خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍نومبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
آنحضرت ؐکے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
عبداللہ بن شدّاد کہتے تھے کہ میں نے حضرت عمرؓ کی ہچکیاں سنیں اور میں آخری صف میں تھا۔ آپ یہ تلاوت کر رہے تھے۔ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَ حُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ یعنی میں تو اپنے رنج و اَلم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتا ہوں
أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
صحابہؓ کی پہلی حالت اور اسلام قبول کرنے کے بعد جو انقلاب
ان کی حالتوں میں آیا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےایک مثال حضرت عمرؓ کی بھی دی ہے۔ یہ مثال گو میں پہلے ذکر کر چکا ہوں لیکن یہاں اس حوالے سے بیان کر دیتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا۔ ’’دیکھو صحابی کس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بنے اور کس طرح انہوں نے بڑے بڑے درجے حاصل کیے۔ اسی طرح کہ کوشش کی ورنہ یہ وہی لوگ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن تھے اور آپؐ کو گالیاں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے خلیفہ ہوئے ہیں ابتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے سخت دشمن تھے کہ آپؐ کو قتل کرنے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ راستہ میں ایک شخص ملا جس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے جاتا ہوں۔ اس نے کہا پہلے اپنی بہن اور بہنوئی کو تو قتل کر لو جو مسلمان ہو گئے ہیں پھر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مارنا۔ یہ سن کر وہ غصہ سے بھر گئے اور اپنی بہن کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ آگے جا کر دیکھا تو دروازہ بند تھا اور ایک شخص قرآن کریم سنا رہا تھا اور ان کی بہن اور بہنوئی سن رہے تھے۔ اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہ ہوا تھا۔‘‘ اس لیے وہ صحابی اندر گھر میں بیٹھے تھے۔ ’’حضرت عمرؓ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو۔ ان کی آواز سن کر اندر والوں کوڈر پیدا ہوا کہ مار دیں گے اس لئے انہوں نے دروازہ نہ کھولا۔ حضرت عمرؓ نے کہا اگر دروازہ نہ کھولو گے تو میں توڑ دوں گا۔ اس پر انہوں نے قرآن کریم سنانے والے مسلمان کو چھپا دیا اور بہنوئی بھی چھپ گیا۔ صر ف بہن نے سامنے آ کر دروازہ کھولا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: بتاؤ کیا کر رہے تھے اور کون شخص تھا جو کچھ پڑھ رہا تھا؟ انہوں نے ڈر کے مارے ٹالنا چاہا۔ حضرت عمرؓ نے کہا جو پڑھ رہے تھے مجھے سناؤ۔ ان کی بہن نے کہا: آپ اس کی بے ادبی کریں گے اس لیے خواہ ہمیں جان سے مار دیں ہم نہیں سنائیں گے۔ انہوں نے کہا: نہیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ بے ادبی نہیں کروں گا۔‘‘ یعنی قرآن کریم کی بے ادبی نہیں کروں گا۔ ’’اس پر انہوں نے قرآن کریم سنایاجسے سن کر حضرت عمرؓ رو پڑے اور دوڑے دوڑے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے۔ تلوار ہاتھ میں ہی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر کہا۔ عمر یہ بات کب تک رہے گی؟ یہ سن کر وہ رو پڑے اور کہا میں نکلا تو آپؐ کے مارنے کے لیے تھا لیکن خود شکار ہو گیا ہوں۔‘‘
تو یہ خلاصہ ہے اس سارے لمبے واقعہ کا جو پہلے بیان ہو چکا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’تو پہلے یہ حالت تھی جس سے انہوں نے ترقی کی۔ پھر یہی صحابہ تھے جو پہلے شراب پیا کرتے تھے۔ آپس میں لڑا کرتے تھے‘‘ اَور صحابہ کا بھی ذکر ہے۔ ’’اَور کئی قسم کی کمزوریاں ان میں پائی جاتی تھیں لیکن جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا اور دین کے لئے ہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صرف خود ہی اعلیٰ درجے پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھی اعلیٰ مقام پر پہنچانے کا باعث ہو گئے۔ وہ پیدا ہی صحابی نہیں ہوئے تھے بلکہ اسی طرح کے تھے جس طرح کے اَور تھے مگر انہوں نے عمل کیا اور ہمت دکھائی تو صحابی ہو گئے۔ آج بھی اگر ہم ایسا ہی کریں تو صحابی بن سکتے ہیں۔‘‘
(عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے۔ انوار العلوم جلد4 صفحہ38-39)
حضرت عمرؓ کی خشیت الٰہی
کی کیا حالت تھی؟ اس بارے میں روایت ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی بکری بھی ضائع ہو کر مر گئی تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قیامت کے دن اس کے بارے میں سوال کرے گا۔
(سیرت عمر بن خطاب از ابن الجوزی صفحہ 140 المطبعة المصریة الازہر)
ایک روایت میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ حضرت عمرؓنے فرمایا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی اونٹ بھی ضائع ہو کر مر گیا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے اس کے بارے میں سوال کرے گا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ232 دارالکتب العلمیۃ 1990)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک دن میں عمر بن خطابؓ کے ساتھ باہر گیا یہاں تک کہ آپؓ ایک باغ میں داخل ہوئے۔ میرے اور آپؓ کے درمیان ایک دیوار حائل تھی۔ آپؓ باغ کے اندر تھے۔ میں نے اس وقت آپؓ کو یہ کہتے سنا۔ واہ واہ اے خطاب کے بیٹے عمر! تُو امیر المومنین ہے۔ اللہ کی قسم تو ضرور اللہ سے ڈر ورنہ وہ ضرور تجھے عذاب دے گا۔
(مؤطا امام مالک کتاب الکلام و العینۃ والتقی باب ما جاء فی التقیٰ۔ صفحہ601 روایت نمبر 1867مکتبہ دار الفکر بیروت)
حضرت عمرؓکی انگوٹھی پر یہ جملہ کندہ تھا کہ کَفٰی بِالْمَوْتِ وَاعِظاً یَا عُمَرُ۔کہ اے عمر! واعظ ہونے کے لحاظ سے موت کافی ہے۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد3 صفحہ 236 باب حرف العین ’’عمر بن الخطاب‘‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
یعنی اگر انسان موت کو یاد رکھے تو وہی نصیحت کرنے والی ایک چیز ہے اور اپنی حالت کو ٹھیک رکھنے کے لیے یہی چیز کافی ہے۔
