتنی بڑی امانت کو چھوڑ دیا۔ ‘‘

کاش !’’الفضل‘‘ کا افتتاحیہ نگار آرچ بشپ آف کنٹر بری کے فقروں پر انحصار کرنے کی بجائے واقعات پر غور کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچنے سے محفوظ رہتا جو اس نے اب نکالا ہے۔ جو واقعات اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ:

(1) مسز سمپسن کی واقفیت شاہی خاندان سے نئی نہیں وہ شاہ جارج پنجم کے سامنے بھی پیش کی جا چکی ہیں اور اُسی وقت سے ان کی آمددر باری حلقوں میں ہے۔

(2) سابق شاہ ایڈورڈ ہشتم بھی ان سے آج ملنے نہیں لگے بلکہ مئی 1936ء سے ان کے تعلقات مسز سمپسن سے نہایت گہرے تھے حتٰی کہ امریکن اخبارات میں مسز سمپسن کی طلاق کے وقوعہ سے پہلے یہ مضامین شائع ہو رہے تھے کہ اب مسز سمپسن طلاق لے لیں گی اور غالباً شاہ ایڈورڈ ہشتم سے شادی کریں گی۔ وہ دیر سے شاہی دعوتوں میں بلائی جاتی تھیں جن میں خود وزیراعظم بھی شامل ہوتے تھے، وہ اکثر اوقات شاہی قلعہ میں رہتی تھیں اور شاہی موٹر ان کی خدمت پر مامور تھے۔ ان سب واقعات کو انگلستان جانتا تھا، آرچ بشپ صاحب جانتے تھے، وزیراعظم جانتے تھے مگر سب خاموش تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟

(3) مسز سمپسن کو انگریزی عدالت میں طلاق ملی، ان کی طلاق کے وقت پولیس کی خاص نگرانی کا انتظام کیا گیا، پریس کو فوٹو شائع کرنے سے روکا گیا۔ ایک معمولی برو کر کی بیوی کی طلاق پر اس قدر احتیاطیں کیوں برتی گئیں۔ اگر حکومتِ برطانیہ ان واقعات سے واقف نہ تھی جو شاہی قصر میں رونما ہو رہے تھے تو اسے مسز سمپسن کی طلاق پر اس قسم کی احتیاطیں کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی اور اس نے وہ احتیاطیں کیوں برتیں؟ کیا ایک ڈیوک DUKE GRAND کی بیوی کی طلاق پر بھی انگلستان میں ایسی احتیاطیں برتی گئی ہیں۔ کیا اس واقعہ کی موجودگی میں حکومت کا کوئی افسر کہہ سکتا ہے کہ اسے صرف امریکہ کے اخبارات سے یہ حالات معلوم ہوئے۔

(4) اگست میں بادشاہ سیر کے لئے جہاز پر گئے، مسز سمپسن بغیر خاوند کے ساتھ تھیں، دنیا بھر کو معلوم تھا۔ کیا اُس وقت کسی نے احتجاج کیا؟ اوّل تو شائع شدہ واقعات سے ثابت نہیں کہ ایسا احتجاج ہو ا ہو لیکن اگر کوئی احتجاج ہوا تھا تو وہ ایسا کمزور تھا کہ کسی کو کانوں کان معلوم نہیں ہوا۔ حتٰی کہ آج اس جھگڑے کے وقت میں بھی اِس کا ذکر نہیں کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے بیان میں صاف تسلیم کیا ہے کہ پہلی دفعہ انہوں نے بادشاہ سے اکتوبر کے آخر میں بات کی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اگست کے سفر کے موقع پر وہ بالکل خاموش رہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ اِس کا باعث یہ تھاکہ بہت سے اخبارات کے کٹنگ ان کو بھجوائے گئے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے ایسی چہ میگوئیاں شروع تھیں اور یقیناً وہ لوگ حالات سے واقف تھے جو شاہی دعوتوں میں مسز سمپسن کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ آخر یہ جھگڑا شروع ہوتا ہے بشپ آف بریڈفورڈ کی ایک تقریر پر جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ بادشاہ کو مذہب کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے۔ بشپ کا یہ کہنا تھا کہ شمالی انگلستان کے اخبارات نے سب سے پہلے شور مچایا اور پھر سارے انگلستان نے شور مچانا شروع کر دیا کہ بشپ آف بریڈ فورڈ نے مسز سمپسن کی شادی کے متعلق اشارہ کیا ہے اور اس معاملہ کے متعلق سختی سے جرح شروع کر دی گئی۔ لطیفہ یہ ہے کہ بشپ آف بریڈ فورڈ نے اس مفہوم کا انکار کیا لیکن یہ مخالف اخبارات برابر شور مچاتے گئے کہ نہیں بشپ صاحب اب جُھوٹ بول رہے ہیں۔ اصل میں ان کا یہی مطلب تھا اور اس سے بھی زیادہ لطیف بات یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں ان کی تعریف بھی کی جا رہی تھی کہ بشپ صاحب نے دلیری میں کمال کر دیا کہ ملک کو اس کی ایک اہم ذمہ واری کی طرف متوجہ کر دیا اور یہ بھی ساتھ کہا جا رہا تھا کہ ان کا بعد کا انکار غلط ہے اور اب وہ صرف پردہ ڈال رہے ہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں وہ باوجود اعلیٰ مذہبی پیشوا ہونے کے جھوٹ بول رہے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ دلیری اور جھوٹ ایک ہی وقت میں کیونکر جمع ہو گئے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ بشپ بے چارے نے جو کچھ کہا تھا سچ کہا تھا۔ اس کا مطلب مسز سمپسن کی شادی کی طرف اشارہ کرنا نہ تھا بلکہ یہی تھا کہ بادشاہِ معظّم کو مذہبِ عیسوی کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے۔

