اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کسی کو دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر دوستی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں کیونکہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔ دوستی امانت داری کا نام ہے اور مشکل میں ساتھ کھڑے رہنے کا ہی نہیں ساتھ نبھانے کا بھی نام ہے۔ معمولی تعلق نہیں، یہ تو خونی رشتوں سے بھی کئی بار اعلی اور افضل درجہ پا جاتا ہے۔
ہمیں اپنے آپ سے دوستی کرنی چاہیے کیونکہ اپنی ذات سے اچھا دوست نہیں ہوتا اپنی ذات سے اچھا نقاد کوئی نہیں ہوتا۔ اسی لئے ہمیں اپنا دوست ضرور بن جانا چاہیے، اس سے قبل کے ہم اپنے بد ترین دشمن بن جائیں۔
ہماری غلطی پہ ہمارا اپنا ضمیر جتنی لعنت ملامت کرتا ہےکوئی اور نہیں کر سکتا۔خود سے دوستی کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی کے مذاق کا نشانہ نہیں بنتے کیونکہ دوستی میں اکثر ہوتا ہے کہ ہم اپنی بہت سی ایسی باتیں اپنے قریبی دوست سے شئیر کر دیتے ہیں اور پھر وہی باتیں ہمارے لئے سزا بن جاتی ھیں کیونکہ جب وہ باتیں ہمارا دوست اپنے قریبی دوست سے شئیر کرتا ہے تو وہ اک خبر بن جاتی ہیں۔
اس لئے اپنے ساتھ وقت گزارنا اور خود کو وقت دینا بہت ضروری ہے۔ اپنے آپ سے کبھی گپ شپ کر کے دیکھیں اور کبھی خود کو جگت ماریں اور اکیلے میں بھی ہنس کر کبھی رو کر کبھی سنجیدگی سے اپنے بارے سوچ کر دیکھیں۔
کوئی انہونی نہیں، یہ اکثر ہوتا ہے، ہم بہت سی باتیں اپنے بہن بھائیوں سے شئیر نہیں کرتے دوستوں سے کر دیتے ہیں اور دوست کیا کرتے ہیں یا شاید وہ دوست ہوتے ہی نہیں ، اس لئے خود سے بھی باتیں کریں، میرا مطلب خود کلامی ہرگز نہیں ، نہ ہی آپ کو خود پسند اور تنہا کرنا مقصد ہے۔ بن اپنے آپ کے ساتھ بھی خوش رہنا چاہیے ۔ میں تو خود کو بہت مس کرتا ہوں اور ہر وقت اپنے ساتھ رہنے کا موقع تلاش کرتا ہوں۔
دوستوں کے بیچ باتیں امانت ہوتی ہیں اور وہ اس کے امین ہوتے ہیں ہمارا مگر ہم شاید ایسی باتیں لکھتے پڑھتے اور بولتے تو ہیں مگر ان پہ عمل نہیں کرتے
غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں ایک انسان جو اپنی کی ہوئی غلطی پہ خود بھی پشیمان ہوتا ہے اس کو اور شرمندہ کرنا کیا زیادتی نہیں؟ اس طرح تو وہ ساری زندگی اس ملامت سے خود کو آزاد نہیں کر پاتا جو اس کا ضمیر اسے کرتا رہتا ہے۔ بچوں کی تو شخصیت ہی مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔
جیسے ایک بچے سے جب کوئی نقصان ہوتا ہے، کوئی کھلونا یا گھر کی قیمتی چیز ٹوٹ جاتی ہے تو وہ خود بھی بہت پریشان ہو جاتا ہے ڈر جاتا ہے۔ اس پہ اگر اس کے والدین یا اس کے بڑے اسے ڈانٹنا یا مارنا شروع کر دیں تو بچے پہ اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ مادی نقصان کوئی نقصان نہیں ہوتا اصل نقصان اخلاقی اور روحانی ہوتا ہے ۔ بچوں کو اخلاقی قدروں عقائد اور حفظ مراتب سکھائیں۔ انہیں بتائیں کہ لوگ پیار اور اہمیت دینے کے لئے ہوتے اور چیزیں استعمال کرنے لئے ہوتی ہیں نہ کہ پیار کرنے اور لوگوں سے زیادہ اہمیت دینے لئے۔
