• 6 مئی, 2024

ممکنہ تیسری عالمی جنگ (قسط نمبر 6)

ممکنہ تیسری عالمی جنگ
قسط نمبر 6

22۔دنیا میں قیام امن کے لئے ہر ایک کو اپنا کردارلازماََ ادا کرنا ہوگا

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے فرمایا:
’’جماعت احمدیہ کو آواز بلند کرنی چاہئے اور وہاں رائے عامہ کو بیدار کرنا چاہئےاور ہر ملک میں بیدار کرنا چاہئے اور بار بار اخبارات میں لکھ کر اور لیڈروں سے مل کر ان کو سمجھانا چاہئے کہ ہم بڑے نازک دور سے گزر رہے ہیں آج اگر ہم نہ سنبھلے تو کل جو حالات پیدا ہونے والے ہیں اور مجھے دکھائی دے رہے ہیں ان میں اس سے زیادہ خوفناک عالمی جنگوں میں انسان کو جھونکا جائے گا جس کے تصور سے بھی آج ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہے گی اس جنگ کے مقابل پر جس کی تیاری آج امریکہ تمام دنیا کے لئے کر رہا ہے۔

(خطبات طاہر جلد12 صفحہ73۔74)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ 9؍مئی 2003ء میں فرمایا:
’’آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونے والی خبریں جو اس زمانہ میں ظاہر ہو رہی ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوتی چلی جائیں گی جن کو قرآن کریم نے بیان کیاہے اس میں جو ہم آج کل دیکھتے ہیں اس میں Radiation کا عذاب ہے اور Atomic Warfare ہے۔ فرمایا یَوۡمَ تَکُوۡنُ السَّمَآءُ کَالۡمُہۡلِ ۙ﴿۹﴾ وَتَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ ۙ﴿۱۰﴾ وَلَا یَسۡـَٔلُ حَمِیۡمٌ حَمِیۡمًا ﴿ۚۖ۱۱﴾ یُّبَصَّرُوۡنَہُمۡ ؕ یَوَدُّ الۡمُجۡرِمُ لَوۡ یَفۡتَدِیۡ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِئِذٍۭ بِبَنِیۡہِ ﴿ۙ۱۲﴾

(المعارج: 9-12)

جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو جائے گا اور پہاڑ دُھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے اور کوئی گہرا دوست کسی گہرے دوست کا (حال) نہ پوچھے گا۔ وہ اُنہیں اچھی طرح دکھلا دیے جائیں گے۔ مجرم یہ چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ میں دے سکے اپنے بیٹوں کو۔

جب Atomic Warfare ہو تو اس وقت یہ ممکن ہے کہ آسمان کَالْمُھْل یعنی پگھلے ہوئے تانبے کی طرح دکھائی دے۔ اس میں Radiation کے عذاب کی طر ف اشارہ ہے جو کہ اتنی خوفناک چیز ہے کہ اب تک جہاں جہاں تجربے ہوئے ہیں وہاں لازماً یہی باتیں دکھائی دی ہیں کہ وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ کوئی اپنے کسی گہرے دوست کوبھی نہیں پوچھتا۔ یہاں تک کہ عورتیں اپنے بچوں کو بھول گئی ہیں اور ہرایک کے اندر Atomic Warfare سے یا Radiation سے اتنی خوفناک گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کہ اگر اس وقت کسی سے پوچھا جائے تو وہ اپنے بچوں کوقربان کرنے کے لئے بھی تیار ہوجاتی ہیں کہ اس مصیبت سے نجات ہو کسی طرح۔

دوسری جنگ عظیم میں یہ نظارے دیکھے گئے حالانکہ وہ بہت کم طاقت کے ایٹم بم تھے اور اب تو اس سے کئی گنا زیادہ طاقت کے ایٹم بم تیار ہو چکے ہیں اور اس وقت جو دنیا کے حالا ت ہیں وہ یہی نظر آ رہے ہیں کہ دنیا بڑی تیزی سے تباہی کے کنارے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پس آج ہمیشہ کی طرح جماعت احمدیہ کا فرض ہے، جس کے دل میں انسانیت کا درد ہے کہ انسانیت کو بچانے کے لئے دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں۔ دنیا خدا کو پہچان لے اور تباہی سے جس حد تک بچ سکتی ہے بچے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد اول صفحہ29۔30)