خدا بھلا کرے کرنل وجوڈ ممبر پارلیمنٹ کا کہ انہوں نے عین پارلیمنٹ میں اِس راز کو فاش کر دیا کہ مسز سمپسن کی شادی تو ایک اتفاقی امر تھا جو پیدا ہو گیا اصل سوال یہی تھا کہ بادشاہ عیسوی مذہب کے پوری طرح قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ جب پارلیمنٹ میں مسز سمپسن کی شادی کا مسئلہ زیر بحث تھا کرنل وجوڈ صاحب کھڑے ہوئے اور سادگی سے اصل بحث کے متعلق تقریر شروع کر دی اور صاف کہہ دیا کہ صاحبان تاج پوشی کی رسم پر اگر ہمارے پیارے بادشاہ نے مذہبی رسوم ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے تو اس پر ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں۔ تاج پوشی کے معنی صرف تاج پوشی کے ہیں، یہ کوئی مذہبی عبادت تو ہے نہیں کہ اگر آرچ بشپ آف کنٹر بری نے برکت نہ دی تو بس عبادت خراب ہو گئی۔ اگر ہمارا بادشاہ مذہبی رسم کو غیر ضروری قرار دے کر اس سے منکر ہے تو اس پر اس قدر ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں۔ اور اگر کنٹربری اور یارک کے آرچ بشپ اور ہمارے وزیراعظم اس کو مذہبی ہتک خیال کرتے ہوئے کارونیشن کی رسوم میں شامل ہونے سے انکار کریں تو ہمیں اس پر بھی بُرا منانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ یہ ان کا اپنا کام ہے ہمارا حق نہیں کہ جبر کریں۔ اور ان کی غیر حاضری کے معنی ہرگز یہ نہ لئے جائیں کہ وہ بادشاہ کے وفادار نہیں۔ انہیں غیرحاضری کے باوجود یونہی سمجھا جائے کہ گویا انہوں نے حلفِ وفاداری لے ہی لیا ہے۔ غرض نہ تو ان رسوم کے ادا کرنے کے انکار پر بادشاہ سلامت کی تخت نشینی میں کوئی کمزوری سمجھی جائے اور نہ ان لوگوں کو باغی سمجھا جائے جو اپنے خاص مذہبی عقائد کی وجہ سے تاج پوشی کی رسم کی شمولیت کو پسند نہ کریں۔