عبداللہ بن شدّاد کہتے تھے کہ میں نے حضرت عمرؓکی ہچکیاں سنیں اور میں آخری صف میں تھا۔ آپ یہ تلاوت کر رہے تھے۔ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَ حُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ (یوسف: 87) یعنی میں تو اپنے رنج و اَلم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتا ہوں۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب اِذَا بَکَی الْاِمَامُ فِی الصَّلوٰۃِ)
اس روایت کو ایک خطبہ میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بھی بیان فرمایا تھا اور اس کی کچھ تفصیل اپنے الفاظ میں بھی اس طرح بیان کی تھی کہ حضرت عبداللہ بن شدّاد کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے اور میں آخری صف میں تھا لیکن حضرت عمرؓکی گریہ و زاری کی آواز سن رہا تھا۔ وہ یہ تلاوت کر رہے تھے۔ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَ حُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ (یوسف: 87) کہ میں تو اپنے اللہ ہی کے سامنے اپنے سارے دکھ رویا کروں گا۔کسی اَور کے سامنے مجھے ضرورت نہیں ہے۔ پس جو ذکرِ الٰہی میں گم رہتے ہیں ان کو خدا کے سوا کسی اَور کا دربار ملتا ہی نہیں جہاں وہ اپنے غم اور دکھ روئیں اور اپنے سینوں کے بوجھ ہلکے کریں۔ یہ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ پچھلی صف میں تھا وہاں تک مجھے حضرت عمرؓکے سینے کے گڑگڑانے کی آواز آ رہی تھی۔
(ماخوذ از خطبات طاہر جلد13 صفحہ248-249)
حضرت عمرؓ پرانے خدمت کرنے والوں اور قربانی کرنے والوں کا کس طرح خیال رکھا کرتے تھے۔
اس بارے میں روایت ہے۔ ثَعْلَبہ بن ابو مالک کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اہلِ مدینہ کی عورتوں میں سے بعض کو اوڑھنیاں تقسیم کیں۔ کوئی اچھی قسم کی اوڑھنیاں آئی تھیں ان میں سے ایک اچھی اوڑھنی بچ گئی۔ جو لوگ ان کے پاس تھے ان میں سے کسی نے ان سے کہا کہ اے امیر المومنین! آپؓ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیٹی کو دیں جو آپؓ کے پاس ہے۔ اس کی مراد حضرت علی ؓکی بیٹی حضرت ام کلثومؓ تھیں۔ حضرت عمرؓنے کہا: اُمِّ سَلِیط اس کی زیادہ حق دار ہیں۔ کہا نہیں،ام سلیط اس کی زیادہ حق دار ہیں اور حضرت عمرؓنے فرمایا کہ حضرت ام سلیط ان انصاری عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ حضرت عمرؓنے کہا وہ جنگِ احد کے دن ہمارے لیے مشکیں اٹھا کر لاتی تھیں۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب ذکر ام سلیط حدیث 4071)
پھر
قربانی کرنے والوں کے قریبیوں کو بھی نوازنے کا ذکر
ایک روایت میں ملتا ہے۔ زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت کی۔ کہتے تھے کہ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بازار گیا۔ حضرت عمرؓ سے ایک جوان عورت پیچھے سے آ ملی اور کہنے لگی اے امیرالمومنین! میرا خاوند فوت ہو گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے۔ اللہ کی قسم !بکری کے پائے بھی انہیں نصیب نہیں۔ نہ ان کی کوئی کھیتی ہے اور نہ دودھیل جانور یعنی دودھ دینے والے جانور اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کو قحط سالی نہ کھا جائے اور میں خُفَافْ بن اِیْمَاء غِفَاری کی بیٹی ہوں اور میرے والد حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر ٹھہر گئے اور آگے نہیں چلے۔ حضرت عمرؓنے کہا واہ واہ! بہت نزدیک کا تعلق ہے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓنے واپس جا کر ایک مضبوط اونٹ لیا جو گھر میں بندھا تھا اور دو بوریاں اناج سے بھریں اور ان پر لادیں اور ان کے درمیان سال بھر کے خرچ کے لیے مال اور کپڑے بھی رکھے۔ پھر اس اونٹ کی نکیل اس عورت کے ہاتھ میں دے دی اور کہا اسے لے جاؤ۔ یہ ختم نہیں ہو گا کہ اللہ تمہیں اَور دے گا۔ ایک شخص کہنے لگا کہ امیر المومنین! آپؓ نے اس کو بہت دے دیا ہے۔ حضرت عمرؓنے کہا: تیری ماں تجھے کھوئے یعنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ اللہ کی قسم! میں تو اس کے باپ اور اس کے بھائی کو اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ انہوں نے عرصے تک ایک قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا جسے انہوں نے آخر فتح کر لیا۔ پھر اس کے بعد صبح کے وقت ہم ان دونوں کے حصے اپنے درمیان تقسیم کرنے لگے یعنی وہ قلعہ ان دونوں نے فتح کیا تھا جس کی غنیمت کُل مسلمانوں کو ملی۔ گویا ہم نے ان کے حصہ میں سے بانٹا۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوة الحدیبیہ حدیث 4161،4160) پس یہ وجہ ہے کہ یہ اس کی حق دار بنتی ہے کہ اسے کچھ دیا جائے۔
بوڑھی اور معذور اور ضرورت مند عورتوں اور لوگوں کا کس طرح خیال رکھا کرتے تھے
اس بارے میں روایت ہے۔ حضرت طلحہ ؓکہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ رات کی تاریکی میں گھر سے نکلے تو حضرت طلحہؓ نے دیکھ لیا۔ حضرت عمرؓ ایک گھر میں داخل ہوئے۔ پھر دوسرے گھر میں داخل ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت طلحہؓ ان گھروں میں سے ایک گھر میں گئے، وہاں ایک نابینا بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی۔ حضرت طلحہؓ نے اس سے پوچھا جو شخص تیرے پاس رات کو آتا ہے وہ کیا کرتا ہے؟ بڑھیانے جواب دیا: وہ کافی عرصہ سے میری خدمت کر رہا ہے اور میرے کام کاج کو ٹھیک کرتا ہے اور میری گندگی دور کرتا ہے۔ یہ سن کر حضرت طلحہؓ نے ندامت سے اپنے آپ کو کہا اے طلحہ !تیری ماں تجھے کھوئے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تُو عمرؓ کی لغزشوں کی کھوج میں ہے اور یہاں تو معاملہ ہی کچھ اَور ہے۔ (سیرت عمر بن خطاب از ابن الجوزی صفحہ58 المطبعة المصریة الازہر) رعایا کی خدمت کے یہ عظیم معیار تھے جو حضرت عمرؓ نے قائم فرمائے۔
حضرت عمرؓکی لوگوں، ضرورت مندوں، عورتوں، بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی بہت سی روایات ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے آپؓ پوری کیا کرتے تھے اور کس طرح بےچین ہو جایا کرتے تھے۔ آپؓ جب دیکھتے تھے کہ کسی کی ضرورت پوری نہیں ہوئی اور وہ آپؓ کی رعایا میں ہے تو بہت بے چین ہوتے تھے۔ بعض مثالیں میں گذشتہ ہفتوں کے جمعوں میں مختلف حوالوں سے پیش کر چکا ہوں مثلاً کس طرح ایک موقع پر آپ نے جب رات کو ایک عورت سے اس کے بچے کے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ کیونکہ عمرؓنے دودھ پیتے بچوں کا راشن مقرر نہیں کیا اس لیے میں بچے کو غذا کھانے کی عادت ڈالنے کے لیے دودھ نہیں دے رہی اور یہ بھوک سے رو رہا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ بے چین ہو گئے اور فوراً کھانے پینے کے سامان کا انتظام کیا اور پھر اعلان کیا کہ آئندہ سے ہر پیدا ہونے والے بچے کو بھی راشن ملا کرے گا۔
