• 24 اپریل, 2024

This Week with Huzoor مؤرخہ 18 فروری 2022ء

This Week with Huzoor
مؤرخہ 18 فروری 2022ء

اس ہفتہ کے دوران پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جماعت احمدیہ یوکے، کے ممبران کے ساتھ  دو ملاقاتیں ہوئیں۔

ہفتہ کے روز جماعت احمدیہ یوکے، کے چند نومبائعین نے حضرت خلیفۃ المسیح  ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی۔ اس کے اگلے ہی روز  جماعت احمدیہ یوکے کی مختلف جماعتوں کے صدران نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ  سے ملاقات کا شرف پایا۔

پہلی ملاقات

حضور سےاحمدیت میں داخل ہونے والے نومبائعین نے حضور انور سےملاقات کی۔ تلاوت اور مختصر رسمی پروگرام کے بعد کچھ نومبائعین نے اپنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے  کے سفر  کے حالات بیان کئے، جن میں سے دو نومبائعین کے بیان کردہ حالات ذیل  میں  بیان کرتے ہیں۔

 (پہلا مکالمہ)

زبیر ظفر صاحب (نومبائع)

میرا نام زبیر ظفر ہے اور میں 42 سال کا ہوں۔  میں شادی شدہ ہوں اور میرے 3 چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ نوجوانی کے ایام میں مجھے اسلام سے بے پناہ محبت تھی اور میں ہمیشہ یہ جانتا تھا کہ یہ سچا مذہب ہے۔ مگر افسوس کہ یہی وقت  میرے لئے الجھنوں کا وقت بھی تھا۔ اور میں سنی مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے مابین اختلاف کی زیادتی کو دیکھ کر دل برداشتہ تھا کہ جو میں ان کے درمیان دیکھتا تھا۔ میں ہمیشہ خود سے یہ سوال کرتا تھا کہ امت کے لئے یہ کیونکر  ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ کبھی بھی متحد ہوسکیں؟ اس وقت تک نہ ہی میں کسی احمدی کو جانتا تھا اور نہ ہی کسی احمدی سے کبھی ملا تھا۔ اور میں احمدیت کے متعلق اس کے سوا اور کچھ نہیں جانتا تھا کہ جو  بیان بازی بالعموم ان کے خلاف کی جاتی ہے۔ جو تھوڑا بہت میں نے ان کے متعلق سنا تھا  اورجس طرح ان کے عقائد کو میرے سامنے مختصراً  پیش  کیا گیا تھا، اس سے میں اسی نتیجہ پر پہنچتا تھا کہ یہ سچا مذہب نہیں ہے۔ میں ہمیشہ ایسے مباحثوں میں  مسئلہ صلیب کو  پریشان کردینے والا پاتا تھا  اور مجھے یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ وہ نقطہ ہے کہ جس میں عیسائیوں کو مسلمانوں پر برتری حاصل ہے۔ یہ حقیقت میرے لیے بہت پریشان کن تھی کہ بظاہر مسلمانوں میں، جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں مسلمانوں میں آپس میں مختلف، متضاد نظریات ہیں، اور یہ سب کچھ بغیر کسی تاریخی ریکارڈ یا ثبوت کے ہے۔

اور جواب کی تلاش کے دوران میں نے کافی مطالعہ  شروع  کردیا۔ اسی تلاش کے دوران میں نے الاسلام ویب سائٹ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کشمیر میں گمشدہ قبائل کے حوالے سے ایک مضمون پڑھا۔ مجھے اس وقت احساس تک نہیں تھا کہ میں ایک احمدی ویب سائٹ پر ہوں۔  وہ مضمون آنکھیں کھول دینے والا تھا اور میں مزید جاننے کے لیے بے چین تھا۔  یہ مضمون ایک کتاب Jesus in India (مسیح ہندوستان میں) سے منسلک تھی، اور میں نے اس کتاب کی  پی ڈی ایف کو کھولا اور یہ جانے بنا کہ  اس کے مصنف کون ہیں، سیدھا مرکزی ابواب  کا گہرا  مطالعہ شروع کردیا۔ سبحان اللہ، اس کتاب کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔  ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرے ہر سوال اور ہر مسئلہ کا جواب مہیا کیا جا رہا ہو ۔ جب میں  اختتام تک پہنچا اور یہ جانا  کہ مصنف کون ہیں  اور یہ کہ  انہوں  نے اپنے بارے میں کیا دعویٰ کیا ہوا ہے، تو میں پریشان ہو گیا، لیکن میں اِس  کتاب کے اثرات اور اس میں موجود مندرجات سے انحراف  نہیں کر سکا۔ اس کتاب  نے میرے بہت سارے سوالات اور مسائل کے جوابات دیئے کہ جو  مجھے عرصہ دراز سے پریشان کر رہے تھے۔ اس سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کی پیشگوئیوں کے موافق، جو  کسر صلیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام  نے  آکر کرنا تھا، اُس  کا اصل مطلب کیا ہے ۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفات  کو پڑھتا رہا اور ان کی تحریرات  اور بیانات سے محبت کرنے لگا  اور ان کے دعوے کا قائل ہوگیا۔ اس دوران مجھے یہ بھی محسوس ہوا  کہ جب بھی میرے ذہن میں اُن کی تحریرات کو پڑھتے ہوئے  کوئی سوال پیدا  ہوتا تو  وہ خود معاً  وہی سوال اٹھاتے اور پھر اس کا قائل کردینے والا جواب دیتے۔ میں نے pandemic (وبائی مرض) کے دوران ایک پورا سال مطالعہ کرنے  اور دعا  کرنے میں گزارا، لیکن اگر میں اب پیچھے مڑ کر دیکھوں تو میں کہوں گا کہ میں نے سچائی کو ابتداء ہی میں جان لیا تھا اور میں صرف تاخیر اور مزاحمت کر رہا تھا۔ میں واقعی اس جماعت میں داخل کر دیئے جانے پر خود کو بہت خوش نصیب محسوس کرتا  ہوں۔ جزاکم اللہ۔