اس تقریر نے واقعات سے مل کر بالکل واضح کر دیا کہ مسز سمپسن کا واقعہ اصل متنازعہ فیہ امر نہ تھا یہ تو ناراضگی کے اظہار کا ایک اتفاقی موقع بہم پہنچ گیا اصل واقعہ یہ تھا کہ جب کارونیشن کی رسوم کی تفصیل طے کرنے والی کمیٹی بیٹھی اور اس نے بادشاہ کے سامنے اپنی رپورٹ رکھی تو بادشاہ نے مذہبی رسم کا حصہ ادا کرنے سے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ میں اس پر یقین نہیں رکھتا اس لئے مجھے معذور سمجھا جائے۔ جب یہ بات وزراء کو اور پادریوں کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے بُرا منایا اور بعض مذہبی وزراء نے اور پادریوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم پھر اس تقریب میں شامل نہ ہوں گے۔ چنانچہ آرچ بشپ آف کنٹر بری نے صاف انکار کر دیا اور گو ہندوستان کے اخبارات میں یہ بات شائع نہیں ہوئی لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ اس انکار پر سابق بادشاہ خود موٹر میں بیٹھ کر آرچ بشپ کو ملنے کےلئے گئے اور ان سے اصرار کیا کہ آپ کو میرے مذہبی عقیدہ سے کیا تعلق ہے تاج پوشی کی رسم ایک دُنیوی رسم ہے آپ اس میں شمولیت سے کیوں انکار کرتے ہیں مگر وہ اپنے اصرار پر قائم رہے جیسا کہ اخبارات میں شائع ہو چکا ہے۔ انہی دنوں ملکہ میری سے بھی آرچ بشپ صاحب کی ایک لمبی ملاقات ہوئی تھی اور واقعات سے اگر نتیجہ اخذ کیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس ملاقات کی غرض یا تو یہ تھی کہ آرچ بشپ صاحب ملکہ کے ذریعہ بادشاہ پر اثر ڈالنا چاہتے تھے یا ملکہ اپنے بیٹے کے حق میں آرچ بشپ صاحب کو راضی کرنا چاہتی تھیں۔ بہرحال یہ ایک ناقابلِ تردید واقعہ ہے کہ مسز سمپسن کے ساتھ متعلقہ واقعات پر باوجود علم کے خاموشی اختیار کی جاتی تھی حتّٰی کہ وہ دن آ گیا جب بادشاہ نے ایک اہم مذہبی رسم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ تب فوراً مسزسمپسن کے واقعات پر بشپ بریڈفورڈ کی طرف منسوب کر کے جرح شروع ہو گئی حالانکہ بشپ بریڈ فورڈ مسز سمپسن کے واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے خود انکاری ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ میں نے تو یہی کہا تھا کہ بادشاہ کی مذہب کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں اور مذہبی رسوم میں حصہ نہیں لیتے اور اس سے زیادہ میرا منشا نہ تھا۔

بشپ کے اس انکار سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے درحقیقت اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا تھا جس کا میں اوپر ذکر کرآیا ہوں لیکن یا تو سکاٹ لینڈ کے اخبارات نے ان کے مضمون کو غلط سمجھا یا مصلحتاً ان کے اشارہ کو نظرانداز کر کے ایک اور امر کی طرف منسوب کر دیا تا کہ اصل مسئلہ زیر بحث نہ آئے۔ کیونکہ دنیا کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کہ بادشاہِ انگلستان بعض یا کُل رسومِ مسیحیت پر یقین نہیں رکھتے ایک ایسی بات تھی جسے پادری مسیحیت کے لئے سخت مُضِرّ سمجھتے تھے اور اسے زیر بحث نہیں لانا چاہتے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آرچ بشپ آف کنٹربری نے اپنے بعد کے اعلان میں اشارۃً بشپ آف بریڈ فورڈ کو تنبیہہ کی ہے کہ انہوں نے کیوں اس مسئلہ پر عام مجلس میں روشنی ڈالی اور شاہ ایڈورڈ ہشتم کی دست برداری کے بعد تو انہوں نے واضح الفاظ میں خود ہاؤس آف لارڈز میں کہہ دیا کہ وہ خوش ہیں کہ اب وہ نئے بادشاہ کی تاج پوشی میں بِلاضمیر کشی کے شامل ہو سکیں گے۔ جس کے صاف معنی ہیں کہ ان کے دل پر یہ گراں گزر رہا تھا کہ سابق بادشاہ نے تخت نشینی کے موقع پر ایک اہم مذہبی رسم کے ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ان حالات سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ مسز سمپسن کے تعلقات پر غصہ حقیقی نہ تھا کیونکہ وہ تعلقات بہت پرانے تھے اصل غصہ بعض لوگوں کو یہ تھا کہ بادشاہ نے ایک مذہبی رسم کو تاج پوشی کے متعلق کیوں منسوخ کر دیا ہے۔ مسز سمپسن کا ذکر بعض اخبارات نے دیدہ دانستہ اس لئے چھیڑ دیا تا کہ مذہب کا سوال زیر بحث نہ آئے یا بشپ بریڈ فورڈ کی تقریر کو غلط سمجھ کر ایسا کیا اور چونکہ یہ مسئلہ بھی اہم تھا اس نے فوراً ایک اہمیت اختیار کر لی۔

