• 20 اپریل, 2024

مغربی افریقہ کے ملک مالی میں احمدیت کا آغاز

خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو الہاماً خبر دی تھی کہ

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘

آج دنیا میں بسنے والا ہر احمدی اس بات کا گواہ ہے کہ یہ خدائی الفاظ حرف بحرف پورے ہو چکے ہیں اور آج جماعت احمدیہ کا جھنڈا اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 214 سے زائد ممالک میں بڑی آب و تا ب سے لہرا رہا ہے انہی ملکوں میں سے اللہ کے فضل سے مغربی افریقہ کا ایک ملک مالی ہے ۔اور دنیا کے اس خطہ میں احمدیت کا نفوذ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ایک ثبوت ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی کتاب تجلیات الہیہ میں تحریر فرمایا کہ
’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا۔اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا۔اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا ۔اور میرے فرقہ کے لوگ اسقدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کردیں گے اور ہر یک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا۔ یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔سو اے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔‘‘

(روحانی خزائن جلد20 صفحہ409تا410)

اسی طرح حضر ت مسیح موعود ؑ ایک اور جگہ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے۔ اور جہاں تک میں دوربین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہےجسکو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد3 صفحہ403)

اللہ تعا لیٰ کی ان بے شمار تائیدات اور پیش خبریوں کے ذریعہ مالی میں جماعت احمدیہ کا آغا ز مکرم عمر معاذ صاحب کی بیعت سے ہوا جنھیں 1981ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی ۔ آپ کومالی کے پہلے احمدی ہونے کیساتھ پہلے مبلغ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

مکرم عمر معاذ صاحب کا مختصر تعارف اور قبول احمدیت

مکر م عمر معاذ صاحب 1962ء میں مالی کے ایک گاؤں چین لے میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد مکرم معاذ کولیبالی صاحب مالی کے ایک گاؤں چیمکا بوغو (Tiemkabougou)کی ایک مسجد کے امام تھے۔ آپ چار بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔قبول اسلام سے قبل آپ کے تمام گھر والے مالکیہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے گھر میں والد صاحب کی وجہ سے شروع سے ہی اسلام سےمحبت پائی جاتی تھی یہی وجہ تھی کہ آپ بچپن سے ہی قرآن کریم سے بہت پیار کرتے تھے۔ تلاوت کے علاوہ اس کی تفسیر پڑھنے میں اپنا زیادہ وقت گزارتے تھے۔

مدرسہ سبیل الفلاح میں تعلیم اور آئیوری کوسٹ روانگی

ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مکرم عمرمعاذ صاحب نے سیگو (Segou) شہر کے ایک دینی مدرسہ سبیل الفلاح میں داخلہ لے لیا اور تعلیم حاصل کرنے لگے ۔اس وقت جیسے مدرسہ کی کلاسز میں ترقی ہو رہی تھی،ویسے ہی مدرسہ کے اخراجات بڑھتے جا رہے تھے۔آپ کے والد گاؤں کے امام تھے اور کچھ کھیتی باڑی کر کے آپ کے اخراجات اور فیس ادا کررہے تھے،یہاں تک کہ آپ مدرسہ کے Second Last سال میں پہنچ گئے۔ مدرسہ کی آٹھویں کلاس میں آپ کےاخراجات بہت بڑھ گئے۔ جہاں یہ اخراجات بڑھے وہیں اس سال آپ کےوالد بیمار ہوگئے۔ اس صورت حال میں آپ کے لئے مدرسہ کی تعلیم کو اخراجات کے باعث جاری رکھنا ناممکن ہو گیا۔ اس لئے آپ اپنے والدصاحب کی بیماری اور وسائل کی کمی دیکھ کر اس سال چھٹیوں میں مالی کے ہمسایہ ملک آئیوری کوسٹ چلے گئے تاکہ وہاں تعویزات بیچ کر کچھ پیسے حاصل کریں، جس سے اپنی تعلیم کے اخراجات مکمل کر سکیں۔ آئیوری کوسٹ کے شہر ابیجان (Abidjan) میں پہنچ کر آپ ایک دوست کے گھر ٹھہرے۔ وہاں رہائش کے بعد آپ انتظار کرنے لگے کہ کوئی تعویز خریدنے آئے ۔مگر دن گزرتے گئے اور کوئی ایک بھی تعویز لینے نہ آیا ۔آئیوری کوسٹ میں پہنچتے ہی آپ ہر روز رات کے ایک بڑے حصہ میں تہجد اداکرتے اوردن کا اکثر حصہ تلاوت قرآن کریم میں گزارتے تھے ۔یہ عبادت کا سلسلہ دو ماہ تک جاری رہا۔اور ان دو ماہ میں کوئی ایک شخص بھی آپ کے پاس تعویز لینے کی غرض سے نہ آیا۔