(ماخوذ از البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر الجزء العاشر صفحہ185-186 مطبوعہ دار ہجر 1997ء)
اسی طرح ایک موقع پر ایک مسافر خاتون جس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور رات کو اسے ڈیرہ ڈالنا پڑا اور بچے بھوک سے رو رہے تھے۔ آپؓ کو جب رات کو اس کا علم ہوا تو فوراً سٹور سے کھانے پینے کا سامان اٹھا کر اس تک پہنچایا اور بے چین ہو گئے اور اس وقت تک آپ کو چین نہیں آیا جب تک کہ کھانا پکا کر ان بچوں کو کھلا کر انہیں ہنستا نہ دیکھ لیا پھر آپؓ اس جگہ سے واپس ہوئے۔
(ماخوذ ازتاریخ الطبری لا بن جریر الجزء5 صفحہ62 ثم دخلت سنۃ ثلاث عشرین /ذکر بعض سیرہ…مطبوعہ دارالفکر بیروت 1998ء)
حضرت مصلح موعوؓد نے بیان کیا کہ ’’حضرت عمرؓ کو دیکھ لو ان کے رعب اور دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کانپتے تھے۔ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تک لرزہ براندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمرؓ جیسا عظیم المرتبت انسان تلملا اٹھا اور وہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لاد کر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر ان کے پاس پہنچا اور اس وقت تک واپس نہیں لوٹا جب تک کہ اس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر ان بچوں کو نہ کھلا لیا اور وہ اطمینان سے سو نہ گئے۔‘‘
(سیر روحانی(6)، انوار العلوم جلد22 صفحہ596)
پھر ایک واقعہ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے۔ حضرت عمرؓ جب شام سے مدینہ لَوٹ کر آئے تو لوگوں سے الگ ہو گئے تا کہ ان کے احوال معلوم کریں۔ یعنی اس قافلے سے الگ ہو گئے اور ایک طرف چلے گئے تا کہ لوگوں کے احوال معلوم کریں تو آپؓ کا گزر ایک بڑھیا کے پاس سے ہوا جو اپنے خیمے میں تھی۔ آپؓ اس سے پوچھ گچھ کرنے لگے تو اس نے کہا اے شخص عمرؓ نے کیا کیا؟ آپؓ نے کہا کہ وہ ادھر ہی تو ہے اور شام سے آ گیا ہے تو اس عورت نے کہا کہ خدا اس کو میری طرف سے جزائے خیر نہ دے۔ آپؓ نے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے! کیوں؟ یعنی تم ایسا کیوں کہتی ہو؟ اس نے کہا کہ جب سے وہ خلیفہ ہوا ہے آج تک مجھے اس کا کوئی عطیہ نہیں ملا۔ نہ کوئی دینار نہ درہم۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تجھ پر افسوس اور عمر کو تیرے حال کی خبر کیسے ہو سکتی ہے؟اس بڑھیا کو نہیں پتہ تھا کہ حضرت عمرؓ ہیں، جبکہ تُو ایسی جگہ بیٹھی ہوئی ہے، دُور دراز علاقے میں جنگل کے قریب بیٹھی ہوئی ہے تو اس نے کہا سبحان اللّٰہ! عورت کہنے لگی سبحان اللّٰہ! میں گمان نہیں کرتی کہ کوئی لوگوں پر والی بن جائے اور اس کو یہ خبر نہ ہو کہ اس کے آگے مشرق و مغرب میں کیا ہے۔ تو عمرؓ روتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہائے عمر ہائے! کتنے دعویدار ہوں گے۔ ہر ایک تجھ سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والا ہے اے عمر۔ پھر حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا کہ تُو اپنی مظلومیت کے حق کو اس کے ہاتھ کتنے میں بیچتی ہے کہ میں اس کو جہنم سے بچانا چاہتا ہوں۔ یعنی یہ کہا کہ حضرت عمرؓ کو جہنم سے بچانا چاہتا ہوں۔ تُو بتا کہ اپنی مظلومیت کے حق کو کتنے میں بیچتی ہو۔ اس عورت نے کہا کہ ہم سے مذاق نہ کر۔ خدا تجھ پر رحمت کرے۔ تو حضرت عمرؓنے اس سے فرمایا یہ مذاق نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ اس سے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس کے حق مظلومیت کو پچیس دینار میں خرید لیا۔ ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود آ پہنچے اور ان دونوں نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَآ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ اس پر عورت نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا اور کہنے لگی کہ اللہ بھلا کرے۔ میں نے امیر المومنین کو ان کے سامنے برا بھلا کہہ دیا۔ تو امیر المومنین نےاس سے فرمایا: تجھ پر کوئی جرم نہیں۔ خدا تجھ پر رحم کرے۔ پھر حضرت عمرؓنے ایک چمڑے کا ٹکڑا مانگا کہ اس پر لکھیں مگر نہ ملا۔ پھر اپنی چادر میں سے جس کو اوڑھا ہوا تھا ایک ٹکڑا کاٹا اور لکھا۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ یہ اس کی دستاویز ہے جو عمر نے فلاں عورت سے آج کے دن تک اس کا حقِ مظلومیت پچیس دینار میں خریدا ہے جب سے وہ والی بنا ہے۔ اگر وہ اب اللہ کے سامنے محشر میں کھڑی ہو کر دعویٰ کرے تو عمر اس سے بری ہے۔ علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن مسعود اس پر گواہ ہیں۔ پھر وہ تحریر حضرت علیؓ کو دے دی اور فرمایا کہ اگر میں تم سے پہلے دنیا سے گزر جاؤں تو اس کو میرے کفن میں رکھ دینا۔
(ماخوذ ازازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء مترجم جلد3 صفحہ276تا278 مناقب فاروق اعظم مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
اولاد کا رشتہ دیکھنے کے لیے
لوگ کیا معیار رکھتے ہیں۔ آج کل بھی ہم دیکھتے ہیں بڑے بڑے اونچے معیار ہوتے ہیں۔
حضرت عمرؓکا کیا معیار تھا؟
اس بارے میں ایک روایت ہے، حضرت اسلمؓ سے مروی ہے جو حضرت عمرؓ کے آزاد کردہ تھے کہ بعض راتوں میں سے ایک رات میں مَیں امیر المومنین کے ساتھ مدینہ کی اطراف میں پھر رہا تھا۔ آپؓ نے ایک گھڑی کے لیے یعنی کچھ وقت کے لیے استراحت کی غرض سے ایک دیوار کی جانب سہارا لیا۔ گھر کی دیوار تھی اس کے سہارے بیٹھ گئے تو آپؓ نے سنا کہ گھر کے اندر ایک بڑھیا اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ اٹھ اور دودھ میں پانی ملا دے۔ لڑکی نے کہا آپ نہیں جانتیںکہ امیر المومنین کے منادی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے۔ ماں نے کہا: نہ اس وقت امیر المومنین موجود ہے اور نہ اس کا منادی۔ لڑکی نے کہا کہ خدا کی قسم! یہ بات تو ہمارے لیے مناسب نہیں ہے کہ سامنے تو ہم ان کی اطاعت کریں اور خلوت میں نافرمانی کرنے لگیں۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اپنے ساتھی سے فرمایا کہ اے اسلم! اس مکان پر نشان لگا دو۔ اس کے دروازے پہ ایک نشان لگا دو۔ دوسرے دن آپ نے کسی کو بھیجا اور اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم سے کر دیا۔ اس کی اسی سچائی پر، نیکی کو دیکھتے ہوئے اپنے بیٹے کا رشتہ اس لڑکی سے کر دیا۔ اس سے عاصم کی ایک لڑکی پیدا ہوئی حضرت عمر بن عبدالعزیز اسی لڑکی کی اولاد میں سے تھے۔
