• 19 اپریل, 2024

آج کل کہیں نہ کہیں سے یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ بچے ہیں

آج کل کہیں نہ کہیں سے یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ بچے ہیں، اولاد ہے لیکن خاوند مختلف بہانے بنا کر شادی کرنا چاہتا ہے۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ فرمایا اگر انصاف نہیں کر سکتے تو شادی نہ کرو اور انصاف میں ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ اگر آمد ہی اتنی نہیں کہ گھر چلا سکو تو پھر ایک اور شادی کا بوجھ اٹھا کر پہلی بیوی بچوں کے حقوق چھیننے والی بات ہو گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کرنی ہی پڑے تو پھر اس صورت میں پہلی بیوی کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 430 ایڈیشن1988ء)

لیکن عملاً جو آج کل ہمیں معاشرے میں نظر آتا ہے پہلی بیوی اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف سے آہستہ آہستہ بالکل آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ مالی کشائش اور دوسرے حقوق کی ادائیگی میں بے انصافی تو نہیں ہو گی؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے‘‘

(الحکم جلد 2 نمبر 2مؤرخہ 6 مارچ 1898ء صفحہ 2)

دوسری شادی کرکے۔

پس بیوی کے حقوق کی ادائیگی اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ انہیں ادا نہ کرکے انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے یا پڑ سکتا ہے اور خداتعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جاتا ہے۔ مَیں نے آنحضرتﷺ کی ایک د عا کا ذکر کیا تھا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا عرض کرتے تھے کہ میں ظاہری طور پر تو ہر ایک کے حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کسی بیوی کی کسی خوبی کی وجہ سے بعض باتوں کا اظہارہو جائے جو میرے اختیار میں نہیں تو ایسی صورت میں مجھے معاف فرما۔ اور یہ ایک ایسی بات ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور خداتعالیٰ جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھرایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت بھی دی، جو بندے کے دل کا حال بھی جانتا ہے جس کی پاتال تک سے وہ واقف ہے، غیب کا علم رکھتا ہے۔ اس نے اس بارہ میں قرآن کریم میں واضح فرما دیا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ بعض حالات کی وجہ سے تم کسی طرف زیادہ جھکاؤ کر جاؤ۔ تو ایسی صورت میں یہ بہرحال ضروری ہے کہ جو اس کے ظاہری حقوق ہیں، وہ مکمل طور پر ادا کرو۔ جیسا کہ سورۃ نساء میں فرماتا ہے کہ:
وَلَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَلَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ ؕ وَاِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا (النساء: 130) اور اب تم یہ توفیق نہیں پا سکو گے کہ عورتوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرو خواہ تم کتنا ہی چاہو۔ اس لئے یہ تو کرو کہ کسی ایک کی طرف کلیۃً نہ جھک جاؤ کہ اس دوسری کو گویا لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔ اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

تو ایسے معاملات جن میں انسان کو اختیار نہ ہو اس میں کامل عدل تو ممکن نہیں لیکن جو انسان کے اختیار میں ہے اس میں انصاف بہرحال ضروری ہے۔ اور ظاہری انصاف جیسا کہ مَیں بتا آیا ہوں کہ کھانا، پینا، کپڑے، رہائش اور وقت وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگر صرف خرچ دیا اور وقت نہ دیا تو یہ بھی درست نہیں اور صرف رہائش کا انتظام کر دیا اور گھریلو اخراجات کے لئے چھوڑ دیا کہ عورت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی پھرے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ پس ظاہری لحاظ سے مکمل ذمہ داری مرد کا فرض ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس کا جھکاؤ صرف ایک طرف ہو اور دوسری کو نظر انداز کرتا ہو تو قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کا ایک حصہ جسم کا کٹا ہوا یا علیحدہ ہو گا۔

(سنن نسائی کتاب عشرۃ النساء باب میل الرجل حدیث نمبر 3942)

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ ظاہری حقوق دونوں کے ادا کرو اور کسی بیوی کو بھی اس طرح نہ چھوڑ وکہ وہ بیوی ہونے کے باوجود ہر حق سے محروم ہو۔ نہ اسے علیحدہ کر رہے ہو اور نہ اس کا حق صحیح طرح ادا کیا جا رہا ہو۔ ایک مومن کا وطیرہ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ پس مومن کا فرض ہے کہ ان کاموں سے بچے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور اپنی اصلاح کرے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 2009 بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

This Week with Huzoor مؤرخہ 18 فروری 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