الہی رویاء

ذوالحجہ 1981ء جمعہ کی رات دو بجے جب آپ تہجد پڑھ کے فارغ ہوئے توکچھ آرام کی غرض سے اسی جائے نماز پر لیٹ گئے۔لیٹتے ہی آپ کی آنکھ لگ گئی۔ جس طرح خداتعالیٰ انسانوں کی راہنمائی مختلف ذریعہ سے کرتا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی راہنمائی بھی ایک بہت عظیم اور مبارک رؤیا کے ذریعے کی۔ اس رات آپ نے دیکھا کہ آسمان پر خوفناک سیاہ بادل جمع ہونے شروع ہوگئے ہیں ۔اور جب یہ بادل بہت تعداد میں جمع ہو گئے تو زمین پر مشرق کی سمت بلند گرج چمک کے ساتھ بجلی ،آگ اور پتھر گرنے لگے۔یہ خوفناک سلسلہ بہت دیر تک چلتا رہا۔کافی دیر بعدجب یہ سلسلہ ختم ہواتو تمام بادل ہٹ گئے اور آسمان صاف ہوا تو آسمان پر چودھویں کا روشن اور نورانی چاند اپنی آب وتاب کیساتھ نکل آیا ۔ جب چاند کی طرف غور سے دیکھا تو اس پر یہ خوبصورت تحریر لاالہ الا اللّٰہ ھواحمد من اللّٰہ رسول الیکم نظر آئی۔اس کیساتھ آہستہ آہستہ بارش شروع ہو گئی ۔اس کے بعد چاند زمین کی طرف اترنے لگا اور جب یہ زمین کے بہت قریب آیا تو اس کی شکل گول سے تبدیل ہو کر مستطیل ہو گئی۔پھر اس چاند کی لکھائی تبدیل ہو گئی اور اس پرجاء المھدی (یعنی مھدی آگیا ہے ) لکھا گیا۔رؤیا میں اس چاند کے دائیں طرف ایک بزرگ نظر آئے جو کہ حضورﷺ کی مدح میں (حضرت مسیح موعودؑ کے) قصیدہ یا عین فیض اللہ والعرفانی کے اشعار پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے آپ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ادھر آجاؤ۔آپ اپنے ایک کلاس فیلو کا ہاتھ پکڑ کر ان کی طرف جانے لگے مگر اس نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور اس بزرگ کے پاس نہیں گیا۔چنانچہ آپ اکیلے ہی ان کے پاس چلے گئے۔اس بزرگ نے آپ کو کہا کہ یہ تحریر اٹھائو۔مگر جب آپ نے تحریر اٹھائی تو اٹھاتے ہی اس کی شکل تبدیل ہو کر ایک خوبصورت مچھلی بن گئی ۔ پھر یہ مچھلی کٹی اور مختلف حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اور مچھلی سے خون بہنے لگا۔اور اس مچھلی کے ٹکڑے ہاتھوں سے گرنے لگے۔

یہ منظرآپ کے لئے بہت ہی حیرت انگیز اورعجیب تھا اور آپ اسی حالت میں کپکپاتے ہوئے نیند سے بیدار ہوئے ۔آنکھ کھلنے پر پہلے کچھ دیر تو سمجھ نہیں آئی کہ آپ کہاں ہیں اور یہ کیا ماجرہ ہے ؟لیکن جب آپ کی نظر اپنی جائے نماز پر پڑی تو آپ کو پتا لگا کہ یہ سب بس ایک رؤیا کے سوا کچھ نہ تھا ۔اس رؤیا کی تعبیر آپ نے یہ کی کہ تین سال کے عرصہ میں مسیح موعودؑ کا ظہور مبارک ضرور بضرور بلاد عر بیہ میں ہو جائے گا۔اس رؤیا کے ایک ہفتہ بعد بھی کوئی آپ کے پاس تعویز لینے نہ آیا ۔چنانچہ مجبوراً آپ نے اپنے دوست سے شکریہ کیساتھ اجازت مانگی مگر چونکہ آپ کا دوست آپ کی نیکی اور پرہیز گاری کو دیکھ چکا تھا لہٰذا پہلے تو وہ اجازت دینے پر تیار نہ ہوا مگر مجبورکرنے پر اس نے اجازت دے دی ۔آخر آپ نے اس سے اجازت لے کر شہر کا رخ کیا مگر انجانے ملک میں نہ تو آپ سے کوئی تعویز لینے والا ملا اور نہ ہی آپ کو کوئی جائے پناہ میسر آئی ۔سارا دن جائے پناہ کی تلاش جاری رکھی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔

احمدیوں سے ملاقات

رات کے اندھیرے میں ایک آدمی نے آپ کو دیکھا تو آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ آپ رات کے اندھیرے میں اس طرح شہر میں نہ پھریں کیونکہ شہر میں بہت سے ڈاکو ہیں جوکہ کسی بھی اجنبی کو مال ہتھیانے کی غرض سے قتل کر دیتے ہیں ۔آپ نے اس شخص کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ اس شہر میں اجنبی ہیں اور اس ملک میں آپ کو کوئی نہیں جانتا اور کوئی ٹھکانہ بھی نہیں کہ وہاں رات گزاری جاسکے ۔اس شخص نے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ سامنے ایک سفید فام لوگوں کی مسجد ہے بہتر ہے کہ آپ وہاں رات گزار لیں۔

چنانچہ آپ اس مسجد میں رات گزارنے کے لئے چلے گئے۔ اس وقت عشاء کی نماز ہوچکی تھی اور لوگ نماز پڑھ کے باہر نکل رہے تھے۔ ان افراد کے درمیان دو سفید فام لوگ بھی تھے ۔ آپ نے ان سے مسجد میں رات گزارنے کی اجازت مانگی جوکہ آسانی سے مل گئی ۔آپ نے رات مسجد میں گزاری ۔مگر صبح فجر کی نماز پرجو منظر آپ نے دیکھا وہ آپ کوبا لکل پسند نہیں آیاکیونکہ احمدیوں نے فجر کی نماز ہاتھ باندھ کر پڑھی جبکہ آپ کا جس فرقہ سے تعلق تھا اس میں ہاتھ باندھ کر نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ یہ منظر آپ کو پسند نہ آیا۔پھر جو درس دیا گیا وہ وفات مسیحؑ پردیا گیا۔آپ کیونکہ اس وقت احمدیت کے بارہ میں کچھ نہیں جانتے تھے لہٰذا آپ نے خیال کیا کہ یہ لوگ دین سے بالکل ہٹے ہوئے ہیں (نعوذباللہ) اور جس قدر جلد ہوسکے ان سے جان چھڑا لینی چاہیئے۔یہ سوچ کر کہ ان کے پیچھے نماز قبول نہ ہوئی ہوگی آپ نے دوبارہ فجر کی نماز ادا کی ۔اور سورج نکلتے ساتھ ہی مسجد سے اس ارادہ سے نکلے کہ اب کبھی اس مسجد میں داخل نہ ہونگے ۔ مگر خدا تعا لیٰ آپ کو ہدایت دینا چاہتا تھااس لئے تمام دن کی مشقت کے باوجود آپ کو کوئی اورٹھکا نا نہ ملا۔آخر رات کا اندھیرا چھانے لگا اور ڈاکو ؤں کا پھر سے خوف ذہن میں آنے لگا۔پہلے تو کچھ دیر اندھیرے میں بھی جائے پناہ کی تلاش جاری رکھی مبادا کہ پھر سےاحمدیوں کی مسجد جانا پڑجائے۔ مگر سب بے سود اور بیکار تھا۔ اس اجنبی شہر میں کسی کا رہائش دینا تو دور کی بات ،کوئی بات سننے کے لئے تیارتک نہ تھا۔اب سوائے احمدیوں کی مسجد کے کوئی ٹھکانہ باقی نہ بچا تھا۔چنانچہ پھر خدا آپ کو احمدیہ مسجد میں لے آیا ۔خیر ایسا تین چار روز تک ہوتا رہا کہ مسجد میں آپ رات گزارتے اورصبح ہوتے ہی پناہ گاہ کی تلاش میں نکل جاتے۔ان چار پانچ ایام میں آپ کا دل احمدیت سے بالکل بیزارہوگیا ۔جو نماز بھی آپ احمدیوں کے پیچھے پڑھتے اسے جاکر دوبارہ ادا کرتے ۔ان چار ایام کے دوران آپ کوایک احمدی نے یہ دیکھ کر کہ آپ عربی جانتے ہیں ،آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتا ب کشیٔ نوح کا عربی ترجمہ سفینۃالنوح پڑھنے کے لئے دے دی۔کیونکہ آپ کا دل احمدیت سے بالکل بیزار ہو چکا تھا لہٰذا آپ نےیہ کتاب پڑھنے کے بجائے اس کو ایک طرف رکھ دیا لیکن اس حالت میں احمدیوں کی مسجد کے علاوہ کو ئی ٹھکا نا بھی آپ کے پاس نہ تھا ۔