حضور انور نے فرمایا

جزاک اللہ۔ ماشاء اللہ۔ بہت ایمان افروز تھا۔

(دوسرا مکالمہ)

عاصمہ  صاحبہ (نو مبائعہ)

میرا نام عاصمہ ہے اور میں محمد اطہر رانا صاحب  کی بیوی ہوں۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب  کو مسیح موعود اور امام مہدی کے طور پر قبول کرنے سے پہلے میں نے خواب دیکھے۔ میں نے تین خواب دیکھے جو مجھے اس طرف اشارہ کرتے تھےکہ احمدیت سچا مذہب ہے۔ اس موقع پر، میں نے دوسرے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا، اپنے دوستوں سے اور ایسے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ جن کے متعلق مجھے معلوم تھا کہ وہ غیر احمدی ہیں، کیونکہ میں خواب دیکھنے کے باوجود واقعی الجھن میں تھی۔ مجھے ناواقف رہنا بہتر لگ رہا تھا اور میں نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ (روتے ہوئے) ۔۔۔  میرے تمام غیر احمدی دوستوں نے مجھ سے کہا کہ احمدیوں کے بارے میں مطالعہ نہ کروں  کیونکہ وہ مجھ پر جادو کر دیں گے  اور اسی قسم کی دوسری باتیں،  لیکن ایسی باتوں نے مجھے کبھی بھی   نہیں روکا۔ ان باتوں نے  مجھے روکا نہیں بلکہ مجھے اور بھی متاثر کیا۔ چنانچہ میں نے الاسلام ویب سائٹ پر جانا شروع کیا اور مضامین، مزید کتابیں پڑھنا شروع کیں اور میں نے ہر روز تہجد کے لیے بیدار ہونے کی کوشش کی۔ اور میں اللہ سے التجا کر تی تھی  کہ وہ مجھے مزید نشان دکھائے اور میری  حق کی طرف راہنمائی کرے، اور یہ وہ وقت تھا کہ جب مجھے تیسرا خواب آیا۔ اپنے تیسرے خواب میں  (میں نےدیکھا کہ)میں آپ کا دست مبارک پکڑے بیعت کر رہی ہوں اور میں  نےساتھ ہی لڑکیوں کی ایک قطار کو دیکھا جنہوں نے کالےرنگ کے حجاب اوڑھے ہوئے تھے کہ وہ بھی اکٹھی آپ کے دست مبارک پر بیعت کر رہی ہیں اور اس وقت مجھے یقین ہوگیا کہ احمدیت سچا مذہب ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اچھا اچھا، ماشاء اللہ

پروگرام کے اگلے حصہ میں نومبائعین کو سوالات کرنے کا موقع ملا۔ چند سوالات اور ان کے جوابات جو کہ پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت دیئے وہ ذیل میں درج کئے جارہے ہیں۔

(ایک سوال)

ایک ممبر مجلس لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا۔۔۔

میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ Depression (ڈپریشن)  پر قابو  اور صبر کیسے حاصل کیا جائے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اگر آپ اللہ کو یاد کریں گی تو اللہ آپ کو  سکون دے گا۔ اس لیے جب  کبھی آپ کو ڈپریشن محسوس ہو  یا آپ پریشان ہوں، تو آپ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوں، اور اپنی نمازوں میں، اپنے نوافل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرویں، اللہ تعالیٰ سے رو کر دعا کریں کہ وہ آپ کو اس صورتحال پر قابو پانے کی توفیق عطا کرے اور آپ کے دل کو سکون اور صبر عطا کرے۔ تو یہی واحد حل ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ۔۔۔ (13:29) ۔۔۔ کہ دل کے سکون اور صبر کے لیے تمہیں اللہ کو یاد کرنا ہو گا۔  تو اب یہی ایک حل ہے اور اس کے  ساتھ ساتھ آپ کو اچھے دوست بنانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے جو آپ کے لیے مددگار ہوں اوریہ طریق بھی کام آئے گا۔

ایک اور ممبر لجنہ اماء اللہ کا سوال:

حضور! میرا سوال ہے کہ عورتوں کے لئے پردہ کے احکامات اسلام میں موجود ہیں لیکن اس حوالہ سے مردوں کے لئے کیا حکم ہے اور ہم اسے غیر مسلم پر کس طرح سے واضح کر سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ  نے فرمایا:

’’دیکھیں !جہاں عورتوں کو حکم ہے یہ کہ اپنی نظریں نیچی کرو اور اپنے چہروں کو چھپاؤ۔ اس سے پہلے مردوں کو حکم ہے، اس سے پہلی آیت میں، کہ اپنی نظریں نیچی کرو اور عورتوں کو پٹر پٹر نہ دیکھا کرو۔ جو   مرد کی فطرت ہے وہ ایسی ہے اور اسی لئےاللہ تعالیٰ نے پہلے حکم دیا ہے مرد کو، کہ عورتوں کو نہ دیکھو نظریں نیچی رکھو۔ اور ایک حقیقی اسلامی معاشرہ میں یہ ہوتا ہے۔

