• 25 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 12)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 12

دنیا کو برا کہنے والے بھی دنیا چھوڑنا نہیں چاہتے

ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اگر واقعہ میں دنیا کے صدمات اور رنج ہمارے دلوں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں تو ان صدمات اور غموں سے آزاد ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کونسا طریق ہو سکتا ہے کہ اسلام اور احمدیت کی راہ میں ہم اپنے نفوس کو قربان کر دیں اور اِس عارضی حیات کو ابدی اور دائمی حیات میں تبدیل کر لیں۔

میرے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور وہ مجھے کہنے لگا دنیاکتنے بڑے غموں اور ابتلاؤں کی جگہ ہے اور خدا نے ہمیں اِس دنیا میں پیدا کر کے کتنی بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے کہ ہر طرف رنج اور بلائیں اور مصیبتیں اور دکھ ہی دکھ ہیں اور عذاب ہی عذاب چاروں طرف نظر آتا ہے۔ کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جو حقیقی سُکھ اور راحت کا موجب ہو اور جب حالت یہ ہے تو خدا نے ہمیں اِس دنیا میں کیوں پید کیا؟ میں نے اُسے بار بار سمجھایا کہ تمہارا یہ نظریہ درست نہیں۔ دنیا محض مصائب اور آلام کی جگہ نہیں بلکہ ترقی کا ایک زینہ ہے جو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے مگر وہ اتنا بھرا بیٹھا تھا کہ میرے اِس توجہ دلانے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بار بار یہی کہتا چلا گیا کہ آخر خدا کو یہ کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ وہ مجھے اِس دنیا میں بھیجتا۔ مَیں مانتا ہوں کہ دنیا میں کچھ راحت اور آرام کے سامان بھی ہیں مگر اس راحت اور آرام کے باوجود میں اس دنیا کے مصائب سے تنگ ہوں اور میں حیران ہوتا ہوں کہ خدا مجھے اِس دنیا میں کیوں لایا۔

جب میں نے اُس کی یہ دماغی کیفیت دیکھی تو میں نے کہا مَیں آپ کو اِس تکلیف کے رفع کرنے کا ایک آسان رستہ بتا دیتا ہوں اُس پر عمل کرنے سے آپ کا یہ غم اور دُکھ فوراً دُور ہو جائے گا۔

میرے سامنے اُس وقت چنار کا ایک درخت کھڑا تھا اور چنار کی لمبی شاخیں ہوتی ہیں میں نے کہا جب آپ دنیا سے ایسے ہی دل برداشتہ ہو چکے ہیں تو گھبراتے کیوں ہیں۔ دُنیا کے غموں سے نجات حاصل کرنے کا آسان ترین طریق یہ ہے کہ آپ اس چنار کے درخت کی شاخ کا ِچھلکا اُتار کر اپنے گلے میں ڈال لیں اور اس درخت کی کسی موٹی سی ٹہنی سے لٹک کر مر جائیں، دنیا کے تمام دکھوں اور غموں سے آپ فوراً آزاد ہو جائیں گے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ آپ چند پیسوں کا سنکھیا خرید کر کھا لیں کیونکہ ممکن ہے آپ کہہ دیں میں غریب آدمی ہوں میرے پاس تو کوئی پیسہ نہیں مَیں سنکھیا کہاں سے خریدوں اور کس طرح دنیا کے مصائب سے نجات حاصل کروں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ آگ میں گر کر اپنے آپ کو ہلاک کر دیں کیونکہ ممکن ہے آپ کہہ دیں میرے پاس اتنی طاقت بھی نہیں کہ مَیں دیا سلائی خریدوں، لکڑیوں کا انبار جلانا تو دُور کی بات ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ جائیں اور کسی دریا میں کود کر دنیا کے دُکھوں سے نجات پا جائیں کیونکہ ممکن ہے آپ کہہ دیں مَیں کمزور آدمی ہوں مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ میں دریا تک چل کر جا سکوں۔ آپ کے سامنے بالکل قریب پانچ سات قدم کے فاصلہ پر چنار کا درخت کھڑا ہے آپ اس کا ِچھلکا گلے میں ڈال کر اور اِسی کی موٹی شاخ سے لٹک کر مر جائیں۔ آپ دنیا کے تمام افکار اور تمام ہموم سے جنہوں نے آپ کی زندگی کو تلخ بنا رکھا ہے اور جن کی وجہ سے آپ خدا تعالیٰ کے فعل پر معترض ہو رہے ہیں آزاد ہو جائیں گے اور ہمیشہ کی راحت آپ کو حاصل ہو جائے گی۔