اس تمہید کے بعد میں کہتا ہوں کہ کیا سوال یہ تھا کہ بادشاہ ایک عورت کو قبول کریں یا بادشاہت کے فرائض کو۔ یا یہ تھا کہ بادشاہ ایک ایسے اصل کو اختیار کریں جو بادشاہت سے بھی زیادہ تھا۔ یا بادشاہت کو۔ یقیناً سوال بادشاہت اور عورت کا نہ تھا بلکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ سوال دو اصول کا تھا۔ پادریوں اور ان کے ہمدردوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا تھا کہ ایک بادشاہ جسے ڈیفنڈر آف فیتھ (DEFENDER OF FAITH) کہا جاتا ہے یعنی محافظِ عیسائیت، اگر وہی بعض مذہبی رسوم کے ادا کرنے سے انکار کر دے تو ملک کی طاقت اور اس کے اتحاد کا کیا باقی رہ جاتا ہے اور بادشاہ کے دل میں یہ سوال تھا کہ جس چیز کو میرا دل نہیں مانتا میں اسے کس طرح حکومت کی خاطر تسلیم کر لوں۔ اِس حد تک دونوں فریق اپنے اپنے اصول کی تائید میں جھگڑ رہے تھے اور ہم دونوں میں سے کسی کو ملامت نہیں کر سکتے۔ اور اگر اس امر کے خیال سے کہ یہ جھگڑا کئی صورتوں میں آئندہ بھی ظاہر ہوتا رہے گا، بادشاہ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ مسز سمپسن کی بحث کے موقع پر ہی اس قضیہ کو ختم کر دینا چاہئے تو یقیناً انہوں نے ایک اصل کی خاطر قربانی کی۔

ہمیں اِس وقت تک نہیں معلوم کہ سابق بادشاہ کے اصل عقائد کیا تھے۔ آیا صرف عیسائیت کے خلاف یا مذہب کے خلاف؟ اس لئے ہم ان کی تردید یا تائید نہیں کر سکتے لیکن ہم یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتے کہ ان کا جو کچھ بھی عقیدہ تھا، انہوں نے اس کی خاطر ایک عظیم الشان بادشاہت کو چھوڑنا پسند کیا، اور یہ امر یقیناً ایک قربانی ہے اس کا انکار کسی صورت میں نہیں کیا جا سکتا۔ باقی رہا ان کا عقیدہ، سو ممکن ہے کہ وہ غلط ہو لیکن ایک غلط عقیدہ کے لئے بھی جو قربانی کی جائے، وہ قربانی ہی ہوتی ہے۔ جنہوں نے بُتوں کی خاطر جان دی، ہم اُن کی قربانی کو غلط قربانی کہیں گے لیکن ہم اِس سے انکار نہیں کرسکتے کہ وہ دیانت دار لوگ تھے۔ اور اپنے غلط عقیدہ کےلئے جسے وہ سچا سمجھتے تھے،انہوں نے اپنی جان تک قربان کر کے ثابت کر دیا کہ ان کی روح بلندی کے حصول کے لئے بے تاب تھی گو بعض گناہوں کی شامت کی وجہ سے وہ ہدایت نہ پاسکے۔ اسی طرح سابق بادشاہ کا معاملہ ہے۔ یعنی بوجہ علم نہ ہونے کے ہم ان کے عقائد کی نسبت گو کوئی رائے نہیں ظاہر کر سکتے لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف بادشاہت تھی اور ایک طرف ان کے ذاتی عقائد، انہوں نے سب سے پہلا موقع جو ان کو ملا جس میں وہ بادشاہت کو ترک کر سکتے تھے، اسے ضائع نہ کرتے ہوئے تخت سے دست برداری دے دی۔

معاملہ کی اس منزل تک ہم پادریوں پر بھی الزام نہیں لگا سکتے، ان کی ایک حکومت تھی اور اس کی مذہبی شکل کو قائم رکھنا ان کا فرض تھا، انہوں نے اس حد تک جو کچھ کیا وہ درست تھا۔

