• 28 اپریل, 2024

قرآن تعلیم کا حسن

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”انجیلوں میں حلیموں، غریبوں، مسکینوں کی تعریف کی گئی ہے اور نیز اُن کی تعریف جوستائے جاتے ہیں اور مقابلہ نہیں کرتے مگر قرآن صرف یہی نہیں کہتا کہ تم ہر وقت مسکین بنے رہو اور شر کا مقابلہ نہ کرو۔ بلکہ کہتا ہے کہ حلم اور مسکینی اور غربت اور ترک مقابلہ اچھا ہے مگر اگر بے محل استعمال کیا جائے تو بُرا ہے۔ پس تم محل اور موقع کو دیکھ کر ہر ایک نیکی کرو کیونکہ وہ نیکی بدی ہے جو محل اور موقع کے برخلاف ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ مینہ کس قدر عمدہ اور ضروری چیز ہے لیکن اگر وہ بے موقع ہو تو وہی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے تم دیکھتے ہو کہ ایک ہی سرد غذا یا گرم غذا کی مداومت سے تمہاری صحت قائم نہیں رہ سکتی بلکہ صحت تبھی قائم رہے گی کہ جب موقع اور محل کے موافق تمہارے کھانے اور پینے کی چیزوں میں تبدیلی ہوتی رہے پس درشتی اور نرمی اور عفو اور انتقام اور دعا اوربددعا اور دوسرے اخلاق میں جو تمہارے لئے مصلحت وقت ہے وہ بھی اسی تبدیلی کو چاہتی ہے اعلیٰ درجہ کے حلیم اور خلیق بنو لیکن نہ بے محل اور بے موقع اور ساتھ اس کے یہ بھی یادرکھو کہ حقیقی اخلاق فاضلہ جن کے ساتھ نفسانی اغراض کی کوئی زہریلی آمیزش نہیں وہ اوپر سے بذریعہ روح القدس آتے ہیں۔ سو تم ان اخلاق فاضلہ کو محض اپنی کوششوں سے حاصل نہیں کر سکتے جب تک تم کو اوپر سے وہ اخلاق عنایت نہ کئے جائیں ۔اور ہر ایک جو آسمانی فیض سے بذریعہ روح القدس اخلاق کا حصہ نہیں پاتا وہ اخلاق کے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور اس کے پانی کے نیچے بہت سا کیچڑ ہے اور بہت سا گوبر ہے جو نفسانی جوشوں کے وقت ظاہر ہوتا ہے سو تم خدا سے ہر وقت قوت مانگو جو اُس کیچڑ اور اُس گوبر سے تم نجات پاؤ اور روح القدس تم میں سچی طہارت اور لطافت پیدا کرے۔ یاد رکھو کہ سچے اور پاک اخلاق را  ست بازوں کا معجزہ ہے جن میں کوئی غیر شریک نہیں کیونکہ وہ جو خدا میں محو نہیں ہوتے وہ اوپر سے قوت نہیں پاتے اس لئے اُن کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پاک اخلاق حاصل کر سکیں سو تم اپنے خدا سے صاف ربط پیدا کرو ۔ٹھٹھا،ہنسی، کینہ وری، گندہ زبانی، لالچ، جھوٹ، بد کاری، بد نظری، بد خیالی، دنیا پرستی، تکبر، غرور، خود پسندی، شرارت، کج بحثی، سب چھوڑ دو۔ پھر یہ سب کچھ تمہیں آسمان سے ملے گا۔ جب تک وہ طاقت بالا جو تمہیں اوپر کی طرف کھینچ کر لے جائے تمہارے شامل حال نہ ہو اور روح القدس جو زندگی بخشتا ہے تم میں داخل نہ ہو تب تک تم بہت ہی کمزور اور تاریکی میں پڑے ہوئے ہو بلکہ ایک مُردہ ہو جس میں جان نہیں اس حالت میں نہ تو تم کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہو۔ نہ اقبال اور دولت مندی کی حالت میں کبر اور غرور سے بچ سکتے ہو۔ اور ہر ایک پہلو سے تم شیطان اور نفس کے مغلوب ہو سو تمہارا علاج تو درحقیقت ایک ہی ہے کہ روح القدس جو خاص خدا کے ہاتھ سے اُترتی ہے تمہارا منہ نیکی اور را  ست بازی کی طرف پھیر دے تم  ابناء السّماء بنو نہ ابناء الارض اور روشنی کے وارث بنو نہ تاریکی کے عاشق تا تم شیطان کی گزرگاہوں سے امن میں آجاؤ کیونکہ شیطان کوہمیشہ رات سے غرض ہے دن سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ پُرا نا چور ہے جو تاریکی میں قدم رکھتا ہے۔“

(کشتی نوحؑ، روحانی خزائن جلد19 صفحہ44-45)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

مالک یوم الدین کی حقیقت