• 29 اپریل, 2024

رحیمیت اور رحمانیت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
”سنو اور سمجھو کہ بڑی معرفت یہی ہے کہ زمین کا ذرہ ذرہ بھی ایسا ہی خدا کے قبضہ اقتدار میں ہے جیسا کہ آسمان کا ذرہ ذرہ خدا کی بادشاہت میں ہے اور جیسا کہ آسمان پر ایک عظیم الشان تجلّی ہے زمین پر بھی ایک عظیم الشان تجلّی ہے بلکہ آسمان کی تجلّی تو ایک ایمانی امر ہے عام انسان نہ آسمان پر گئے نہ اُس کا مشاہدہ کیا مگر زمین پر جو خدا کی بادشاہت کی تجلّی ہے وہ تو صریح ہر ایک شخص کو آنکھوں سے نظر آرہی ہے۔ ہر ایک انسان خواہ کیسا ہی دولتمند ہو اپنی خواہش کے مخالف موت کا پیالہ پیتا ہے پس دیکھو اس شاہ حقیقی کے حکم کی کیسی زمین پر تجلّی ہے کہ جب حکم آجاتا ہے تو کوئی اپنی موت کو ایک سیکنڈ بھی روک نہیں سکتا۔ ہر ایک خبیث اور ناقابل علاج مرض جب دامن گیر ہوتی ہے تو کوئی طبیب ڈاکٹر اس کو دور نہیں کر سکتا۔ پس غور کرو یہ کیسی خدا کی بادشاہت کی زمین پر تجلی ہے جو اُس کے حکم ردّ نہیں ہو سکتے۔ پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ آئندہ کسی زمانہ میں آئے گی دیکھو اسی زمانہ میں خدا کے آسمانی حکم نے طاعون کے ساتھ زمین کو ہلادیا تا اس کے مسیح موعود کے لئے ایک نشان ہو پس کون ہے جو اس کی مرضی کے سوا اس کو دور کر سکے پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں۔ ہاں ایک بدکار قیدیوں کی طرح اس کی زمین میں زندگی بسر کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کبھی نہ مرے لیکن خدا کی سچی بادشاہت اس کو ہلاک کر دیتی ہے اور وہ آخر پنجہ ملک الموت میں گرفتار ہو جاتا ہے پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں۔ دیکھو زمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑہا انسان مر جاتے ہیں اور کروڑہا اُس کے ارادہ سے پیدا ہوجاتے ہیں اور کروڑہا اُس کی مرضی سے فقیر سے امیر اور امیر سے فقیر ہو جاتے ہیں پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں آسمانوں پر تو صرف فرشتے رہتے ہیں مگر زمین پر آدمی بھی ہیں اور فرشتے بھی جو خدا کے کارکن اور اس کی سلطنت کے خادم ہیں جو انسانوں کے مختلف کاموں کے محافظ چھوڑے گئے ہیں اور وہ ہر وقت خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنی رپورٹیں بھیجتے رہتے ہیں پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ خدا سب سے زیادہ اپنی زمینی بادشاہت سے ہی پہچانا گیا ہے کیونکہ ہر ایک شخص خیال کرتا ہے کہ آسمان کا راز مخفی اور غیر مشہود ہے بلکہ حال کے زمانہ میں قریباً تمام عیسائی اور اُن کے فلاسفر آسمانوں کے وجود کے ہی قائل نہیں جن پر خدا کی بادشاہت کا انجیلوں میں سارا مدار رکھا گیا ہے مگر زمین تو فی الواقع ایک کُرّہ ہمارے پاؤں کے نیچے ہے اور ہزارہا قضاوقدر کے امور اس پر ایسے ظاہر ہورہے ہیں جو خودسمجھ آتا ہے کہ یہ سب کچھ تغیروتبدل اور حدوث اور فنا کسی خاص مالک کے حکم سے ہو رہا ہے پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر ابھی خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ ایسی تعلیم ایسے زمانہ میں جب کہ عیسائیوں میں آسمانوں کا بڑے زور سے انکار کیا گیا ہے نہایت نامناسب ہے کیونکہ انجیل کی اس دعا میں تو قبول کرلیا گیا ہے کہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں اور دوسری طرف تمام محققین عیسائیوں نے سچے دل سے یہ بات مان لی ہے یعنی اپنی تحقیقات جدیدہ سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آسمان کچھ چیز ہی نہیں اُن کا کچھ وجود ہی نہیں پس ماحصل یہ ہوا کہ خدا کی بادشاہت نہ زمین میں ہے نہ آسمان میں۔ آسمانوں سے تو عیسائیوں نے انکار کیا اور زمین کی بادشاہت سے ان کی انجیل نے خدا کو جواب دیا تو اب بقول ان کے خدا کے پاس نہ زمین کی بادشاہت رہی نہ آسمان کی مگر ہمارے خدائے عزّوجلّ نے سورۃ فاتحہ میں نہ آسمان کا نام لیا نہ زمین کا نام اور یہ کہہ کر حقیقت سے ہمیں خبر دے دی کہ وہ  ربّ العالمین ہے یعنی جہاں تک آبادیاں ہیں اور جہاں تک کسی قسم کی مخلوق کا وجود موجود ہے خواہ اجسام خواہ ارواح اُن سب کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا خدا ہے جو ہر وقت ان کی پرورش کرتا ہے اور ان کے مناسب حال ان کا انتظام کر رہا ہے۔اور تمام عالموں پر ہر وقت ہر دم اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیّت اور جزاسزا کا جاری ہے۔“

                                                                              (کشتی نوحؑ، روحانی خزائن جلد19 صفحہ4042)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

مالک یوم الدین کی حقیقت