In 2004, His Holiness launched the annual National Peace Symposium in which guests from all walks of life come together to exchange ideas on the promotion of peace and harmony. Each year, the symposium attracts many serving ministers, parliamentarians, politicians, religious leaders and other dignitories.

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 22؍اکتوبر 2008ء کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز سے خطاب فرمایا جس میں آپ نے ’’عالمی مسائل کی بابت اسلامی نقطۂ نظر‘‘ کے زیر عنوان ایک عظیم الشان مضمون بیان فرمایا:
اپنے اس خطاب میں آپ نے بہت سی جہت سے امن عالم کی تباہی کے اسباب اور اہم وجوہات کا ذکر فرمایا اس میں آپ نے ایک وجہ یہ بیان فرمائی کہ انصاف کا نفاذ حقیقی معنوں میں نہ کیا جانا، اسی طرح ایک اور بہت بڑی وجہ آپ نے بیان فرمائی کہ سودی نظام کے ذریعے استحصال۔

آپ کے خطاب کا اردو مفہوم

گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں۔ ان کی وجوہات جو بھی ہوں ایک وجہ جو سب سے اوپر سامنے آتی ہے کہ انصاف کو اس کی حقیقی شکل میں نافذ نہ کیا گیا۔ جس صورتحال کو سمجھا گیاکہ آگ کو بجھا دیا گیا ہے دراصل اس کو وقتی طور پر دبا دیا گیا اور اس طرح کے انتظام میں بعدہٗ ایک زور دار آگ بھڑک کر ساری دنیا کو دوسری دفعہ گھیر لیتی ہے۔ آج کل بے چینی بڑھ رہی ہے اور جنگ اورامن کی کوششیں ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بنتی نظر آرہی ہیں۔ مزید بر آں موجودہ معاشی اور معاشرتی مسائل اس صورتحال کو مزید بگاڑنے کا سبب بنیں گے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 16)

ترقی یافتہ ممالک کا غیر ترقی یافتہ ممالک کی معدنیات اور دوسرے وسائل کی لوٹ گھسوٹ، اس بارے میں فرمایا:
اردو مفہوم: اس بارہ میں کئی مصنفین جنہوں نے اس سے قبل بطور مشیر حکومتوں کے ساتھ کام کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ کیسے ایک ملک نے کسی دوسرے ملک کے وسائل کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ یہ مصنفین کہاں تک سچے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، لیکن ان کتابوں کو پڑھ کر ان لوگوں کے دلوں میں شدید انگیخت پیدا ہوتی ہے جو اُن غریب ممالک سے محبت رکھتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے جو دہشت گردی کو بڑھا رہی ہے اور ایک دوڑ شروع ہوگئی ہے ایسے ہتھیاروں کی جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے میں کام آسکیں۔ 2012ء کو حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، نے جرمنی کے ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں خطاب فرمایا اور آپ نے ’’اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وطن سے محبت اور وفا‘‘ کی ذیل میں قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں آپ نے فرمایا اسلام ہمیں منافقت اور دوغلے پن سے منع فرماتا ہے۔ سچی وفاداری کا تقاضا ہے کہ تعلق کلیةً مخلصانہ ہو۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 19)

اردو مفہوم: اسلام کا اولین اور عظیم بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی شخص کے قول اور فعل میں دو رنگی یا منافقت نہیں ہونی چاہئے۔ سچی وفاداری ایسے تعلقات کا تقاضا کرتی ہے جن کی بنیاد خلوص اور پختہ یقین پر ہو۔