جب اخلاق بگڑ جائیں، جب دینی  قدریں نہ ہوں، جب دین سے دور انسان ہو جائے، دنیا دار بن جائے، تو پھر دنیاوی چیزیں، دنیاوی خواہشات رہ جاتی ہیں۔ تو اس لئے اسلام عورت کو تو بچانے کے لئے کہتا ہے کہ مرد کی جو فطرت ہے اُس نے تو باز نہیں آنا، باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، کہ نظریں نیچی کرو اور نہ دیکھو عورتوں کو، اس کے باوجود اُس نے ایسی حرکتیں کرنی ہیں۔ اس لئے قرآن شریف نے یہ بھی لکھا ہے کہ مردوں سے بات کرتے ہوئے  تمہارے لہجہ میں ذرا،  تھوڑی سی سختی ہونی چاہئے، تاکہ کوئی تمہاری نرم آواز سے غلط مطلب نہ لے لے۔ تو یہ انسانی جو فطرت بنائی ہوئی ہے اُس کے تقاضہ کے تحت احکامات ہیں اور عورت کو protection (تحفظ) دینے کے لئے پردہ کا حکم ہے، نہ کہ عورت پر ظلم کرنے کے لئے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پہلے اگر تم مردوں کی اصلاح کر لو اور ضمانت دے دو کہ مردوں کی اصلاح ہو گئی ہے تو پھر میں تمہیں کہوں گا کہ ہاں عورتوں کےپردہ میں relaxation (سہولت) ہونی چاہئے۔ لیکن مردوں کی اصلاح نہیں ہوتی۔ جب آدم کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا مقام دیا اس وقت شیطان نے جب  انکار کیا، ابلیس نے جب انکار کیا اور پھر یہ کہا اللہ تعالیٰ کو کہ مجھے مہلت دے کہ میں (اپنے) پیچھے چلانے کی کوشش کروں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ٹھیک ہے میں تمہیں مہلت دیتا ہوں اور جو لوگ میرے صحیح بندے ہیں، جو حقیقی بندےہیں، جو میرے حکموں پر چلنے والے ہیں، وہ تمہارے پیچھے نہیں چلیں گے۔ لیکن پھر بھی شیطان نے یہی challenge (چیلنج) دیا تھا کہ اکثریت میرے پیچھے ہی چلے گی۔ اور یہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اکثریت تمہارے پیچھے نہیں چلے گی۔ بلکہ یہی ہم دیکھتے ہیں کہ اکثریت شیطانوں کے پیچھے ہی چلتی ہے۔ شیطانی خیالات ہی رکھتے ہیں۔ نیک لوگ کم ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے کم ہوتے ہیں۔ اس لئے جو مومن عورتیں ہیں اُن کو یہی حکم ہے کہ تمہیں خود ہی اپنے آپ کو بچانا چاہئے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے، ایک فاصلہ رکھو مردوں سے،اور کھلے طور پر ظاہر نہ ہو،  کھلے طور پر mix (گھلنا ملنا) نہ ہو، اورجب بات کرو تو  تب بھی ایسے لہجہ میں بات کرو کہ کوئی تمہاری بات سے غلط message (مطلب) نہ لے لے۔  تو حکم تو دونوں کو ہیں، نیکی کرنے کے اور پردہ کرنے کے۔‘‘

ایک اور ممبر لجنہ اماء اللہ کا سوال

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا زمانہ ہزار سال کا ہے۔ ایک سو سال گزر گئے ، نو سو سال رہتے ہیں۔ تو اُس کے بعد definitely قیامت آئے گی نا؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا جواب:

ہاں،  تو وہ سارے سال  ملائیں تو اس کے بعد یہی ہے کہ قیامت ہے۔  لیکن، اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہ میں  نے  تمہارے سے جو پیشگوئیاں کی ہوئی ہیں جو تمہارے سے  وعدے کئے ہوئے ہیں وہ پورے کروں گا۔ وہ پورے ہوں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور اُس کو تو دنیا دیکھے گی، ابھی تو اُن میں سے بہت سارے وعدے پورے ہونے باقی ہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے (بعد)، جو عیسائیت پھیلی تھی اُس کو تین سو سال سے زائد عرصہ لگا تھا۔ 

ممبر لجنہ :

جی

حضور انور

لیکن آپ نے فرمایا کہ تین سو سال نہیں گزریں گے کہ اُس سے پہلے تم دیکھ لو گے کہ اسلام احمدیت کی اکثریت دنیا میں قائم ہوگئی ہے۔  تو اُس کے بعد ساری باتیں ہونی ہیں، ابھی تو بہت ساری پیشگوئیاں پوری ہونے والی ہیں بہت ساری باتیں ہونے والی ہیں اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن تھا وہ پورا ہوگیا۔ ابھی مشن پورا ہونا ہے، اور جب تک یہ پورا نہیں ہوتا اُس وقت تک ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی ترقی ہے اور اُس نے دنیا پر غلبہ پانا ہے اور پھر اسلام احمدیت کا غلبہ ہونا ہے (ان شاء اللہ)، اُس کے بعد پھر قیامت کے نظارے آنے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اُس وقت پھر برائیاں زیادہ پھیل جائیں گی وہ ایک بہت آگے کی بات ہے اُس کا ہمارے زمانہ سے کوئی تعلق نہیں، اُس کی فکر نہ کریں۔

ایک نومبائع کا سوال

حضور! آپ ایک نو مبائع کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے کیا نصیحت فرمائیں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ

دیکھیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نماز کے الفاظ سیکھنے کی کوشش کریں اور خاص طور پر سورۃ فاتحہ۔  اُس کو عربی زبان میں سیکھنے کی کوشش کریں اور پھر اُس کا ترجمہ۔ اور نماز ادا کرتے وقت، آپ کو یہ بھی  کوشش کرنی چاہئے کہ آپ اپنی روزانہ کی پنجگانہ نمازیں ادا کریں (اور حضور انور نے دست مبارک سے پانچ کے عدد کا اشارہ بھی کیا)۔ اور اگر ممکن ہو تو باجماعت ادا کریں۔ اس کے علاوہ آپ نوافل ادا کریں بطور زائد عبادت۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو اس بات کی طاقت عطا کرے کہ آپ اپنے دین پر ثابت قدم ہوں۔ اور اس سلسلہ میں محض اللہ سے مدد مانگیں۔ چنانچہ کبھی بھی کوئی نماز نہ چھوڑیں۔ اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ روزانہ پنجگانہ نمازیں فرض ہیں۔ اور آپ کو اُن کو ادا کرنا ہے۔ اور ان نمازوں کو بہت توجہ کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اور جب آپ سجدہ کی حالت میں جھکیں تو روکر خدا سے مدد طلب کریں۔ پھر چند ماہ میں آپ اپنے آپ میں تبدیلی دیکھیں گے۔

دوسری ملاقات

اس سے اگلے روز، جماعت احمدیہ یوکے کی مختلف علاقائی جماعتوں کے صدران جماعت کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا اور اُن سے مختلف معاملات میں راہنمائی حاصل کرنے کا شرف ملا۔

مبارک احمد خرم صاحب، صدر صاحب جماعت Tooting:

خاکسار کا سوال یہ ہے کہ تیسری عالمی جنگ کے  بڑھتے ہوئے خطرات پر حضور کچھ راہنمائی فرمانا پسند فرما ئیں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ

آپ کی جماعت نے کیا تیاری کی ہوئی ہے؟ آپ صدر جماعت Tooting (ٹوٹِنگ) ہیں؟

مبارک احمد خرم صاحب، صدر صاحب جماعت Tooting

جی حضور!

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:

عالمی جنگ ہوتی ہے تو وہاں بنکروں  کی ضرورت ہوگی۔ آپ نےکھول لئے ہیں؟

مبارک احمد خرم صاحب، صدر صاحب جماعت Tooting:

ہمارے پاس تو چھوٹا سا سنٹر ہے حضور!

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ

پھر راہنمائی کیا، گورنمنٹ خود ہی راہنمائی کر دے گی جب عالمی جنگ ہو گی۔ عالمی جنگ جب ہوگی تو جو حالات آج کل پیدا ہو رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ Ukraine اور Russia کی جنگ  شروع ہوگئی، تو یہ کہیں عالمی جنگ میں نہ منتج ہوجائے۔ اور اس کے نتیجہ میں پھر ہوسکتا ہے کہ Nuclear Weapons بھی استعمال ہوں۔ تو میں تو پہلے ہی کہتا رہتا ہوں کہ حکومتوں کو ہوش کرنی چاہئے۔ بظاہر Russia کہتا ہے ہمارا کوئی ارادہ نہیں، امریکہ اور یورپ کا ارادہ ہے کہ انہوں نے جنگ ضرور کرنی ہی کرنی ہے۔ اور جو حالات ہیں وہ ایسے ہیں کہ Ukraine کو چھوڑنا نہیں چاہتا، نہ یورپ اور نہ Russia، تو دیکھتے ہیں کہ کس کروٹ اونٹ بیٹھتا ہے۔ آپ لوگوں کا کام ہے دعا کرنا، دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ عالمی جنگ سے بچائے۔

نیز حضور انور  نے مسکراتے ہوئے فرمایا:

 اور آپ کا تو چھوٹا سا سنٹر ہے آپ کچھ اَور کر بھی نہیں سکتے۔ نہ گھروں کو بنکر بنا سکتے ہیں۔ جو ہوگا پھر دیکھی جائے گی۔ دعا ہی ہے جو بچا سکتی ہے آپ کو۔ 

مبارک احمد خرم صاحب، صدر صاحب جماعت Tooting:

جی حضور!

حضور انور

میں سمجھا  کہ آپ سوال کرنے لگے ہیں کہ ہماری جماعت میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے جہاں ہماری افراد جماعت کی سو فیصد  تعداد ایسی ہو جو پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے ہیں۔  اور بڑے خشوع و خضوع سے نمازیں پڑھتے ہیں۔ اور کس طرح ہم کوشش کریں کہ ساری جماعت جو ہے وہ قرآن کریم  کی تلاوت کرنے والی بن جائےاور کس طرح ہم کوشش کریں کہ ساری جماعت میں اللہ تعالیٰ سے تعلق ایسا پیدا ہوجائے کہ کوئی اُن کو ہلا نہ سکے۔ تو یہ کوششیں ہیں آپ لوگوں کی، جو آپ کا کام ہے وہ کریں۔  جب جنگ ہو گی تو یہی چیزیں آپ کو بچا بھی لیں گی۔

مبارک احمد خرم صاحب، صدر صاحب جماعت Tooting:

جی حضور ان شاء اللہ۔

حضور انور ایدہ  اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:

چلو، اللہ حافظ۔  بیٹھ جائیں۔

چوہدری رفیق صالح صاحب، صدر صاحب جماعت:

پیارے حضور! میرا سوال یہ کہ آج کل ہماری جماعت میں کچھ والدین اپنی بچیوں کے رشتہ کے بارہ میں کافی پریشان رہتے ہیں۔  اور مناسب رشتہ کی تلاش میں کافی struggle (تگ و دَو) کرتے ہیں۔ ایسے والدین اور نظام جماعت کو پیارے حضور کیا نصیحت فرمائیں گے؟