میری یہ بات سن کر اس کا چہرہ غصہ سے سُرخ ہو گیا اور وہ کہنے لگا آپ تو مجھے گالیاں دیتے ہیں۔

میں نے کہا مَیں نے کوئی گالی نہیں دی میں نے تو آپ پر یہ حقیقت واضح کی ہے کہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مَیں دنیا کے مصائب سے تنگ آ گیا ہوں تو آپ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ دنیا آپ کو بھی پیاری ہے اور آپ بھی نہیں چاہتے کہ اس دنیا سے نجات حاصل کریں۔

اگر حقیقت میں دنیا ایک مصیبت ہوتی، ایک آفت اور ایک بَلاء ہوتی تو آپ ایک منٹ کے لئے بھی اس دنیا میں رہنا برداشت نہ کر سکتے۔ مگر آپ کا اس دنیا میں رہنا اور اس دنیا سے نکلنے کے لئے کوشش نہ کرنا بلکہ اگر اس دنیا سے نکلنے کا آپ کو کوئی راستہ بتایا جائے تو آپ کا اسے اپنی ہتک سمجھنا بتا رہا ہے کہ آپ بھی اس دنیا کو راحت اور آرام کا موجب سمجھتے ہیں۔ اورگومنہ سے یہی کہتے ہیں کہ خدا نے بڑا ظلم کیا کہ آپ کو اس دنیا میں اُس نے بھیج دیا لیکن حقیقت اِس کے خلاف ہے۔ آپ کا دل محسوس کرتا ہے کہ میری زبان جو کچھ کہہ رہی ہے وہ غلط ہے کیونکہ مَیں اِس ظلم سے بچنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہا حالانکہ میرے سامنے ایسے راستے موجود ہیں جن پر چل کر میں اپنے آپ کو اس ظلم کا مورِد بننے سے محفوظ رکھ سکتا ہوں۔

گزشتہ دنوں جب میں لاہور میں تھا تو ایک ایم۔ اے کا سٹوڈنٹ مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور اس نے بھی میرے سامنے اسی بات کو پیش کیا کہ دنیا بڑے مصائب کا مقام ہے اور میں نہیں سمجھ سکا کہ خدا نے ایسے مقام میں ہمیں کیوں بھیج دیا؟

میں نے اُسے یہی قصّہ سنایا اور بتایا کہ میں نے ایک شخص کو جو یہی اعتراض لے کر آیا تھا یہ علاج بتایا تھا مگر وہ اُلٹا ناراض ہو گیا اورکہنے لگا آپ مجھے گالیاں دے رہے ہیں حالانکہ اگر واقع میں دنیا مصائب کا مقام ہے تو وجہ کیا ہے کہ اِس دنیا سے نجات حاصل کرنے کا طریق اختیار نہیں کیا جاتا۔

یہ طالب علم پہلے سے زیادہ ہوشیار تھا۔ کہنے لگا اُس کا ناراض ہونا تو درست نہیں تھا لیکن آپ مجھے بتائیں اگر مَیں خود کشی کر لوں تو کیا آپ مان لیں گے کہ یہ دنیا مصائب و آلام کی جگہ ہے؟

میں نے کہا صرف تمہاری خود کشی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کیونکہ دنیا میں بعض لوگ پاگل بھی ہوتے ہیں اور عقل مند اُن کے پیچھے چلا نہیں کرتے۔ اکثریت ہی ہے جس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ عقل سے کام لے رہی ہے۔ پس اگر دنیا کی اکثریت خود کشی کرلے تو پھر بے شک مَیں مان لوں گا کہ دنیا میں غم ہی غم ہے، دکھ ہی دُکھ ہے، تکلیف ہی تکلیف ہے اور رنج ہی رنج ہے لیکن اگر اکثریت دنیا میں رہنے پر خوش ہے، اگر اکثریت دنیا میں رہنا اپنے لئے کسی عذاب کا موجب نہیں سمجھتی تو استثنائی طور پر اگر کوئی شخص اپنی دماغی خرابی کی وجہ سے دنیا کو مصیبت کی جگہ سمجھتا ہے اور اِس خیال کے غالب آجانے کی وجہ سے وہ خودکشی بھی کر لیتا ہے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے جس مقصد کے لئے خود کشی کی تھی وہ صحیح اور درست تھا۔ ہاں اگر ساٹھ فی صدی لوگ خود کشی کر لیں تو پھر بے شک میں مان لوں گا کہ دنیا مصیبت کی جگہ ہے کیونکہ اکثریت نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اِس دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتی۔

