• 5 مئی, 2024

حاصل مطالعہ (قسط 16)

حاصل مطالعہ
قسط 16

ارشادات نبویؐ

مسلمانوں کو جو بھی تھکاوٹ، بیماری، بے چینی، تکلیف اور غم پہنچتا ہے، یہاں تک کہ اگر اس کو کوئی کانٹا بھی لگتا ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کی بعض خطائیں معاف کر دیتا ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب المرضی، باب ماجاء فی کفارۃ المرض)

تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے باپ اور اس کے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اسے پیارانہ ہوں۔

(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حُبُّ الرَّسُول صلی اللہ علیہ و سلم من الایمان)

رنگ اور زبان ایک ہی تھی

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَمِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَاَلۡوَانِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡعٰلِمِیۡنَ ﴿۲۳﴾

ترجمہ:اور اس کے نشانات میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کے اختلاف بھی۔ یقیناً اس میں عالموں کے لئے بہت سے نشانات ہیں۔

(روم: 23)

اس آیت کے متعلق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’تُو قرآن میں زبان اور رنگ کے اختلاف کے بارہ میں ایک ہی جگہ ذکر پائے گا پس خداتعالیٰ ان دونوں کو ایک جگہ ذکر کرنے سے یہی اشارہ کرتا ہے کہ زبان ایک زمانہ میں ایک تھی چنانچہ رنگ بھی ایک زمانہ میں ایک تھا پھر طول زمانہ کے بعد دونوں میں اختلاف ہوگیا۔‘‘

(منن الرحمٰن صفحہ215 روحانی خزائن جلد9)

قویٰ مضبوط کرنے کا نسخہ

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ذکر الٰہی سے قویٰ مضبوط ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ بوڑھے جوان ہو جاتے ہیں اور اس امر کا ثبوت قرآن شریف سے ہی ملتا ہے۔ حضرت زکریاؑ نے اپنی کمزوری کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج یہی بتایا ہے کہ تم ذکر الٰہی کرو اور تین روزتک کسی سے کلام نہ کرو۔ چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور خدا نے جیتی جاگتی اولاد عطا فرمائی۔‘‘

(الحکم 30؍ستمبر 1903)