(ماخوذ ازازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء مترجم جلد3 صفحہ281-282 مناقب فاروق اعظم ؓمطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
ایک روایت میں ہے کہ سَلَمہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں بازار سے گزر رہا تھا کہ حضرت عمرؓ بھی اپنے کسی کام سے گزر رہے تھے۔ آپؓ کے ہاتھ میں کوڑا تھا۔ حضرت عمرؓنے کہا اےسَلَمہ! اس طرح رستہ سے ہٹ کر چلا کرو۔ پھر مجھے ہلکا سا کوڑا مارا لیکن کوڑا میرے کپڑے کے کنارے پر لگا۔ پس میں رستے سے ہٹ گیا اور آپؓ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ اس بات کو سال گزر گیا۔ پھر حضرت عمرؓ سے میری بازار میں ملاقات ہوئی۔ آپؓ نے فرمایا اے سَلَمہ! کیا اس سال حج کو جانے کا ارادہ ہے۔ میں نے کہا ہاں اے امیرالمومنین۔ پھر آپؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر لے گئے اور ایک تھیلے میں سے چھ سو درہم مجھے دیے اور فرمانے لگے اے سَلَمہ! اس کو اپنی ضروریات میں استعمال کر لو اور یہ اس کا بدلہ ہے جو ایک سال پہلے مَیں نے تمہیں کوڑا مارا تھا۔سَلَمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! امیرالمومنین! میں یہ بات بالکل بھول چکا تھا اور آج آپؓ نے یاد کروائی ہے۔
(سیرت عمر بن خطاب از ابن الجوزی صفحہ98 المطبعة المصریة الازہر)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ
بازار کی قیمتیں ایسی ہوں جن سے کسی بھی فریق کے شہری حقوق متاثر نہ ہوں۔
چنانچہ اسی بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد نے بیان کیا کہ ’’شہری حقوق میں یہ بھی داخل ہے کہ لین دین کے معاملات میں خرابی نہ ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اس حق کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ چنانچہ اسلام نے بھاؤ کو بڑھانے اور مہنگا سودا کرنے سے روکا ہے۔ اسی طرح دوسروں کو نقصان پہنچانے اور ان کو تجارت میں فیل کرنے کے لئے بھاؤ کو گرا دینے سے بھی منع فرمایا ہے۔‘‘ جس طرح آجکل کی مارکیٹ میں یہ چلتا ہے۔ ’’ایک دفعہ مدینہ میں ایک شخص ایسے ریٹ پر انگور بیچ رہا تھا جس ریٹ پر دوسرے دکاندار نہیں بیچ سکتے۔ حضرت عمرؓ پاس سے گزرے تو انہوں نے اس شخص کو ڈانٹا کیونکہ اس طرح باقی دکانداروں کو نقصان پہنچتا تھا۔ غرض اسلام نے سودا مہنگا کرنے سے بھی روک دیا اور بھاؤ کو گرا دینے سے بھی روک دیا تا کہ نہ دکانداروں کو نقصان ہو اور نہ پبلک کو نقصان ہو۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد10 صفحہ307)
عامر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور کہا کہ میری ایک بیٹی تھی جس کو جاہلیت میں زندہ درگور کر دیا گیا لیکن میں نے اسے مرنے سے پہلے نکال لیا۔ جب وہ اسلام لے آئی تو اس پر اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد لگ گئی۔ غلط کام ہوا اس کی وجہ سے حد لگ گئی تو اس نے ایک چھری لی تا کہ اس سے اپنے آپ کو قتل کر دے۔ میں نے اسے پکڑ لیا جبکہ اس نے اپنی بعض رگوں کو کاٹ لیا تھا۔ پھر میں نے اس کا علاج کیا یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہو گئی۔ پھر اس نے اس کے بعد توبہ کر لی اور اچھی توبہ کی۔ اے امیر المومنین! اب مجھے اس کے لیے نکاح کے پیغامات آ رہے ہیں۔ لڑکی کے رشتے آرہے ہیں۔ کیا میں اس کے پہلے معاملے کے بارے میں بتایا کروں کہ کیا زندگی تھی، اس کی پہلی زندگی کیا تھی، اس کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا اور کیا اس نے اپنے ساتھ کیا؟ حضرت عمرؓنے اس شخص سے کہا کہ
اللہ تعالیٰ نے اس کے عیب پر پردہ ڈالا ہے اور تُو اس کو ظاہر کرے گا!
اللہ کی قسم! اگر تو نے اس کے معاملے کے بارے میں کسی کو بھی بتایا تو میں تجھے پورے شہر والوں کے سامنے عبرت کا نشان بناؤں گا بلکہ اس کا نکاح ایک پاکدامن مسلمان عورت کی طرح کر دو۔ (تفسیر الطبری جزء 6۔ سورة المائدہ صفحہ 127۔ دار احیاء التراث العربی الطبعة الاولیٰ 2001) بھول جاؤ باتوں کو۔
طاعون عَمَوَاسْ اور حضرت عمرؓ کی لوگوں کی جانوں کے بارے میں فکر
کیا تھی؟ اس بارے میں آتا ہے کہ رملہ سے بیت المقدس کے راستے میں چھ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے جس کا نام عمواس ہے۔ کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ یہاں سے مرض طاعون کا آغاز ہوا اور ارضِ شام میں پھیل گیا۔ اس لیے اسے طاعون عمواس کہا جاتا ہے۔ اس مرض سے شام میں لاتعداد اموات ہوئیں۔ بعض کے نزدیک اس سے پچیس ہزار کے قریب اموات ہوئیں۔ سترہ ہجری کو حضرت عمرؓ مدینہ سے شام کے لیے روانہ ہوئے اور سَرْغ مقام پر پہنچ کر سپہ سالارانِ لشکر سے ملاقات کی۔ سَرْغ بھی شام اور حجاز کے سرحدی علاقے میں وادیٔ تبوک کی ایک بستی کا نام ہے۔ اور آپؓ کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ زمینِ عمواس میں بیماری پھیلی ہوئی ہے تو آپؓ مشورے کے بعد واپس لوٹ آئے۔ اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک روایت میں یوں مذکور ہے۔ یہ پہلے بھی ایک دفعہ ایک اور حوالے سے اس واقعہ کا کچھ بیان ہو چکا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ سَرغ مقام پر پہنچے تو آپؓ کی ملاقات فوجوں کے امراء حضرت ابوعبیدہؓ اور ان کے ساتھیوں سے ہوئی۔ ان لوگوں نے حضرت عمرؓ کو بتایا کہ شام کے ملک میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے پاس مشورہ کے لیے اولین مہاجرین کو بلایا۔ حضرت عمرؓنے ان سے مشورہ کیا مگر مہاجرین میں اختلاف رائے ہو گئی۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہاں سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے جبکہ بعض نے کہا کہ اس لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ شامل ہیں اور ان کو اس وبا میں ڈالنا مناسب نہیں۔ حضرت عمرؓنے مہاجرین کو بھجوا دیا اور انصار کو بلایا، ان سے مشورہ لیا گیا مگر انصار کی رائے میں بھی مہاجرین کی طرح اختلاف ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے انصار کو بھجوایا اور پھر فرمایا قریش کے بوڑھے لوگوں کو بلاؤ جو فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کر کے مدینہ آئے تھے۔ ان کو بلایا گیا انہوں نے یک زبان ہو کر مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو ساتھ لے کر واپس لوٹ چلیں اور وبائی علاقے میں لوگوں کو نہ لے کر جائیں۔ حضرت عمرؓ نے لوگوں میں واپسی کا اعلان کر دیا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس موقع پر سوال کیا۔ کیا اللہ کی تقدیر سے فرار ممکن ہے؟ حضرت عمرؓنے حضرت ابوعبیدہؓ سے فرمایا۔ اے ابوعبیدہ !کاش تمہارے علاوہ کسی اَور نے یہ بات کہی ہوتی۔ ہاں
ہم اللہ کی تقدیر سے فرار ہوتے ہوئے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف جاتے ہیں۔
اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ان کو لے کر ایسی وادی میں اترو جس کے دو کنارے ہوں۔ ایک سرسبز اور دوسرا خشک تو کیا ایسا نہیں کہ اگر تم اپنے اونٹوں کو سرسبز جگہ پر چراؤ تو وہ اللہ کی تقدیر سے ہے اور اگر تم ان کو خشک جگہ پر چراؤ تو وہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی آ گئے جو پہلے اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس اس مسئلے کا علم ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی جگہ کے بارے میں سنو کہ وہاں کوئی وبا پھوٹ پڑی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر کوئی مرض کسی ایسی جگہ پر پھوٹ پڑے جہاں تم رہتے ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے باہر مت نکلو۔ اس پر حضرت عمرؓنے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس لوٹ گئے۔
(صحیح البخاری کتاب الطب باب ما یُذکر فی الطاعون حدیث نمبر 5729)
(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ214-215 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(معجم البلدان جلد4 صفحہ177-178، جلد3 صفحہ239 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت عمرؓ مدینہ سے آئے تھے اور ابھی وبا والی جگہ پر نہیں پہنچے تھے اس لیے اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس آ گئے لیکن حضرت ابوعبیدہؓ چونکہ فوجیوں کے سپہ سالار تھے اور پہلے سے ہی وبا والے علاقے میں مقیم تھے اس لیے آپؓ اور مسلمان فوجیں طاعون زدہ علاقے میں ہی رہیں۔ جو جہاں تھے وہ وہیں رہے۔ مدینہ پہنچ کر
حضرت عمرؓ نے شام کے مسلمانوں کے متعلق سوچنا شروع کیا کہ انہیں طاعون کی تباہ کاریوں سے کیسے بچایا جائے۔
خاص طور پر حضرت عمرؓ کو حضرت ابوعبیدہؓ کا بہت خیال تھا۔ ایک دن حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو خط بھیجا کہ مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے اس لیے جب تمہیں یہ خط پہنچے تو فوراً مدینہ کے لیے روانہ ہو جانا۔ اگر خط رات کو پہنچے تو صبح ہونے کا انتظار نہ کرنا اور اگر خط صبح پہنچے تو رات ہونے کا انتظار نہ کرنا۔ یہ محبت تھی آپ کی حضرت ابوعبیدہؓ سے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے جب وہ خط پڑھا تو کہنے لگے مَیں امیر المومنین کی ضرورت کو جانتا ہوں۔ اللہ حضرت عمرؓ پر رحم کرے وہ اسے باقی رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں ہے۔ یعنی یہ تو اللہ جانتا ہے کہ میرے ساتھ کیا ہونا ہے، ابوعبیدہؓ نے یہ سوچا۔ پھر اس خط کا جواب دیا کہ یا امیر المومنین! میں آپؓ کی منشاکو سمجھ گیا ہوں مجھے نہ بلائیے۔ یہیں رہنے دیجیے۔ میں مسلمان سپاہیوں میں سے ایک ہوں۔ جو مقدر ہے وہ ہو کر رہے گا۔ میں ان سے کیسے منہ موڑ سکتا ہوں۔ حضرت عمرؓنے جب وہ خط پڑھا تو رو پڑے۔ حاضرین نے پوچھا کہ یا امیر المومنین! کیا حضرت ابوعبیدہؓ فوت ہو گئے۔ آپؓ نے فرمایا نہیں لیکن شاید ہو جائیں۔
(سیر اعلام النبلاء جلد1 صفحہ18-19، ابوعبیدہ بن الجراح، الرسالۃ العالمیۃ دمشق 2014ء)
حضرت عمرؓ نے اہل الرائے اصحاب کے مشورے کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ کو لکھا کہ تم لوگوں کو نشیب میں لے کر اترے ہو اس لیے کسی بلند اور پُر فضا مقام پر چلے جاؤ۔ نیچی جگہ کی بجائے ذرا اونچی جگہ، پہاڑی جگہ پر چلے جاؤ جہاں ذرا ہوا بھی صاف ہو۔ حضرت ابوعبیدہؓ ابھی اس حکم کی تعمیل کے متعلق فکر کر رہے تھے کہ طاعون نے ان پر وار کیا اور وہ فوت ہو گئے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنے جانشین حضرت معاذ بن جبلؓ کو نامزد کیا تھا لیکن وہ بھی طاعون میں مبتلا ہو گئے اور ان کا انتقال ہو گیا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے اپنا قائمقام حضرت عمرو بن عاصؓ کو بنایا تھا۔ آپؓ نے ایک تقریر کی اور فرمایا: یہ وبا جب پھوٹتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ پہاڑوں میں چھپ کر اپنی جانیں بچاؤ۔ آپؓ لوگوں کو لے کر وہاں سے نکلے اور پہاڑوں میں چلے گئے یہاں تک کہ وبا کا زور ٹوٹ گیا اور گھٹتے گھٹتے بالکل ختم ہو گیا۔ حضرت عمرؓ کو حضرت عمرو بن عاصؓ کی اس تقریر کا علم ہوا تو نہ صرف یہ کہ آپؓ نے اسے پسند فرمایا بلکہ اسے اپنے اس حکم کی تعمیل قرار دیا جو آپ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو بھیجا تھا۔
(ماخوذ از سیدنا حضرت عمر فاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل۔مترجم صفحہ 413۔ اسلامی کتب خانہ لاہور)
حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کے علاوہ حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت یزید بن ابوسفیانؓ، حضرت حارث بن ہشامؓ اور حضرت سہیل بن عمرؓو اور حضرت عتبہ بن سہیلؓ اور ان کے علاوہ بھی دیگر معززین اس وباسے فوت ہوئے تھے۔
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ487 سنۃ 17ھ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
