• 14 جولائی, 2025

سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی

’’بدر‘‘ اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بندتھا ’’الحکم‘‘ اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں۔ بہت گراں گزرتا تھا۔ ’’ریویو‘‘ ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میں بے مال و زرتھا۔ جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے۔ان کی سستی کو جھاڑے۔ ان کی محبت کو ابھارے۔ ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش، نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔ امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔

’’الفضل‘‘ نام کس نے رکھا

غرض جب اس طرح روپیہ کا انتظام ہوگیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے میں نے اخبار کی اجازت مانگی اور نام پوچھا۔ آپ نے اخبار کی اجازت دی اور نام ’’الفضل‘‘ رکھا۔ چنانچہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔ اسی زمانہ میں ’’پیغام صلح‘‘ لاہور سے شائع ہوا۔ تجویز پہلے میری تھی مگر پیغام صلح الفضل سے پہلے شائع ہوا کیونکہ ان لوگوں کے پاس سامان بہت تھے۔

استخارہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی اجازت

اخبار کے اجرا سے قبل آپ نے استخارہ کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں اجازت کے لئے عرض کیا تو آپ نے فرمایا:۔
’’جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے۔ ہاں تائید الٰہی، حسن نیت، اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے۔ زمیندار، ہندوستان، پیسہ میں اور کیا اعجاز ہے وہاں تو صرف دلچسپی ہے اور یہاں دعا نصرت الٰہیہ کی امید بلکہ یقین توکل علی اللہ کام شروع کردیں‘‘

الفضل کا نام بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے عطا فرمایا اور الفضل 1914ء کے ایک اداریہ میں درج ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا:۔
مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ الفضل نام رکھو۔

(الفضل 19 نومبر 1914ء صفحہ3)

چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔

(انوارالعلوم جلد8صفحہ371)

پہلا پرچہ

ہفت روزہ الفضل کا پہلا پرچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی ادارت میں 18جون 1913ء بروز بدھ شائع ہوا۔ یہ 26×20/4 کے 16 صفحات پر مشتمل تھا۔ حضور خود ہی اس کے پروپرائٹر، پرنٹر اور پبلشر تھے۔ ہجری لحاظ سے یہ 12 رجب 1331ھ کا دن تھا۔

حضرت خلیفہ اولؓ کی راہنمائی

الفضل کے پہلے پرچہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا تازہ خطبہ جمعہ 13 جون 1913ء درج کیا گیا اور حضور کی راہنمائی اور دعائیں ہمیشہ اخبار کو میسر رہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ الفضل بڑی دلچسپی سے ملاحظہ فرماتے تھے اور ضروری ہدایات دیتے تھے۔ چنانچہ الفضل میں قادیان کی خبروں کے تحت لکھا ہے۔

’’حضور اخبار الفضل کو بڑے شوق سے مطالعہ فرماتے ہیں‘‘

(الفضل 8؍اکتوبر 1913ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے الفضل کے پہلے شمارہ میں ایک خاص مضمون ’’اسلامی اخبارات کے لئے دستورالعمل‘‘ بھی تحریر فرمایا۔

حضور کی جو راہنمائی الفضل کو میسر تھی اس کے متعلق ادارہ الفضل لکھتا ہے:۔
ان (قادیان سے نکلنے والے اخبارات) سے اگر کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو خلیفۃ المسیح فوراً اس پر نوٹس لیتے ہیں۔ کیونکہ ہر ایک اخبار آپ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔ الفضل کا اجرا اس غرض سے بھی ہوا تھا کہ جب کوئی اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ پیش آئے تو خلیفۃ المسیح کی زبان بن کر گائیڈ کرنے کے لئے ایک اخبار ضروری چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جب کوئی مضمون لکھا جس میں جماعت کو کسی خاص روش پر چلنے کی تاکید ہو تو خلیفۃ المسیح کو دکھا کر اور ان سے تصدیق لکھوا کر شائع کیا۔

(الفضل 3 ستمبر 1913ء صفحہ9)

اس ضمن میں ایک احمدی کا خواب بھی بہت ایمان افروز ہے۔

مولوی میر اسحق علی صاحب احمدی سررشتہ دار عدالت گدوال (حیدر آباد دکن) تحریر فرماتے ہیں کہ میں حضرت خلیفہ اول کی صحت وعافیت اور احمدی بیماروں کی شفایابی کے لئے دعا کرکے سویا تھا خواب میں حضرت خلیفہ اول نے الفضل خریدنے کی تاکیدی ہدایت فرمائی اور روپے خود اپنی جیب سے نکال کر دیئے۔

(الفضل 23 دسمبر 1915ء صفحہ2)

ابتدائی سرمایہ

جیسا کہ حضور نے تحریر فرمایا ہے الفضل کے لئے ابتدائی سرمایہ حضرت اماں جانؓ ، آپ کی اہلیہ حضرت امّ ناصرؓ اور حضرت نواب محمد علی خانؓ صاحب نے عطا فرمایا۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’1913ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل جاری کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ام ناصر صاحبہ نے ابتدائی سرمائے کے طو رپر اپنا کچھ زیور پیش کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریمؐ کی مددکی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو (یہ بھی ایک عاجزی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی) جو اس زمانے میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا۔ آپ نے اپنے دو زیور مجھے دے دئیے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں۔ ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے (سونے کے) اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے سونے کے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کیلئے رکھے ہوئے تھے۔ میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو میں وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے اور اس سے پھر یہ اخبار الفضل جاری ہوا۔‘‘

(الفضل 4جولائی 1924ء صفحہ4)

’’قارئین الفضل حضرت مصلح موعود ؓ کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعائوں میں یاد رکھیں کہ الفضل کے اجراء میں گو بے شک شعور رکھتے ہوئے تو نہیں لیکن اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ نے بھی حصہ لیا اور یہ الفضل جو ہے، آج انٹرنیشنل الفضل کی صورت میں بھی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کی دعائیں ہمیشہ ہمیں پہنچتی رہیں۔‘‘

(الفضل 20 ستمبر 2011ء صفحہ7)

پہلا دفتر

الفضل کے ابتدائی دفتر کے لئے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے اپنے مکان کی نچلی منزل کا ایک حصہ عطا فرمایا۔ اس کے اولین کاتب محمد حسین صاحب اور مینیجر مرزا عبدالغفور بیگ تھے۔

3 دسمبر 1914ء سے الفضل کے پرنٹر و پبلشر حضرت بھائی عبدالرحمان صاحبؓ قادیانی مقرر ہوئے جو 1947ء میں تقسیم ہند تک یہ فرائض سرانجام دیتے رہے۔

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 11؍فروری 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