حضور انور

اتنی نصیحتیں جو میں کر چکا ہوں وہ آپ کے سامنے نہیں آئیں ابھی تک؟ سوال یہ ہے کہ رشتوں کا problem تو ہر جگہ ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے رشتوں کے لئے جن کو یہ ہوتا ہے کہ جماعت کے اندر رشتے ہوں۔ لیکن اگر کوئی ایسے مسائل ہوں اور عمریں لڑکیوں کی بڑھ گئی ہوں اور کوئی خاص حالات پیدا ہو جائیں تو پھر اُن کے حالات کے مطابق جو رشتوں کے بارہ میں ہدایات لینی ہوتی ہیں وہ والدین خود لکھ کر پوچھ لیتے ہیں۔ اور میں نظام جماعت کو اس کے مطابق کہہ بھی دیتا ہوں، بتا بھی دیتا ہوں کہ کیا سلوک کرنا ہے اُن سے۔ یہ problem آج سے  نہیں پیدا ہوئی۔ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہر ملک میں ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمۃ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں بھی تھی تب ہی آپ نے کہا تھا کہ رشتہ ناطہ کے سیکٹریان جو ہیں وہ elect نہ ہوں بلکہ appoint ہوں اور ایک سے زیادہ بھی بنائے جا سکیں۔ وہ اس لئے بنائے گئے تھے کہ رشتوں کے مسائل پیدا ہو رہے تھے اُس وقت بھی۔  اور اب بھی۔ اور اُن کا حل یہی ہے کہ جو جماعت کوشش کرسکتی ہے کرنی چاہئے۔ اس کے لئے میں مختلف مجالس میں، لجنہ میں بھی خدام میں بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ آنحضرت ﷺ نے جو ہمیں فرمایا ہے کہ تم رشتوں کے لئے دین کو دیکھو تو اُس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے، اُس کے لئے  ہمیں تربیت کی ضرورت ہے۔ اپنے شعبہ تربیت کو فعال کریں، جماعتی طور پہ۔ لجنہ بھی اپنے طور پہ کریں، خدام الاحمدیہ بھی اپنے طور پہ کریں، انصار اللہ بھی اپنے طور پہ کریں۔  تو ایک ایسا ماحول پیدا ہوجائے گا جو دینی ماحول ہوگا۔ تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس تربیت کی وجہ سے ایک ایسا دینی ماحول پیدا ہوگیا ہے جہاں لڑکا اَور لڑکی دونوں یہ چاہتے ہیں کہ دین کو ترجیح دی جائے۔ اور دین پر عمل کرنے والے رشتے ہمیں میسر آئیں۔ تو یہ تو آپ لوگوں کا کام ہے کہ کتنی تربیت کرتے ہیں (ممبران جماعت کی)۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لڑکے جو ہیں وہ اپنے طور پہ باہر چلے جاتے ہیں ، لڑکے شادیاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ بعض دفعہ  لڑکیوں کے ماں باپ جو ہیں  وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔ بعض  ایسے بھی ہیں اور اُن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، گو بہت زیادہ تو نہیں لیکن پھر بھی بڑھتی جارہی ہے جو کہتے ہیں کہ لڑکیاں ہماری پڑھ رہی ہیں ابھی۔ اور لڑکیوں کی خود خواہش ہوتی ہے کہ ہم بہت زیادہ پڑھ لیں۔ لڑکے اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ پھر وہ ایک فرق جو ہے، تعلیم میں، اس کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں بعض لوگ جو اس فرق کو نہیں دیکھتے اور اللہ کے فضل سے اُن کے رشتے ہوئے اور گزارا ہو بھی رہا ہے۔  تو یہ تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر شعبہ تربیت آپ کا فعال ہو جائے۔ اور ہر تنظیم کا فعال ہوجائے۔ اور ہر ایک کو یہ بآور کرا دیا جائے کہ دین کو ہم نے فوقیت دینی ہے۔ تو نہ لڑکے باہر جاکر رشتے کریں گے، نہ لڑکیوں کے مسائل پیدا ہوں گے، نہ لڑکیوں کے لئے بعض بلا وجہ کی خود ساختہ روکیں پیدا ہوں گی۔ تو یہ کام رشتہ ناطہ کے سیکٹریان کا بھی ہے اور تربیت کے سیکرٹریان کا بھی ہے کہ وہ کام کریں۔ اور اپنے ساتھ، ایک joint effort ہو، مشترکہ کوشش ہو جو ذیلی تنظیموں کو ملا کر کی جائے۔ تب ہی یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں نہیں تو ظاہر ہے جب جماعت بڑھے گی تو یہ مسائل بھی زیادہ بڑھیں گے  اور پیدا ہوں گے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ہماری تربیت صحیح ہو۔ اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہوں۔ آنحضرت ﷺ  کے حکم کے مطابق۔ 

چوہدری شہباز احمد صاحب صدر جماعت

آج کل مختلف احباب جو مختلف ملکوں سے اور مختلف شہروں سے یہاں پہ، Aldershot یا مرکز کی طرف move ہو رہے ہیں۔ اور اس میں بعض سے رابطہ کیا جاتا ہے تو اُس میں یہ ایک چیز کی جو کمی آتی ہے کہ عہدیداروں سے بے اعتمادی یا ناراضگی کی وجہ ہوتی ہے جو جماعتی پروگراموں میں کم شامل ہوتے ہیں۔

