• 5 مئی, 2024

موبائل فون ایک سہولت یا وبال جان (قسط دوم)

موبائل فون ایک سہولت یا وبال جان
قسط دوم

اخلاقی قدروں کی گرا وٹ

ہر چیز کے دو پہلو مثبت اور منفی ہوتے ہیں یقیناً موبائل فون بھی اس قانون کی زد میں ہے اور لاتعداد فوائد کے باوجود یہ اپنے اندر اس قدر بھیانک نقصانات لئے ہوئے ہے کہ الامان و الحفیظ۔

اس کے نقصانات کا ایک اہم پہلو اخلاقی قدروں کا بڑی تیزی سے گرنا بھی ہے۔اس کے ذریعہ ایک طرف دنیا ’’گلوبل ویلج‘‘ بن گئی ہے اور دُور بیٹھے، رشتہ داروں کی دُوریوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔مگر دوسری طرف انسان آدم بیزار سا ہو کر رہ گیا ہے۔گھر میں بیٹھا انسان بالخصوص نوجوان اپنے موبائل سیٹ سے کھیلتا رہے گا۔ SMS یا WhatsApp میسج بھیجنے میں مصروف نظر آئے گا اور گھر میں بسنے والے دیگر افراد سے بات کرناگوارا نہ کرے گا۔ اگر ماں کوئی کام کہہ دے تو بوجھل دل کے ساتھ کرنے کے لئے قدم آگے بڑھائے گااور یوں معاشرہ عدم اطاعت، عدم تعاون اور عدم مودت کا شکاربھی ہورہا ہے۔

بچوں کو موبائل نہ دیں

ہمارے معاشرے میں یہ رواج راہ پا گیا ہے کہ والدین محض اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لئے اور اپنے اسٹیٹس کا اظہار کرنے کے لئے اپنے teenage بچوں کو موبائل سیٹ خرید دیتے ہیں اور بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ امیر لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو کھلونوں کی جگہ موبائل فون خرید کر دیتے ہیں۔ذرا تصور کریں کہ وہ اپنے بچوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔جو فوائد کی جگہ نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ بچوں کے مطالبے تو ناسمجھی کے باعث ہوتے ہیں والدین ان کو اس کا عادی نہ بنائیں کہ وہ ضد اور خود مختاری کو انتہا تک پہنچا دیں اور جب جوان ہوں تو والدین ان کے سامنے اُف تک نہ کرسکیں۔اگر ہر کام،ہر قول،ہر فعل وقت کی مناسبت سے ہو اور حدود میں رہ کر کیا جائے تو یقیناً والدین اور اولاد دونوں کی سکون،باہمی محبت واحترام اور شفقت کے سایہ تلے پر امن اور پر وقار زندگیاں گزرتی ہیں لہٰذا والدین کو چاہئے کہ بچوں کو چھوٹی عمر میں موبائل سیٹ خرید کر دینے سے پرہیز کریں۔بچہ اس عمر میں کچا ذہن رکھتا ہےاور کمپنیوں کے نت نئے سستے پیکجز دیکھ کر فوراً انہیں اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ایک طرف رقم کی بچت تو ہو رہی ہوتی ہے لیکن وہی پیکجز روحانی اور اخلاقی تباہی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ موبائل فون اتنے مختصر سے سائز میں آگیا ہے کہ چھوٹی عمر کے بچے ایک الگ کمرہ میں بیٹھ کر اس کے ذریعہ میسجز (Messages) بھی بھیج سکتے ہیں۔ فوٹو بھی بآسانی بھجوائی جاسکتی ہے ایسی محفلوں میں جہاں فوٹو گرافی کرنی ممنوع ہو اس کے ذریعہ بآسانی فوٹو گرافی کی جاسکتی ہے۔