آپ نے مزید فرمایا: اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ حُبُ الوَطنِ مِنَ الْاِیْمَان (حدیث نبوی ﷺ) یعنی وطن سے محبت ایمان کے اجزاء میں سے ایک ہے۔۔۔ فرمایا: بہترین طریق یہی ہے کہ دنیا اپنے خالق کو پہچان لے۔ ہر قسم کی وفاداری کا معیار خدا تعالیٰ کے ساتھ فرد کی وفا کے معیار سے منسلک ہے۔ا گر ایسا ہو جاتا ہے تو ہم خود اپنی آنکھوں سے ایک اعلیٰ معیار کی وفاداری تمام ممالک کے عوام میں اپنے اپنے وطن کے لئے دیکھیں گے اور اس طرح سے ہمارے لئے دنیا میں امن اور سلامتی کی نئی شاہراہیں کھل جائیں گی۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 28)

اردو مفہوم: اس کو سرانجام دینے کا بہترین طریق یہی ہے کہ دنیا اپنے خالق کو پہچانے۔ ہر قسم کی وفا کا معیار اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفا کی روشنی میں پرکھاجائے۔ اگر یہ ہو جائے تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ ہر ملک کے عوام نے ایک اعلیٰ معیار وفا کا اپنا لیا ہے اورساری دنیا میں ہر علاقہ میں ایسی نئی شاہراہیں کھل جائیں گی جو ہم کو امن اور تحفظ کی طرف لے چلیں گی۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 37)

مارچ 2012ء کو جماعت احمدیہ نے نویں سالانہ امن سمپوزیم کا انعقاد کیا۔ اس سمپوزیم کا موضوع تھا:

The Devastating Consequences of a Nuclear War and the Critical Need for Absolute Justice

ترجمہ: ایٹمی جنگوں کے ہولناک نتائج اور بے لاگ انصاف کی اشد ضرورت۔

حضور نے اپنے خطاب میں فرمایا:
اردو مفہوم: کہا جاتا ہے کہ اگرچہ سات دہائیاں گزر چکی ہیں مگر ایٹمی تابکاری کے بد اثرات آج تک جو بچے پیدا ہورہے ہیں اُن کی تخلیق میں نظر آتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو اتفاقاً بندوق کی گولی لگ جائے تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ علاج معالجہ سے تندرست اور نارمل زندگی میں لوٹ آئے گا، لیکن اگر ایٹمی جنگ شروع ہوتی ہے تو جو اس کی زد میں آئیں گے اُن کے بارے میں ایسا بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ جو بچ جائے گا وہ دیکھے گا کہ ان کی موت آناً فاناً ہوئی، وہ ایک بت کی طرح جم گئے، اور اُن کی جلد پگھل چکی تھی۔ پینے کا پانی، خوراک اور ہر قسم کا سبزہ اس تابکاری سے لتھڑ جائے گا اور اس کے بعد تابکاری کے یہ اثرات بیماریوں کا باعث بنتے چلے جائیں گے۔ وہ علاقے جو اس جائے حادثہ سے دور ہوں گے اور بلاواسطہ نشانہ نہ بنیں گے اور وہاں تابکاری کے اثرات کمتر ہوں گے وہاں بھی بیماریوں کی بہتات ہو جائے گی اور عمومی صحت بہت زیادہ متاثر ہو گی اورآنے والی نسلیں بھی بہت سے خطرات سے دوچار ہو جائیں گی۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 51)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 3 اور 4؍دسمبر 2012ء کو برسلز میں یورپین یونین کے 30 ممالک کے 350 اراکین کو خطاب فرمایا۔ اس خطاب کا عنوان تھا:

عالمی یکجہتی- عالمی امن کی کنجی ہے

اس خطاب سے چند اقتباسات ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں۔

اردو مفہوم: فرمایا یورپین یونین کا قیام یورپی ممالک کی بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس طرح سے آپ نے ایک براعظم کو متحد کیا۔ پس آپ کو اس اتحاد کو قائم رکھنے کی خاطر ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور اس کی بنیاد ایک دوسرے کے حقوق کا احترام ہے۔ عوام الناس میں پائے جانے والے تفکرات اور خوف کو دور کرنا ضروری ہے۔ ایک دوسرے کی معاشرت کے تحفظ کے لئے، آپ کو ایک دوسرے کے معقول مطالبات کو ماننا چاہئے اور یہ تو بہر طور ضروری ہے کہ کوئی فریق غیر معقول مطالبات نہ ہی کرے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE Page 106)

آپ نے مزید ارشاد فرمایا:
اردو مفہوم: ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا میں بسنے والے افرادبھلے وہ افریقہ، یورپ، ایشیا یا کسی اور براعظم سے تعلق رکھتے ہوں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کو شاندار دماغ دیا ہوا ہے۔ اگر تمام گروہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو نسل انسانی کی بہبود کے لئے استعمال کریں تو ہم دیکھیں گے کہ یہی دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ بہر حال اگر ترقی یافتہ ممالک غیر ترقی یافتہ یا کم ترقی یافتہ ممالک کی ترقی اور تعمیر کو دباتے رہیں گے اور اُن کے زرخیز دماغوں کو مواقع نہیں دیں گے تو ایسی صورت میں بے چینی بڑھے گی اور بد امنی پھیلے گی اور بین الاقوامی امن کو برباد کر دےگی۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE Page 51)

موٴرخہ 23؍مئی 2015ء کو ٹوکیو میں حضور نے ارشا د فرمایا: کئی سالوں سے میں خبردار کر رہا ہوں کہ دنیا اس بات کو تسلیم کرے کہ کسی ایک علاقہ میں جنگ جو لڑی جائے گی وہ دنیا کے دوسرے علاقوں کا امن و امان اور سکون متاثر کر سکتی ہے اور کرے گی۔

حضور نے بارہویں نیشنل پیس سیمپوزیم سے خطاب کے دوران فرمایا: اب جب کہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک اور عالمی جنگ سے بچنا بہت مشکل ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ وقت ہے دنیا جاگے اور اس خطرہ کی روک تھام کرے۔ ایسا کرنے کے لئے تمام دنیا کے لوگ اور ان کے سربراہان کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ صرف ایک رخ کو دیکھنا چھوڑیں اور یہ کہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ ہی ان کے پیش نظر نہ ہو۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 108)

جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام 27؍جون 2012ء کو جماعت احمدیہ عالمگیر کے سربراہ خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی میں خطاب فرمایا۔ حاضرین میں امریکن کانگریس اراکین، سینیٹرز، ایمبیسیڈرز، وہائٹ ہاؤس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سٹاف، سربراہان، مذہبی سربراہان، پروفیسرز، پالیسی ایڈوائزرز، بیوروکریٹس، نمائندگان تھنک ٹینکس اور پینٹاگان اور صحافی شامل تھے۔ اس خطاب کو بہت بڑی تعداد میں جن بااثر سیاستدانوں اور عہدیداران نے سنا اور ان میں ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز کی ڈیموکریٹ لیڈر عزت مآب نینسی پولیسی بھی شامل ہیں۔ اس خطاب کا عنوان:

شاہراہِ امن۔۔۔۔ قوموں کے مابین منصفانہ تعلقات

اس خطاب سے چند اقتباسات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔

پس اسلام نے ہماری توجہ امن کے مختلف ذرائع کی طرف دلائی ہے۔ یہ مکمل انصاف کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ تمام صورتوں میں سچی گواہی دی جائے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ دوسروں کے اموال کو حاسدانہ نظروں سے نہ دیکھا جائے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے خالص ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ دیں بلکہ ان پر لازم ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو بے لوث اور بے غرض امداد اور خدمات مہیا کریں۔ اگر ان تمام ہدایات کو ممالک اپنا منشور بنائیں گے تو ہی سچا اور دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔ اگر متذکرہ بالا تمام امور پر عمل درآمد کے باوجود کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر چڑھ دوڑتا ہے اور چاہتا ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک کے وسائل پر قبضہ کرلے، تو ایسے میں لازم ہے باقی تمام ممالک اس ظلم کے تدارک کے لئے ضروری قدم اُٹھائیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ ان اقدامات کو اختیار کرتے وقت انصاف پر قائم رہیں۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 89- 90)