اور ان چیزوں میں موبائل ، لیپ ٹاپ اور دوسری ایسی چیزیں سر فہرست ہیں۔
ہم کیوں دوسروں کی جستجو میں اس حد تک لگے رہتے ہیں؟ کیوں کسی کے بارے میں جاننے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے؟ کیوں یہ سب حاصل کرنے کے لئے دوستیوں کا ناٹک رچا لیتے ہیں؟۔ اس سے آخر حاصل کیا ہوتا ہے؟
کسی کی ہنسی اڑا لینے سے کیا تسکین ملتی ہے؟ کئی بار لوگوں کا کسی پہ ہنسنا اسے نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے مگر ہم لوگ اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارا چند گھڑی کا ہنسی ٹھٹھا کسی کی زندگی کا عذاب بنا رہا ہوتا ہے
ہمیں اپنی عزت بڑی عزیز ہوتی ہیں ذرا سی بات پہ ہم لڑنے مرنے پہ اتر آتے ہیں مگر دوسروں کے بارے ایسی بات کر جاتے ہیں (جانے میں کہیں یا انجانے میں اس سے بحث نہیں) جو اس کے وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہیں۔ ہمیں اپنی پسند نہ پسند بہت عزیز ہوتی ہے مگر دوسروں کو کس بات سے تکلیف ہوتی ہے اور کیا اچھا لگتا ہے ، ہمیں اس کا خیال بھی نہیں آتا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کے کسی کو کسی بات یا صورت حال سے شدید تکلیف ہوتی ہو اور ہمارے لئے وہ عام سی بلکہ شائد اچھی بات ہو ۔ ہم کیوں یہ سوچتے ہیں کہ جیسے مجھے اچھا الگتا ہے سب کو اچھا لگتا ہے اور جو مجھے برا لگتا ہے سب کو برا لگنا چاہیے؟ اور بس صرف وہی برا لگنا چائیے کچھ برا لگنا جو مجھے پسند ہے اس کی کسی اور کو اجازت ہے نہ اسے اس کی جسارت کر چاہیے؟۔ اسی طرح کسی کو اگر کوئی الرجی ہے تو کیوں ہے؟ اس کی اجازت اس نے آپ سے کیوں نہیں لی ؟
کیا ہم دوسری کی عزتوں کا پاس نہیں کر سکتے؟ انسان اتنا خود غرض کیوں ہو جاتا ہے؟ انسان کے پاس ہوتا کیا ہے روپیہ پیسہ طاقت اور اثر رسوخ؟ یہ سب آنے جانے والی چیزیں ہیں رہنے والی شے ہے تو اس کا نام اس کی عزت۔ ذرا سوچ کر بتائیں آپ کو اپنے آباؤ اجداد میں کس پیڑھی تک کے نام یاد ہیں؟ اور آپ نے آگے اپنی اولاد کو کہاں تک ان کا بتایا؟ کیا اسی طرح خود کو بھی یاد رکھوانا چاہتے ہیں؟ یا پھر ایک نامور با عزت انسان کی طرح جس کا نام صدیوں یاد رکھا جاتا ہے اور ہر ایک ہمیشہ عزت سے ذکر کرتا ہے۔ اس کو امر ہو جانا کہتے ہیں۔
ہم کیوں خود کو اعلی و افضل ثابت کرنے کے چکر میں دوسروں کو پاؤں کی دھول بنا دینا چاہتے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اعلی کوئی ہے تو اپنے کردار اخلاق اور قابل بھروسہ ہونے کی وجہ سے۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی مگر شائد یہ سب کہنا بھی فائدہ مند اور ضروری بھی تھا
بس اپنے دوست بنیئے خود سے دوستی کیجئے اپنے باتیں خود کو بتائیں اور جن باتوں کو راز رکہنا چاہتے ہیں وہ قریبی دوست کو بھی مت بتائیں کیونکہ اس کے بھی قریبی دوست ہو سکتے ہیں۔
(کاشف احمد)