یورپین ممالک میں ٹی وی پر جب اشتہار آتے ہیں اور نئے پیکجز متعارف کروائے جاتے ہیں تو ساتھ ہی ایسے پروگرام بھی دکھلائے جاتے ہیں جن میں ان کے نقصانات کا ذکر ہوتا ہے لیکن ہمارے تھرڈ ورلڈ ممالک میں اخلاق پر حملہ کرنے والے پیکجز تو متعارف کروا دیئے جاتے ہیں اور ان کے دلربا نتائج سے بھی آگاہ کردیا جاتا ہے۔ مگر ان کے نقصانات بالخصوص جن کا تعلق انسان کے اخلاق اور تقویٰ اور روحانیت سے ہو آگاہ نہیں کیا جاتا۔ ایک دفعہ مجھے اپنے لاہور دورہ کے دوران کسی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو جہاں مجھے بٹھایا گیا تھا شیلف میں نصف درجن سے زائد موبائل فون کے سیٹ پڑے نظر آئے۔ خاکسار کے استفسار کرنے پر انہوں نے مجھے بتلایا کہ بچوں کو گھر سے باہر موبائل ساتھ لے جانے کی اجازت ہے اور گھر واپسی پر اپنے تمام موبائل اس شیلف میں رکھنے کی ہدایت ان کو کی جاتی ہے۔ اگر کالج کے بعد اپنے دوستوں سے رابطہ وغیرہ کرنا ہے تو Land Line Number سے جہاں چاہیں خواہ غیر ممالک میں کرنا ہو تو انہیں اجازت ہے۔ البتہ باہر جاتے ہوئے نگرانی اور رابطہ کی غرض سے ان کو موبائل ساتھ دیا جاتا ہے۔

چھوٹی عمر میں فون کا استعمال جسمانی صحت کے لئے بھی زیادہ نقصان دہ ہے چونکہ یہ عمر نشوو نما کی ہوتی ہے اور توانائی کی تیز شعاعیں بڑھنے اور پھلنے پھو لنے والے دماغ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ان ا مور کو مدنظر رکھ کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’آج کل یورپ میں موبائل فون پر SMS کا بڑا رواج ہے۔ خصوصاً تیرہ چودہ سال کی عمر کے ہر بچے نے فون ہاتھ میں رکھا ہوتا ہے اور ٹیکسٹ کررہے ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ پھر یہ دوستیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں، اس سے بھی بچنے کی کوشش کریں۔ آہستہ آہستہ یہ چیزیں انسان کو لغویات کی طرف لے جاتی ہیں۔‘‘

(مشعل راہ جلد5 حصہ چہارم صفحہ48)

موت کا پروانہ

موبائل فون دہشت گردی،لوٹ مار کی کارروائیوں میں بھی اضافے کا باعث بنا ہے اور جرائم پیشہ لوگ اپنی کارروائیوں میں آسانی کے لئے موبائل فون کا استعمال کرنے لگے ہیں۔اغوا برائے تاوان کے لیے یا کوئی اور کارروائی کے لئے موبائل سے فون کرتے ہیں۔ اس لئے گورنمنٹ نے یہ لازم قرار دے دیا ہے کہ ہر موبائل نمبر کسی کے نام رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے۔ یہ موت کا پروانہ یوں بھی بن گیا ہے کہ موبائل چھیننے کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور اگر دفاع کرنے کی کوشش کی تو چند ہزار کے بدلے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