حضور انور

بات یہ ہے کہ یہ تو میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں۔ خطبات میں بھی ذکر کرچکا ہوں۔ مختلف سالوں میں۔ آج کل تو صحابہ کا ذکر چل رہا تھا اسی لئے اتنا نہیں آیا لیکن اس سے پہلے کے میرے خطبات دیکھ لیں، اٹھاراں (2018ء) سے پہلے کے، تو کافی دفعہ میں اس طرف کہ عہدیداران کو کیسا تعلق رکھنا چاہئے لوگوں کے ساتھ۔ ایک تو یہ عہدیدار کو ہمیشہ احساس ہونا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے جو ارشاد فرمایا کہ ’’سَیَّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ‘‘ (یعنی قوم کا سردار اُن کا خادم ہوتا ہے)۔ اگر عہدیدار، صدران اور عاملہ کے ممبران اپنے آپ کو خادم سمجھیں گے، عہدیدار نہ سمجھیں، خادم سمجھیں، بعض دفعہ لوگ میرے پاس آتے ہیں کہ مجھے فلاں عہدہ ملا ہے۔ تو میں اکثر اُن کو کہا کرتا ہوں کہ یہ نہ کہو کہ فلاں عہدہ ملا ہے، یہ کہو فلاں خدمت ملی ہے۔  خدمت کا موقع اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے۔  اور اس خدمت کے موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اس سے، اپنے   فرائض ادا کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔  یہ نہ دیکھیں کہ ہم نے فلاں افسر کی خوشنودی حاصل کرنی ہے۔ یا ہماری افسری مل گئی تو ہم نے اپنا روب ڈالنا ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں، ’’رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ‘‘ (48:30) ہیں؟ آپس میں رحم کا سلوک ہونا چاہئے۔ عہدیدار کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ نرمی اور پیار سے بات کریں اور لوگوں کا اعتماد قائم کریں۔ دوسری بات یہ کہ عہدیداروں کا یہ بھی کام ہے کہ جو راز ہیں لوگوں کے اُن کو راز رکھیں، نہ یہ کہ ایک بات عاجزی سے سنی اور دوسرے کو جاکر بتا دی یا اپنے عاملہ ممبر کو بتا دی۔ وہ عاملہ ممبر کے پیٹ میں بات نہ رہی اور اُس نے کسی اور کو بتا دی یا گھر میں کہیں ذکر ہوگیا جانے یا انجانے میں وہ پھر باہر نکلی اور لوگوں تک پہنچی۔ اُس سے وہ اعتماد میں کمی آتی ہے۔   تو سب سے پہلا کام تو عہدیداروں کا ہے کہ اپنا اعتماد قائم کریں۔ چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں۔ یہ جماعتیں اس لئے بنائی گئی ہیں ناں، مرکزی طور پہ ایک لندن کی جماعت بنائی جا سکتی تھی۔ یا زیادہ سے زیادہ ریجن میں تقسیم کر کے بنائی جا سکتی تھی۔ حلقے جو بنائے گئے ہیں وہ اس لئے بنائے گئے ہیں کہ دوسو، چار سو، پانچ سو  آدمیوں تک آپ کی access آرام سے ہو سکتی ہے۔  تو اُن سے ذاتی رابطہ رکھیں۔ اب queen نے جو خط لکھا ہے اپنی platinum jubilee پہ، نیچے لکھا ہوا تھا  ’’Your Servant, Elizabeth‘‘۔ آپ لوگوں کو تو اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ تم servant بنو۔ اور سیاسی طور پہ نہیں بنو بلکہ حقیقی طور پہ بنو ، اللہ تعالیٰ کی  رضا حاصل کرنے  کے لئے۔

چوہدری شہباز احمد صاحب صدر جماعت:

جی

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:

 تو اس لئے  پہلی بات تو عہدیداروں کی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور لوگوں کا اعتماد قائم کرنے کے لئے اُن کے راز کو راز رکھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اس طرح کا تعلق پیدا ہوگا تو اُن کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ اگر تمہارے ایک دو reservations ہیں،  تحفظات ہیں تو پھر ایک قضاء کے بعد دوسری قضاء کا ادارہ بھی موجود ہے۔ پھر آخری جو مرافع عالیہ کا ادارہ ہے وہاں جا سکتے ہو۔ اور ہر جگہ تمہارے خلاف فیصلہ ہوتا ہے تو پھر تم سمجھتے بھی ہو ناں  اگر کہ یہ غلط ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کو مان لو۔ اور جماعت کو مقدم رکھو۔ کوئی کسی کا واقف تو نہیں ہوتا قاضی، اور وہاں ربوہ میں جو قاضی بیٹھے ہوئے ہیں  ، وہ یہاں سے سن رہے ہیں ، وہ کسی کے واقف تو نہیں، باہر والوں کے۔ اور یا بہت سارے قاضی جہاں بھی  مقرر ہوتے ہیں جو بورڈ، وہ ایک دوسرے کے  واقف نہیں ہوتے، لوگوں کے،  جو اُن کے  پاس کیس لے کر جاتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ کسی کی side لی گئی، favor کی گئی  وہ بھی غلط ہے۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ جی اس میں favor کی گئی، یہ کیا یہ کیا، حالانکہ اب نظام ایسا بن چکا ہے خلافتِ رابعہ کے زمانہ سے کہ خلیفہ وقت کے پاس اپیل نہیں ہوتی۔ اُس کے باوجود بعض دفعہ لوگوں کی شکایات دور کرنے کے لئے قضاء کے فیصلے  میں منگوا لیا کرتا ہوں خود اپنی صوابدید پہ۔ اور پھر میں دیکھتا ہوں اور اکثر ایسا ہوتا ہے  کہ جو فیصلے ہوئے ہوتے ہیں وہ صحیح ہوتے ہیں۔  اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ دونوں فریق راضی ہوجائیں۔ جس کے خلاف بھی فیصلہ ہوگا اس کو کچھ نہ کچھ ناراضگی ہوگی۔ اُس کے کچھ تحفظات ہوں گے۔ اور سو فیصد فیصلہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ صحیح بھی ہوا ہے۔ اگر ستر اسّی فیصد صحیح فیصلہ ہے تو بہر حال اُس کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے۔ کہ نظام میں اور ہمارے آپس کے تعلقات میں کوئی رخنہ نہ پڑے۔ تو یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب آپ کے ذاتی تعلقات ہوں لوگوں سے۔ جب اُن کو آپ سمجھا سکیں۔ آپ کی بات ماننے کو تیار ہوں ، اُن کو اعتماد ہو کہ صدر جماعت یا سیکرٹری تربیت یا سیکرٹری امور عامہ  یا اور کوئی بھی سیکرٹری جو ہے  وہ جب ہمیں سمجھا رہا ہے  تو ہمارا بھائی اور دوست بن کر ہمیں سمجھا رہا ہے۔ اور ہمیں بات مان لینی چاہئے۔ اگر اس طرح  کی سوچ بنا دیں گے تو لوگ سمجھیں گے بھی ۔ باقی جہاں تک فیصلہ صحیح یا غلط ہونے کا سوال ہے تو آنحضرت ﷺ نے بھی فرما دیا کہ بعض دفعہ ایک چرب زبان جو ہے وہ میرے فیصلہ کرواسکتا ہے اپنے حق میں  لیکن اُس میں میرا قصور نہیں۔ اُس نے گو فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا، لیکن اگر وہ غلط فیصلہ ہے تو اُس نے اپنے پیٹ میں آگ بھری ، تو یہ کہنا کہ قاضی جان بوجھ کر کرتے ہیں غلط، یہ بھی غلط ہے۔  وہ اگر کرتے ہیں تو  بعض دفعہ ، بعض دلائل اور بعض شواہد  جو اُن کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں،   اُن کی روشنی میں وہ کرلیتے ہیں جس طرح انہوں نے اُس کو سمجھا۔  اور پھر اپیل کے حق بھی ہیں، اپیل در اپیل۔  تو اِس لئے ایک تو قضاء کا جہاں تک معاملہ ہے  تو اُن کو یہ بتانا چاہئے۔ جہاں تک رشتوں کا معاملہ ہے تو یہ تو صدر جماعت کا اور وہاں کی مقامی عاملہ کا کام ہے ناں کہ اپنے لوگوں کے لئے ، اُن کے دوست بن کے، اُن کے ساتھی بن کے کھڑے ہوں  اور اُن کے معاملات اور اُن کے کیس جو ہیں وہ احسن رنگ میں پیش کریں اپنی نیشنل انتظامیہ کو بھی اور اگر ضرورت ہو تو مجھے بھی۔ تو جب اس طرح آئیں گے معاملات اور تربیت بھی پوری طرح ہورہی ہوگی اور آپ کے ذاتی تعلقات بھی ہونگے اور اعتماد بھی ہوگا لوگوں کو آپ پہ، تو یہ مسائل بہت حد تک کم ہوجائیں گے۔ سو فیصد ختم نہیں بھی ہوں گے تو  بہت بڑی تعداد جو ہے اُس میں کمی آجائے گی۔ 

طارق محمود صاحب، صدر جماعت

کچھ families ایسی ہیں جو claim کرتی ہیں کہ ہم احمدی ہیں مگر ہم اُن سے پورا تعاون نہیں لے پا رہے۔ وہ نہ میٹنگ میں آتے ہیں، نہ پروگرام میں، نہ مسجد میں نمازوں کے لئے۔ تو please ہمیں کوئی راہنمائی فرمائیں ہم اَور کیا کر سکتے ہیں؟

حضور انور

جلسوں پہ آجاتے ہیں؟ جمعہ پڑھ لیتے ہیں؟ عید پڑھ لیتے ہیں آپ کے ساتھ؟

طارق محمود صاحب ، صدر جماعت

کبھی کبھار!

حضور انور

عید بھی کبھی کبھار پڑھتے ہیں؟

طارق محمود صاحب ، صدر جماعت

ایسے ہی ہے کچھ میں

حضور انور

اچھا! کمال ہے! بڑے بڑے بگڑے ہوئے لوگ جو ہیں وہ بھی کم از کم سال کے بعد ایک نماز عید کی پڑھ لیتے ہیں۔

حضور انور

اُن کو سمجھاتے رہیں کہ اگر تم جماعت کا ممبر اپنے آپ کو سمجھتے ہو تو پھر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے جو فرمایا ہوا ہے اُس کو دیکھو کیا فرمایا ہے۔ اور اُن شرائط کی پابندی کرنے کی کوشش تو کرو۔ اپنا عہد دہراتے ہو تو اُس عہد کو پورا کرنے کی کوشش تو کرو۔ اور آہستہ آہستہ سمجھاتے رہیں۔ اگر خود کوئی انکار کردیتا ہے کہ میں احمدی نہیں ہوں اور مجھے نہ چھیڑو تو اَور بات ہے۔ نہیں تو اُس کو سمجھانا آپ کا کام ہے، پیار سے سمجھاتے رہیں قریب لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ بگڑے ہوئے ہوتے ہیں اُن کو قریب لانا بھی تو  کمال ہے آپ لوگوں کا ہی۔ آپ لوگ، جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں، دوست بن کے لوگوں کے ساتھ رہیں۔ اگر کوئی نہیں آتا تو اُس کو یہ نہ لگ جائیں کہنے کہ چلو نماز پہ آیا کرو۔ یا فلاں دن اجلاس ہے تو اجلاس پہ آؤ۔ یا اپنا چندہ وقف جدید دو، تحریک جدید دو۔ ٹھیک ہے۔ اُس کو کچھ نہ کہیں۔ ایسے لوگوں کو صرف فون کر کے  مہینہ میں ایک دفعہ حال پوچھ لیا کریں کہ کیا حال ہے  آپ کا؟ آہستہ آہستہ وہ لوگ آپ کے قریب آنا شروع ہو جائیں گے ویسے ہی۔ کوئی demand نہیں کرنی کوئی اُن سے کچھ نہیں کہنا، صرف اُن کا حال پوچھنا ہے کہ خیال آیا ، آپ کا حال پوچھ لوں۔ السلام علیکم۔ و علیکم السلام۔ بس ۔ یا اگر کوئی،  کسی کے گھر کے قریب سے گزرے تو دیکھا  اگر وقت ہے مناسب ، اِس وقت وہ مل سکتا ہے بندہ، اور disturb نہیں ہوگا۔ تو اُس کا گھر knock کر کے کہہ دیا : السلام علیکم۔ میں یہاں سے گزر رہا تھا، میں نے کہا آپ کو سلام کرتا جاؤں۔ بس۔  کیا حال ہے آپ کا؟ ٹھیک ہیں؟ بس۔ کیونکہ آپ ہماری جماعت میں ہیں اس لئے مجھے خیال آیا کہ ممبران سے ملنا چاہئے۔ السلام علیکم کہنے آیا تھا میں۔ اس طرح اگر آپ رکھیں گے تعلقات  تو لوگ پھر آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ 