غرض دنیا اگر ہمیں تکلیف کی چیز نظر آتی ہے تو پھر آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دے دینا ہمارے لئے بالکل آسان ہو جاتا ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ9 تا 12)

خدا کا سچا عاشق جان ہتھیلی پر رکھتا ہے

جب بھی کسی شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کا سچا عشق ہو گا وہ اپنی جان کو ہر وقت ہتھیلی پر لے کر پھرتا رہے گا اور موقع ملنے پر خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی اس حقیر قربانی کو پیش کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائے گا۔

احد کی جنگ میں رسول کریمﷺ کے متعلق یہ خبر مشہور ہو گئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں چونکہ اس جنگ کی ابتداءمیں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو چکی تھی اور اس امر کا کوئی خیال نہیں تھا کہ کفّار پہاڑ کے پیچھے سے دوبارہ حملہ کر دیں گے اس لئے اکثر صحابہؓ اس خیال سے کہ وہ میدان تو اب جیت چکے ہیں اِدھر اُدھر پھیل گئے تھے۔ صرف چند صحابہؓ ایسے تھے جو رسول کریمﷺکے اِردگِرد موجود تھے۔ اسی دوران میں دشمن نے شدید حملہ کیا اور اس نے اپنے حملے کا تمام زور اس جگہ پر صَرف کر دیا جہاں رسول کریمﷺ کھڑے تھے۔ تیروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے یکے بعد دیگرے صحابہؓ زخمی ہو ہو کر گرنے شروع ہوئے یہاں تک کہ آخر میں زخموں سے نڈھال ہو کر رسول کریمﷺ بھی ایک گڑھے میں گر گئے اور لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ آنحضرتﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جب یہ خبر سنی تو وہ ایک ٹیلے پر بیٹھ کر رونے لگ گئے۔

اِسی دَوران میں حضرت انسؓ بن مالک کے چچا وہاں سے گزرے۔ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ فتح کے بعد پھر شکست کی ایک صورت پیدا ہو چکی ہے۔ انہوں نے جب حضرت عمرؓ کو سر نیچے ڈال کر روتے ہوئے دیکھا تو حیرت سے کہا عمرؓ !یہ بھلا کونسا رونے کا مقام ہے۔ معلوم ہوتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے، یہ خوشی کا وقت ہے، یہ اُچھلنے اورکودنے کی گھڑیاں ہیں کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی مگرتم ہو کہ سب سے الگ بیٹھ کر عورتوں کی طرح رو رہے ہو۔

حضرت عمرؓ نے جواب دیا مالکؓ! معلوم ہوتا ہے تمہیں پتہ نہیں کہ کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا پتہ کیوں نہیں اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے اور کفّار شکست کھا گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ تو پہلا واقعہ ہے تمہیں معلوم نہیں بعد میں کیا ہو ا ۔ اِس فتح کے بعد جب مسلمان مالِ غنیمت جمع کرنے میں مشغول تھے تو کفّار نے میدان خالی پا کر پہاڑ کے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ صرف چند آدمی رسول کریمﷺ کے اِردگرد تھے اُنہوں نے خوب مقابلہ کیا مگر وہ مارے گئے اور آخر یہ نتیجہ ہوا کہ رسول کریمﷺ بھی ان کے حملہ سے شہید ہو گئے۔

جب مالکؓ نے یہ بات سنی تو اُس وقت ان کے ہاتھ میں ایک کھجور تھی۔ پانچ دس کھجوریں اُنہیں کہیں سے ملی تھیں اور وہ بھوک کی شدت میں اُن کو کھا رہے تھے۔ جب حضرت عمرؓ نے اُن سے یہ بات کہی تو اُس وقت آخری کھجور اُن کے ہاتھ میں تھی۔ اُنہوں نے اُس کھجور کو اُٹھایا اور کہا میری جنت اور میرے محبوب رسول کریمﷺ کے درمیان سوائے اِس کھجور کے اور روک ہی کیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ حضرت عمرؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے۔