SMS اور اخلاقیات پر تبر

SMS کے حوالے سے کمپنیاں آئے دن نئے سستے پیکج متعارف کرواتی رہتی ہیں اور پاکستان میں خطوط کی جگہ میسجز (Messages) نے لے لی ہے اور اتنی کثرت سے پاکستان کے اندر SMS ہورہے ہیں کہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق کچھ سال پہلے پاکستانی عوام نے ایک ارب 20 کروڑ جیسی ایک خطیر رقم صرف SMS پر خرچ کردی اور روزبروز یہ چیز بڑھ رہی ہے اور نوجوانوں نے اپنے دوستوں اور عزیزوں کے موبائل فونز کی فہرست بنارکھی ہے اورایک میسج لکھ کر اپنے موبائل سیٹ کو ایک دفعہ میں تمام عزیزدوست جاننے والوں کے نام کمانڈ دے دیتے ہیں اور ایک ایک کر کے یہ پیغام تمام کو پہنچ رہا ہوتا ہےاور چو نکہ دوستوں کے پیغام میں مذاق او ر تفنن بھی ہوتا ہے اور وہی میسج (Message) اپنے بڑوں کو اپنے Boss کو بھی ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے موبائل نمبرز بھی اس فہرست میں شامل ہوتے ہیں جسے پڑھ کر حیرانگی ہورہی ہے کہ ایک چھوٹے کا اپنے بڑے کو ایسا بے ہودہ پیغام اور یوں ادب کی قدریں اُٹھ رہی ہیں۔ اب تو بعض لفنگوں نے لچر قسم کے مذاق، لطیفے، کہانیاں اور شعروشاعری لکھ کر بعضوں کو میسج کرنے شروع کئے ہیں اور یوں SMS کلچر کی بدولت غیر اخلاقی SMS کو فروغ ملا ہے جو نوجوانوں کے اخلاق کو بُری طرح سے تباہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ان کی عادتوں کو بُری طرح بگاڑ رہا ہے۔جھوٹ، فریب کاری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ لڑکے لڑکیاں بن کر لڑکیوں کو میسجز کرنے لگے ہیں۔ نشے کی حد تک یہ بات نوجوانوں میں بڑھ رہی ہے۔ طالب علم جو کلاس روم میں بیٹھے لیکچر سننے کی بجائے میسجز بھجوانے میں مصروف ہوتے ہیں اور وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق بھی تباہ ہورہے ہیں۔ ایسی ہی بہت سی خرافات فیس بک اور واٹس ایپ پر بھی جاری ہیں۔ اب تو سیاست کو گندہ کرنے میں واٹس ایپ نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ میں نوجوان بچیوں کو خطبہ کے دوران Message بھیجنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’گزشتہ جمعہ کی یہاں کی رپورٹ مجھے ملی کہ بعض بچیاں خطبے کے دوران اپنے اپنے موبائل پر یا تو ٹیکسٹ میسیجز (Text Messages) بھیج رہی تھیں اور یا باتیں کررہی تھیں اور اس طرح دوسروں کا خطبہ جمعہ بھی خراب کررہی تھیں جو وہ سن نہیں سکیں۔ یہی شکایت بعض چھوٹے بچوں کے بارے میں آتی ہے۔آجکل ہر ایک کو ماں باپ نے موبائل پکڑادئیے ہیں۔ حکم تو یہ ہے کہ اگر خطبہ کے دوران کوئی بات کرے اور اسے روکنا ہوتو ہاتھ کے اشارے سے روکو کیونکہ خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے۔یہ بظاہر چھو ٹی باتیں ہیں لیکن بڑی اہمیت کی حامل ہیں اس لئے ان کا خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کسی نے اتنی ضروری پیغام رسانی کرنی ہے یا فون کرنا ہے کہ جمعہ کے تقدّس کا بھی احساس نہیں اور مسجد کے تقدّس کا بھی احساس نہیں تو پھر گھر بیٹھنا چاہئے۔ دوسروں کو ڈسڑب نہیں کرنا چاہئے۔ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ مسجد آکر دوسروں کی نمازیں خراب کی جائیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد5 صفحہ150)

پھر ایک اور موقعہ پر فرمایا:
’’آج کل Text Message کا رواج چل نکلا ہے یہ بھی سوائے جاننے والوں کے کہیں نہیں ہونا چاہیے بعض اوقات سہیلیاں آگے نمبر دے دیتی ہیں اس لئے اس امر کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی تا 13؍جولائی 2006ء صفحہ10 کالم2)

موبائل فون کا ایک اچھا اور خوبصورت استعمال

بعض لوگوں نے اس کا اچھا استعمال بھی کیا ہے۔ عیدین اور دیگر خوشی کے مواقع پر دعاؤں بھری مبارکبادیں ار سال کرتے ہیں۔ کسی کی وفات یا بیماری پر عیادت کرلیتے ہیں۔ جماعت احمدیہ میں بعض نوجوانوں کو میں نے دیکھا ہے کہ حضرت صاحب کے خطبہ کو چند فقرات میں لکھ کر اپنے دوستوں کو بھجوادیتے ہیں۔کوئی قرآنی حکم بھجوایا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی اہم Event ہو تو اس کی اطلاع کر دیتے ہیں مجھے کسی نے بتلایا کہ ایک جماعتی محفل میں ذیلی تنظیم کا ایک عہدیدار اپنی رپورٹ پڑھ کر سنا رہا تھا جس میں یہ لکھا تھا کہ ایک سال کے اندر اندر حلقہ کے دوستوں سے جماعتی رابطے اطلاعات اور پیغامات SMS کے ذریعہ ساڑھے پانچ ہزار کی تعداد میں بھجوائے گئے۔یہ ایک اچھا خوشکن اقدام ہے اور یوں احباب جماعت میں کمیو نیکیشن گیپ نہیں آتا اور ہر فرد جماعت رابطے میں رہتا ہے۔