آپ نے مزید ارشاد فرمایا:
ترجمہ: مزید برآں اگر وہ ممالک جن کو اقوام متحدہ میں ویٹو کا حق حاصل ہے اگروہ سوچیں کہ ان کو اپنے اعمال کی بابت ان کو حساب دینا ہے، کیا ایسے میں حقیقی انصاف قائم ہو سکتا ہے۔ در حقیقت میں ایک قدم اور آگے جاؤں گا اور یہ کہوں گا کہ ویٹو کے حق کی موجودگی میں کیسے ہو سکتا ہے کہ امن قائم ہو سکے، کیونکہ ویٹو اختیار کے ہوتے ہوئے صاف نظر آرہا ہے کہ سب اراکین کا حق ایک سا نہیں ہے۔یہ اہم نقطہ ہے جسے اس سے قبل میں نے اس سال اپنے خطاب میں پیش کیا جو میں نے کیپیٹل ہل میں امریکہ کے سرکردہ سیاستدانوں اور پالیسیاں وضع کرنے والے نمائندگان کے سامنے کیا تھا۔ اگر ہم اقوام متحدہ کی ماضی میں ہونے والی رائے شماریوں کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ویٹو کے حق کا استعمال نہ تو ہمیشہ زیر عتاب قوموں کے حق میں اور نہ ہی ان کی حمایت میں استعمال ہوا جو حق بجانب تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے کئی مواقع پر دیکھا کہ ویٹو پاور کا غلط استعمال کیا گیااور ظلم کی مدد اور اس کے سہولت کار کے طور پر اسے استعمال کیا گیا بجائے یہ کہ ظلم کو روکنے کے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ کئی تبصرہ نگار اس پر رائے زنی کر چکے ہیں۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 111)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہیمبرگ جرمنی میں 2012ء میں ملٹری ہیڈکوارٹرز کوبلنز جرمنی سے خطاب فرمایا جس کا موضوع تھا

کیا مسلمان مغربی معاشروں کا حصہ بن سکیں گے؟

چند اقتباسات ذیل میں پیش خدمت ہیں:
کیسے ایک عام شہری اپنے ملک کو ظلم اور ناانصافی کرنے سے روک سکتا ہے۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ اس و قت تمام مغربی ممالک میں جمہوریت کا غلبہ ہے۔ اگر ایک منصفانہ سوچ رکھنے والا شہری یہ دیکھتا ہے کہ اس کاملک استحصال کر رہا ہے تو پھر اس کو اپنی آواز اس کے خلاف اٹھانی چاہئے اور وہ کوشش کرے کہ اس کا ملک صحیح راستہ کو اختیار کرے یا پھر کچھ لوگ مل کر یہ کام کریں اور اگر کوئی شہری یہ دیکھتا ہے کہ اس کا ملک کسی دوسری قوم کی آزادی کو سبوتاژ کرنا چاہ رہا ہے تو ایسے میں اس کو کوشش کر کے اپنی حکومت سے اس رویہ کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ اگر کوئی شخص پر امن طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا ہے تو یہ کوئی باغیانہ رویہ نہیں ہے۔امر واقع یہ ہے کہ یہ آپ کا اپنے وطن سے سچی محبت کا اظہار ہے۔ ایک منصف مزاج شہری یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے ملک کی اچھی شہرت پر بین الاقوامی سطح پر کوئی دھبہ لگے لہذا جب وہ اپنے وطن کے ارباب اقتدار سے ان کی ناانصافی سے متعلق سوال اٹھاتا ہے تو یہ اس کی اپنی قوم کے ساتھ محبت اور وفا کا ثبوت ہے۔ جہاں تک بین الاقوامی کمیونٹی اور اداروں کا تعلق ہے، اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ جہاں ایک ملک جارحانہ طور پر کسی دوسرے ملک پر حملہ آور ہو تو پھر باقی قوموں پر لازم ہے کہ متحدہ طور پر اس کو جارحیت سے روکیں اور اگر جارح ملک اپنے رویہ میں تبدیلی کر لے اور پسپائی اختیار کرے تو پھر ایسے میں اس صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر ظالمانہ سزاؤں اور غیر منصفانہ فیصلوں کو نہ تھوپا جائے۔ پس اسلام ہر قسم کی صورتحال کا حل اور علاج مہیا کرتا ہے۔ اسلامی تعلیم کا لب لباب یہ ہے کہ تم نے ہر سُو امن کو پھیلانا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے مسلمان کی یہ تعریف بیان فرمائی کہ اُس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے (پر امن) لوگ محفوظ رہتے ہیں۔جیسا کہ میں نے اس سے قبل کہا ہے کہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ گناہ اور زیادتی (ظلم) میں ایک دوسرے سے تعاون مت کرو۔ یہ ایسی خوبصورت تعلیم ہے کہ جو مسلمان کو خواہ وہ کسی بھی ملک میں رہ رہا ہو ایک ممتاز اور معزز مقام عطا کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کے تمام مخلص اور بااخلاق لوگ اس بات کو پسند کریں گے کہ متذکرہ بالا صفات کے حامل شہری ان کے معاشرہ کا حصہ بنیں۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 124-125)