ایک ایمان افروز روایت

آج بتاریخ 7؍اکتوبر 1927ء بروز جمعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بہت بڑی یاد گار اور خدا وند عالم کی ایک زبر دست آیت مقبرہ بہشتی میں سپر د خاک ہوگئی یعنی میاں عبداللہ صاحب سنوری کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کا وہ کرتہ جس پر خدائی روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے دفن کر دیا گیا۔خاکسار نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں میاں عبداللہ صاحب کی زبانی وہ واقعہ قلم بند کیا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے کرتہ پر چھینٹے پڑنے کے متعلق ہے۔حضرت صاحب نے میاں عبداللہ صاحب کے اصرار پر ان کو یہ کرتہ عنایت کر تے ہوئے ہدایت فرمائی تھی کہ یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر ان کے ساتھ دفن کر دیا جاوے تاکہ بعد میں کسی زمانہ میں شرک کا موجب نہ بنے۔ سو آج میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر وہ ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔مجھے یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب نے اپنی زندگی میں کئی دفعہ دکھا یا تھا اور میں نے وہ چھینٹے بھی دیکھے تھے جو خدائی ہاتھ کی روشنائی سے اس پر پڑے تھے اور جب آج آخری وقت میں غسل کے بعد یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا تو اس وقت بھی خاکسار وہاں موجود تھا۔میاں عبداللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا دیا ہوا ایک صابن کا ٹکڑا اور ایک بالوں کو لگانے کے تیل کی چھوٹی بوتل اور ایک عطر کی چھوٹی سی شیشی بھی رکھی ہوئی تھی اور غسل کے بعد جو اسی صابن سے دیا گیا۔یہی تیل اور عطر میاں عبداللہ صاحب کے بالوں وغیرہ کو لگا یا گیا اور کرتہ پہنائے جانے کے بعد خاکسار نے خود اپنے ہاتھ سے کچھ عطر اس کرتہ پر بھی لگا یا۔ نماز جنازہ سے قبل جب تک حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی آمد کا انتظار رہا لوگ نہایت شوق او ر درد و رِقّت کے ساتھ میاں عبداللہ صاحب کو دیکھتے رہے جو اس کرتہ میں ملبوس ہو کر عجیب شان میں نظر آتے تھے اور جنازہ میں اس کثرت کے ساتھ لوگ شریک ہوئے کہ اس سے قبل میں نے قادیان میں کسی جنازہ میں اتنا مجمع نہیں دیکھا۔اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح کے سامنے میاں عبداللہ صاحب کو اس کرتہ کے ساتھ بہشتی مقبر ہ کے خاص بلاک میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سابقون اور اَوّلُون خدام کیلئے مخصوص ہے، دفن کیا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح نے دفن کئے جانے کے وقت فرمایا کہ جن لوگوں کے سامنے یہ کرتہ بعد غسل میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا ان کی ایک حلفیہ شہادت اخبار میں شائع ہونی چاہیے تاکہ کسی آئندہ زمانہ میں کوئی شخص کو ئی جعلی کر تہ پیش کر کے یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ کرتہ ہے جس پر چھینٹے پڑے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب مرحوم اَلسّٰبِقُوۡنَ السّٰبِقُوۡنَ میں سے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ان کو ایک غیر معمولی عشق تھا۔ میرے ساتھ جب وہ حضرت صاحب کا ذکر فرماتے تھے تو اکثر ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں اور بعض اوقات ایسی رقت طاری ہو جاتی تھی کہ وہ بات نہیں کرسکتے تھے، جب وہ پہلے پہل حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی عمر صرف اٹھار ہ سال کی تھی اور اس کے بعد آخری لمحہ تک ایسے روز افزوں اخلاص اور وفاداری کے ساتھ مرحوم نے اس تعلق کو نبھایا کہ جو صرف انبیاء کے خاص اصحاب ہی کی شان ہے۔ایسے لوگ جماعت کیلئے موجب برکت و رحمت ہوتے ہیں اور ان کی وفات ایک ایسا قومی نقصان ہو تی ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔مرحوم کو اس خاکسار کے ساتھ بہت انس تھا اور آخری ایّام میں جب کہ وہ پنشن لے کر قادیان آگئے تھے۔ انہوں نے خاص شوق کے ساتھ ہمارے اس نئے باغ کا انتظام اپنے ہا تھ میں لے لیا تھا جو فارم کے نام سے مشہور ہے اور جو یہ خاکسار کچھ عرصہ سے تیار کروا رہا ہے اور پھر مرحوم نے اس انتظام کو ایسی خوبی کے ساتھ نبھایا کہ میں اس کے تفکرات سے قریباً بالکل آزاد ہوگیا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو عالم اُخروی میں اعلیٰ انعامات کا وارث کرے اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے خاص قرب میں جگہ عطا فرمائے جن کا عشق مرحوم کی زندگی کا جزو تھا اور مرحوم کے پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق دے۔ اللّٰھم آمین بوقت وفات مرحوم کی عمر کم و بیش چھیاسٹھ سال کی تھی۔ وفات مرض فالج سے ہوئی جس میں مرحوم نے تیرہ دن بہت تکلیف سے کاٹے۔فالج کا اثر زبان پر بھی تھا اور طاقت گو یا ئی نہیں رہی تھی مگر ہوش قائم تھے۔یوں تو سب نے مرنا ہے مگر ایسے پاک نفس بزرگوں کی جدائی دل پر سخت شاق گذرتی ہے اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ صحبت یافتہ یکے بعد دیگرے گذرتے جاتے ہیں اور ابھی تک ہم میں اکثرنے ان سے وہ درس وفا نہیں سیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے لائے تھے اور جس کے بغیر ایک مذہبی قوم کی ترقی محال ہے۔

(سیرت المہدی جلد1، صفحہ396-398 مطبوعہ قادیان 2008ء)

ارشاداتِ امام

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
• ہر احمدی مرد اور عورت کا کام ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے تاکہ نیکیوں میں توفیق ملے، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔

(مستورات سے خطاب برموقع جلسہ سالانہ ہالینڈ 2019ء)

• احمدی مومن اور مومنہ میں دین میں بڑھنے کے لئے مسابقت کی روح ہونی چاہئے نہ کہ دنیاوی چیزوں کے لئے۔

(مستورات سے خطاب برموقع جلسہ سالانہ ہالینڈ 2019ء)

(مولانا عطاء المجیب راشد۔امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

کمپوزر حضرات سے درخواست

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 فروری 2023