آج کل کے موبائل سیٹس میں ایسے فنکشنز آگئے ہیں کہ میموری فنکشن اور ریکارڈنگ سسٹم کے ذریعہ قرآن مکمل باترجمہ Feed کیا جاسکتا ہے۔صحاح ستہ کی تمام کتب اس میں ریکارڈ ہوسکتی ہیں نیز جماعت احمدیہ اور خلافت کے حوالہ سے نظموں کو محفوظ کرکے لطف اندوز ہواجاسکتا ہے۔ اپنے دفتر میں،دوران سفر آپ MTA سن اور دیکھ سکتے ہیں۔ اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالی کا خطبہ Live بھی سن سکتے ہیں۔جماعتی اجلاسات و میٹنگ کی اطلاع SMS کے ذریعہ بھجوائی جاسکتی ہیں اور یوں جو اندیشے اور خطرات موبائل فون کے ساتھ ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے اس سیٹ کو خدا اور اس کے رسول کے تابع کرکے خطوات الشیاطین پر چلنے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی آمد کا مقصد بھی خداتعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا اور شیطان کی حکومت کو دنیا سے مٹا کر ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنا نا ہے۔

خلافت جوبلی پر عہد

اب جبکہ ہم صد سالہ خلافت جوبلی بھی گزار چکے ہیں ہم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکومت کو قائم اور مستحکم کرنے کے لئے اپنی سمتوں کو درست کریں اور الیکٹرانک مصنوعات سے نقصانات اور ان کے منفی اثرات سے اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کوبچانے کے لئے بھر پور سعی کریں اور اپنے امام ہمام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے تمام فرمودات اور نصائح کو حرز جان بنائیں اور لغویات سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ تربیتی مسائل کی طرف توجہ د لاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لجنہ کے پاس تو ایک آسانی ہے گھروں میں جاسکتی ہیں۔ایک ایسی ٹیم بنائیں جو قابل اعتبار ممبرات پر مشتمل ہو بعض تربیتی مسائل اُٹھ رہے ہیں جن کا آپ لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ ایسی ٹیم یہ جائزہ بھی لے لے۔ Internet پر رابطے، فون پر رابطے، PCO وغیرہ یہ سب جگہیں ذہن میں ہونی چاہئیں۔ لڑکیاں ٹیوشن کے لئے اکیلی نہ جائیں۔ جہاں اکٹھے ٹیوشن سنٹر ہوں وہاں نہ جائیں۔ ایسے سنٹر اگر پتہ لگیں تو خدام الاحمدیہ اور صدر عمومی کے علم میں لاکر اصلاح کی کوشش کریں۔برقعوں میں حد سے زیادہ فیشن کے رجحان کو بھی کم کریں۔‘‘

پھر ایک اور مقام پر اس کے مضر پہلوؤں سے بچنے کی طرف یوں توجہ دلائی:
’’علم میں اضافے کے لئے انٹرنیٹ کی ایجاد کو استعمال کریں۔ یہ نہیں ہے کہ یا اعتراض والی ویب سائٹس تلاش کرتے رہیں یا انٹر نیت پر بیٹھ کر مستقل باتیں کرتے رہیں۔ آجکل چیٹنگ (Chatting) جسے کہتے ہیں۔بعض دفعہ یہ چیٹنگ مجلسوں کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ اس میں بھی پھر لوگوں پر الزام تراشیاں بھی ہورہی ہوتی ہیں، لوگوں کا مذاق بھی اڑایا جارہا ہوتا ہےتو یہ بھی ایک وسیع پیمانے پر مجلس کی ایک شکل بن چکی ہے اس لئے اس سے بھی بچنا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد2 صفحہ595)

اس مضمون میں موبائل کے مضر پہلو زیر بحث ہیں جس نے بہت زیادہ تباہی کے سامان پیدا کردئیے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کہیں موبائل فرینڈ شپ ہو رہی ہےتو کہیں فری ٹاک ہے۔کہیں missed calls دی جارہی ہیں تو کہیں SMS ہورہے ہیں۔ پہلے عام باتوں سے چارہ ڈالا جاتا ہے پھر دوستیاں ہوتی ہیں اور پھر غلط راہوں میں ڈالا جاتا ہے ان سے پرہیز چاہئے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2023