آپ نے مزیدارشاد فرمایا:
ترجمہ: ایک انتہائی خوفناک تباہی ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ پس اس تباہی سے بچنے کے لئے ہر ملک اور ہر ایک فرد کو خواہ وہ مذہبی رجحان رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ بہت احتیاط سے قدم اُٹھائے۔ دعا ہے کہ ایسا ہو جائے کہ ہر فرد اس دنیا کا اس وقت کی ضرورت کو جان لے۔ آخر میں، میں آپ سب کا دوبارہ شکریہ ادا کروں گا کہ آپ نے وقت نکالا اور یہاں آنے کی زحمت کی اور پھر توجہ سے سنا جو میں نے بیان کیا۔ دعا ہے آپ سب پر اللہ تعالیٰ کا رحم ہو۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 132)

جون 2013ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے برطانیہ کی پارلیمنٹ کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ہاؤسز آف پارلیمنٹ میں ایک خطاب فرمایا جس میں 68 اعلیٰ عہدیداران کے علاوہ 30 اراکین پارلیمنٹ 12 اراکین دارالامراء 2 منسٹرز اور 6 کابینہ کے وزراء کے علاوہ دیگر معززین شامل تھے۔ اس تقریب کو ریکارڈ اور نشر کرنے کے لئے بی بی سی اور ٹی وی اور دیگر تمام میڈیا کے نمائندگان موجود تھے۔ اس موقع پر حضور نے ’’اسلام – امن اور ہمدردی والا مذہب‘‘ کے موضوع پر حاضرین کو خطاب فرمایا۔ ذیل میں چند اقتباسات پیش ہیں۔