طاعون عمواس سے واپس آنے کا ذکر ایک جگہ پر حضرت مصلح موعوؓد نے بھی بیان فرمایا ہے۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب شام میں جنگ ہوئی اور وہاں طاعون پڑی حضرت عمرؓ وہاں خود تشریف لے گئے تا کہ لوگوں کے مشورہ سے فوج کی حفاظت کا کوئی معقول انتظام کیا جا سکے مگر جب بیماری کا حملہ تیز ہو گیا تو صحابہؓ نے عرض کیا کہ آپؓ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں، آپؓ واپس مدینہ تشریف لے جائیں۔ جب آپؓ نے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا أَفِرَارًا مِّنْ قَدَرِ اللّٰہِ؟ کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے آپؓ بھاگتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فورا جواب دیا۔ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللّٰہِ اِلٰی قَدَرِ اللّٰہِ۔ ہاں ہم خداتعالیٰ کی ایک تقدیر سے اس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ غرض دنیاوی سامانوں کو ترک کرنا جائز نہیں۔ ہاں دنیاوی سامانوں کو دین کے تابع رکھنا چاہئے۔‘‘
(اللہ تعالیٰ سے سچا اور حقیقی تعلق قائم کرنے میں ہی ہماری کامیابی ہے۔ انوار العلوم جلد21 صفحہ104)
حضرت عمرؓ کی قبولیتِ دعا کے چند واقعات
ہیں۔ حضرت خَوَّات بن جُبَیرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوئے تو حضرت عمرؓ لوگوں کے ساتھ نکلے اور ان کو دو رکعت نماز استسقاء پڑھائی۔ پھر اپنی چادر اپنے دونوں کندھوں پر ڈالی اور چادر کے دائیں طرف کو بائیں کندھے پر ڈالا اور بائیں طرف والی چادر کو دائیں کندھے پر ڈالا یعنی لپیٹ لی۔ پھر اپنے ہاتھ کو دعا کے لیے اٹھایا اور عرض کیا: اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَغْفِرُکَ وَ نَسْتَسْقِیْکَ کہ اے اللہ عزوجل! بےشک ہم تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں اور بارش کے خواستگار ہیں۔ ابھی آپ دعا مانگ کر اپنی جگہ سے پیچھے نہیں ہوئے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ ہمارے جو دیہاتی لوگ تھے وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور عرض کیا ’’اے امیر المومنین فلاں دن فلاں وقت ہم اپنے صحرائی مسکن میں تھے کہ بادلوں نے ہم پر سایہ کیا اور ہم نے اس میں سے ایک آواز سنی کہ اے ابوحفص! بارش کے ذریعہ مدد تمہارے پاس آئی۔ اے ابوحفص! بارش کے ذریعہ مدد تمہارے پاس آئی۔
(کنز العمال المجلد 4 الجزء 8 حدیث 23533 کتاب الصلوٰة الباب السابع باب صلاة الاستسقاء دار الکتب العلمیة بیروت 2004ء)
آپؓ کی ایک
دعا کی قبولیت کا واقعہ دریائے نیل کے جاری ہونے کے بارے میں
بیان کیا جاتا ہے۔ دریائے نیل جب خشک ہوتا تھا تو اسلام سے پہلے وہاں کے لوگوں میں اسے جاری رکھنے کی ایک رسم تھی اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ واقعی اس رسم کا کوئی اثر ہوتا تھا یا نہیں لیکن اسلام نے آ کر اس رسم کا خاتمہ کر دیا اور اس رسم کے خاتمے کے بارے میں جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ یوں ہے کہ قَیْس بن حَجَّاج سے روایت ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو وہاں کے باشندے عجمی مہینوں کے کسی دن حضرت عَمرو بن عاصؓ کے پاس آئے تو لوگوں نے کہا اے امیر! ہمارے دریائے نیل کے لیے ایک رسم ہے جس کے بغیر یہ بہتا نہیں ہے۔ حضرت عمروؓ نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ جب گیارہ راتیں اس مہینے کی گزر جائیں تو ہم ایک کنواری لڑکی کے پاس اس کے والدین کی موجودگی میں جاتے ہیں۔ پھر اس کے والدین کو رضا مند کرتے ہیں اور اس کو بہترین کپڑے اور زیورات پہناتے ہیں۔ پھر اس کو دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں۔ یعنی شروع میں ڈال دیتے تھے۔حضرت عمروؓ نے ان سے کہا کہ اسلام میں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔
یقیناً اسلام ان تمام رسموں کو ختم کرتا ہے جو اس سے پہلے تھیں۔
پس وہ ٹھہرے رہے اور آخر جب ایسا وقت آ گیا کہ دریائے نیل بھی خشک ہو گیا۔ دریائے نیل اس وقت بالکل نہیں بہ رہا تھا یہاں تک کہ لوگوں نے وطن سے نکلنے کا ارادہ کر لیا ۔ لوگوں نے وہاں سے جانے کا، جگہ کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ پس جب حضرت عمروؓ نے یہ دیکھا تو حضرت عمر بن خطابؓ کو اس کے بارے میں لکھا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو جواباً لکھا کہ تم نے جو کچھ کہا وہ ٹھیک ہے۔ یقیناً اسلام ان تمام رسموں کو ختم کرتا ہے جو اس سے پہلے تھیں۔ انہوں نے خط کے اندر ایک چھوٹا رقعہ بھیجا اور حضرت عمرؓنے حضرت عمروؓ کو لکھا کہ یقیناً میں نے تمہاری طرف اپنے خط کے اندر ایک رقعہ بھیجا ہے اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا۔ جب حضرت عمرؓ کا خط حضرت عمرو بن عا صؓ کو پہنچا تو انہوں نے وہ رقعہ نکالا اور اس کو کھولا تو اس میں لکھا تھا۔ اللہ کے بندے عمر بن خطاب امیر المومنین کی طرف سے مصر کے دریائے نیل کی طرف۔ اَمَّا بَعْدُ، اگر تُو خود سے بہ رہا ہے تو نہ بہ، لیکن اگر اللہ تعالیٰ تجھے چلا رہا ہے تو میں اللہ واحد و قہار سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے چلائے۔ پس حضرت عمرؓو نے وہ رقعہ صلیب کے تہوار سے ایک دن پہلے دریائے نیل میں ڈال دیا۔ جب صبح ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی رات میں سولہ ہاتھ زیادہ پانی دریائے نیل میں جاری کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہلِ مصر کی اس رسم کا خاتمہ کر دیا۔
(تاریخ الخلفاء از جلال الدین السیوطی، عمر بن خطاب صفحہ100، مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت لبنان 1999ء)
اکثر تاریخی کتب میں تو اس واقعہ کی تصدیق ہی لکھی ہے لیکن حضرت عمرؓ کے ایک سیرت نگار محمد حسین ہیکل نے اس کی تردید کی ہے کہ ایسی کوئی رسم نہیں تھی۔ (ماخوذ از سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل۔مترجم صفحہ673 اسلامی کتب خانہ لاہور) بہرحال یہ ایک واقعہ ہے۔
پھر
حضرت ساریہؓ کی جنگ میں حضرت عمرؓ کی آواز سننے کا واقعہ
