• 28 اپریل, 2024

صفتِ ربوبیت کے تحت حضرت مسیح موعودؑ سے اللہ تعالیٰ کا سلوک

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’صفتِ ربوبیت کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے اللہ تعالیٰ کا جو سلوک تھا اب میں اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ابتدا سے ہی دنیاداری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے کوئی دنیاداری کا کام نہیں کرتے تھے بلکہ قرآن میں ہر وقت غور کرنا اور اس میں غرق رہنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف لَو لگائے رکھنا آپ کا کام تھا اس لئے دنیاوی ضروریات کے لئے اپنے والد صاحب پر آپ کابڑا انحصار تھا۔ جب آپ کے والد صاحب کی وفات کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلا ع دی تو جو ایک ظاہری انسانی بشری تقاضا ہوتا ہے اس کے تحت آپ کو فکر ہوئی جس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جلّشانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا جو مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے‘‘ اس الہام کو مَیں نے یہاں نہیں بتایا، بہرحال ایک الہام ہوا تھا کہ وفات کا وقت قریب ہے ’’تو بشریت کی وجہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلا ہمیں پیش آئے گا۔ تب اسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے اور اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں یہ دھنس گیا۔ پس مجھے اس خدائے عزوجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے اس مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کرکے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا۔ میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہر گز ایسا متکفل نہیں ہوگا۔‘‘

(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ195-194 حاشیہ)

ایک الہامی دعا کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

’’پہلے اس سے چند مرتبہ الہامی طورپرخدائے تعالیٰ نے اس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُبَارَکًا حَیْثُمَا کُنْتُ یعنی اے میرے ربّ مجھے ایسا مبارک کر کہ ہر جگہ مَیں بودو باش کروں برکت میرے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا کہ جو آپ ہی فرمائی تھی قبول فرمائی۔‘‘ پہلے دعا سکھائی پھر قبول فرمائی ’’اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اوّل آپ ہی الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا اور پھر یہ کہنا کہ یہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ621۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

اس طرح کے بے شمار الہامات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دعائیں سکھائیں اور پھر انہیں قبول فرمایا۔

تو جہاں یہ قبولیت دعا کے نشانات ہیں ربوبیت کے جلوے کا بھی اظہار ہے۔ ایک دو اور مثالیں مَیں دے دیتا ہوں۔ ایک الہام ہے ’’رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذَا۔ اَخَّرَ ہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُسَمًّی‘‘ کہ اے خدا بزرگ زلزلہ کے ظہور میں کسی قدر تاخیر کر دے۔

تو اگلا حصہ ہے اَخَّرَ ہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُسَمًّی کہ خدا نمونہ قیامت کے زلزلہ کے ظہور میں ایک وقت مقررہ تک تاخیر کر دے گا۔

(تذکرہ صفحہ557-556)

پھر ہے کہ رَبِّ اَخْرِجْنِیْ مِنَ النَّارِ کہ اے میرے رب مجھے آگ سے نکال۔

اور اگلا حصہ پھر الہام ہوتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ النَّارِ کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے آگ سے نکالا۔

(تذکرہ صفحہ612)

یہاں بھی پہلے دعا سکھائی پھر قبولیت کا نشان۔

پھر ایک دعا ہے رَبِّ اَرِنِیْ اَنْوَارَکَ الْکُلِّیَّۃَ اے میرے رب مجھے اپنے وہ انوار دکھا جو مُحیطِ کُل ہوں۔ اِنِّیْ اَنَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ کہ مَیں نے تجھے روشن کیا اور تجھے برگزیدہ کیا۔

(تذکرہ صفحہ 534)

یہاں بھی وہی اظہارہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’کچھ تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ مجھ کو خواب آیا تھا کہ ایک جگہ میں بیٹھا ہوں یک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ غیب سے کسی قدر روپیہ میرے سامنے موجود ہو گیا ہے۔ مَیں حیران ہوا کہ کہاں سے آیا۔ آخر میری رائے ٹھہری کہ خداتعالیٰ کے فرشتے نے ہماری حاجات کے لئے یہاں رکھ دیا ہے۔ پھر ساتھ الہام ہوا کہ اِنِّیْ مُرْسِلٌ اِلَیْکُمْ ھَدِیَّۃً کہ مَیں تمہاری طرف بھیجتا ہوں اور ساتھ ہی میرے دل میں پڑا کہ اس کی یہ تعبیر ہے کہ ہمارے مخلص دوست حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب ایک فرشتہ کے رنگ میں متمثل کئے گئے ہوں گے اور غالباً وہ روپیہ بھیجیں گے اور اس خواب کو عربی زبان میں اپنی کتاب میں لکھ دیا۔‘‘

(ازمکتوب 6؍مارچ 1895ء بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ مکتوبات احمدیہ جلد 5حصہ اول صفحہ 3بحوالہ تذکرہ صفحہ226-225)

چنانچہ تصدیق ہو گئی اور الہام پورا ہو گیا۔

فرماتے ہیں کہ ’’18برس سے ایک یہ پیشگوئی ہے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ والنَّسْب ترجمہ: وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیااور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا……‘‘

فرماتے ہیں: ’’اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیا گیا تھا جو دہلی ہے‘‘۔ حضرت امّاں جان سے جب دوسری شادی ہوئی تھی یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ ’’اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کوسنائی گئی تھی…… اور جیسا کہ لکھا گیا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہو گئی……‘‘

فرماتے ہیں : ’’سو چونکہ خداتعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخمریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے۔ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہو گی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے۔ یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے۔‘‘

تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ273 تا 275)

تو دیکھیں کہاں وہ وقت کہ والد صاحب کی وفات کا سن کر آپؑ کو فکر ہو رہی ہے کہ ضرورت کی چیزیں اب کس طرح میسر ہوں گی اور کہاں اللہ تعالیٰ کی تسلی کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ جب یہ کہہ دیاتو اس تسلی کے بعد اس ربّ العالمین نے تمام جہان کی مدد کے لئے آپؑ کے خاندان کی بنیاد ڈالی ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ اس خاندان کی بنیاد جس نے تمام جہان کی مدد کرنی ہے۔ تو یہ ہے وہ ربّ جس نے ہمیں اپنا چہرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر آپؐ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے دکھایا۔‘‘

(خطبہ جمعہ مؤرخہ8دسمبر 2006ء)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2020