آپ نے فرمایا:
دنیا اس وقت سمٹ کر ایک دوسرے کے بہت قریب آچکی ہے۔ اس طرح باہمی عزت و احترام کا فقدان اور ایک دوسرے کے ساتھ قیام امن کی راہ عدم تعاون نہ صرف مقامی طور اس علاقہ یا شہر کے نقصان کا باعث ہو گا بلکہ اس کے بر عکس آخر کا ر یہ دنیا کی تباہی کا مو جب بن جائے گا۔ ہم سب گزشتہ دو عالمی جنگوں سے ہونے والی تباہی سے آگاہ ہیں۔ مگر بعض ملکوں کی بعض حرکات سے ایسا لگتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ قریبی افق پر منڈلارہی ہے۔ اگر عالمی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو مغربی ممالک اس کی تباہیوں کے دوررس نتائج سے شدید طور پر متاثر ہوں گے۔ آئیں ہم ملکر اس ممکنہ تباہی سے اپنے آپ کو بچائیں۔ آئیں ہم مل کر اپنی آنے والی نسلوں کو جنگ کی ہولناکیوں اور دردناک نتائج سے محفوظ کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایٹمی جنگ سب سے بڑھ کر خوفناک نتائج کی حامل ہو گی اور جس انداز سے دنیا اس وقت چل رہی ہے یہ ایک ایٹمی جنگ کے آغاز کے امکانات کے قریب ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ کوشش کی جائے کہ ہم انصاف، سچائی اور ایک اعلیٰ اقدار کے قیام کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اس طرح سے اُس طبقہ کی جو نفرت کو فروغ دے کر دنیا کے امن کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے، اُس کو ناکام بنائیں۔ یہ میری خواہش ہے اور میری دعا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو تمام طاقتیں حاصل ہیں وہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو اس قابل کرے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنا فرض اس سلسلہ میں حقیقی دیانتداری اور انصاف سے ادا کریں۔ آمین

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE PAGE:149)

نومبر 2013ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نیوزی لینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ سے ایک تاریخی خطاب فرمایا، اس خطاب کی ایک جھلک ذیل میں ہے۔ فرمایا:
ہم کو نہیں بھولنا چاہئے اُن دل دہلا دینے والے نتائج کو جو گزشتہ دو عالمی جنگوں کی وجہ سےگزشتہ صدی میں دنیا کو بھگتنا پڑے۔شدید تباہی جو ان دو جنگوں کی وجہ سےآئی خاص طور پر دوسری جنگ عظیم اِن تباہیوں کا کسی کو گمان تک نہ تھا۔

دوسری جنگ عظیم میں قریباً 700 لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے اور کہا جاتا ہے کہ ان میں 400 لاکھ افراد جو تھے وہ غیر فوجی تھے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ فوجی سپاہیوں سے زیادہ تعداد میں غیر فوجی یعنی شہری آبادی ہلاکت سے ہمکنار ہوئی۔ مزید یہ کہ اس جنگ کے نتیجے میں جو عوامل ظہور پذیر ہوئے وہ سچ مچ بہت زیادہ خوفناک تھے لہٰذا اُن کے سبب جو اموات ہوئیں اُن کی تعداد بھی لاکھوں میں جا پہنچتی ہے۔ کئی سالوں تک تابکاری کے اثرات کے باعث اُن علاقوں میں جہاں بم گرائے گئے تھے جو بچے پیدا ہوتے تھے اُن کی جسمانی ہیئت خوفناک حد تک متاثر ہوتی رہی۔

آج کی دنیا میں بعض چھوٹے ممالک نے بھی ایٹم بم بنا لئے ہیں اور ان کے سربراہان کو بٹن دبانے کا بہت شوق ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُن کو اُن خوفناک نتائج کا ادراک ہی نہیں ہے جو اُن کے اس غیر ذمہ دارانہ عمل سے ظاہر ہو ں گے۔ پس اگر آج ہم تصور کریں ایٹمی جنگ کا یہ تصور انسان کو اس بری طرح سے متاثر کرتا ہے کہ وہ مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایٹم بم جو اس وقت بعض چھوٹے ممالک کے پاس ہیں وہ ان بموں سے بہت زیادہ طاقتور ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں استعمال کیے گئے تھے اور اس طرح سے اُن لوگوں کو جو اس دنیا میں امن کے قیام اور اس کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں بہت ہی زیادہ فکر مندی کا باعث بن رہے ہیں۔