اب مَیں اس معاملہ کو لیتا ہوں جو ذریعہ بن گیا اس جھگڑے کے فیصلہ کا، جو اندر ہی اندر چل رہا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ گو مذہب کا جھگڑا بھی جاری تھا لیکن بادشاہ نے تخت چھوڑا تو مسز سمپسن کی شادی کے سوال پر ہے، پھر اسے قربانی کیونکر کہا جا سکتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں، درحقیقت شادی کے سوال کو اہم، مذہبی سوال نے بنا دیا تھا اور اسے بادشاہ بھی خوب سمجھتے تھے۔ پس درحقیقت فیصلہ کی بناء ان اثرات پر تھی جو وہ خیالات پیدا کر رہے تھے جو مذہبی جھگڑے کے نتیجہ میں بادشاہ کے دل میں پیدا ہو رہے تھے۔ دوم یہ کہ اس شادی کا سوال بھی ایک اصولی سوال تھا۔ پادریوں کو اس شادی پر یہ اعتراض نہ تھا کہ مسز سمپسن کے اخلاق اچھے نہیں۔ اس بارہ میں سب لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ اعتراض کی وجہ یہ تھی کہ یہ عورت طلاق یافتہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسے طلاق کس نے دی تھی؟ کیا انگلستان کے اس قانون نے نہیں جسے پارلیمنٹ پاس کر چکی ہے۔ اگر طلاق بُری شَے ہے تو پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کیوں کیا تھا؟ اور اگر بُری نہیں تو بادشاہ کی شادی پر اعتراض کیوں تھا اور کس قانون کے ماتحت تھا؟ یہ امر بارہا واضح ہو چکا ہے کہ سابق بادشاہ قانون کے مطابق شادی کرنے کا پورا اختیار رکھتے تھے۔ اگر یہ بات ہے تو پھر یہ کہنا کہ بادشاہ نے بادشاہت کو ایک عورت کی خاطر چھوڑ دیا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ مقابلہ تو اُن دو چیزوں کا ہوتا ہے جو ایک وقت میں جمع نہ ہو سکیں۔ جب قانون بادشاہ کو شادی کا پورا اختیار دیتا تھا تو پھر شادی کی خاطر انہوں نے تخت کو کس طرح چھوڑا؟ غرض سوال یہ نہ تھا کہ بادشاہ شادی کریں یا تخت پر رہیں بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور سوال تھا جس کی وجہ سے بادشاہ کو یہ طریق اختیار کرنا پڑا اور وہ سوال یہ تھا کہ ان پر یہ زور ڈالا جاتا تھا کہ اگر ایک مطلقہ عورت سے آپ نے شادی کی تو ملک کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے۔ جو لوگ طلاق کے قائل نہیں، وہ اس کی برداشت نہ کر کے حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ اور خصوصاً آئر لینڈ اور کینیڈا کا نام لیا جاتا تھا کہ ان میں کثرت رومن کیتھلکوں کی ہے جو طلاق کو نہیں مانتے اگر ایسی شادی ہوئی تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ بادشاہ کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ جب ملک نے طلاق کو جائز قرار دے دیا ہے تو بادشاہ اور غیر بادشاہ میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔ میں اگر اپنا جائز حق استعمال کرتا ہوں تو کسی کو اس پر ناراضگی کیوں ہو۔ آخر مَیں اپنے اس فعل سے ملک کو کیا نقصان پہنچاتا ہوں۔ وزراء کا جواب یہ تھا کہ شادی کے متعلق آپ کا اختیار ہے مگر ہم آپ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے یہ شادی کی تو ملک کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے۔ خود ہمارے ملک میں بھی گو قانونِ طلاق پاس ہو چکا ہے مگر پادری اسے صحیح تسلیم نہیں کرتے۔ پس ملک میں بھی اور ملک کے باہر بھی فساد ہوجائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر سابق بادشاہ ایامِ بادشاہت میں یہ شادی کرتے تو ضرور فساد ہو جاتا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بادشاہ کے خلاف شور کرنے والے لوگ تھوڑے ہوتے اور بادشاہ کی تائید کرنے والے زیادہ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک کے مقبول اخبار جو پچاس پچاس لاکھ شائع ہوتے ہیں، سب بادشاہ کے حق میں تھے اور بعض ممبرانِ پارلیمنٹ نے تو پارلیمنٹ میں صاف کہہ دیا تھا کہ اگر بادشاہ نے شادی کی اور ملک سے رائے لی گئی تو ملک بادشاہ کے حق میں رائے دے گا۔ اور اِس وقت بھی جو ملک میں سابق بادشاہ کے خلاف عام ناراضگی ہے وہ اِس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے عورت کی خاطر بادشاہت چھوڑی، بلکہ اکثریت کو یہ ناراضگی ہے کہ کیوں انہوں نے شادی نہ کر لی اور ہم پر اعتبار نہ کیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابق بادشاہ نے پھر کیوں شادی نہ کی اور بادشاہت سے دست بردار ہوگئے۔ یا پھر کیوں تخت چھوڑا اور شادی کا خیال نہ چھوڑا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بادشاہ کو یہ یقین ہو چکا تھا کہ اگر تخت پر رہتے ہوئے مَیں نے شادی کی تو ملک میں فساد ضرور ہو گا گو اکثریت میرے ساتھ ہو گی لیکن پھر بھی ایک زبردست اقلیت مقابلہ پر کھڑی ہو جائے گی اور اسی طرح بعض نو آبادیاں بھی شورش پر آمادہ ہو جائیں گی۔ بادشاہ نے آخری جِدّوجُہد یہ کی کہ وزراء سے کہہ دیا کہ آپ لوگوں کو ایک مطلقہ عورت کے ملکہ ہونے پر ہی اعتراض ہو سکتا ہے۔ سو میں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ ایک خاص قانون بنا دیا جائے کہ میری بیوی ملکہ نہ ہو گی لیکن وزارت نے اس سے بھی انکار کیا۔ پس صورتِ حالات یہ پیدا ہو گئی کہ ایک طرف تو اس مشکل کا واحد حل کہ بادشاہ کی بیوی ملکہ نہ ہو، وزارت نے مہیا کرنے سے انکار کر دیا، دوسری طرف بادشاہ دیکھ رہے تھے کہ میرے سامنے دو چیزیں ہیں، ایک طرف ملک نہیں بلکہ ملک کی ایک اقلیت کی خواہش کہ ایک مطلقہ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہئے اور دوسری طرف یہ سوال کہ ایک عورت جو مجھ سے شادی کے لئے تیار ہے اور جس سے شادی کا مَیں وعدہ بھی کر چکا ہوں، اُس کو اس وجہ سے چھوڑ دوں کہ چونکہ تُو مطلقہ ہے اس لئے میرے ساتھ شادی کے قابل نہیں۔ ایک طرف ایک اقلیت ہے جسے قانون کوئی حق نہیں دیتا اور دوسری طرف ایک ایسے وجود کو زیرِالزام لا کر چھوڑنا ہے جسے قانون شادی کا حق بخشتا ہے۔ یقیناً ایسی صورت میں بادشاہ کے لئے ایک ہی راستہ کُھلا تھا کہ وہ اُس کا ساتھ دیتے جس کے ساتھ قانون تھا لیکن چونکہ ایسا کرنے میں ملک میں فساد کا اندیشہ تھا، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس عورت کی بے عزتی نہیں ہونے دوں گا جس سے میں نے وعدہ کیا ہے اور میں ملک میں فساد بھی نہیں ہونے دوں گا۔ پس ان دونوں صورتوں کے پیدا کرنے کے لئے میں وہ قدم اُٹھاؤں گا جس کے اُٹھانے کے لئے غالباً بہت سے لوگ تیار نہ ہوں گے۔ یعنی میں بادشاہت سے الگ ہو کر ملک کو فساد سے اور اپنی موعودہ بیوی کو ذلّت سے بچا لوں گا،اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ان حالات میں یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ملک کو ایک عورت کی خاطر چھوڑ دیا اگر ملک کی اکثریت کا مطالبہ یہ ہوتا کہ وہ اُس عورت کو چھوڑ دیں یا قانون کا مطالبہ یہ ہوتا کہ وہ اُس عورت کو چھوڑ دیں تو بیشک ہم کہہ سکتے تھے کہ بادشاہ نے ایک عورت کی خاطر ملک کو چھوڑ دیا مگر ملک کی اکثریت بادشاہ کی تائید میں تھی جس کا ثبوت مقبول پریس کی تائید سے اور ان مظاہرات سے ملتا ہے جو اُن دنوں کئے گئے اور قانون بھی ان کی تائید میں تھاکیونکہ قانون نے طلاق کو جائز قرار دے کر مطلقہ عورت کی حیثیت کو سوسائٹی میں قائم کر دیا ہے۔ پس جب ملک اور قانون بادشاہ کی تائید میں تھے تو ثابت ہؤا کہ بادشاہ نے ملک کو عورت کی خاطر نہیں چھوڑا بلکہ ملک کو فساد سے بچانے کے لئے اور قانون کی عزت کے قیام کے لئے اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے بادشاہت کو چھوڑا، اور یہ یقیناً ایک قربانی ہے اور اس معاملہ میں ان پر اعتراض کرنے والے پادری یقیناً غلطی پر تھے اور ہیں۔