آخر تنگ آکر آپ نے ایک خط سعودی عرب حکومت کے نام لکھا جس میں آپ نے لکھا کہ بلاد افریقہ میں ایک ا حمدیہ جماعت موجود ہے جوکہ حضرت عیسیٰؑ کی وفات کا اعلان کرتی ہے اوراس کے لوگ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے ہیں۔ اس طرح اسلام کو یہ لوگ خراب کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔قصہ مختصر یہ کہ اس خط میں آپ نے سعودی عرب سے پُر زور اپیل کی کہ کسی طرح بھی ہوسکےوہ اپنااثرو رسوخ استعمال کر کے احمدیت کو یہاں سے ختم کروادیں (نعوذباللہ)۔ یہ خط لکھ کرآپ فارغ ہوئے اور اسے بھیجنے کے لئے میز پر رکھنے لگے تو اس وقت آپ کی نظر میز پر پڑی کتاب سفینۃالنوح (حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب کشتی نوح کس عربی ترجمہ )پر پڑی۔ یہ کتاب اٹھا کر جب آپ نے بے دلی سے اسے کھولا تو خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔جیسے ہی آپ نے کتاب کو کھولا آپ کی نظر خدا نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب کی اس عبارت پر ڈلوائی:
’’اسی واسطے میں نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیاتا میری سادگی اور عدم بناوٹ پر وہ گواہ ہو وہ ۔۔۔ لکھنا جو الہامی نہ تھا محض رسمی تھا مخالفوں کے لئے قابل اسناد نہیں کیونکہ مجھے خود بخود غیب کا دعویٰ نہیں۔ جب تک کہ خود خداتعالیٰ مجھے نہ سمجھاوے۔‘‘

(روحانی خزائی جلد19 کشتی نوح صفحہ50)

اس سطر پر نظر پڑی ہی تھی کہ آپ کے دل کے تمام اعتراضات دور ہوگئے۔ اسی وقت آپ نے سوچا کہ یہ کسی صاف گو اور بہت نیک انسان کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ آپ کیونکہ سعید فطرت تھے فوراً سمجھ گئے کہ یہ کتاب کسی جھوٹے کی ہر گز نہیں ہو سکتی ۔

اسی وقت آپ کو رؤیا اور خدا کی اس تدبیر کا سارا معاملہ سمجھ آگیا کہ یہ خدا کی تقدیر کے تحت تمام معاملہ ہورہا تھا کہ باوجود احمدیوں سے بار بار جان چھڑانے کے اللہ تعالیٰ باربار آپ کو احمدیہ مسجد میں لے کے آرہا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر آپ نے فورا ًبیعت کا ارادہ کر لیا اور اسی شام کو اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے کی توفیق بھی عطا کی۔ بیعت کے بعد مکرم عمر معاذ صاحب کو پاکستان جا کر جامعہ احمدیہ سے تعلیم مکمل کرنےکی توفیق ملی اور اب اللہ کے فضل سے بطور مبلغ سلسلہ مالی میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔

پہلی بیعت سے لے کر آج تک خلافت احمدیہ کے زیر سایہ اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ مالی کی تر قیات کا سلسلہ جاری ہے اور جماعت احمدیہ مالی پر چڑھنے والا ہر دن اللہ تعا لیٰ کی تائیدات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

(مرسلہ: (احمد بلال مغل ۔ مبلغ سلسلہ مالی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2021