پچھلے سال مجھے ایک موقع ملا اور میں نے واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہل میں خطاب کیا تھا۔ اس خطاب کو سننے والوں میں بہت سے سینیٹرز، کانگریس مِن، تھنک ٹینک کے نمائندگان اور زندگی کے گوناگوں شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ میں نے واضح طور پر ان سے کہا تھا کہ انصاف کے تقاضوں کو صرف اسی صورت میں پورا مانا جائے گا اگر تمام طبقات اور تما م قوموں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک کیا جائے۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ امیر اور غریب ملکوں کے فرق کو اور چھوٹے اور بڑے ملکوں کے فرق کو ہوا دیتے اور اگر تم ویٹو پاور کو ناانصافی کے فروغ کے لئے استعمال کرتے ہو تو پھر ایسے میں بے چینی اور بدامنی لازمی طور پر فروغ پائے گی۔

میں نے اسلام کی بعض تعلیمات کو جو قیام امن سے متعلق ہیں ان کے سامنے رکھیں لیکن میں واضح کردوں کہ وقت کی کمی کے باعث میں نے چند ہی تعلیمات کو بیان کیا تھا۔ امر واقع یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم بھری پڑی ہے ان احکامات سے جو دنیا میں امن اور تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔ انصاف کے قیام کی خاطر قرآنِ کریم کی سورۃ 5 کی آیت 9میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے ایماندارو تم انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کیلئے استادہ ہو جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو۔ تم انصاف کرو وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے یقیناً آگاہ ہے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 159 – 165)

اکتوبر 2015ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نیدر لینڈ کی پارلیمنٹ کی امور خارجہ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے اراکین اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے ملک ے دارالحکومت ہیگ میں خطاب فرمایا اس میں حاضرین کی تعداد 100 تھی۔ اس میں البانیہ کروشیا مونٹی نیگرو سپین اور سویڈن کے سفیروں نے بھی شرکت کی اس موقع پر حضور نے ایک تاریخی خطاب فرمایا۔

World Peace & Security – The Critical Issues of Our Time

حضور کے اس خطاب سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ طاقتور اقوام اکثر غریب اقوام کے معدنی وسائل سے استفادہ کرتی ہیں اورایسے میں ان غریب قوموں کو ان کے وسائل کا جائز حق بالکل بھی نہیں دیا جاتا۔ پس ایک طویل فہرست ہے ان ممکنہ وجوہات کی کہ کیوں اور کیسے امن عالم کو متزلزل کیا جا رہا ہے، ان میں سے چند کو میں نے بیان کیا ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں میں یقینی طور پریہ سمجھتا ہوں کہ دنیا میں امن کا فقدان موجودہ نسل انسانی کی غیر یقینی کیفیات بڑی وجہ ہے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 174)

آپؑ نے مزید ارشاد فرمایا:
ترجمہ: وقت کی کمی کے باعث میں زیادہ تفصیل سے بات نہیں کرسکا لیکن بہرطور میں بعض بنیادی اسلامی تعلیمات بیان کروں گا اور کسی شک و شبہ سے بالاتر یہ ثابت ہو جائے گا کہ اسلام ایک پُر امن مذہب ہے۔ جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا کہ اسلام پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اسلام جنگ اور انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورۃ البقرہ آیت 191میں فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ جنگ صرف دفاعی حالت میں ہی جائز ہے۔ پھر اس نقطہ پر سورۃ الحج آیت 40 میں اس طرح زور دیا گیا ہے کہ فرمایا جنگ کی اجازت صرف ان لوگوں کو دی جا رہی ہے جن پرحملہ کیا گیا اور ان پر جنگ مسلط کی گئی۔ اس کے علاوہ مسلم حکومتوں کو جنگ کی اجازت صرف اس حد تک ہے کہ مذہبی آزادی کے تحفظ کی خاطر جنگ کی جائے گی۔ پس سورۃ البقرہ آیت 194 میں فرمایا اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ ان کو اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی (ایسے ملک کے ساتھ) جنگ میں ملوث ہوں جہاں مذہبی آزادی موجود ہے۔

(WORLD CRISIS AND PATHWAY TO PEACE, Page 177)

(سید انور احمد شاہ۔بُرکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

کمپوزر حضرات سے درخواست

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 فروری 2023