ہے، پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔ یہاں بھی اس حوالے سے بیان کر دیتا ہوں قبولیتِ دعا کے حوالے سے اور جو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص سلوک تھا۔ تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ساریہ بن زُنیم کو فسا اور دارا بجرد کے علاقے کی طرف روانہ کیا۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر لوگوں کا محاصرہ کر لیا تو اس پر انہوں نے اپنے حمایتی لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔ وہ لوگ مسلمان لشکر کے مقابلہ کے لیے صحرامیں اکٹھے ہو گئے اور جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی تو انہوں نے ہر طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا۔ حضرت عمرؓ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے فرمایا ’’ یَاسَارِیَۃُ ابنُ زُنَیْم، اَلْجَبَلَ اَلْجَبَلَ‘‘ یعنی اے ساریہ بن زُنَیم! پہاڑ پہاڑ۔ مسلمان لشکر جس جگہ مقیم تھا اس کے قریب ہی ایک پہاڑ تھا۔ اگر وہ اس کی پناہ لیتے تو دشمن صرف ایک طرف سے حملہ آور ہو سکتا تھا۔ پس انہوں نے پہاڑ کی جانب پناہ لے لی۔ اس کے بعد انہوں نے جنگ کی اور دشمن کو شکست دی اور بہت سا مال غنیمت حاصل کیا۔
(تاریخ طبری جلد2 صفحہ553-554 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بھی اس واقعہ کو بیان فرما کر فرمایا ہے کہ صحابہ سے ایسے خوارق کثرت سے ثابت ہیں۔
(ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ654 حاشیہ در حاشیہ نمبر4)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو مکمل اقتباس ہے وہ مَیں گذشتہ خطبہ میں پڑھ چکا ہوں۔ پس دریائے نیل کے جاری کرنے والے واقعہ کو بھی ہم دیکھیں تو بعید نہیں کہ وہ بھی صحیح واقعہ ہی ہو جس کو بعض تاریخ دان صحیح نہیں مانتے۔
حضرت عمرؓ کی ٹوپی کی برکت اور قیصر روم
کے بارے میں ایک ذکر ملتا ہے۔ اس کو حضرت مصلح موعوؓد نے بیان فرمایا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک دفعہ قیصر کے سر میں شدید درد ہوا اور باوجود ہر قسم کے علاج کے اسے آرام نہ آیا۔ کسی نے اسے کہا کہ حضرت عمرؓ کو اپنے حالات لکھ کر بھجوا دو اور ان سے تبرک کے طور پر کوئی چیز منگواؤ۔ وہ تمہارے لیے دعا بھی کریں گے اور تبرک بھی بھجوا دیں گے۔ ان کی دعا سے تمہیں ضرور شفا حاصل ہو جائے گی۔ اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اپنا سفیربھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھا کہ یہ متکبر لوگ ہیں۔ میرے پاس اس نے کہاں آنا ہے۔ اب یہ دکھ میں مبتلا ہوا ہے تو اس نے اپنا سفیر میرے پاس بھیج دیا ہے۔ اگر میں نے اسے کوئی اور تبرک بھیجا تو ممکن ہے وہ اسے حقیر سمجھ کر استعمال نہ کرے۔ اس لیے مجھے کوئی ایسی چیز بھجوانی چاہیے جو تبرک کا کام بھی دے اور اس کے تکبر کو بھی توڑ دے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ایک پرانی ٹوپی جس پر جگہ جگہ داغ لگے ہوئے تھے اور جو میل کی وجہ سے کالی ہو چکی تھی اسے تبرک کے طور پر بھجوا دی۔ اس نے جب یہ ٹوپی دیکھی تو اسے بہت بُرا لگا تو اس نے ٹوپی نہ پہنی مگر خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ
تمہیں برکت اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
اسے اتنا شدید درد سر ہوا کہ اس نے اپنے نوکروں سے کہا وہ ٹوپی لاؤ جو عمرؓ نے بھجوائی تھی تا کہ میں اسے اپنے سر پر رکھوں۔ چنانچہ اس نے ٹوپی پہنی اور اس کا درد جاتا رہا۔ چونکہ اسے ہر آٹھویں دسویں دن سردرد ہو جایا کرتا تھا اس لیے پھر تو اس کا یہ معمول ہو گیا کہ وہ دربار میں بیٹھتا تو وہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی میلی کچیلی ٹوپی اس نے اپنے سر پر رکھی ہوئی ہوتی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ نشان جو خدا تعالیٰ نے اسے دکھایا اس میں ایک اَور بات بھی مخفی تھی۔ (اور وہ یہ کہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی قیصر کے پاس قید تھے اور اس نے حکم دیا تھا کہ انہیں سؤر کا گوشت کھلایا جائے۔ وہ فاقے برداشت کرتے مگر سؤر کے قریب نہیں جاتے تھے۔ گو اسلام نے یہ کہا ہے کہ اضطرار کی حالت میں سؤر کا گوشت کھالینا جائز ہے مگر وہ کہتے تھے کہ میں صحابی ہوں میں ایسا نہیں کر سکتا۔ جب کئی کئی دن کے فاقوں کے بعد وہ مرنے لگتے تو قیصر انہیں روٹی دے دیتا۔ جب پھر انہیں کچھ طاقت آ جاتی تو وہ پھر کہتا کہ انہیں سؤر کھلایا جائے۔ اس طرح نہ وہ انہیں مرنے دیتا نہ جینے۔ کسی نے اسے کہا کہ تجھے یہ سر درد اس لیے ہے کہ تُو نے اس مسلمان کو قید رکھا ہوا ہے اور اب اس کا علاج یہی ہے کہ تم عمرؓ سے اپنے لیے دعا کراؤ اور ان سے کوئی تبرک منگواؤ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ٹوپی بھیجی اور اس کے درد میں افاقہ ہو گیا تو وہ اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اس صحابی کو بھی چھوڑ دیا۔ اب دیکھو !کہاں قیصر ایک صحابی کو تکلیف دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی سزا کے طور پر اس کے سر میں درد پیدا کر دیتا ہے۔ کوئی اور شخص اسے مشورہ دیتا ہے کہ عمرؓ سے تبرک منگواؤ اور ان سے دعا کرواؤ۔ وہ تبرک بھیجتے ہیں اور قیصر کا درد جاتا رہتا ہے۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ اس صحابی کی نجات کے بھی سامان کر دیتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اس پر ظاہر کر دیتا ہے۔
(ماخوذ از سیر روحانی (4)۔ انوار العلوم جلد19 صفحہ536-537)
تفسیر رازی میں ہے کہ قیصر نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ مجھے سردرد ہے جو ٹھیک نہیں ہو رہی۔ آپ میرے لیے کوئی دوا بھجوائیں تو حضرت عمرؓ نے اس کے لیے ٹوپی بھجوائی۔ جب وہ اسے اپنے سر پر رکھتا تو اس کے سر میں درد رک جاتی اور جونہی وہ اسے سر سے اتارتا اسے دوبارہ سردرد ہو جاتی۔ پس اس بات سے وہ متعجب ہوا اس نے ٹوپی میں تلاش کیا اور اس میں ایک کاغذ پایا جس میں بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ لکھا ہوا تھا۔ یہ تفسیر رازی کا ایک ذکر ہے۔
(تفسیر کبیر لامام رازی جلد1 صفحہ143 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت عمرؓ کی دعائیں
ہیں بعض۔ عَمرو بن مَیْمُون بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓیہ دعا کیا کرتے تھے کہ اَللّٰهُمَّ تَوَفَّنِيْ مَعَ الْأَبْرَارِ وَلَا تُخَلِّفْنِيْ فِي الْأَشْرَارِ وَقِنِيْ عَذَابَ النَّارِ وَأَلْحِقْنِيْ بِالْأَخْيَارِ۔ اے اللہ! مجھے نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے اور مجھے برے لوگوں میں پیچھے نہ چھوڑ اور مجھے آگ کے عذاب سے بچا اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ177ذکر ھجرۃ عمر بن الخطاب مطبوعہ داراحیاء التراث العربی 1996ء)