عمرؓ! اگر یہ بات ہے تو پھر بھی رونے کا کوئی مقام نہیں جہاں ہمارا پیارا گیا ہے وہیں ہمیں بھی جانا چاہئے۔ یہ کہہ کر انہوں نے کھجور اپنے ہاتھ سے پھینک دی، تلوار اُٹھائی اور اکیلے ہی دشمن کے لشکرپر ٹوٹ پڑے اور اس شدت سے لڑائی کی کہ کفّار کی صفوں میں تہلکہ مچا دیا مگر آخر ایک آدمی لشکر کا کہاں مقابلہ کر سکتا تھا، دشمن نے اُن کو شہید کر دیا۔

جب جنگ کے بعد شہید ہونے والے صحابہؓ کی نعشیں اکٹھی کی گئیں تو اُن میں مالکؓ کی لاش کا کہیں پتہ نہیں چلتا تھا۔ آخر سارے مُردے گنے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک لاش ایسی ہے جس کے ستّرٹکڑے ہو چکے ہیں اور وہ پہچانی نہیں جاتی تھی کہ کس کی لاش ہے۔ تب مالکؓ کی بہن آگے بڑھیں اور اُنہوں نے ایک اُنگلی کے نشان سے اُنہیں پہچان لیا اور کہا یہ میرے بھائی مالکؓ کی لاش ہے۔

تو اگر واقع میں ہم محبت کی حقیقت کو سمجھیں، اگر ہم قطعی طور پر اس نتیجہ پر پہنچ جائیں کہ یہ دنیا کفر کی دنیا ہے، یہ ابتلاؤں کی دنیا ہے، یہ آزمائش کی دنیا ہے تو خدا کے لئے موت کو قبول کرنا ہمارے لئے بالکل آسان ہو جاتا ہے اور بڑی سے بڑی قربانی بھی ہماری نگاہوں میں ہیچ ہو جاتی ہے۔ اُس وقت یہ خیال ایک مومن کے دل میں نہیں آتا اور نہیں آنا چاہئے کہ میری قربانیوں کا کیا نتیجہ نکلا کیونکہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہماری قربانیوں کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے یا نہیں۔ ہمارے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہئے کہ ہم نے اسلام کے اعلاء اور خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی رضا کے حصول کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینا ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ12-14)