کیا یہ بات سمجھنی ہمارے لئے مشکل ہے کہ ان پادریوں کی نیت ہرگز درست نہیں ہو سکتی جو اُس وقت تک خاموش رہے جب تک کہ بادشاہ کے تعلقات خواہ محدود طور پر لیکن آزادانہ طور پر مسز سمپسن سے قائم تھے لیکن جب وہ اُس سے شادی کرنے لگے اور اپنے تعلق کو قانون اور اخلاق کی حدود میں لانے لگے تو ان پادریوں نے شور مچا دیا کہ بادشاہ کا یہ فعل ہم برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ جس عورت کا پہلا خاوند زندہ ہو، وہ ہماری ملکہ کیونکر ہو سکتی ہے۔ بعض نادانوں نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا کہ بادشاہ چاہیں تو پرائیویٹ تعلقات اس عورت سے رکھ سکتے ہیں لیکن شادی کر کے مطلقہ عورت کو عزت بخشنا ان کے لئے جائز نہیں۔ کیا ایسے لوگوں کی باتوں کو ہم معقول کہہ سکتے ہیں۔

غرض گو پہلے اور اصل جھگڑے میں جو مذہب کے متعلق تھا بادشاہ اور پادری دونوں ہی قانون اور فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے حق پر تھے لیکن مسز سمپسن کی شادی کے سوال میں صرف بادشاہ حق پر تھے اور ان پر اعتراض کرنے والے ملک کی اکثریت اور ملک کے قانون کے خلاف چل رہے تھے۔ اگر سابق بادشاہ، بادشاہ رہتے ہوئے یہ شادی کر لیتے تو قانون یقیناً ان کی طرف ہوتا، ملک کی اکثریت یقیناً ان کی طرف ہوتی لیکن فساد ضرور ہوتا اور اسی سے بچنے کے لئے انہوں نے تخت کو چھوڑ دیا۔

ہمارے لئے تو یہ سوال ایک اور طرح بھی اہم ہے اور وہی اِس وقت میرے مضمون لکھنے کا موجب ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس واقعہ سے ہمارے آنحضرت ﷺ کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور آپ پر لگائے جانے والے اعتراضوں میں سے ایک اعتراض دُور ہوا ہے۔ پیشگوئی تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں عیسائیت آپ ہی آپ پِگھلنی شروع ہو جائے گی۔ (مسلم کتاب الفتن باب فی فتح قسطنطنیۃ وخروج الدجال ونزول عیسی ابن مریم) اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ مسیحیت کی نمائندہ حکومت میں یعنی دنیا کی اس واحد حکومت میں جس کے بادشاہ کو محافظِ عیسائیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایسے تغیرات پیدا ہو رہے ہیں کہ اس کے ایک نہایت مقبول بادشاہ نے مسیحیت کی بعض رسوم ادا کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ ان میں یقین نہیں رکھتا۔ اور اعتراض جس کا ازالہ ہوا ہے یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے طلاق کو جائز قرار دیا اور مطلقہ عورتوں سے شادی کی کیونکہ دنیا نے دیکھ لیا کہ طلاق کی ضرورت اب اس شدت سے تسلیم کی جاتی ہے اور مطلقہ عورت کی عزت کو جبکہ وہ اخلاقی الزام سے متہم نہ ہو اس صفائی سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ بادشاہ اِس سوال کو حل کرنے کے لئے اپنی بادشاہت تک کو ترک کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں۔

ایک برطانوی مسلمان کا دل اُس وقت کس طرح خوشی سے اُچھل رہا تھا جبکہ وہ گزشتہ واقعات کوپڑھتے ہوئے یہ دیکھتا تھا کہ عیسائیت کے خلاف وہی نہیں بلکہ اُس کا بادشاہ بھی لڑ رہا ہے اور اسلام کے کمینہ دشمن کے اعتراض کو وہی دور نہیں کر رہا بلکہ اس کا مسیحی کہلانے والا بادشاہ بھی اس اعتراض کی لغویت ثابت کرنے کے لئے اپنے تخت کو چھوڑنے کو تیار ہے۔

پادری سمجھتے ہیں کہ وہ اِس جنگ میں کامیاب رہے ہیں لیکن ایڈورڈ کی قربانی ضائع نہیں جائے گی کیونکہ وہ پیشگوئیوں کے ماتحت ہوئی۔ یہ بیج بڑھے گا اورایک دن آئے گا کہ انگلستان نہ صرف اسلامی تعلیم کے مطابق طلاق کو جائز قرار دے گا بلکہ دوسرے مسائل کے متعلق بھی وہ اسلامی تعلیم کے مطابق قانون جاری کرنے پر مجبور ہو گا۔ بادشاہ آخر کیا ہوتا ہے؟ ملک اور قوم کا خادم اور خادم اپنے آقا کے لئے جان دیا ہی کرتے ہیں۔ ایڈورڈ نے اپنی قربانی دے کر آئندہ عمارت کی پہلی اینٹ مہیا کی ہے۔ اس کے بعد دوسری اینٹیں آئیں گی اور ایک نئی عمارت تیار ہو گی جس پر انگلستان بجا طور پر فخر کر سکے گا۔

خداتعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ شاہ ایڈورڈ کے آخری ایّامِ حکومت میں ان کے خیالات کی رَوکس طرف کو جارہی تھی لیکن جو کچھ واقعات سے سمجھا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ خیال کرتے تھے کہ مجھے اپنے ملک کے مذہب سے پوری طرح یا جُزوی طور پر اختلاف ہے۔ بعض بڑے پادریوں کو مجھ سے شدید اختلاف پیدا ہو چکا ہے۔ جب وہ ایک ایسے امر سے مجھے روک رہے ہیں جس کی قانون اجازت دیتا ہے تو کَل وہ مجھ سے اور کیا کچھ مطالبہ نہ کریں گے۔ اس وقت ملک میرے ساتھ ہے ممکن ہے کَل کوئی ایسا سوال پیدا ہو کہ ملک بھی میرے خلاف ہو پھر ان حالات میں کیوں ملک کی اقلیت کی خاطر میں اپنے وعدہ کو ترک کروں اور ایک عورت کو دنیا بھر میں اس الزام سے مطعون کروں کہ دیکھو! یہ وہ عورت ہے جس سے ایڈورڈ نے اس وجہ سے شادی نہ کی کہ وہ مطلقہ تھی۔ پس کیوں نہ میں اِس جھگڑے کا آج ہی خاتمہ کر دوں اور ملک کو آئندہ فسادات سے بچا لوں اِس کے برخلاف وہ پادری جو سابق بادشاہ کی مخالفت کر رہے تھے، ان کے خیالات کی رَو یہ معلوم ہوتی ہے کہ بادشاہ مذہبِ عیسویت سے متنفّر معلوم ہوتا ہے۔ آج موقع ہے آئر لینڈ اور کینیڈا کیتھولک مذہب کے زور کی وجہ سے مسئلہ طلاق میں تعصّب رکھتے ہیں۔ اگر اس وجہ سے ہم بادشاہ کا مقابلہ کریں تو جن دو نتائج کے نکلنے کا امکان ہے، دونوں ہمارے حق میں مفید ہوں گے۔ اگر بادشاہ دب گئے تو آئندہ کو ہمارا رُعب قائم ہو جائے گا اور اگر بادشاہ تخت سے الگ ہو گئے تو ہمارے راستہ سے ایک روک دور ہو جائے گی۔

خیالات کی ان دونوں رَوؤں کا مقابلہ کر لو اور پھر سوچ لو کہ کیا یہ کہنا درست ہے کہ ’’آہ! (ایڈورڈ ہشتم پر) کس قدر افسوس ہے۔ آہ! کِس قدر افسوس ہے۔ ‘‘ یا یہ کہنا درست ہے کہ ان پادریوں پر جنہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ایک خادمِ قوم اور مخلص بادشاہ کو باوجود اِس کے کہ قانون اُس کے حق میں تھا تخت سے علیحدہ ہونا پڑا، افسوس ہے ،آہ! کس قدر افسوس ہے۔

خلاصہ یہ کہ بادشاہ کے ساتھ بعض لوگوں کا (انگلستان کا نہیں) جھگڑا وہ نہیں تھا جو بعض ناواقف لوگ سمجھتے ہیں بلکہ مذہب اور قانون کے احترام کا جھگڑا تھا۔ بادشاہ اپنے منفرد مذہب پر اصرار کرتے تھے اور پادری قومی مذہب پر۔ (حالانکہ قومی مذہب مذہب نہیں سیاست ہے جبکہ اس کا اثر اصولی مسائل پر بھی پڑتا ہو) اور بادشاہ قانون کا احترام کرتے ہوئے قانون پر عمل کرنے کو تیار تھے لیکن ان کے مخالفوں کا یہ اصرار تھا کہ یہ قانون دکھاوے کے لئے ہے، عمل کرنے کے لئے نہیں۔ قانون طلاق کی اجازت دیتا ہے مگر مذہب نہیں۔ بادشاہ چونکہ مسیحیت کے کُلّی طور پر یا جُزوی طور پر قائل نہ رہے تھے انہوں نے قانون پر زور دیا جو اُن کی ضمیر کی آواز کی تصدیق کرتا تھا اور آخر ملک کو فساد سے بچانے کے لئے تخت سے دست برداری دے دی۔

بعض احباب جو ایک حد تک واقعات کی تہہ کو پہنچے ہیں، اِن حالات کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ زندہ باد ایڈورڈ۔ یہ بھی درست ہو گا۔ مگر میں تو اِن حالات کے محرکات کو دیکھتے ہوئے یہی کہتا ہوں۔

محمدؐ زندہ باد! زندہ باد محمدؐ (صلی اللہ علیہ وسلم)

خاکسار

میرزا محمود احمد
20دسمبر 1936ء
(الفضل22دسمبر 1936ء)

پچھلا پڑھیں

استغفار اور گناہوں سے راہِ فرار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اکتوبر 2022