یحییٰ بن سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ جب منٰی سے لوٹے تو اپنے اونٹ کو اَبْطَحْ میں بٹھایا اور وادی بَطْحَا کے پتھروں سے ایک ڈھیر بنایا اور اس پر اپنی چادر کا ایک کنارہ بچھا کر لیٹ گئے اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرنے لگے۔ اَللّٰهُمَّ كَبُرَتْ سِنِّيْ وَضَعُفَتْ قُوَّتِيْ وَانْتَشَرَتْ رَعِيَّتِيْ فَاقْبِضْنِيْٓ اِلَيْكَ غَيْرَ مُضَيِّعٍ وَّلَا مُفَرِّطٍ اے اللہ! میری عمر زیادہ ہو گئی ہے اور میری قوت کم ہو گئی ہے اور میری رعیّت پھیل گئی ہے۔ تو مجھے بغیر ضائع کیے اور کم کیے وفات دے دے۔ پس ابھی ذوالحجہ کا مہینہ ختم نہیں ہوا تھا کہ آپؓ پر حملہ ہوا اور آپ کی شہادت ہو گئی۔
(اسد الغابہ جلد4 صفحہ162 عمر بن الخطاب دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت ابن عمر ؓسے مروی ہے کہ قحط کے دنوں میں حضرت عمرؓ نے ایک نیا کام کیا جسے وہ نہ کیا کرتے تھے۔ وہ یہ تھا کہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر اپنے گھر میں داخل ہو جاتے اور آخر شب تک مسلسل نماز پڑھتے رہتے۔ پھر آپ باہر نکلتے اور مدینہ کے اطراف میں چکر لگاتے رہتے۔ ایک رات سحری کے وقت میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اَللّٰهُمَّ لَا تَجْعَلْ هَلَاكَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ عَلٰى يَدَيَّ۔ اے اللہ! میرے ہاتھوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ہلاکت میں نہ ڈالنا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3صفحہ237 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’انسان کو چاہئے کہ اپنے خدا تعالیٰ کے واسطے خالصةً عبادت کرے پھر خواہ خلقت اس کو برا سمجھے یا بھلا اس امر کی پرواہ نہیں چاہئے اور اپنے ظاہر کو جان بوجھ کر بُرا بنانا آنحضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھلائی ہوئی اس دعا سے ناجائز ثابت ہوتا ہے۔ وہ دعا آنحضرتؐ نے حضرت عمرؓ کو سکھلائی تھی اور اس طرح ہے اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ سَرِيْرَتِيْ خَيْرًا مِّنْ عَلَانِيَّتِيْ وَاجْعَلْ عَلَانِيَّتِيْ صَالِحَةً۔ اے اللہ! میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو اچھا کر۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ482)
حضرت عمرؓ کا مسجد نبوی اور نماز کے آداب کا خیال رکھنا،
اس بارے میں یہ روایت ہے۔ حضرت سائب بن یزیدؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے تھے کہ میں مسجد میں کھڑا تھا کہ ایک شخص نے مجھے کنکر ماری۔ میں نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عمر بن خطابؓ ہیں۔ انہوں نے کہا جاؤ ان دونوں کو میرے پاس لے آؤ۔ دو شخص تھے جو اونچی اونچی باتیں کر رہے تھے۔ میں ان دونوں کو لے آیا۔ حضرت عمرؓنے کہا تم دونوں کون ہو یا کہا تم کہاں سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم طائف کے باشندوں میں سے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓنے کہا کہ اگر تم اس شہر کے باشندے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں تم اپنی آوازیں بلند کرتے ہو۔
(صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب رفع الصوت فی المسجد حدیث470)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حضرت عمرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ
جب تک صفیں برابر نہیں ہوتی تھیں اس وقت تک اَللّٰہُ اَکْبَرُ نہیں کہتے تھے
بلکہ صفیں سیدھی کروانے کے لیے ایک شخص مقرر فرمایا ہوا تھا۔ ابوعثمان نَہْدِی نے کہا کہ میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ جب نماز کے لیے اقامت ہوتی تو قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے یعنی لوگوں کی طرف منہ کر کے فرماتے اے فلاں! آگے ہو جاؤ اور اے فلاں! پیچھے ہو جاؤ۔ یعنی صفیں سیدھی کر رہے ہوتے تھے۔ تم اپنی صفوں کو سیدھی رکھو۔ جب صفیں سیدھی ہو جاتیں تو پھر آپ قبلہ کی طرف منہ کر کے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے۔
(سیرت عمر بن الخطاب از ابن جوزی صفحہ165۔ مکتبہ مصریة الازھر)
حضرت عمرؓ کی مالی قربانی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ
کرنے کے بارے میں ایک روایت ہے۔ اَور بھی بہت ساری روایتیں ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے خیبر میں کچھ زمین حاصل کی اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کے متعلق مشورہ کرنے آئے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! میں نے خیبر میں زمین حاصل کی ہے۔میرے نزدیک اس سے بہتر مجھے کبھی کوئی جائیداد نہیں ملی۔ آپؐ مجھے اس کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم چاہو تو اصل زمین وقف کر دو اور اس کی آمدنی غرباء پر خرچ کرو۔ نافع کہتے تھے کہ پھر حضرت عمرؓ نے وہ صدقہ میں دے دی اس شرط پر کہ نہ وہ بیچی جائے اور نہ کسی کو ہبہ کی جائے، نہ ورثاء میں تقسیم کی جائے اور انہوں نے وہ زمین محتاجوں اور رشتہ داروں، غلاموں کے آزاد کرنے، اللہ کی راہ میں اور مسافروں اور مہمانوں کے لیے وقف کر دی اور جو زمین کا نگران ہو اس کے لیے کوئی ہرج نہیں کہ وہ اس میں سے دستور کے مطابق خود کھائے اور کھلائے مگر مال کو جمع کرنے والا نہ ہو۔
(صحیح البخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الوقف حدیث 2737)
جب بھی موقع آیا حضرت عمرؓ نے قربانی کرنے میں بڑھنے کی کوشش کی۔ وہ بھی موقع تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی قربانی کی تحریک فرمائی تو اپنا آدھا مال لے کر آ گئے۔ پہلے بھی یہ واقعہ بیان ہو چکا ہے۔ لیکن خشیت الٰہی کا یہ حال تھا کہ جب فوت ہونے لگے تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور فرماتے تھے کہ میں کسی انعام کا مستحق نہیں ہوں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد10 صفحہ24)
یہ تھا آپ کا خشیت، خوف خدا کا حال۔ بہرحال ابھی تھوڑی سی باتیں ہیں جو آئندہ بھی ان شاءاللہ بیان ہو جائیں گی۔
(الفضل انٹرنیشنل 10؍دسمبر 2021ء)
٭…٭…٭