طارق محمود صاحب ، صدر جماعت

جزاک اللہ۔ شکریہ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:

یہ محنت کرنی پڑتی ہے، محنت کرنی پڑتی ہے صدر صاحب۔  یوں ہی نہیں مل جاتے۔۔۔

طارق محمود صاحب ، صدر جماعت

لگا ہوا ہوں دن رات اٹھارہ سال سے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:

اٹھارہ سال سے آپ کو صدر بنایا ہوا ہے؟ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟

طارق محمود صاحب ، صدر جماعت

پہلے زعیم تھے، پھر vice-president تھے ، ابھی صدر ہیں، ادھر ہی ہیں۔ 

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز:

ٹھیک ہے۔ پھر اب آپ خادم بن جائیں۔

طارق محمود صاحب ، صدر جماعت

ان شاء اللہ۔ خادم تو ہیں جی۔ ان شاء اللہ۔

حضور انور

چلو۔

مبشر احمد صاحب صدر جماعت

السلام علیکم و رحمۃ اللہ ، پیارے حضور!

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے  احباب جو ہیں وہ مالی قربانی میں زیادہ سے زیادہ بڑھ چڑھ کے حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن نظام وصیت میں اس تیزی سے شامل نہیں ہو پا رہے۔ تو آپ ہدایت فرمائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ اس میں تیزی سے اضافہ کر سکیں؟

حضور انور

بات یہ ہے  کہ مالی قربانی بھی جتنی آپ کوشش کرتے ہیں۔ تحریک جدید اور وقف جدید کے چندہ کے لئے  اور چندہ عام کی وصولی کے لئے اُتنی کوشش آپ کا شعبہ تربیت جو ہے نمازیں پڑھانے کے لئے نہیں کرتا۔ نہ اُن کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے کرتا ہے۔ مال کے عشرے تو منا لیتے ہیں تربیت کا عشرہ  جو مناتے ہیں وہ بھی، اس طرح کا مناتے ہیں کہ چلو! کوئی شامل ہوگیا کوئی نہ ہوا۔ اور اُس میں وہ زور نہیں ہوتا۔ توجہ نہیں ہوتی۔ تو آپکا سارا زور جو ہوتا ہے، ساری machinery جو ہوتی ہے مال اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ tax تو نہیں ہم نے اکٹھا کرنا ۔ اصل چیز تربیت ہے۔ اگر تربیت ہو جائے گی تو چندہ خود بخود آنا شروع ہوجائے گا۔ اسی لئے شعبہ تربیت  کو فعال کریں اور جب شعبہ تربیت فعال ہوگا تو شعبہ وصیت کی خود بخود مدد ہوجائے گی۔ شعبہ وصیت اپنے طور پر بھی کام کرے کہ وصیت کی طرف جائیں، رسالہ الوصیت پڑھیں۔ رسالہ الوصیت کے اقتباسات  نکال نکال کے، چھوٹے چھوٹے passages جس میں توجہ دلائی گئی ہے وصیت کی اور نظام جماعت کی ، نظام خلافت کی، وہ لوگوں کے گھروں میں بھیجا کریں۔ Message، آپ text message بھیج دیتے ہیں ناں ،  نماز کا وقت بدل گیا تو یہ message ہےفوری طور پر  viral ہوتا ہے آپ کا message اپنی جماعت میں۔  اب سرکلر تو جاتا کوئی نہیں۔ فونوں میں message چلے جاتے ہیں تو فونوں پہ روزانہ ایک اقتباس ڈال دیا کریں تو لوگ پڑھ لیں گے اس بہانے۔ اُن کی تربیت ہوتی جائے گی۔ جب تربیت ہوگی تو خودبخود توجہ پیدا ہوگی نیکیوں کی طرف۔ اور جب رسالہ الوصیت سے اقتباسات پڑھ کے دیکھیں گے کہ نیکی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، خلافت کے ساتھ تعلق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، خلافت کی اہمیت کے بارہ میں توجہ دلائی گئی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے مقام کی طرف اُس میں توجہ دلائی گئی ہے، وصیت کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو پھر  تربیت بھی ہوجائے گی، وصیت کی طرف توجہ بھی ہوجائے گی۔ نمازوں کی طرف توجہ بھی ہوجائے گی۔ اور آپ کا سیکرٹری مال کا کام خود بخود ویسے ہی پورا ہوجائے گا۔  

-اختتام-

(ٹرانسکرائب و کمپوزنگ، مدثر احمد۔ مبلغ سلسلہ مڈغاسکر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

آج کل کہیں نہ کہیں سے یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ بچے ہیں