والہانہ محبت اور عقیدت کے آگے
کوئی روک نہیں ٹھہرتی

مجھے ایک نہایت ہی پیارا واقعہ بار بار یاد آیا کرتا ہے۔ معلوم نہیں وہ آدمی جس کا ذکر کیا جاتا ہے متقی بھی تھا یا نہیں، مگر بہرحال اُس نے قربانی کا ایک شاندار نمونہ دکھایا۔ اور نمونہ ایک ایسی چیز ہے جو ہر جگہ کام دے سکتا ہے۔ دنیا کا نمونہ دین میں کام آ جاتا ہے اور دین کا نمونہ دنیا میں کام آجاتا ہے۔ یونان کی جب جنگ ہوئی تو پہاڑ کی چوٹی پر دشمن کا ایک قلعہ تھا جس کو فتح کرنا ترکوں کے لئے بڑا مشکل ہو گیا۔ آخر اُس قلعہ کو سر کرنے کا کام ایک کرنیل کے سپرد کیا گیا۔ وہ اپنی فوج سے انتہاءدرجہ کی محبت اور پیار کا سلوک کرنے والا تھا اور سپاہی بھی اُس سے ایسی محبت رکھتے تھے کہ اُس کے پسینے کی جگہ خون بہانے کے لئے تیار رہتے تھے۔ وہ کرنیل اپنے سپاہیوںکو لے کر اُس قلعہ کو فتح کرنے کے لئے آگے بڑھا مگر چونکہ وہ قلعہ چوٹی پر تھا اور فوج کو نیچے سے اوپر کی طرف چڑھنا پڑتا تھا اِس لئے جب فوج کے سپاہی قلعہ کو سر کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھنے لگتے تو اوپر سے دشمن گولیوں کا مینہہ برسانا شروع کر دیتا۔ ان کا نیچے ہونے کی وجہ سے نشانہ ٹھیک نہیں بیٹھتا تھا لیکن دشمن کی تمام گولیاں بوجہ اوپر ہونے کے عین نشانہ پر لگتیں۔ پھر وہ چوٹی ایسی تھی جو بالکل سیدھی تھی اور جس پر سپاہیوں کو گھٹنوں کے بل چڑھنا پڑتا تھا۔ غرض ان کی تو یہ حالت تھی کہ یہ بڑی آہستگی سے گھٹنوں کے بل اوپر کی طرف چڑھتے مگر دشمن آسانی سے ان کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا لیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یکے بعد دیگرے سپاہی ہلاک ہونے لگ گئے مگر انہوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری جو زندہ رہے وہ گرتے اور گر کر پھر سنبھلتے اور چڑھنے کی کوشش کرتے یہاں تک کہ اس کوشش میں کئی سپاہیوں کے ناخن تک اُتر گئے اور اُن کے گھٹنے بالکل لہو لہان ہو گئے۔ اُس وقت سپاہیوں نے اپنے افسر سے کہا کہ ہمیں اجازت دیں کہ اِس وقت اپنے بُوٹ اُتار دیں مگر اس افسر نے کہا بُوٹ اُتارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ بُوٹ اُتارنا فوج کے قانون کے خلاف ہے آخر سپاہی اسی حالت میں اوپر کی طرف چڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ سینکڑوںمر گئے اور جو باقی بچے وہ اپنی کوشش میں مشغول رہے، یہاں تک کہ وہ نصف سے زیادہ فاصلہ طے کر گئے۔ جب وہ نصف سے زیادہ فاصلہ طے کر چکے تو یکدم ایک گولی آئی اور اُس کرنیل کے سینہ میں لگی اور گولی لگتے ہی وہ گر پڑا۔ یہ حالت دیکھتے ہی سپاہی اپنے افسر کی طرف دَوڑے کیونکہ وہ بڑی محبت اور شفقت کرنے والا افسر تھا اور ان کے لئے یہ بالکل ناقابلِ برداشت تھا کہ وہ افسر جس پر وہ اپنی جان تک فدا کرنے کے لئے تیار رہتے تھے اُن کے سامنے دم توڑ رہا ہو۔ وہ اُسی وقت اُس کی طرف گئے تاکہ وہ اس کو اٹھا کر کسی محفوظ مقام پر لے جائیں اور اُس کی زندگی کی آخری گھڑیوں کو آرام دہ بنا دیں۔ جب وہ سپاہی اُس کے قریب پہنچے اور انہوں نے اپنے افسر کو اٹھانا چاہا تو وہ افسر اُن سے کہنے لگا میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تم میرے جسم کو ہاتھ مت لگاؤ۔ تم میری لاش کوکتوں اور چیلوں کے لئے چھوڑ دو کہ وہ آئیں اور میرے گوشت کو نوچ نوچ کر کھا جائیں۔ ہاں اگر تم مجھے دفن کرنے کا شوق رکھتے ہو تو پھر میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اِس قلعہ کے اندر دفن کرو اگر تم مجھے اِس قلعہ کے اندر دفن کرنے میں کامیاب ہو جاؤ تب تو بے شک میرے جسم کو ہاتھ لگا لینا ورنہ کتوںاور چیلوں کے لئے چھوڑ دینا۔ اُن سپاہیوں کو اپنے افسر سے جس قسم کی محبت تھی گو وہ ویسی محبت نہیں ہو سکتی تھی جیسے انبیاءاور ان کے خلفاءکے ساتھ لوگوں کو ہوتی ہے لیکن بہرحال وہ ایک والہانہ محبت تھی۔ اس افسر کے یہ الفاظ اپنی زبان سے نکالنا تھا کہ اُن کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ وہ انسان ہیں یا جانور ہیں یا اوپر سے دشمن گولیوں کا مینہہ برسا رہا ہے۔ وہ چیخیں مارتے ہوئے بے تحاشا آ گے کی طرف بڑھے اور دو گھنٹہ کی مجنونانہ جدوجہد کے بعد انہوں نے اس قلعہ کو فتح کر لیا اور اپنے افسر کو نہایت عزت اور احترام کے ساتھ اُس قلعہ کے اندر دفن کیا۔ تو جس جگہ پر اعلیٰ درجہ کی محبت اور اُلفت ہوتی ہے وہ ادنیٰ درجہ کی محبتوں کو بالکل مٹا دیتی ہے اور انسان ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے پوری بشاشت اور صدقِ نیت سے تیار ہو جاتا ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ15-17)

رنج والم کی گھڑیوں میں صبر کرنا ایمان کی علامت ہے

جیسا کہ اُس کی سنت ہے مومنوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی قسم کی آزمائشیں بھی آتی ہیں اور خداتعالیٰ اُن آزمائشوں کے ذریعہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مومن کتنے پانی میں ہیں، وہ مجھ پر کتنا یقین رکھتے ہیں اور کتنی محبت اور اخلاص میرے ساتھ رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فطرتِ انسانی اپنے پیاروں سے جُدا ہونے پر غم محسوس کرتی ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ رنج و الم کی گھڑیوں میں اپنے آقا کی رضا پر راضی رہنا اور اپنے آپ کو ہنسی خوشی اُس کی طرف سے آئی ہوئی تلخ قاش کے کھانے پر آمادہ کر لینا یہ بھی ایک بہت بڑے ایمان کی علامت ہوتی ہے۔مثنوی رومی والوں نے حضرت لقمانؓ کا ایک قصّہ لکھا ہے کہ انہیں بچپن میں ہی ڈاکوؤں نے پکڑ کر فروخت کر دیا تھا۔ جس شخص کے پاس وہ تھے چونکہ ہمیشہ دیانتداری اور محنت کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے وہ اُن سے بہت محبت رکھتا تھا ایک دفعہ ان کے آقا کے پاس کسی نے بے موسم کا خربوزہ تحفةً بھجوا دیا۔ اس خربوزہ کی ظاہری شکل بہت اچھی تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اندر سے بہت میٹھا ہو گا۔ حضرت لقمان چونکہ اپنے آقا کے بہت محبوب تھے اِس لئے اُس نے خربوزہ کی قاش کاٹ کر سب سے پہلے حضرت لقمان کو کھانے کے لئے دی۔ انہوں نے قاش لی اور ایسے مزے لے لے کر کھایا کہ آقا کو یہ خیال گزرا کہ یہ خربوزہ بہت ہی اعلیٰ درجہ کا معلوم ہوتا ہے کیونکہ لقمان اسے بڑے مزے سے کھا رہا ہے۔ چنانچہ ایک کے بعد دوسری قاش اُس نے کاٹی اور وہ بھی حضرت لقمان کو دے دی۔ انہوں نے پھر اسے اسی شوق اور اسی لطف کے ساتھ کھایا جس شوق اور لطف کے ساتھ انہوں نے پہلی قاش کھائی تھی۔ یہ دیکھ کر اس نے تیسری قاش بھی حضرت لقمان کو دے دی اور پھر اِس خیال سے کہ میں بھی تو چکھوں کہ یہ کیسا خربوزہ ہے ایک قاش کاٹ کر اپنے منہ میں ڈال لی۔ اُس قاش کا منہ میں ڈالنا تھا کہ اُسے سخت متلی معلوم ہوئی کیونکہ وہ سخت بد مزہ اور کڑوی قاش تھی، اِتنی کڑوی اور اتنی بدبودار کہ اس کے کھانے سے قَے آتی تھی۔ یہ دیکھ کر آقا لقمان کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا کہ لقمان! تُو نے مجھے بڑا دھوکا دیا۔ میں تو بار بار خربوزہ کی قاشیں تجھے اس لئے دیتا رہا کہ میں نے سمجھا یہ بڑی میٹھی قاشیں ہیں اور تُو خود بھی ان قاشوں کو ایسے مزے لے لے کر کھاتا رہا کہ جس کی وجہ سے مجھے اس دھوکے کا لگ جانا بالکل طبعی امر تھا مگر جب میں نے ایک قاش اپنے منہ میں ڈالی تو اِتنی بد مزہ نکلی کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ تم تو میرے عزیز اور پیارے ہو مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ میں دھوکا کی وجہ سے تمہیں بار بار دُکھ دیتا رہا اور یکے بعد دیگرے ایسی قاشیں کِھلاتا رہا جو سخت کڑوی اور بدمزہ تھیں۔ حضرت لقمان کہنے لگے میرے آقا! آپ کے ہاتھ سے کتنی ہی میٹھی قاشیں میں نے آج تک کھائی ہیں۔ پھر اگر اسی ہاتھ سے ایک کڑوی قاش میری طرف آ گئی تو مجھ سے زیادہ بے مہر اور بےمروّت اور کون ہو سکتا تھا اگر میں اس کڑوی قاش کو ردّ کر دیتا اور آپ کا شکوہ کرنے لگ جاتا کہ آپ نے مجھے کیوں کڑوی قاش دی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر اس قدر احسان ہوتا ہے، اِس قدر احسان ہوتا ہے کہ اس کے بعد اگر وہ اپنے بندے سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی حقیقی بندہ اس قربانی کو اپنے لئے تکلیف کا موجب سمجھے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اس قربانی کو بھی احسان سمجھتا ہے۔ یہ خیال اپنے دل میں نہیں لاتا کہ خدا نے مجھے دکھ میں ڈال دیا ہے۔ باقی رہا کسی مصیبت کے پہنچنے پر طبعی رنج سو اس کے اظہار سے شریعت نے منع نہیں کیا۔ رسول کریمﷺ کا ایک نواسہ فوت ہو گیا۔ اُس کی آخری گھڑیوں میں رسول کریمﷺ بھی موجود تھے۔ آپ کی آنکھوں میں اُس کی تکلیف کی حالت دیکھ کر آنسو ڈبڈبا آئے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اُنہوں نے آپ کی آنکھ سے آنسوؤں کو بہتے دیکھا تو عرض کیا یارسول اللہ! کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، دل غمگین ہے مگر میں اپنی زبان سے وہی کچھ کہتا ہوں جس کو میرا رب پسند کرتا ہے ۔تو کسی رنج کے پہنچنے پر فطرت انسانی کا طبعی تقاضا بالکل اور چیز ہے۔ بے شک اُس وقت رستا ہوا دل خون کے قطرات ٹپکاتا ہے مگر وہ خون کسی قربانی میں روک نہیں بن سکتا، وہ رنج خدا تعالیٰ کے کلمہ کے اِعلاء اور اُس کے دین کی اشاعت کی کوششوں میں قطعاً حائل نہیں ہو سکتا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جب انسان اپنے رنج کو بھول کر خدا تعالیٰ کے دین کے کام میں مصروف ہو جاتا ہے تو وہ خدا کو اور بھی پیارا معلوم ہونے لگتا ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ17-19)

جب تک اطاعت کی یہ روح زندہ ہے دنیا مر نہیں سکتی

بے شک دنیا میں مشکلات اور تکالیف آتی ہیں اور آتی چلی جائیں گی مگر جو سچا مومن ہوتا ہے وہ ان مشکلات اور تکالیف کی پرواہ کئے بغیر اپنے رب کی طرف محبت اور جوش سے بڑھتا چلا جاتا ہے اور جب خدا کی آواز اُس کے کانوں میں پڑتی ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ ٹھہرو اور مجھے صبر کرنے دو، ٹھہرو اور مجھے اپنے گھر کی مصیبتوں سے تھوڑی دیر کے لئے نپٹنے دو، ٹھہرو اور مجھے اپنے بچوں اور عزیزوں کے کاموں کی طرف تھوڑی دیر کے لئے متوجہ ہونے دو بلکہ وہ خواہ کیسے ہی رنج میں ہو، کیسی ہی مصیبت میں ہو، کیسے ہی دکھ میں ہو جب خدا تعالیٰ کی آواز اس کے کان میں پڑتی ہے وہ لَبَّیکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیکَ کہتے ہوئے اس کی طرف دَوڑ پڑتا ہے کہ اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔

احزاب کی جنگ میں جب دشمن بڑا طاقتور تھا اور مسلمانوں کی حالت نہایت غربت اور بےکسی کی تھی، شدید سردی کا موسم تھا اور غریب مسلمانوں کے پاس اپنا تن ڈھانکنے کے لئے بھی کپڑا نہیں تھا ایک رات اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو خبر دی کہ اے محمد!ﷺ ہم نے تیرے دشمن کو بھگا دیا ہے۔ رسول کریمﷺ نے اس الہام کے نازل ہونے کے بعد صحابہؓ کو آواز دی اور فرمایا کہ کوئی ہے؟ ایک صحابیؓ کہتے ہیں جب رسول کریمﷺ نے یہ آواز دی اُس وقت مَیں جاگ رہا تھا مگر میری زبان یخ ہو رہی تھی اور میرا جسم بھی یخ ہو رہا تھا کیونکہ میرے پاس کپڑے کافی نہ تھے اور موسم نہایت شدید سرد تھا، چنانچہ باوجود اس کے کہ رسول کریمﷺ کی آواز کان میں پڑ رہی تھی، ہم جو آپ پر جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے اُس وقت ہماری زبان سے کوئی بات تک نہیں نکلتی تھی۔ میں نے چاہا کہ بولوں اور رسول کریمﷺ کی بات کا جواب دوں مگر میری زبان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ میں جواب دے سکتا لیکن ایک اور صحابیؓ بول اُٹھا اور اس نے کہا یارسول اللہ!میں حاضر ہوں۔ آپ نے اس کے جواب کو سنا مگر خاموش رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے پھر فرمایا کہ کوئی ہے؟ تب پھر وہی صحابی کہتے ہیں کہ میں اُس وقت بھی جاگ رہا تھا مگر مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ بول سکتا، سردی کی شدت نے میری قوتِ گویائی کو سلب کر دیا اور باوجود انتہائی خواہش رکھنے کے کہ مَیں رسول کریمﷺ کی بات کا جواب دوں حسرت اور افسوس کے ساتھ خاموش رہا کیونکہ میری زبان نے میرے دل کے جذبات کا ساتھ نہ دیا۔ اِس پر پھر وہی صحابی جنہوں نے پہلے کہا تھا کہ یارسول اللہ!میں حاضر ہوں بول پڑے اور کہنے لگے یارسول اللہ!میں حاضر ہوں۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور بولے مگر کسی اور صحابی کو اُس وقت بولنے کی ہمت نہ پڑی۔ رسول کریمﷺ پھر خاموش ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آپ نے سہ بارہ فرمایا کہ کوئی ہے؟ اس پر بھی دوسرے صحابہؓ بول نہ سکے مگر وہ صحابی جنہوں نے دو دفعہ رسول کریمﷺ کی بات کا جواب دیا تھا اِس دفعہ بھی بول اُٹھے کہ یا رسول اللہ میں حاضر ہوں۔ رسول کریمﷺ مسکرائے اور آپ نے فرمایا باہر جاؤ اور دیکھو کہ دشمن کا کیا حال ہے؟ وہ گئے اور واپس آ کر کہنے لگے کہ یارسول اللہ! میدان بالکل خالی پڑا ہے اور دشمن کاکوئی خیمہ وہاں نظر نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا میں نے اسی لئے تم کو باہر بھجوایا تھا کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ دشمن کو بھگا دیا گیا ہے تو دیکھو یہ عشق کی کیفیت ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ شدید سردی تھی، باوجود اس کے کہ سردی کی وجہ سے زبان تک یخ ہو رہی تھی، باوجود اس کے کہ تن پر کپڑے بھی کافی نہیں تھے پھر بھی وہ صحابیؓ رسول کریمﷺ کی آواز پر ’’یارسول اللہ! میں حاضر ہوں‘‘ کہنے کی توفیق پارہا تھا۔ یہی روح ہے جو مُردوں کو زندہ کرتی ہے، یہی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی بادشاہت زمین پر قائم کرتی ہے، یہی روح ہے جو انبیاءکی جماعتوں کو احیاءبخشتی ہے، یہی روح ہے جو قوموں کو ابدی زندگی عطا کرتی ہے۔ جب تک یہ روح زندہ رہے دنیا مر نہیں سکتی اور جس دن یہ روح مر گئی اس دن کے بعد دنیا زندہ نہیں رہ سکتی۔ مومن کے دل میں ایک جوش ہوتا ہے، ایک جنون ہوتا ہے، ایک تڑپ ہوتی ہے کہ میں ساری دنیا کو خداتعالیٰ کے آستانہ کی طرف کھینچ لاؤں اور اس جوش اور جنون کی حالت میں جب بھی خدا کی آواز اس کے کان میں آتی ہے کہ کوئی ہے جو میری آواز کو سنے؟ تو وہ لَبَّیکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیکَ کہتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ اِسی کام کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو کھڑا کیا ہے، اِسی کام کے لئے محمدﷺ آئے، اسی کام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آئے اور اِسی کام کے لئے میرے کمزور کندھوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بوجھ رکھا گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آسمان یا زمین سے خدا تعالیٰ اُن لوگوں کو کھڑا کر دے گا جو میری آواز پر لَبَّیکَ کہنے والے ہوں گے اور جو اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنی دولت اور اپنا وطن اور اپنی ہر چیز اس راستہ میں خوشی سے قربان کر دیں گے کیونکہ وہ مجھ کمزور اور ناتواں انسان کی آواز نہیں سنیں گے بلکہ اس آواز کے پیچھے انہیں خدا کی آواز بلند ہوتی نظر آئے گی۔

(خطبات شوریٰ جلد3 صفحہ20-22)

(ایم الف شہزاد)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2023